نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جذامی سے جمعہ وجماعت ساقط ومعاف ہے، اس لیے وہ مسجد میں نہ آئے؛ بلکہ گھر پر نماز پڑھے۔(۲)
(۲) ویمنع منہ (أي المسجد) وکذا کل موذ قال الشامي: وکذلک القصاب والسماک والمجذوم والأبرص أولی بالإلحاق۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ، مطلب في الغرس في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۵، زکریا دیوبند)
وتسقط الجماعۃ بالأعذار حتی لا تجب علی المریض والمقعد والمزن ومقطوع الید والرجل من خلاف ومقطوع الرجل والمفلوج الذي لا یستطیع المشي والشیخ الکبیر العاجز والأعمیٰ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الأول في الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰، زکریا دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص367

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:واضح رہے کہ اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کے لیے مطلع کرنا ہوتا ہے تاکہ لوگوں تک آواز پہونچ جائے اور لوگوں کو نماز کی خبر مل جائے اور یہ اطلاع عصر حاضر میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ عام طور پر دی جاتی ہے؛ اس لیے حدودِ مسجد یا مسجد کے اندر کہیں بھی اذان دی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، جیسا کہ علامہ بدر الدین العینیؒ عمدۃ القاری شرح البخاری میں اور علامہ ظفر عثمانی  ؒنے اعلاء السنن میں تفصیل سے ذکر کیا ہے:
’’قال العیني: ذکر ما یستفاد منہ: فیہ استحباب رفع الصوت بالأذان لیکثر من یشہد لہ ولو أذن علی مکان مرتفع لیکون أبعد لذہاب الصوت وکان بلال رضي اللّٰہ عنہ یؤذن علی بیت امرأۃ من بني نجار بیتہا أطول بیت حول المسجد‘‘(۱)
’’واعلم أن الأذان لا یکرہ في المسجد مطلقاً کما فہم بعضہم من بعض العبارات الفقہیۃ وعمومہ ہذا الأذان؛ بل مقیداً بما إذا کان المقصود إعلام ناس غیر حاضرین کما في رد المحتار، وفي السراج: وینبغي للمؤذن أن یؤذن في موضع یکون أسمع للجیران ویرفع صوتہ، ولا یجہد نفسہ؛ لأنہ یتضرر إلی قولہ في الجلابي: أنہ یؤذن في المسجد أو ما في حکمہ لا في البعید عنہ۔ قال الشیخ: قولہ في المسجد صریح في عدم کراہۃ الأذان في داخل المسجد وإنما ہو خلاف الأولیٰ إذا مست الحاجۃ إلی الإعلان البالغ وہو المراد بالکراہۃ المنقولۃ في بعض الکتب فافہم‘‘(۲)

نیز مسجد کے اندر اذان نہ دینے کا حکم اس وقت لگایا جائے گا جب کہ اذان کا مقصد فوت ہو رہا
ہو اور لاؤڈ اسپیکر میں اذان دینے کی صورت میں مقصد بالکل بھی فوت نہیں ہو تاہے؛ اس لیے مسجد کے اندر اذان دینے میں کوئی کراہت بھی نہیں ہے، البتہ جب مسجد کے اندر بغیر مائک کے اذان دی جائے اور لوگوں تک آواز کا پہونچنا ممکن نہ ہو تواس صورت میں مسجد کے اندر اذان دینے کو فقہاء نے مکروہ تنزیہی لکھا ہے۔
’’وینبغي أن یؤذّن علی المئذنۃ أو خارج المسجد ولا یؤذن في المسجد، کذا في فتاوی قاضي خان‘‘(۳)

(۱) بدر الدین العیني، عمدۃ القاري شرح البخاري،’’کتاب الأذان،… باب رفع الصوت بالنداء‘‘: ج ۴، ص: ۱۶۲۔
(۲) ظفر عثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلوۃ، أبواب الجمعۃ، باب التأذین عند خطبۃ‘‘: ج ۸، ص: ۸۶۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما: ج ۱، ص: ۱۱۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص153

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صفوں کے سیدھا کرنے اور خالی جگہوں کو پر کرنے کی تعلیم احادیث میں موجود ہے اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت رہی ہے، اس لیے صف کو سیدھا کرنے یا خالی جگہ کو پر کرنے کے لیے مکبر کا آگے یا پیچھے ہٹنا جائز ودرست ہے۔(۱)
(۱) سووا صفوفکم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب: تسویۃ الصفوف وإقامتہا وفضل الأول فالأول منہا‘‘:ج۱، ص: ۱۸۲، رقم: ۴۳۳)
اتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن في الصف المؤخر۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ: ج۲۱، ص: ۱۱۴، رقم: ۱۳۴۰)
ألا تصفون کما تصف الملائکۃ عند ربہم جل وعز؟ قلنا: وکیف تصف الملائکۃ عند ربہم؟ قال: یتمون الصفوف المقدمۃ ویتراصون في الصف۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ،’’کتاب الصلاۃ: تفریع أبواب الصفوف، باب: تسویۃ الصفوف‘‘: ج۱، ص: ۱۰۶، رقم: ۶۶۱۰)
وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلاۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا بین مناکبہم في الصفوف، ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک: لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: (سووا صفوفکم؛ فإن تسویۃ الصف من تمام الصلاۃ)۔ (فخر الدین عثمان بن علي،  تبیین الحقائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۶۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  409

 

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 1053 Alif

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

 

Doing masah on socks made of leather is permissible. But to do masah on socks made out of leather there are few conditions to be met. i.e. The Socks must be so thick that water cannot be strained through them, they stay upright because of their thickness, and the person can walk with it about 3 miles. If the socks fulfill all those conditions then it is permissible to do Masah on them. Otherwise it will not. So, in the past, if you did mahas on common socks and performed Salah, then you have to offer those salah again as they were performed without valid wuzu. (and Allah knows best)

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 37/1184

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا  "امام اس لئے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے ، لہذا جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب قراءت کرنے لگے  تو خاموش ہوجاؤ"(بخاری 779)۔ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ جب امام اللہ اکبر کہے تو اللہ اکبر کہو اور جب قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب امام غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین کہے تو آمین  کہو  (ابن ماجہ 846)۔ حضرت جابر  سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشاد  فرمایا جب کوئی امام کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قراءت ہی اس کی قراءت ہے۔ (ابن ماجہ 85)۔ اس لئے احناف کا مسلک یہ ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہئے۔ اور اگر پڑھ لیا تو گو کراہت سے خالی نہیں مگر نماز درست ہوجائے گی۔( شامی ج2ص266)۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان

Ref. No. 39/1057

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صرف بدنظری سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے بلکہ مکروہ ہوجاتا ہے،  البتہ اگر انزال ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا لازم ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 40/913

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسلمان مسلمان کا دینی بھائی ہے اور غیرمسلم وطنی بھائی ہیں اور کچھ تو نسبی بھائی بھی ہوتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 41/1011

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کے پاس سے آنے کے بعد بھی نکاح باقی ہے اور جب شوہر طلاق دے گا اس کے بعد  عدت گزارنی ہوگی۔جن عورتوں کی ماہواری آتی ہے اور وہ حمل سے نہیں ہیں ان کی عدت تین حیض  ہے۔ طلاق کے بعد تین حیض مکمل ہونے دیں پھر کسی دوسرے  مردسے نکاح  کریں، بلاعدت گزارے دوسرے مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے۔ والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء (البقرۃ)

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 909/41-24B

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت میں مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہے،

و فی شرح الآثار  التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ والحاصل ان المذھب عدم التعزیر بالمال۔  شرح الآثار 4/61)

شریعت کے خلاف فیصلہ کرنا موجب گناہ ہے،۔ ارشاد باری ہے جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف  حکم  جاری کریں  وہ نافرمان اور سرکش ہیں۔ (المائدہ 47)

چونکہ مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہے، اس لئے وہ رقم مالک کو واپس کرنی ضروری ہے۔ مالی جرمانہ  اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1570/43-1236

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوم لون سودی قرض پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ بلا ضرورت شدیدہ سودی معاملہ کرنا اللہ تعالی اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔  اور مندرجہ بالا وجوہات کسی مجبوری کی حالت کو نہیں بتاتے، اس لئے صورت مذکورہ میں ہوم لون کی اجازت نہیں ہوگی۔ انتہائی مجبوری ، اور جان و مال کے خطرہ کے وقت  ہی اس کی گنجائش دی جاسکتی ہے ورنہ تھوڑی بہت ضرورت تو ہر ایک کو رہتی ہے۔ البتہ والد محترم کی مکان نہ بیچنے کی شرط اگر پوری نہیں ہوسکتی ہے تو کوئی حرج نہیں، اب آپ اس پلاٹ کے پورے مالک ہیں  بوقت ضرورت آپ کے لئے اس کو فروخت کرنا  بھی جائز ہے۔

﴿ يا أيها الذين اٰمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا ان كنتم مؤمنين فان لمتفعلوا فأذنوا بحرب من اللهورسوله وإن تبتم فلكم رءوس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة وأن تصدقوا خير لكم إن كنتم تعلمون﴾ ( البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ )

وفي فتاوى أبي الليث - رحمه الله تعالى - سئل أبو نصر عن رجل قال لآخر: أبرأتك عن الحق الذي لي عليك على أني بالخيار، قال: البراءة جائزة والخيار باطل، ألا يرى أنه لو وهب له شيئا على أنه بالخيار جازت الهبة وبطل الخيار فالبراءة أولى، كذا في المحيط. (الھندیۃ، الباب الثامن فی حکم الشرط فی الھبۃ 4/396)  ولو قال هي لك عمرى تسكنها أو هبة تسكنها أو صدقة تسكنها ودفعها إليه فهو هبة لأنه ما فسر الهبة بالسكنى لأنه لم يجعله نعتا فيكون بيانا للمحتمل بل وهب الدار منه ثم شاوره فيما يعمل بملكه والمشورة في ملك الغير باطلة فتعلقت الهبة بالعين (بدائع، فصل فی شرائط رکن الھبۃ 6/118)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند