Frequently Asked Questions
Hadith & Sunnah
Ref. No. 1206/42-555
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
The answer to your question is follows:
The Hadith e Kisaa is reported in authentic books. The Hadith is:
عَائِشَةُ قَالَتْ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ ، ثُمَّ قَالَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا{رواہ مسلم مشکوۃ شریف 2/528 باب مناقب اھل بیت النبی ﷺ وکذا فی الترمذی حدیث عمرو بن ابی سلمۃ 2/219 مناقب اھل البیت ، نعیمیہ دیوبند۔
As far as the statement of Hazrat Ali is concerned, though this sentence is not found in any book of Hadith, yet, it is mentioned in some historical books, but the Shiites do not have right to apply it to themselves. The time Hazrat Ali (ra) spoke that sentence, there were no Shiites. Then his sentence means that by Allah we have succeeded and our Jamaat has succeeded. Shia means Jamaat. So the existing Shia sect is not meant in the sentence.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نکاح و شادی
Ref. No. 1475/42-914
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جن لوگوں کا سارا کاروبار اورآمدنی حرام کی ہو ان سے لیا ہوا ہدیہ وغیرہ سامان واپس کردینا چاہئے۔اور اگر وہ سامان اب موجود نہیں ہے بلکہ ختم ہوگیا اور استعمال کرلیا اگر وہ شخص صاحب وسعت ہے تو مال کا عوض لوٹانا بہتر ہے، تاہم آئندہ ان سے کوئی چیز بالکل نہ لے۔ اور جو کچھ نادانی میں ہوگیا اس پر استغفار کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1654/43-1234
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مفتی صاحب کا بتایاہوا مسئلہ شرعا درست ہے، ایک طلاق فورا فوری دیدی جائے ۔ مذکورہ حیلہ اختیار کرنےسے تین طلاقوں سے بچ جائے گی اور ولادت کے وقت جبکہ وہ طلاق کا محل نہیں رہے گی اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ہاں اس کے بعد شوہر کو خیال ررہنا چاہئے کہ صرف دو طلاقیں اب باقی رہ جائیں گی، اس لئے پھر کبھی طلاق نہ دے۔
وعرف في الطلاق أنه لو قال إن دخلت فأنت طالق إن دخلت فأنت طالق إن دخلت فأنت طالق فدخلت وقع عليها ثلاث تطليقات". (فتح القدیر 10/437 ط سعید) "فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدةً ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها". (شامی، 3/357)
وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق، وهذا بالاتفاق". (الھندیۃ 1/420)
لان الطلاق المقارن لانقضاء العدۃ لایقع (شامی، کتاب الطلاق، باب التعلیق، 4/618 زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1746/43-1452
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حفنی میں، لواطت گوکہ یہ حرام اور غلیظ ترین عمل ہے اور سچے دل سے توبہ واستغفار لازم ہے لیکن اس سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ہے، ۔ حرمت مصاہرت کی علت جزئیت و بعضیت کا شائبہ ہونا ہے، جو کہ مذکورہ عمل میں ممکن نہیں ہے۔ اس لئے مذکورہ نکاح درست ہے۔
[تتمة] للواطة أحكام أخر: لا يجب بها المهر ولا العدة يحصل بها التحليل للزوج الأول، ولا تثبت بها الرجعة ولا حرمة المصاهرة عند الأكثر، ولا الكفارة في رمضان في رواية. (شامی، فرع الاستمناء 4/28) (البحر الرائق، وطئ امراۃ اجنبیۃ فی دبرھا 5/18)5
و كذا لو وطئ في دبرها لاتثبت الحرمة، كذا في التبيين. و هو الأصح، هكذا في المحيط. و عليه الفتوى، هكذا في جواهر الأخلاطي." (الفتاوى الهندية (1/ 275، کتاب النکاح، الباب الثالث فی بیان المحرمات، القسم الثالث فی المحرمات بالصہریۃ،ط: دارالفکربیروت)
عقوق الوالدين المسلمين، و استحلال الحرام) . و ذكر شيخنا عن أبي طالب المكي أنه قال: الكبائر سبع عشرة، قال: جمعتها من جملة الأخبار وجملة ما اجتمع من قول ابن مسعود وابن عباس وابن عمر، رضي الله تعالى عنهم، وغيرهم: الشرك بالله، والإصرار على معصيته، والقنوط من رحمته، والأمن من مكره، وشهادة الزور، وقذف المحصن، واليمين الغموس، والسحر، وشرب الخمر، والمسكر، وأكل مال اليتيم ظلمًا وأكل الربا، والزنا، واللواطة، والقتل، والسرقة، والفرار من الزحف، وعقوق الوالدين. انتهى. " (عمدة القاري شرح صحيح البخاري (13 / 216)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 1837/43-1659
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چندہ کرنے والے کی حیثیت وکیل بالقبض اور امین کی ہوتی ہے، وکیل بالتصرف کی نہیں۔ اس لئے چندہ کرنے والے اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ پوری رقم مدرسہ میں جمع کردیں، اس کے بعد اپنی تنخواہ مدرسہ سے وصول کریں۔ جب بغیر جمع کئے اپنی تنخواہ ہی لینا درست نہیں ہے تو اڈوانس لینا کیسے جائز ہوگا۔
قال: "والوكيل بقبض العين لا يكون وكيلا بالخصومة" بالاتفاق لأنه أمين محض، والقبض ليس بمبادلة فأشبه الرسول " (ہدایہ، ج 3 ص194، کتاب الوکالۃ ، دارالکتاب دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1945/44-1875
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پختہ زمین جیسے کہ ٹائل والے یا سیمنٹ والے فرش یا چھت پر نجاست اگر خشک ہوجائے اور اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے تو وہ فرش پاک ہے۔ اور اس پر نماز پڑھنا درست ہے۔
البحر الرائق: (237/1، ط: دار الكتاب الاسلامي)
وإن كان اللبن مفروشا فجف قبل أن يقلع طهر بمنزلة الحيطان، وفي النهاية إن كانت الآجرة مفروشة في الأرض فحكمها حكم الأرض، وإن كانت موضوعة تنقل وتحول، فإن كانت النجاسة على الجانب الذي يلي الأرض جازت الصلاة عليها، وإن كانت النجاسة على الجانب الذي قام عليه المصلي لا تجوز صلاته.
الهندیة: (43/1، ط: دار الفکر)
" الأرض إذا تنجست ببول واحتاج الناس إلی غسلها، فإن کانت رخوةً یصب الماء علیها ثلاثاً فتطهر، وإن کانت صلبةً قالوا: یصب الماء علیها وتدلك ثم تنشف بصوف أوخرقة، یفعل کذلك ثلاث مرات فتطهر، وإن صب علیها ماء کثیر حتی تفرقت النجاسة ولم یبق ریحها ولا لونها وترکت حتی جفت تطهر، کذا في فتاویٰ قاضی خان".
و فیھا أیضاً: (44/1، ط: دار الفکر)
’’( ومنها ) الجفاف وزوال الأثر الأرض تطهر باليبس وذهاب الأثر للصلاة لا للتيمم. هكذا في الكافي. ولا فرق بين الجفاف بالشمس والنار والريح والظل‘‘.
المحیط البرھانی: (200/1، ط: دار الکتب العلمیة)
البول إذا أصاب الأرض واحتیج إلی الغسل یصب الماء علیه ثم یدلك وینشف ذلك بصوف أو خرقة فإذا فعل ذلك ثلاثاً طهر، وإن لم یفعل ذلك ولكن صب علیه ماء کثیر حتی عرف أنه زالت النجاسة ولایوجد في ذلك لون ولا ریح، ثم ترک حتی نشفته الأرض کان طاهراً".
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد اسعد جلال
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2182/44-2288
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ Hala Maryam لکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالی بچی کو سلامت رکھے، واالدین کی آنکھوں کے لئے ٹھنڈک بنائے ۔ آمین
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نیاز کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ کسی بزرگ یا میت کے نام پر کھانا وغیرہ پکا کر کھلایا جائے اس سے اس کا تقرب مقصود ہو تو یہ ناجائز اور حرام ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کھانا وغیرہ صرف اللہ کے نام پر پکایا جائے اور غرباء کو کھلایا جائے اور اس کا ثواب کسی میت یا مردہ کو بخش دیں یہ جائز ہے۔ پہلی صورت میں وہ کھانا حرام اور دوسری صورت میں جائز ہے۔ اگر کھانا نذر کا ہو تو صرف غرباء کے لئے جائز ہوگا۔ (۱) چھٹی کی دعوت کو لازم سمجھنا اور اس میں طرح طرح کی رسمیں بالکل درست نہیں، البتہ بچہ کی خوشی پر کسی بھی روز دعوت مسنون ہے؛ اس لئے عقیقہ کرنا جائز ہے۔ شادی کے پہلے دن حسب موقع وحسبِ ضرورت دعوت کرنا درست ہے جب کہ کوئی غیرشرعی امر نہ ہوتا ہو، البتہ شادی کے بعد کی دعوت ولیمہ مسنون ہے۔ سالگرہ پر کیک وغیرہ کاٹنا غیرقوموں کے طریقہ کو اختیار کرنا ہے جو جائز نہیں؛ البتہ اگر پیدائش کے دن یا کسی بھی دن اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اس کا شکر ادا کیا جائے اور احباب وغرباء کی دعوت بھی ہو، تو کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اس کو مروجہ سالگرہ کا رنگ نہ دیا جائے۔ (۱)
(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام ما لم یقصدوا صرفہا لفقراء الأنام۔ (ابن عابدین، الد المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص343
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت مذکورہ کی تفسیر تو یہ ہے کہ کافروں نے کہا کہ اپنے معبودوں کی حمایت پرجمے رہنا اور نوح کے بہکانے میں نہ آنا ’’لاتذرن‘‘، نہ چھوڑو، ودکو، اور نہ سواع کو اور نہ یغوث کو اور یعوق اور نسر کو ، یہ پانچوں نام ان کے پانچ بتوں کے ہیں۔ ہر مطلب کا ایک الگ الگ بت بنا رکھا تھا بعض روایات میں ہے کہ پہلے زمانہ میں کچھ بزرگ لوگ تھے ان کے انتقال کے بعد شیطان کے اغواء سے ان کی تصویریں بطور یادگار بناکر کھڑی کرلیں پھر ان کی تعظیم ہونے لگی۔شدہ شدہ پرستش کرنے لگے، مذکورہ تفسیر جس کا سوال میں تذکرہ ہے۔ تفسیر بالرائے ہے اور صحیح نہیں ہے اس قسم کی تفسیر لکھنے والا گنہگار ہے اور اس کی لکھی ہوئی تفسیر کے پڑھنے اور دیکھنے سے بھی احتراز ضروری ہے۔(۱)
(۱) وقال نوح: {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ أٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لاَ سُوَاعًا۵لا وَّ لاَ یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا ہج ۲۳} (سورۃ نوح: ۲۳)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ صارت الأوثان التي کانت في قوم نوح في العرب بعد أما ودُّ کانت لکلب بدومۃ الجندل وأما سواعٌ کانت لہذیل وأما یغوث فکانت لمراد ثم لبني غطیف بالجوف (بالجرف) عند سبإٍ وأما یعوق فکانت لہمدان وأما نسرٌ فکانت لحمیر لآل ذي الکلاع أسماء رجال صالحین من قوم نوح فلما ہلکوا أوحی الشیطان إلی قومہم أن انصبوا إلی مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصابا وسموہا بأسمائہم ففعلوا فلم تعبد حتی إذا ہلک أولئک وتنسخ العلم عبدت۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر: سورۃ إنا أرسلناک، باب وداً ولا سواعاً ولا یغوث‘‘: ج ۲، ص: ۷۳۲، رقم: ۴۹۲۰)
وَقالُوا لا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ أي عبادتہا۔ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُواعاً وَلا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْراً وَلا تَذَرُنَّ ہؤلاء خصوصاً، قیل ہي أسماء رجال صالحین کانوا بین آدم ونوح، فلما ماتوا صوروا تبرکاً بہم، فلما طال الزمان عبدوا۔ وقد انتقلت إلی العرب فکان ود لکلب، وسواع لہمدان، ویغوث لمذحج، ویعوق لمراد، ونسر لحمیر۔ (ناصر الدین، أنوار التنزیل: ج ۵، ص: ۲۵۰)
عن ابن جریج، وقال عطائٌ عن ابن عباس: صارت الأوثان التي کانت في قوم نوح في العرب بعد: أما ود فکانت لکلب بدومۃ الجندل، وأما سواع فکانت لہذیل، وأما یغوث فکانت لمراد ثم لبني غطیف بالجرف عند سبأ، وأما یعوق فکانت لہمدان، وأما نسر فکانت لحمیر لاَل ذی کلاع، وہي أسماء رجال صالحین من قوم نوح علیہ السلام۔ فلما ہلکوا أوحي الشیطان إلی قومہم أن انصبوا إلی مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصابا وسموہا بأسمائہم ففعلوا فلم تعبد حتی إذا ہلک أولئک وتنسخ (ونسخ) العلم عبدت۔ (أبو الفداء إسماعیل ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ التوبۃ: ۲۳‘‘: ج ۸، ص: ۲۳۴)
من تکلم (في القرآن) أي: في معناہ أو قرائتہ (برأیہ) أي: من تلقاء نفسہ من غیر تتبع أقوال الأئمۃ من أہل اللغۃ والعربیۃ المطابقۃ للقواعد الشرعیۃ، بل بحسب ما یقتضیہ عقلہ، وہو مما یتوقف علی النقل بأنہ لا مجال للعقل فیہ کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ وما یتعلق بالقصص والأحکام، أو بحسب ما یقتضیہ ظاہر النقل، وہو مما یتوقف علی العقل کالمتشابہات التی أخذ المجسمۃ بظواہرہا، وأعرضوا عن استحالۃ ذلک في العقول، أو بحسب ما یقتضیہ بعض العلوم الإلہیۃ مع عدم معرفتہ ببقیتہا وبالعلوم الشرعیۃ فیما یحتاج لذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵، رقم: ۲۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص30
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ ارشاد گرامی تو صغیرہ گناہوں کے بارے میں اطمینان ویقین دلاتا ہے، کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے ہیں، ان احادیث کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے بھروسے پر گناہ کرنے لگے؛ بلکہ اپنے گناہوں پر نادم ہوں اور پاک باز بننے کی سعی کریں، تویہ چیز اس میں مددگار ثابت ہوگی۔(۳)
(۳) إن المراد بہذا وأمثالہ غفران الصغائر۔ (عمدۃ القاري، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستنثار في الوضوء‘‘: ج ۳، ص: ۱۳، رقم: ۱۶۰؛ علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي علی الترمذي: ج ۱، ص: ۴)
یکفر کل شيء إلا الدین ظاہر أنہ یکفر الکبائر حقوق اللّٰہ أیضاً: والمشہور إنہا لا تکفر إلا بالتوبۃ۔ (شبیر أحمد العثماني، فتح الملہم: ج ۳، ص: ۴۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص78