ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 909/41-24B

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت میں مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہے،

و فی شرح الآثار  التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ والحاصل ان المذھب عدم التعزیر بالمال۔  شرح الآثار 4/61)

شریعت کے خلاف فیصلہ کرنا موجب گناہ ہے،۔ ارشاد باری ہے جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف  حکم  جاری کریں  وہ نافرمان اور سرکش ہیں۔ (المائدہ 47)

چونکہ مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہے، اس لئے وہ رقم مالک کو واپس کرنی ضروری ہے۔ مالی جرمانہ  اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1570/43-1236

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوم لون سودی قرض پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ بلا ضرورت شدیدہ سودی معاملہ کرنا اللہ تعالی اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔  اور مندرجہ بالا وجوہات کسی مجبوری کی حالت کو نہیں بتاتے، اس لئے صورت مذکورہ میں ہوم لون کی اجازت نہیں ہوگی۔ انتہائی مجبوری ، اور جان و مال کے خطرہ کے وقت  ہی اس کی گنجائش دی جاسکتی ہے ورنہ تھوڑی بہت ضرورت تو ہر ایک کو رہتی ہے۔ البتہ والد محترم کی مکان نہ بیچنے کی شرط اگر پوری نہیں ہوسکتی ہے تو کوئی حرج نہیں، اب آپ اس پلاٹ کے پورے مالک ہیں  بوقت ضرورت آپ کے لئے اس کو فروخت کرنا  بھی جائز ہے۔

﴿ يا أيها الذين اٰمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا ان كنتم مؤمنين فان لمتفعلوا فأذنوا بحرب من اللهورسوله وإن تبتم فلكم رءوس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة وأن تصدقوا خير لكم إن كنتم تعلمون﴾ ( البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ )

وفي فتاوى أبي الليث - رحمه الله تعالى - سئل أبو نصر عن رجل قال لآخر: أبرأتك عن الحق الذي لي عليك على أني بالخيار، قال: البراءة جائزة والخيار باطل، ألا يرى أنه لو وهب له شيئا على أنه بالخيار جازت الهبة وبطل الخيار فالبراءة أولى، كذا في المحيط. (الھندیۃ، الباب الثامن فی حکم الشرط فی الھبۃ 4/396)  ولو قال هي لك عمرى تسكنها أو هبة تسكنها أو صدقة تسكنها ودفعها إليه فهو هبة لأنه ما فسر الهبة بالسكنى لأنه لم يجعله نعتا فيكون بيانا للمحتمل بل وهب الدار منه ثم شاوره فيما يعمل بملكه والمشورة في ملك الغير باطلة فتعلقت الهبة بالعين (بدائع، فصل فی شرائط رکن الھبۃ 6/118)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1875

Ref. No. 1850/43-1660

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تین طلاق  کے بعد  بیوی حرام ہوگئی تو اب حکم یہ ہے کہ بعد عدت مطلقہ عورت آزاد ہوگئی وہ جہاں چاہے اپنا عقد ثانی کرسکتی ہے، تین طلاق دینے والے شوہر کو اب اس عورت پر کچھ اختیار نہیں،  عورت کو کوئی  نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا ہے کہ تین طلاق دینے والے سے دوبارہ نکاح کرے؛ عورت ہرطرح سے آزاد ہے کہ تین طلاق دینے والے شخص کے علاوہ کہیں بھی نکاح کرلے یا نہ کرے۔  البتہ طلاق مغلظہ کے بعد بغیر شرعی حلالہ کے سابق  شوہر سے نکاح جائز نہیں ہے۔  شرعی طور پر شوہر ثانی کا اپنی بیوی سے صحبت کرنا ضروری ہے۔ پھر عدت تین ماہواری گزرنے کے بعد شوہر اول سے اس عورت کا نکاح کیاجاسکتاہے۔

مذکورہ صورت میں جبکہ محمد افتخار سے نکاح کے بعد صحبت نہیں ہوئی ، صرف پانی کا گلاس پیش کرنا صحبت کے قائم مقام نہیں ہوسکتاہے۔ اس لئے   یہ عورت اپنے سابقہ شوہر سے ابھی نکاح نہیں کرسکتی ہے۔  عورت کسی دوسرے مرد سے یا پھر  محمد افتخار سے اگراس نے  ایک یا دو طلاقیں دیں  یا تین متفرق طلاقیں دیں  ، نکاح کرے، اور اس کے ساتھ زندگی گزارے۔ صرف حلالہ کی نیت سے نکاح کرنا گناہ کی بات ہے۔  شوہر ثانی اگر صحبت کرنے کے بعد طلاق دیدیتاہے یا اس کا انتقال ہوجاتاہے تو اب عورت شوہر اول سے نکاح کرسکتی ہے۔  الغرض شوہر اول سے نکاح کے حلال ہونے کے لئے  تین باتیں ضروری ہیں 1- دوسرے مرد سے نکاح کا صحیح ہونا، 2- شوہرثانی کا اس عورت سے صحبت کرنا، 3- عورت کی مکمل تین ماہواری کا گزرنا۔ اگر ان میں سے کہیں کمی رہ گئی تو عورت شوہر اول کے لئے حلال نہ ہوگی۔

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1948/44-1860

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شوہر نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دی ہے تو عدت کے اندر رجوع کرسکتاہے، اور اگر عدت گزرگئی تو دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے۔ لیکن اگر شوہر نے تین طلاقیں دی ہیں  تواب شرعی اعتبار سے عورت مکمل طور پر نکاح سے نکل گئی ، اور عورت و مرد میں میاں بیو ی کا رشتہ باقی نہیں رہا، دونوں ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوگئے، پردہ لازم ہوگیا۔ اب ان کا آپس میں ملنا یا ایک ساتھ رہنا  شرعا حرام ہے۔  اب وہ عورت  عدت گزارکر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 187)

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره} [البقرة: 230]، وسواء طلقها ثلاثاً متفرقاً أو جملةً واحدةً".

فتاوی ہندیہ: "المطلقة الرجعية تتشوف وتتزين ويستحب لزوجها أن لايدخل عليها حتى يؤذنها أو يسمعها خفق نعليه إذا لم يكن من قصده المراجعة وليس له أن يسافر بها حتى يشهد على رجعتها كذا في الهداية". (10/193)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر مذکورہ شخص نے غیر اللہ کی پوجا کی ہو، تو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت حرام ہے اور مسلمان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے؛ اس لئے بشرط صحت سوال مذکورہ شخص (جو پوجا پاٹ دسہرا ودیوالی پر ہندؤں سے بھی آگے بڑھ چڑھ کر کرتا ہے) ایمان سے خارج ہو گیا ہے، پھر سے ایمان قبول کرے اس کی نماز جنازہ یا مسلم قبرستان میں تدفین درست نہیں إلا یہ کہ وہ پھر سے ایمان لے آئے (اور آئندہ ایسا نہ کرے)۔(۱)

(۱) وقال غیرہ من مشائخنا رحمہم اللّٰہ تعالیٰ: إذا سجد واحد لہٰؤلاء الجبابرۃ فہو کبیرۃ من الکبائر وہل یکفر؟ قال بعضہم: یکفر مطلقا، وقال أکثرہم: ہذا علی وجوہ إن أراد بہ العبادۃ یکفر، وإن أراد بہ التحیۃ لم یکفر ویحرم علیہ ذلک وإن لم تکن لہ إرادۃ الکفر عند أکثر أہل العلم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘:  ج ۲، ص: ۲۹۲)

 

دار الافتاء

دار العلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2311/44-3469

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صحاح ستہ میں کل چھ کتابیں ہیں ان کے نام یہ ہیں: بخاری شریف، مسلم شریف،  ترمذی شریف، ابوداؤد شریف، نسائی شریف، اور سنن ابن ماجہ۔ 

ان میں بھی ترتیب ہے ۔پہلا درجہ بخاری شریف کا ہے دوسرا درجہ مسلم شریف کا ،تیسرا درجہ ابو داود کا، چوتھا ترمذی کا ،اور پانچواں نسائی کا ہے ابن ماجہ کو تمام لوگ صحاح میں شامل نہیں مانتے ہیں، ابو طاہر مقدسی نے ابن ماجہ کوصحاح میں شامل کیا ہے بعد میں لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے، کتب احادیث میں صحاح کا مقام اہمیت کا حامل ہے اس لیے صحاح ستہ کا مطالعہ کرنا درست اور بہتر ہے تاہم بخاری ومسلم کے علاوہ کتب صحاح میں ضعیف احادیث بھی ہیں ان ماجہ میں بعض روایت موضوع بھی ہیں اس لیے تمام روایات سے استدلال درست نہیں ہے بلکہ حدیث کی حیثیت کو دیکھ کر استدلال کرنا چاہئے۔

ان کتب احادیث کے اردو ترجمے بھی ہوئے ہیں علماء دیوبند نے عموماً ان کی اردو شرحیں لکھی ہیں جن میں ترجمہ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے،  بخاری شریف کے لیے تحفۃ القاری (مفتی سعید احمد پالنپوریؒ) نصر الباری مولانا عثمان غنی صاحب، ترمذی شریف کے لیے تحفۃ  الالمعی  (حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ) مطالعہ کے لیے بہتر ہیں۔

اردو ترجمہ مسلم (مولانا مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی ابو داود کے لئے الدر المنضود (حضرت مولانا عاقل صاحب) ابن ماجہ کے لیے تکمیل الماجہ (مفتی غلام رسول قاسمی) مفید کتابیں ہیں جن میں ترجمہ کے ساتھ مطلب تشریف بھی ہے آپ ان کتابوں کے صرف تراجم پر بھی اکتفا کر سکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2344/44-3531

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     نکاح کے لیے گواہ بنناشرعی شہادت ہے اور شرعی شہادت پراجرت و معاوضہ کا لین دین جائزنہیں ہے۔ ا لبتہ اگر اس طرح نکاح کیا گیا تو نکاح درست ہوجائے گا۔  نیز بوقت نکاح عقد کی مجلس میں وکیل  کرنا  ضروری نہیں ہے،  اگر لڑکا ولڑکی مجلس میں موجود ہیں تو نکاح بغیر وکیل کے ہوسکتاہے۔ اور اگر کسی کو وکیل بنایاگیا اور اس نے اس پر اجرت کا مطالبہ کیا تو متعین اجرت دینے کی گنجائش ہے۔

(کفایت المفتی 2/275دارالاشاعت) واَقِیمُوْا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہ(قرآن)

إذا أخذ الوكيل الأجرة لإقامة الوكالة، فانه غير ممنوع شرعا إذ الوكالة عقد جائز لايجب على الوكيل اقامتها، فيجوز أخذ الأجرة فيها. (فتح القدیر،کتاب الوکالة،ج۷/ص۲)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس میں رسوم کی پابندی(۲) مزید براں غیر محرموں سے بے پردگی ہوتی ہے پس ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔(۳)

(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)
(۳) وفي کتاب الخنثیٰ من الأصل إن نظر المرأۃ من الرجل الأجنبي بمنزلۃ نظر الرجل إلی محارمہ لأنہ النظر إلی خلاف الجنس أغلظ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في النظر والمس‘‘: ج ۹، ص: ۵۳۳)
النظر إلی وجہ الأجنبیۃ إذا لم یکن عن شہوۃ لیس بحرام لکنہ مکروہ، کذا في السراجیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثاني: فیما یحل للرجل النظر إلیہ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص434
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنے پر جب کہ پابندی کی جارہی ہے اوریہ طریقہ قرونِ ثلاثہ میں سے کسی قرن میں اپنایا نہیں گیا نہ اسلاف ہی سے ثابت ہے اور نہ اکابر امت سے  اس لیے اس کو بدعت ہی کہا جائے گا۔ بدعت کی تعریف یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جو عبادت کے طریقہ پر ثواب کی نیت سے کی جائے اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا زمانہ صحابہؓ وتابعین میں علت پائے جانے کے باوجود نہ کی گئی ہو، اب اگرچہ آپ اس کو رسم نہیں مان رہے، لیکن مابعد میں ایسا نہ کرنے والوں پر طعن و تشنیع کی جائے گی اور اس بدعت کے موجد آپ حضرات قرار دئیے جائیں گے اور حوادث بدعت بلاشبہ گناہ ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)…ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إیاکم ومُحدَثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’أول کتاب السنۃ، باب في لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص486

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتح مکہ کے بعد تمام غیر مسلموں کو امان دیدی گئی تھی؛لیکن اس وقت غیر مسلموں کے حالات مختلف تھے، ایک قسم تو وہ لوگ تھے جن سے صلح کا معاہدہ ہوا تھا، مگر انہوں نے خود اس کو توڑ دیا تھا۔ دوسرے کچھ لوگ ایسے تھے جن سے صلح کا معاہدہ کسی خاص میعاد کے لیے ہوا تھا اور وہ معاہدہ پر قائم رہے، جیسے: بنو ضمرہ وبنو مدلج؛ تیسرے کچھ لوگ وہ تھے جن سے معاہدہ کی مدت متعین نہیں تھی۔ چوتھے وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں تھا۔
چنانچہ جن لوگوں نے صلح حدیبیہ کو توڑا ان کو حکم ہوا کہ اشہر حرم کے ختم ہوتے ہی جزیرۃ العرب سے نکل جائیں یا مسلمان ہو جائیں ورنہ ان سے جنگ ہوگی۔ اور جن سے خاص میعاد کے لیے معاہدہ تھا ان کے معاہدہ کو ان کی مدت تک پورا کرنے کا حکم ہوا۔ اور جن لوگوں سے بلا تعیین مدت معاہدہ تھا یا جن کے ساتھ بالکل کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا ان کو چار ماہ کی مہلت دی گئی۔(۱)

(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن، سورۃ التوبۃ: ج ۴، ص: ۳۰۹، ۳۱۱؛ وعلامہ آلوسی، روح المعاني، ’’سورۃ التوبۃ‘‘: ج ۶، ص: ۷۱۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص34