Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 1007/41-166
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا سوچنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اللہ کی مرضی اور اجازت سے یہ تمام فائدے حاصل ہوں گے اور تمام مراحل آسان ہوں گے ان شا٫ اللہ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1476/42-922
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں نشہ کی حالت میں دی گئی دو طلاقیں واقع ہوگئیں۔ عدت گزرنے سےقبل رجعت کی گنجائش ہے، اور اگر عدت گزرچکی ہے تو دوبارہ نکاح کرکے دونوں میاں بیوی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ لیکن خیال رہے کہ شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کااختیار رہے گا، اور اگر اس نے وہ ایک طلاق آئندہ کبھی دیدی تو عورت پر تین طلاقیں مکمل ہوجائیں گی اور دونوں کا نکاح فورا ختم ہوجائے گا، اور دوبارہ نکاح نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے آئندہ شوہر طلاق دینے میں غایت درجہ احتیاط برتے۔
وفي الذخيرة ": طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر والنبيذ، ولو أكره على الشرب فسكر أو شرب للضرورة فذهب عقله يقع طلاقه. وفي جوامع الفقه عن أبي حنيفة: يقع، وبه أخذ شداد ولو ذهب عقله بدواء أو أكل البنج لايقع. (البنایۃ، طلاق السکران 5/300) ولا يقع طلاق السكران منه بمنزلة النائم ومن ذهب عقله بالبنج ولبن الرماك۔ وعن محمد أنه حرام ويحد شاربه ويقع طلاقه إذا سكر منه كما في سائر الأشربة المحرمة (فتح القدیر للکمال، فصل فی الدعوی ولاختلاف والتصرف فیہ 10/99) واختار الكرخي والطحاوي أن طلاق السكران لا يقع؛ لأنه لا قصد له كالنائم، وهذا لأن شرط صحة التصرف العقل، وقد زال فصار كزواله بالبنج وغيره من المباحات ولنا أنه مخاطب شرعا لقوله تعالى {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى} [النساء: 43] فوجب نفوذ تصرفه؛ ولأنه زال عقله بسبب هو معصية فيجعل باقيا زجرا له بخلاف ما إذا زال بالمباح حتى لو صدع رأسه وزال بالصداع لا يقع طلاقه (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق 2/196)
وروى الطحاوي عن أبي سنان قال: سمعت عمر بن عبد العزيز يقول طلاق السكران والمكره واقع ولأنه قصد إيقاع الطلاق في منكوحته حال أهليته فلا يعرى عن قضيته وهذا لأنه عرف الشرين فاختار أهونهما وهذا علامة القصد والاختيار لأنه غير راض بحكمه وذلك غير مانع من وقوع الطلاق كالهازل. (الغرۃ المنیفۃ فی تحقیق بعض مسائل الامام، کتاب الطلاق 1/153)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1650/43-1233
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ اسلامی میں، بچہ کی پرورش کا حق ماں کے بعد ننہالی اور ددہالی رشتہ والوں کو بترتیب حاصل ہوتی ہے۔ سوتیلی ماں کو پرورش کا حق نہیں۔ ننیہالی اور ددیہالی عورتوں میں سے اگر کوئی نہ ہو تو باپ بچہ کو اپنے پاس رکھے اور اس کی پرورش کرے یا دوسرے سے باجرت یا بلااجرت اس کی دیکھ بھال کرائے۔ اگر سوتیلی ماں پر اعتماد ہو تو اس سے بھی اس کی دیکھ بھال کراسکتاہے۔
وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير. ذكر الخصاف في النفقات إن كانت للصغيرة جدة من قبل أبيها وهي أم أبي أمها فهذه ليست بمنزلة من كانت من قرابة الأم من جهة أمها كذا في البحر الرائق. فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأم، فإن ماتت أوتزوجت فبنت الأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فبنت الأخت لأم لا تختلف الرواية في ترتيب هذه الجملة إنما اختلفت الروايات بعد هذا في الخالة والأخت لأب ففي رواية كتاب النكاح: الأخت لأب أولى من الخالة وفي رواية كتاب الطلاق: الخالة أولى وبنات الأخوات لأب وأم أو لأم أولى من الخالات في قولهم واختلفت الروايات في بنات الأخت لأب مع الخالة والصحيح أن الخالة أولى وأولى الخالات الخالة لأب وأم، ثم الخالة لأم، ثم الخالة لأب، وبنات الإخوة أولى من العمات والترتيب في العمات على نحو ما قلنا في الخالات كذا في فتاوى قاضي خان، ثم يدفع إلى خالة الأم لأب وأم، ثم لأم، ثم لأب، ثم إلى عماتها على هذا الترتيب. وخالة الأم أولى من خالة الأب عندنا، ثم خالات الأب وعماته على هذا الترتيب كذا في فتح القدير. والأصل في ذلك أن هذه الولاية تستفاد من قبل الأمهات فكانت جهة الأم مقدمة على جهة الأب كذا في الاختيار شرح المختار. بنات العم والخال والعمة والخالة لا حق لهن في الحضانة كذا في البدائع. وإنما يبطل حق الحضانة لهؤلاء النسوة بالتزوج إذا تزوجن بأجنبي، فإن تزوجن بذي رحم محرم من الصغير كالجدة إذا كان زوجها جدا لصغير أو الأم إذا تزوجت بعم الصغير لا يبطل حقها كذا في فتاوى قاضي خان. ومن سقط حقها بالتزوج يعود إذا ارتفعت وإذا كان الطلاق رجعيا لا يعود حقها حتى تنقضي عدتها لقيام الزوجية كذا في العيني شرح الكنز. ولو تزوجت الأم بزوج آخر وتمسك الصغير معها أو الأم في بيت الراب فللأب أن يأخذها منها. (الھندیۃ، الباب السادس عشر فی الحضانۃ 1/541)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1832/43-1667
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی صورت میں جب کہ عضو پر پیشاب بالکل بھی نہیں لگا ہے، شرمگاہ کو دھونا لازم نہیں ہے۔ البتہ دھولینا بہتر ہے۔
وعفا لشارع عن قدر درہم وإن کرہ تحریمًا فیجب غسلہ وما دونہ تنزیہا فیسن وفوقہ مبطل فیفرض (درمختار) وفي الشامیة: وقدر الدرہم لا یمنع ویکون سیئًا وإن قل فالأفضل أن یغسلہا ولا یکون سیئًا (شامي: ۱/۵۲۰)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2132/44-2202
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصلاح باطن اور اہتمام کے ساتھ سنت و شریعت کی پابندی کی ضرورت ہے۔ خواب میں اس جانب بھی اشارہ ملتاہے کہ جانے انجانے میں کچھ ایسے اعمال سرزد ہورہے ہیں جواہل سنت والجماعت کے عقائد کے منافی ہیں ۔ اس لئے کسی متبع سنت شیخ سے تعلق قائم کرکے اپنے احوال بیان کریں اور ان سے عقائد و اعمال کی اصلاح کے لئے مسلسل رابطہ میں رہیں، ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2253/44-2402
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح پڑھانے والے امام کا نکاح کی فیس لینا شرعا جائز ہے، اور یہ فیس امام یا قاضی اور نکاح پڑھوانے والے کے درمیان جو طے ہوجائے وہ درست ہے۔ البتہ مسجد کمیٹی کا امام صاحب سے 700 روپئے وصول کرنا اگر کسی معاہدہ کی بناء پر ہے یعنی امام مقرر کرتے وقت کوئی معاہدہ اس سلسلہ میں ہواہو تو اس کے مطابق ان سے اس کی وصولیابی درست ہوگی ورنہ درست نہیں ہوگی۔ نکاح کا رجسٹر عموما امام کا ہی ہوتاہے۔ نکاح کا رجسٹر کس کا ہے یہ مسجد والوں سے ہی معلوم کیاجائے۔
"وَفِي فَتَاوَى النَّسَفِيِّ: إذَا كَانَ الْقَاضِي يَتَوَلَّى الْقِسْمَةَ بِنَفْسِهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ، وَكُلُّ نِكَاحٍ بَاشَرَهُ الْقَاضِي وَقَدْ وَجَبَتْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ كَنِكَاحِ الصِّغَارِ وَالصَّغَائِرِ فَلَايَحِلُّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، وَمَا لَمْ تَجِبْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَاخْتَلَفُوا فِي تَقْدِيرِهِ، وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى أَنَّهُ إذَا عَقَدَ بِكْرًا يَأْخُذُ دِينَارًا وَفِي الثَّيِّبِ نِصْفَ دِينَارٍ وَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ هَكَذَا قَالُوا، كَذَا فِي الْبُرْجَنْدِيِّ". ( كتاب أدب القاضي، الْبَابُ الْخَامِسَ عَشَرَ فِي أَقْوَالِ الْقَاضِي وَمَا يَنْبَغِي لِلْقَاضِي أَنْ يَفْعَل، ٣ / ٣٤٥)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نذر اور منت جو شرعی طریقہ پر ہو جائز و درست ہے۔ صندل کی منت غیرشرعی اور ناجائز ہے اور مزاروں پرچڑھاوے چڑھانا بھی جائز نہیں ہے۔ (۱)
(۱) ومنہا أن یکون قربۃ فلا یصح النذر بما لیس بقربۃ رأسا کالنذر بالمعاصي بأن یقول للّٰہ عز شأنہ علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلانا أو أضربہ أو أشتمہ ونحو ذلک لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام لا نذر في معصیۃ اللّٰہ تعالٰی وقولہ من نذر أن یعصي اللّٰہ تعالیٰ فلا یعصہ ولأن حکم النذر وجوب المنذور بہ ووجوب فعل المعصیۃ محال وکذا النذر بالمباحات من الأکل والشرب والجماع ونحو ذلک لعدم وصف القربۃ لاستوائہما فعلاً وترکاً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل وأما شرائط الرکن فأنواع‘‘: ج ۵، ص: ۸۲)
ویکرہ إتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ: وروی الإمام أحمد وابن ماجہ بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللّٰہ قال: ’’کنا نعد الاجتماع إلی أہل المیت وصنعہم الطعام من النیاحۃ‘‘۔ اہـ۔ وفي البزازیۃ: ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم، واتخاذ الدعوۃ لقرائۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقرائۃ سورۃ الأنعام أو الإخلاص۔ (ابن عابدین، الدر المختار … مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ، من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ومنہا الوصیۃ من المیت باتخاذ الطعام والضیافۃ یوم موتہ أو بعدہ وبإعطاء دراہم لمن یتلو القرآن لروحہ أو یسبح أو یہلل لہ وکلہا بدع منکرات باطلۃ، والمأخوذ منہا حرام للآخذ، وہو عاص بالتلاوۃ والذکر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب إجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص342
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک واقعہ معراج ہے جس کو لوگوں کے لیے آزمائش بتایا گیا تاکہ دودھ اور پانی الگ الگ ہوجائے؛ چنانچہ اس کو سن کر بعض کمزور ایمان والے تو مرتد ہوگئے اور منافقین کو بہکانے کا خوب موقع ملا جو کہ خود بھی ایمان پر نہیں تھے اور دوسروں کے ایمان کے دشمن تھے۔(۱)
(۱) وقولہ تعالی: {وَما جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْناکَ إِلَّا فِتْنَۃً لِلنَّاسِ} إلی آخر الآیۃ تنبیہ علی تحققہا بالاستدلال علیہا بما صدر عنہم عند مجیء بعض الآیات لاشتراک الکل في کونہا أمورا خارقۃ للعادات منزلۃ من جناب رب العزۃ جل مجدہ لتصدیق رسولہ علیہ الصلاۃ والسلام فتکذیبہم ببعضہا یدل علی تکذیب الباقي کما أن تکذیب الأولین بغیر المقترحۃ یدل علی تکذیبہم بالمقترحۃ، والمراد بالرؤیا ما عاینہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لیلۃ أسری بہ من العجائب السماویۃ والأرضیۃ کما أخرجہ البخاري والترمذي والنسائي وجماعۃ عن ابن عباس وہي عند کثیر بمعنی الرؤیۃ مطلقا وہما مصدر رأي مثل القربی والقرابۃ۔ (آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الإسراء: ۲۲ إلی ۷۲‘‘: ۶۰‘‘: ج ۱۵، ص: ۱۰۵)
قال الطیبي: وقد روینا عن البخاري والترمذي، عن ابن عباس في قولہ تعالی: {وَما جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْناکَ إِلَّا فِتْنَۃً لِلنَّاسِ} (الإسراء: ۶۰) (ثم): قال: ہي رؤیا عین أریہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم… لیلۃ أسری بہ إلی بیت المقدس، وفي مسند الإمام أحمد بن حنبل، عن ابن عباس قال: شیئٌ أریہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الیقظۃ رآہ بعینہ، ولأنہ قد أنکرتہ قریش وارتدت جماعۃ ممن أسلموا حین جمعوہ، وإنما ینکر إذا کانت في الیقظۃ، فإن الرؤیا لا ینکر منہا ما ہو أبعد من ذلک۔ (ملا علي قاری: مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب التفسیر: باب في المعراج‘‘: ج ۹، ص: ۳۷۵۷، رقم: ۵۸۶۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص29
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مرتبہ میں تو کوئی بھی نبی کے برابر نہیں ہوسکتا، اب اس قول کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے انبیاء سے دعوت اور دین کی اشاعت کا کام لیا، ایسے ہی یہ کام امت محمدیہ کے علماء بھی کریں گے۔(۱) یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے؛ لیکن اس کا مفہوم کسی دینی امر سے معارض نہیں ہے۔(۲)
(۱) معناہ صحیح لکنہ ضعیف من حیث أنہ مسند إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (العثیمین، شرح الأربعین: ج ۱، ص: ۴۵)
(۲) علماء أمتي کأنبیاء بني إسرائیل، حدیث متکلم فیہ والصحیح من قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: العلماء أمناء الرسل والعلماء أمناء اللّٰہ علی خلقہ۔ (محمد عبدالرؤف المناوي، فیض القدیر: ج ۱، ص: ۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص77
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تعلیمی معاملہ ہو یا اس قسم کا دوسرا مسئلہ ہو اس میں برادری اور قومیت کے اعتبار سے امتیاز برتنا اور مذکورہ جملے استعمال کرنا زید کے لئے درست نہیں(۲)، علم دین جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے (۱)، جس میں ہر مومن مسلمان کا حق برابر کا ہے کہ وہ آئے اور میراث محمدی سے حصہ پائے، کسی کو منع کرنے، روکنے کا حق نہیں ہے، ایسے حضرات جو منع کرنے والوں میں ہوں سخت گنہگار ہوں گے طلب علم عبادت ہے اور عبادت سے روکنا گناہ ہے۔(۲)
(۲) الناس سواء لا فضل لعربي علی عجمي إنما الفضل بالتقویٰ وقال تعالیٰ: {إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقٰئکُمْط} (شرح القسطلاني، إرشاد السامي، ’’باب الأکفاء في الدین‘‘: ج ۸، ص: ۱۹) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنما الناس کأسنان المشط وإنما یتفاضلون بالعافیۃ۔ (الکنی والأسماء للدولابي، باب من کنیۃ أبو خزیمۃ: ج ۲، ص: ۵۲۳)
(۱) إن العلماء ورثۃ الأنبیاء، إن الأنبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درہماً إنما ورثوا العلم فمن أخذہ أخذ بحظ وافر۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’مقدمہ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۲۲۳)
(۲) العالم والمتعلم شریکان في الأجر ولا خیر في سائر الناس۔ (’’أیضاً‘‘: رقم: ۲۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص163