Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1078

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Blood donattion is allowed but taking charge is not allowed.

If a patient is in critical condition and there is no option left except for blood transfusion then it is allowed to donate blood only as much as required. But the donor is not allowed to charge the patient for it. Moreover, donating organs of human beings is not allowed. It must be noted that all the organs of a human being are in full possession of Allah (swt) and they are not in his/her ownership in order that he/she can treat with them as they like. Human beings have no right to utilise them in accordance with his free will.

ولا يجوز بيع شعور الإنسان ولا الانتفاع بها" لأن الآدمي مكرم لا مبتذل فلا يجوز أن يكون شيء من أجزائه مهانا ومبتذلا )ہدایہ 3/46) کسر عظم المیت ککسرہ حیا (سنن ابی داؤد حدیث 3207)۔

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 911/41-23B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سرکاری ملازمت کی وجہ سے ماہانہ تنخواہ مقرر ہوگی، اس لئے یہ کمیشن لینا یقینا رشوت ہے اور رشوت کا لین دین شریعت کی نطر میں حرام  اور گناہ کبیرہ ہے۔ اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اور اگرمجبوری  میں لے لیا ہو تو  بلانیت ثواب غرباء میں صدقہ کردے۔

ولاتاکلوا اموالکم  بینکم بالباطل  وتدلوا بھا الی الحکام لتاکلوا فریقا من اموال الناس بالاثم وانتم تعلمون (البقرۃ 188)

آپ ﷺ نے فرمایا رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ کی لعنت برستی ہے (ابن ماجہ) ایک اور حدیث میں ہے رشوت لینے و دینے والا دونوں دوزخ میں جائیں گے۔ (طبرانی)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1839/43-1670

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دیگر کتب سماویہ کو کلام اللہ کہنا حقیقۃً  درست نہیں ہےالبتہ مجازا ان کو بھی کلام اللہ کہاجاسکتاہے۔  کیونکہ کلام اللہ ازلی وابدی ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے اٹھائی ہے، جو تغیروتبدل سے پاک ہے ، جو چیلینج کرتاہوا آیاہے،  اور وہ محفوظ بھی ہے جبکہ دیگر کتب سماویہ غیرمحفوظ ہیں اور ان کی اصل عبارات  فنا ہوگئیں ۔ قرآن و حدیث میں قرآن کو ہی کلام اللہ کہاگیاہے، دیگر کتب سماویہ کو کلام اللہ نہیں کہاگیاہے۔ قرآن کریم بعینہ اللہ کا کلام ہے جبکہ دیگر کتب سماویہ کا مضمون من جانب اللہ ہے، ان کی حیثیت حدیث قدسی کی سی ہے ۔ ان کا مضمون اللہ کی جانب سے ہے اس لئے ان کو کتاب اللہ کہاجاتاہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2043/44-2136

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحومہ نے جو کچھ زمین و جائداد و روپیہ پیسہ چھوڑا ہے،  اس کو کل بیس (20) حصوں میں تقسیم کریں، جن میں سے پانچ حصے مرحومہ کے شوہرکو ، چھ 6 حصے ہر ایک بیٹے کو اور تین حصے بیٹی کو ملیں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس رونمائی سے معاشرے پر غلط اثر پڑتا ہے؛ اس لئے اس کی نمائش درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) وعن جندب رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع الندبۃ ومن یرائی یرائي اللّٰہ بہ، متفق علیہ۔( مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الریاء والسمعۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۴)
قال نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یقبل اللّٰہ عزوجل عملا فیہ مثقال ذرۃ من ریاء (اتحاف السادۃ المتقین، ’’کتاب ذم الجاہ والریاء‘‘:ج ۱۱، ص: ۷۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص437

اجماع و قیاس
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں۔(۱) (۱) حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: …سب سے پہلا اجماع جو اس امت میں منعقد ہوا وہ مسیلمہ کذاب کے قتل پر اجماع تھا، جس کا سبب صرف اس کا دعویٰ نبوت تھا، اس کی دیگر گھناؤنی حرکات کا علم صحابہؓ کرام کو اس کے قتل کے بعد ہوا تھا، جیسا کہ ابن خلدون نے نقل کیا ہے۔ (خاتم النبیین مترجم: ص: ۱۹۷) محمد إدریس کاندھلوی، احتساب قادیانیت: ج ۲، ص: ۱۰۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص166

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس طرح واش بیسن میں چہرہ اور ہاتھ دھونے اور ناک صاف کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور اس کو کوئی برا نہیں سمجھتا اسی طرح پیر دھونے میں بھی کوئی برائی نہیں ہے؛ تاہم جب لوگوں کو اعتراض ہو، تو احتیاط کرنی چاہئے اور کوئی متبادل تلاش کرنا چاہئے، آفس والوں کے ساتھ اختلاف اچھی بات نہیں ہے، اب ایک شکل تو یہ ہے کہ آپ بوتل میں پانی لے کر پیر کسی اور جگہ دھو لیا کریں؛ دوسری شکل یہ ہے کہ خفین پہن کر آفس جائیں اور خفین پر مسح کر لیا کریں؛ البتہ صرف لوگوں کے اعتراض کی وجہ سے پانی کے موجود ہوتے ہوئے پیروں پر مسح یا تیمم کی اجازت نہیں ہوگی۔
’’قال تعالیٰ: {فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْداً طَیِّبًا}(۱)
’’لقولہ علیہ السلام: یمسح المقیم یوماً ولیلۃ والمسافر ثلثۃ أیام ولیالیہا‘‘(۲)

(۱) سورۃ المائدۃ: ۶۔
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص194

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس شخص پر غسل واجب ہے اور وہ شخص سخت گناہ گار ہے، اس کو اس فعلِ بد سے توبہ لازم ہے؛ ایسا عمل شریعت کی نگاہ میں انتہائی ناپسندیدہ اور قابل مؤاخذہ ہے۔(۱)

(۱) یفترض الغسل بواحد من سبعۃ أشیاء أولھا خروج المنی إلی ظاھر الجسد… و منھا إنزال المني بوطئ میتۃ أو بھیمۃ۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، فصل ما یوجب الاغتسال،‘‘ ج۱، ص:۹۶-۹۸ ،  دارالکتاب دیوبند) و قیدنا بکونہ في قبل إمرأۃ لأن التواري في فرج البھیمۃ لا یوجب الغسل إلا بالإنزال۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۰۹)؛ و الإیلاج في البھیمۃ لا یوجب الغسل بدون الإنزال (عالم بن العلاء، لفتاویٰ التاتارخانیہ، بیان أسباب الغسل، ج۱، ص:۲۷۹، مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص287

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی عورت جو مستقل ماہواری کی پریشانی میں ہو اور حیض بند نہ ہوتا ہو، تو ہرماہ دس دن حیض کے شمار ہوں گے، اور باقی استحاضہ یعنی بیماری کے ہوں گے، حیض کے دنوں میں بیوی سے نہ ملے، اس کے علاوہ کے دنوں میں یعنی استحاضہ کے باوجود اپنی بیوی سے صحبت کرنا درست ہے۔ ’’فالعشرۃ من أول ما رأت حیض والعشرون بعدذلک طھرھا‘‘(۲)  البتہ استحاضہ جو شرعی وطبعی عذر ہے، محض اس کی وجہ سے طلاق دینا بہتر نہیں ہے، ایسی حالت میں دوسری شادی کرنا بھی جائز ہے۔(۱)

(۲) الکاساني،بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل: في تفسیر الحیض، والنفاس، والاستحاضۃ، دم الحامل لیس بحیض‘‘ ج۱، ص:۱۶۱۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص386

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مدرس نے جعلی کاپیاں چھپوائی، پھر جانچ کے وقت ان کو یہ پھاڑ ڈالا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے کاپیاں جعلی چھپوائی تھی اس نے اس سے چندہ بھی کیا ہوگا ان کاپیوں پر اگر چندہ کیا گیا ہے تو مدرسہ کے ذمہ دار ان کو یہ شرعاً بالکل حق نہیں تھا اور نہ ہے کہ وہ اس رقم کو معاف کردیں؛ اس لیے کہ یہ ان حضرات کی ذاتی رقم نہیں ہے وہ رقم مدرسہ کی ہے جس کے معاف کرنے کا ان کو کوئی حق نہیں ہے، رقم پوری لی جائے یا ماہ بماہ تنخواہ سے وضع کی جائے(۱) اور یہ مدرس اپنی سچی توبہ واستغفار کا اعلان کردے تو مدرسہ کے ذمہ دار ان کو حق ہے کہ اس
کی خیانت کو معاف کرکے دو بارہ مدرس رکھیں؛(۲) لیکن رقم کا لینا لازم ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ آئندہ اس پر نظر رکھیںاس کو اس طرح خیانت کرنے کا موقعہ نہ ملے پس توبہ و استغفار کے اعلان کے بغیر اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔(۳)

(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ التوبہ: ۳۴)
{ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ النساء: ۲۹)
(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب التوبۃ‘‘:  ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۳) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص168