قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت مذکورہ کی تفسیر تو یہ ہے کہ کافروں نے کہا کہ اپنے معبودوں کی حمایت پرجمے رہنا اور نوح کے بہکانے میں نہ آنا ’’لاتذرن‘‘، نہ چھوڑو، ودکو، اور نہ سواع کو اور نہ یغوث کو اور یعوق اور نسر کو ، یہ پانچوں نام ان کے پانچ بتوں کے ہیں۔ ہر مطلب کا ایک الگ الگ بت بنا رکھا تھا بعض روایات میں ہے کہ پہلے زمانہ میں کچھ بزرگ لوگ تھے ان کے انتقال کے بعد شیطان کے اغواء سے ان کی تصویریں بطور یادگار بناکر کھڑی کرلیں پھر ان کی تعظیم ہونے لگی۔شدہ شدہ پرستش کرنے لگے، مذکورہ تفسیر جس کا سوال میں تذکرہ ہے۔ تفسیر بالرائے ہے اور صحیح نہیں ہے اس قسم کی تفسیر لکھنے والا گنہگار ہے اور اس کی لکھی ہوئی تفسیر کے پڑھنے اور دیکھنے سے بھی احتراز ضروری ہے۔(۱)

(۱) وقال نوح: {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ أٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لاَ سُوَاعًا۵لا وَّ لاَ یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا ہج ۲۳} (سورۃ نوح: ۲۳)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ صارت الأوثان التي کانت في قوم نوح في العرب بعد أما ودُّ کانت لکلب بدومۃ الجندل وأما سواعٌ کانت لہذیل وأما یغوث فکانت لمراد ثم لبني غطیف بالجوف (بالجرف) عند سبإٍ وأما یعوق فکانت لہمدان وأما نسرٌ فکانت لحمیر لآل ذي الکلاع أسماء رجال صالحین من قوم نوح فلما ہلکوا أوحی الشیطان إلی قومہم أن انصبوا إلی مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصابا وسموہا بأسمائہم ففعلوا فلم تعبد حتی إذا ہلک أولئک وتنسخ العلم عبدت۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر: سورۃ إنا أرسلناک، باب وداً ولا سواعاً ولا یغوث‘‘: ج ۲، ص: ۷۳۲، رقم: ۴۹۲۰)
وَقالُوا لا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ أي عبادتہا۔ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُواعاً وَلا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْراً وَلا تَذَرُنَّ ہؤلاء خصوصاً، قیل ہي أسماء رجال صالحین کانوا بین آدم ونوح، فلما ماتوا صوروا تبرکاً بہم، فلما طال الزمان عبدوا۔ وقد انتقلت إلی العرب فکان ود لکلب، وسواع لہمدان، ویغوث لمذحج، ویعوق لمراد، ونسر لحمیر۔ (ناصر الدین، أنوار التنزیل: ج ۵، ص: ۲۵۰)
عن ابن جریج، وقال عطائٌ عن ابن عباس: صارت الأوثان التي کانت في قوم نوح في العرب بعد: أما ود فکانت لکلب بدومۃ الجندل، وأما سواع فکانت لہذیل، وأما یغوث فکانت لمراد ثم لبني غطیف بالجرف عند سبأ، وأما یعوق فکانت لہمدان، وأما نسر فکانت لحمیر لاَل ذی کلاع، وہي أسماء رجال صالحین من قوم نوح علیہ السلام۔ فلما ہلکوا أوحي الشیطان إلی قومہم أن انصبوا إلی مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصابا وسموہا بأسمائہم ففعلوا فلم تعبد حتی إذا ہلک أولئک وتنسخ (ونسخ) العلم عبدت۔ (أبو الفداء إسماعیل ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ التوبۃ: ۲۳‘‘: ج ۸، ص: ۲۳۴)
من تکلم (في القرآن) أي: في معناہ أو قرائتہ (برأیہ) أي: من تلقاء نفسہ من غیر تتبع أقوال الأئمۃ من أہل اللغۃ والعربیۃ المطابقۃ للقواعد الشرعیۃ، بل بحسب ما یقتضیہ عقلہ، وہو مما یتوقف علی النقل بأنہ لا مجال للعقل فیہ کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ وما یتعلق بالقصص والأحکام، أو بحسب ما یقتضیہ ظاہر النقل، وہو مما یتوقف علی العقل کالمتشابہات التی أخذ المجسمۃ بظواہرہا، وأعرضوا عن استحالۃ ذلک في العقول، أو بحسب ما یقتضیہ بعض العلوم الإلہیۃ مع عدم معرفتہ ببقیتہا وبالعلوم الشرعیۃ فیما یحتاج لذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵، رقم: ۲۳۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص30

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ ارشاد گرامی تو صغیرہ گناہوں کے بارے میں اطمینان ویقین دلاتا ہے، کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے ہیں، ان احادیث کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے بھروسے پر گناہ کرنے لگے؛ بلکہ اپنے گناہوں پر نادم ہوں اور پاک باز بننے کی سعی کریں، تویہ چیز اس میں مددگار ثابت ہوگی۔(۳)

(۳) إن المراد بہذا وأمثالہ غفران الصغائر۔ (عمدۃ القاري، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستنثار في الوضوء‘‘: ج ۳، ص: ۱۳، رقم: ۱۶۰؛ علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي علی الترمذي: ج ۱، ص: ۴)
یکفر کل شيء إلا الدین ظاہر أنہ یکفر الکبائر حقوق اللّٰہ أیضاً: والمشہور إنہا لا تکفر إلا بالتوبۃ۔ (شبیر أحمد العثماني، فتح الملہم: ج ۳، ص: ۴۱۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص78

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دنیاوی علم سے مراد وہ علم ہے، جس کا تعلق اس دنیا کے مسائل وضروریات سے ہے اور دینی علم سے مراد وہ علم ہے، جس کا تعلق آخرت کے مسائل وضروریات سے ہے۔ اپنی دنیاوی زندگی کے مسائل کو سمجھنے، انھیں حل کرنے اور دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے لیے دنیاوی علم بھی ضروری ہے، علم کو دو حصوں میں اس طرح تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔(۱)

(۱) عن یحیٰ بن حسان سمعت الشافعي یقول: العلم علمان: علم الدین وہو الفقہ، وعلم الدنیا وہو الطب وما سواہ من الشعر وغیرہ فعناء وعبثٌ۔ (شمس الدین، سیر أعلام النبلاء: ج ۸، ص: ۲۵۲)
وعن الحسن قال: (العلم علمان فعلم في القلب فذاک العلم النافع وعلم علی اللسان فذاک حجۃ اللّٰہ عز وجل علی ابن آدم)۔ رواہ الدارمي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۴، رقم: ۲۷۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص164

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر جگہ موجود ہونا اور سننا یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ ہی کی خصوصیت ہے۔ ان میں کوئی اللہ کا شریک نہیں ہے، البتہ ملائکہ سیاحین ہیں۔ جو درود شریف کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے ہیں، مسجد میں بآواز بلند اجتماعی طور سے یہ عمل کتاب وسنت اجماع وقیاس سے ثابت نہیں ہے۔ اس سے مسجد میں نمازیوں کی نماز میں، کتاب اللہ پڑھنے والوں کی تلاوت میں بھی خلل ہوتا ہے۔ ویسے بے شمار بے حساب درود شریف ہیں، ’’صلی اللّٰہ علیک یارسول اللّٰہ وسلم علیک یا حبیب اللّٰہ‘‘ روضۂ اقدس کے سامنے پڑھنا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں اور دنیا کی زندگی سے افضل واکمل زندگی ہے۔ یہ درود ماثور ہے، لیکن مستند صحیح حدیث سے نہیں ہے، افضل درود نماز والا ہے۔(۱)
(۱) رجل تزوج امرأۃ ولم یحضر الشہود، قال: ’’خدایرا ورسول را گواہ کردم‘‘ أو قال: ’’خدائے را وفرشتگان گواہ کردم‘‘ کفر ولو قال فشتہ ’’دست راست را گواہ کردم وفرشتہ دست جب را گواہ کردم‘‘ لا یکفر کذا في فصول العمادیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، منہا: ما یتعلق بالإیمان والإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶)
وعن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی علي عند قبري سمعتہ ومن صلی علي نائیاً أبلغتہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۰، رقم: ۹۳۴)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص370

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو نماز کے لیے شرط ہے، وقتِ نماز کے لیے نہیں، ہاں معذورین کا مسئلہ الگ ہے؛ لہٰذا وقت سے پہلے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ ہر وقت باوضو رہنا مستحسن ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اکثر باوضو رہا کرتے تھے اور پہلے وضو سے دوسرے وقت کی نماز بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ حدیث میں ہے:
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینتظرون العشاء حتی تخفق رؤسہم ثم یصلون ولا یتوضؤن رواہ أبوداود والترمذي‘‘(۱)
’’عن سلیمان بن بریدۃ عن أبیہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی الصلوات یوم الفتح بوضوء واحد ومسح علی خفیہ، فقال لہ عمر لقد صنعت الیوم شیئاً لم تکن تصنعہ قال عَمَداً صنعتہ یا عمر‘‘
’’الشرح في ہذا الحدیث أنواع من العلم، منہا جواز المسح علی الخف وجواز الصلوات المفروضات والنوافل بوضوء واحد ما لم یحدث وہذا جائز باجماع من یعتد بہ‘‘(۲)

(۱) مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما یوجب الوضوء‘‘: ج ۱،ص: ۴۱، رقم: ۳۱۷۔(مکتبۃ اشرفیہ، دیوبند)
(۲) النووي، حاشیۃ النووي علی مسلم، ’’کتاب الطہارۃ: باب جواز الصلوات کلہا بوضوء واحد‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۵۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص186

مساجد و مدارس

Ref. No. 2714/45-4462

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجدکے لئے جب گاؤں کے افراد نے طے کیا ہے کہ ہم ہی اپنے پیسے سے مسجد بنائیں گے اور دوسرے گاؤں والوں سے پیسے نہیں لیں گے اور سب لوگ اپنی خوشی سے مسجد میں پیسے لگا رہے ہیں تواس میں دوسرے گاؤں کے لوگوں کو زبردستی نہ کرنی  چاہئے، اور فتنہ وفساد سے گریز کرنا چاہئے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ’’الخلاف شر‘‘ اختلاف بری شیئ ہے، اس لئے دوسرے گاؤں والوں کو پیار محبت سے سمجھا دیا جائے اورمنع کر دیا جائے۔

تاہم اس کا خیال رہے کہ اگر گاؤں والوں سے زبردستی چندہ لیا گیا یا متعین رقم ان پر لازم کردی گئی یا مسجد کی تعمیر میں ان کے وقت پر پیسہ نہ دینے کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہو تو اس طرح کی شرط لگانا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنبی (ناپاک) اور حائضہ ونفساء عورت کے لیے مسجد کے اندر جانا جائز نہیں ہے(۲) کیونکہ مسجد کعبۃ اللہ کا ایک نمونہ ہے، اور ذکر الٰہی کی جگہ ہے، قرآن میں وارد ہے ’’وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَإنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ‘‘ (۳)

(۲) یحرم بالحدث الأکبر دخول مسجد۔ (ابن عابدین، الدر المحتار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: یوم عرفۃ أفضل من یوم الجمعۃ، ج۱،ص:۳۱۱) ؛ ولا تدخل المسجد و کذا الجنب لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: فإنی لا أحل المسجد لحائض ولا جنب۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، باب الحیض والاستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۱۶۸)            (۳) سورۃ الحج:۳۲
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص381

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ امامت کا منصب بہت ہی مقدس ہے جو تقوی وطہارت، پرہیز گاری اور اعلیٰ اخلاقی رویئے کا تقاضا کرتا ہے اس لیے مذکورہ باتیں جو سوال میں ذکر کی گئی ہیں اگر صحیح ہیں تو امام صاحب کو اپنے کردار پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ وہ عامۃ الناس کے لیے نمونہ اور قائد کی حیثیت رکھتے ہیں؛ البتہ امام صاحب مذکورہ فعل کی وجہ سے اگرچہ گناہگار ہیں؛ لیکن ان کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازیں درست ہیں انہیں اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے گالی دینے سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے:
’’سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔(۱)
ابوداؤد شریف میں لکھا ہے:
فرض نماز کی ادائیگی لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے خواہ وہ نیک ہو یا بد، اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو۔
’’الصلاۃ المکتوبۃ واجبۃ خلف کل مسلم برا کان أو فاجرا وإن عمل الکبائر‘‘(۲)
البتہ اگر امام صاحب گالیاں دینے اور حرام مال کا استعمال کرنے سے نہ رکیں تووہ فاسق ہے ایسے شخص کو آئندہ امام مقرر نہیں کرنا چاہیے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو فقہاء نے مکروہِ تحریمی لکھا ہے۔ ’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق‘‘(۳)
ایسے کی اقتداء سے بہتر تنہا نماز پڑھنے کے سلسلے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ: اگر نمازی عام آدمی ہے، یعنی جس کے اختیار میں ایسے امام کو رکھنا یا ہٹانا نہ ہو اورقریب کی کسی مسجد میں کوئی متقی و صالح امام بھی میسر نہ ہو تو مذکورہ امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہوگا، البتہ اگر قریب میں اہلِ حق کی کسی مسجد کے امام متقی صالح ہوں تو وہاں جاکر نماز ادا کرے، اور اگر نمازی انتظامیہ میں سے یا با اثر شخصیت ہے تو اسے چاہیے کہ اولًا امام کی فہمائش یعنی آگاہ اور متنبہ کرے، اگر امام اصلاحِ اَحوال کرلیتا ہے تو اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنا بلاکراہت درست ہوگا اور اگر اس کے بعد بھی باز نہ آئے تو انتظامیہ امام تبدیل کرے، امام تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’(والأحق بالإمامۃ) تقدیمًا بل نصبًا۔ مجمع الأنہر۔ (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃً وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ‘‘(۱)
’’(قولہ: بشرط اجتنابہ إلخ) کذا في الدرایۃ عن المجتبی۔ وعبارۃ الکافي وغیرہ: الأعلم بالسنۃ أولی، إلا أن یطعن علیہ في دینہ؛ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ‘‘(۲)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ وہو لا یشعر‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۴۸۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إمامۃ البر والفاجر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۲، رقم: ۵۹۴۔
(۳) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
(۱) أیضًا:  ص: ۲۹۴۔
(۲) أیضًا:۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص159

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسلام میں نماز باجماعت کی اہمیت ہے اور نماز باجماعت میںبھی مسجد کی جماعت کی تاکید ہے، اس لیے حتی الامکان تو اسی کی کوشش کی جائے کہ مسجد میں ایک ہی جماعت قائم ہو اور تمام حضرات اسی ایک جماعت میں شریک ہوں، لیکن اگر اس پر عمل ممکن نہ ہو حکومتی پابندی کا سامنا ہو توپھر ایسی صورت میں بہتر ہے کہ مسجد میں کئی جماعتیں کرلی جائیں اور یہ حکم عارضی طورپر ہوگا، عذر کے ختم ہونے کے بعد مسجد میں تکرار جماعت کا سلسلہ بند کردیا جائے یہ زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ جماعت سے نماز پڑھنا واجب اور مسجد میں جماعت کرنا یہ بھی واجب ہے، اگر گھر میںجماعت کی جائے تو اگر چہ جماعت کا اہتمام ہوجائے گا؛ لیکن دوسرا واجب چھوٹ جائے گا۔(۱)
یہاں ایک خدشہ یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اگر مسجد میں جماعت کا تکرار ہوگا تو لوگوں کے دلوں سے جماعت ثانیہ کی کراہت ختم ہوجائے گی؛ اس لیے بہتر ہے کہ گھروں میں ہی جماعت سے نماز پڑھ لیں مسجد میں تکرار نہ کیا جائے؛ لیکن اس میں ایک دوسری خرابی ہے لوگوں کے دلوں میں یہ بیٹھنا چاہیے کہ نماز مسجد میں جماعت سے پڑھنا ضروری ہے؛ لیکن اگر چند دن گھر میں جماعت بنا کر نماز پڑھیں گے تو دلوں سے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی جو اہمیت ہے وہ بھی کم ہو سکتی ہے۔ پھر عارضی احوال میں اگر علاقے میں کئی مساجد ہوں جہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی ہے، وہاں پر مجبوری میں جمعہ قائم کرنے کی اجازت دی گئی ہے اس سے یہ خدشہ ہے کہ بعد میں ان مساجد میں جمعہ باقی رہ جائے گا اور لوگ بند کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے جیسا کہ احوال واقعی ہے بہت سی جگہوں سے فتویٰ بھی طلب کیا گیا کہ لاک ڈاؤن کی مجبوری کی وجہ سے دوسری تمام مساجد میں جمعہ قائم کیا گیا تھا اب جب کہ حالات معمول پر آرہے ہیں تو کیا وہاں جمعہ بند کرنا چاہیے جب کہ بعض حضرات بند کرنے پر راضی نہیں ہیں ظاہر ہے کہ ان مساجد میں بند کرنے کا ہی حکم دیاجائے گا؛ اس لیے عارضی احوال میں اگر مسجد میں تکرار جماعت ہو یا گھر میں جماعت کا اہتمام ہو، دونوں کی گنجائش ہے۔ محض خدشہ کی بناپر عذر کی وجہ سے تکرار جماعت کو مکروہ نہیں کہا جائے گا۔
(۱) قلت دلالتہ علی الجزء الأول ظاہرۃ حیث بولغ فی تہدید من تخلّف عنہا وحکم علیہ بالنفاق، ومثل ہذا التہدید لایکون إلا في ترک الواجب، ولایخفی أن وجوب الجماعۃ لو کان مجردًا عن حضور المسجد لما ہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بإحراق البیوت علی المتخلفین لاحتمال أنہم صلوہا بالجماعۃ فی بیوتہم؛ فثبت أن إتیان المسجد أیضًا واجب کوجوب الجماعۃ، فمن صلاہا بجماعۃ في بیتہ أتی بواجب وترک واجبًا آخر … و أما مایدل علی وجوبہا في المسجد فإنہم اتفقوا علی أن إجابۃ الأذان واجبۃ لما في عدم إجابتہا من الوعید۔ (إعلاء السنن، باب وجوب إتیان الجماعۃ في المسجد عند عدم العلۃ‘‘: ج۴، ص: ۱۸۶، إدارۃ القرآن کراچی)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص364,366

 

نماز / جمعہ و عیدین

ـالجواب وباللہ التوفیق: کسی بھی نماز کے لیے اذان دی جائے تو وقت کے داخل ہونے کے بعد دی جائے، اگر وقت داخل ہونے سے پہلے اذان دی گئی تو دوبارہ اذان دی جائے۔ جنتریاں مختلف ہیں بعض میں مقررہ ٹائم ہوتا ہے، بعض میں احتیاط کے پیش نظر دو تین منٹ کی تاخیر سے لکھا ہوا ہوتا ہے اور اذان ونماز کا مدار وقت پر ہے، عام لوگوں کو چاہئے کہ جنتری کے حساب سے وقت داخل ہونے پر ہی اذان پڑھیں۔(۱)

(۱) فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ خلافاً للثاني في الفجر، قولہ: وقع بعضہ، وکذا کلہ بالأولیٰ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب بہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰، زکریا دیوبند)… قولہ ولا یؤذن قبل وقت ویعاد فیہ، أي في الوقت إذا أذن قبلہ لأنہ یراد للإعلام بالوقت فلا یجوز قبلہ بلا خلاف في غیر الفجر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۶، ۴۵۷، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص151