طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر لوٹے میں گرد وغبار یا گندگی گرنے کا اندیشہ ہو، تو لوٹے کو الٹا رکھنا مناسب ہے اور اگر کوئی اندیشہ نہ ہو، تو سیدھا رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے،مگر سیدھا رکھنے کی صورت میں بھی اس پر کچھ رکھ دینا چاہئے۔
حدیث میں ہے:
’’عن جابر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال أغلق بابک واذکر اسم اللّٰہ فإن الشیطان لا یفتح باباً مغلقا وأطف مصباحک واذکر اسم اللّٰہ وخمر إناء ک ولو بعود وتعرضہ علیہ واذکر اسم اللّٰہ وأوکِ سقاء ک واذکر اسم اللّٰہ‘‘(۱)
’’وقد یقال إن الضرورۃ في البئر متحققۃ بخلاف الأواني لأنہا تخمر‘‘(۲)

(۱) أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الأشربۃ: باب في إیکاء الآنیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۴، رقم: ۳۷۳۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مبحث في بول الفارۃ وبعرہا وبول الہرۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص193

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ غسل نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ ہی سنت اور نہ مباح؛ بلکہ بدعت ہے، جو سجاد نشین اس بدعت کو ترک کرے گا،وہ مستحق اجر وثواب ہوگا۔(۲)

(۲) فإن کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ ابوداود، في سننہ، کتاب السنۃ، باب لزوم السنۃ،ج ۲، ص:۶۳۵،رقم:۴۶۰۷)؛ و عن عائشۃ أن رسول اللّٰہ ﷺ من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، باب تعظیم حدیث رسول اللّٰہ، ج۱، ص:۳، رقم ۱۴(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص286

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر دس دن کے اندر اندر خون آتا رہا، تو تمام کا تمام حیض شمار ہوگا، اور اگر دس دن سے آگے بڑھے گا، تو ایام عادت یعنی پانچ دن حیض، اور باقی  استحاضہ شمار ہوگا۔(۱)

(۱)و إذا زاد الدم علی العادۃ فإن جاوز العشرۃ فالزائد کلہ استحاضۃ و إلا فحیض۔ (إبراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر،  ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض‘‘ ج۱، ص:۸۱، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان) و إن جاوز العشرۃ ففي المبتدأۃ حیضھا عشرۃ أیام و في المعتادۃ معروفتھا في الحیض حیض والطھر طھر۔ ھکذا في السراج الوھاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الدول: في الحیض و منھا تقدم نصاب الطہر‘‘ ج۱، ص:۹)؛ و لنا ما روي أبوأمامۃ الباھلي رضی اللہ عنہ عن النبي ﷺ أنہ قال أقل ما یکون الحیض للجاریۃ الثیب و بکر جمیعا ثلاثۃ أیام، و أکثر ما یکون من الحیض عشرۃ أیام، و مازاد علی العشرۃ فھو استحاضۃ۔(الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في تفسیر الحیض، النفاس والاستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۱۵۴  مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص385

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جو شخص اپنی خوشی اور رضامندی سے یا کسی لالچ میں خصی ہوگیا ہو، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ کیوں کہ خصی ہونا حرام ہے؛(۱) لہٰذا حرام کام کرنے والے کو امامت جیسا منصب دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔(۲)

(۱) {وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِط} (سورۃ النساء: ۱۱۹)
إن خصاء الآدمي حرام صغیرا کان أو کبیرا لورود النہي عنہ۔(جماعۃ من الفقہاء، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ج۱۹، ص: ۱۲۰)
(۲) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص167

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  پوری مسجد برابر ہے جس جگہ بھی نماز پڑھی جائے مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب برابر ملتا ہے؛ لیکن جماعت کے لیے محراب بنائی جاتی ہے بوقت جماعت امام کو محراب میں کھڑا ہونا چاہئے بغیر کسی عذر کے محراب چھوڑ کر دوسری جگہ جماعت کرنا افضلیت کے خلاف ہے۔(۱)
(۱) السنۃ أن یقوم الإمام في المحراب … لئلا یلزم عدم قیامہ في الوسط فلو لم یلزم ذلک لایکرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰، زکریا دیوبند)
وینبغي للإمام أن یقف بإزاء الوسط فإن وقف في میمنۃ الوسط أو في میسرتہ فقد أساء لمخالفۃ السنۃ، ہکذا في التبیین، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ،  ’’الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘:ج۱، ص: ۱۴۷)، زکریا دیوبند۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص371

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  نماز میں ستر عورت فرض ہے۔ چہرہ ،ہتھیلی اور پائوں کے علاوہ پور ا جسم عورت کے ستر میں داخل ہے اس میں کسی بھی عضو کے ایک چوتھائی کھلنے سے نماز نہیں ہوتی ہے۔ عورت کا بازو (کلائی سے کہنی تک کا حصہ) بھی صحیح قول کے مطابق ستر میں داخل ہے اس کا چوتھائی حصہ ایک رکن کے بقدر کھلارہا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ گٹوں سے کہنی تک کی مقدار بارہ انگلی ہوتی ہے اس کا چوتھائی تین انگلی ہے؛ اس لیے مولانا صاحب نے تقریر میں جو تین انگلی بیان کیا ہے وہ درست ہے۔
’’ذراعاہا عورۃ کبطنہا في ظاہر الروایۃ، عن أصحابنا الثلاثۃ وروي في غیر ظاہر الروایۃ عن أبي یوسف أنہ روي عن أبي حنیفۃ أن ذراعیہا لیسا بعورۃ وفي الاختیار قال لو انکشف ذراعہا جازت صلاتہا لأنہا من الزینۃ الظاہرۃ والسوار وتحتاج إلی کشفہ للخدمۃ وسترہ أفضل وصحح بعضہم أنہ عورۃ في الصلاۃ لا خارجہا ولکن القول الأول وہو ظاہر الروایۃ ہو الصحیح إذ لا ضرورۃ في ابدائہ وکون السوار من الزینۃ الظاہرۃ محل النزاع بل ہو للید کالخلخال للرجل‘‘(۱)
’’(وکشف ربع ساقہا یمنع) یعنی جواز الصلاۃ؛ لأن ربع الشيء یحکی حکایۃ الکل کما في حلق الراس في الإحرام حتی یصیر بہ حلالا في أوانہ ویلزمہ الدم قبلہ، وعند أبي یوسف یعتبر انکشاف الأکثر؛ لأن الشيء إنما یوصف بالکثرۃ إذا کان ما یقابلہ أقل منہ وفي النصف عنہ روایتان في روایۃ یمنع لخروجہ عن حد القلۃ ولا یمنع في أخری لعدم دخولہ في حد الکثرۃ قال رحمہ اللّٰہ (وکذا الشعر والبطن والفخذ والعورۃ الغلیظۃ)‘‘(۲)
’’قال في القنیۃ وہذا نص علی أمرین الناس عنہما غافلون: أحدہما أنہ لا یعتبر الجمع بالأجزاء کالأسداس والأسباع والاتساع بل بالقدر۔ والثاني أن المکشوف من الکل لو کان قدر ربع أصغرہا من الأعضاء المکشوفۃ یمنع الجواز حتی لو انکشف من الأذن تسعہا ومن الساق تسعہا تمنع؛ لأن المکشوف قدر ربع الأذن‘‘(۳)
’’وأما المرأۃ یلزمہا أن تستر نفسہا من فرقہا إلی قدمہا ولا یلزمہا ستر الوجہ والکفین بلا خلاف، وفي القدمین اختلاف المشایخ واختلاف الروایات عن أصحابنا رحمہم اللّٰہ، وکان الفقیہ أبو جعفر تردد في ہذا فیقول مرۃ؛ إن قدمہا عورۃ، ویقول مرۃ: إن قدمہا لیست بعورۃ، فمن یجعلہا عورۃ یقول یلزمہا سترہا ومن لا یجعلہا عورۃ یقول: لا یلزمہا سترہا، والأصح أنہا لیست بعورۃ، وہي مسألۃ کتاب الاستحسان أیضاً۔ قال أبو حنیفۃ ومحمد: الربع وما فوقہ کثیر، وما دون الربع قلیل،وقال أبو یوسف: ما فوق النصف کثیر وما دونہ قلیل، وفي النصف عنہ روایتان، والصحیح قولہما؛ لأن ربع الشيء أقیم مقام الکل في کثیر من الأحکام کمسح ربع الرأس في الوضوء، وکحلق ربع الرأس في حق المحرم‘‘(۱)
(۱) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المتملی: ج ۱، ص: ۴۳۹۔
(۲) فخرالدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۶۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۳۔
(۱) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الصلاۃ، الفصل الرابع في فرائض الصلاۃ و سننہا‘‘: ج ۲، ص:۱۴، ادارۃ التراث الاسلامي لبنان۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص266


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا نہ فرض ہے اور نہ ہی واجب، بلکہ دونوں سورتوں کے درمیان ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا بہتر ہے، خواہ سورۃ الفاتحہ اور سورت کی تلاوت جہراً (بآواز بلند) ہو یا سراً (آہستہ آواز سے) ہو، اگر کوئی ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ نہ پڑھ سکے تو اس سے نماز میں کوئی کراہت لازم نہیں آتی ہے، نماز ادا ہو جاتی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ حاشیہ الطحطاوی میں لکھا ہے:
’’فلا تسن التسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ ولا کراہۃ فیہا وإن فعلہا اتفاقاً للسورۃ سواء جہر أو خافت بالسورۃ‘‘(۱)
علامہ ابن نجیمؒ البحر الرائق اور علامہ ابن عابدین رد المحتار میں بیان کرتے ہیں:
’’إن سمی بین الفاتحۃ و السورۃ کان حسناً عند أبي حنیفۃ‘‘(۲)
’’إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ المقروء ۃ سراً أو جہراً کان حسناً عند أبي حنیفۃ الخ‘‘(۳)
’’عن أنس بن مالک، قال: صلی معاویۃ بالمدینۃ صلاۃ فجہر فیہا بالقراء ۃ، فقرأ فیہا بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم لأم القرآن ولم یقرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم للسورۃ التي بعدہا حتی قضی تلک القراء ۃ، فلما سلم ناداہ من سمع ذلک من المہاجرین، والأنصار من کل مکان: یا معاویۃ أسرقت الصلاۃ، أم نسیت؟ فلما صلی بعد ذلک قرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم للسورۃ التي بعد أم القرآن، وکبر حین یہوی ساجداً  ‘‘(۱)
(۱) احمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في کیفیۃ ترتیب أفعال الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۲۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: فصل وإذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۲۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فروع قرأ بالفارسیۃ أو التوراۃ‘‘: ج ۲، ص:۱۸۹۔
(۱) أخرجہ الحاکم، في مستدرک:  ج ۱، ص: ۲۳۳، رقم: ۸۸۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  412

حج و عمرہ

Ref. No. 1052

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سوال واضح نہیں ہے۔ دونوں سوالات تفصیل کے ساتھ دوبارہ تحریر کریں۔ 

متفرقات

Ref. No. 1266

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:   مذکورہ بات درست نہیں ہے۔ ٹخنوں سے نیچے تک پائجامہ یا کرتا  درست نہیں ہے۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 37/1191

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں باپ نے اپنی زندگی میں جو جائداد جس کو دے کر مالک بنادیا وہ اس کی ہوگئی ، اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔  بہن کا مذکورہ مطالبہ درست نہیں ہے۔ تاہم اگر بہن ضرورتمند ہو تو بھائی کو اس کا خیال رکھنا چاہئے، ایک دوسرے کی مدد کرنا بڑی نیکی کی بات ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند