نکاح و شادی

Ref. No. 2179/44-2292

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے انعقاد کے لئے ایجاب و قبول کا ایک ہی مجلس میں ہونا ضروری ہے۔ اس لئے لڑکا اور لڑکی دو الگ الگ جگہوں پر ہوں اور ویڈیو کال پر نکاح کریں تو نکاح درست نہیں ہوگا۔ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ لڑکا  یا لڑکی  کسی کواپنا وکیل بنادیں اور وہ مجلس نکاح میں موجود ہو وہ غائب شخص کی جانب سے  نکاح کو قبول کرے ۔ اس طرح ایک اصیل اور ایک وکیل کی موجودگی میں دوگواہوں کے سامنے نکاح منعقد ہوجائے گا۔

قال الحصكفي ؒ: "ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين."

قال ابن عابدين ؒ: "(قوله: لو حاضرين) احترز به عن كتابة الغائب، لما في البحر عن المحيط الفرق بين الكتاب والخطاب أن في الخطاب لو قال: قبلت في مجلس آخر لم يجز وفي الكتاب يجوز؛ لأن الكلام كما وجد تلاشى فلم يتصل الإيجاب بالقبول في مجلس آخر فأما الكتاب فقائم في مجلس آخر، وقراءته بمنزلة خطاب الحاضر فاتصل الإيجاب بالقبول فصح. اهـ." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/14، دار الفكر)

قال الحصكفي ؒ: "(وشرط سماع كل من العاقدين لفظ الآخر) ليتحقق رضاهما."

علق عليه ابن عابدين ؒ في حاشيته: "(قوله: سماع كل) أي ولو حكما كالكتاب إلى غائبة؛ لأن قراءته قائمة مقام الخطاب كما مر." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/21، دار الفكر)

قال الحصكفي ؒ:" (و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين)۔۔۔."

قال ابن عابدينؒ: " قال في الفتح: ومن اشترط السماع ما قدمناه في التزوج بالكتاب من أنه لا بد من سماع الشهود ما في الكتاب المشتمل على الخطبة بأن تقرأه المرأة عليهم أو سماعهم العبارة عنه بأن تقول إن فلانا كتب إلي يخطبني ثم تشهدهم أنها زوجته نفسها. اهـ." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/23، دار الفكر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ طریقہ غیر اسلامی ہے، اہل سنت والجماعت کے عقیدے اور طریقہ کے خلاف اور بدعت ہے، اسلامی طریقہ تو یہ ہے کہ ساتویں دن بچے کا عقیقہ کیا جائے یعنی اللہ کے نام پر قربانی بچے کی طرف سے کی جائے اور اس کے بال کٹواکر اس کے وزن کے مطابق چاندی غرباء پر تقسیم کی جائے اس کے علاوہ مذکورہ فعل مشرکانہ ہے جو بالکل بے اصل ہے طریقۂ سنت کو چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کرنا بدعت اور باعث گناہ ہے ایسی غلط باتوں اور رسموں سے ہر مسلمان پر پرہیز کرنا لازم ہے۔ (۱) ۱) وأما النذر الذي ینذرہ أکثر العوام علی ما ہو مشاہد کأن یکون لإنسان غائب أو مریض، أو لہ حاجۃ ضروریۃ فیأتي بعض الصلحاء فیجعل سترہ علی رأسہ فہذا النذر باطل بالإجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: باب ما یلزم الوفاء بہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۹۳) إن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقرباً إلیہم فہو بالإجماع باطل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص331

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی کے انتقال پر تیجہ، دسواں ورسم اور اس کے بعد دعوت وغیرہ کا اہتمام، اس کے لئے مردو عورتوں کا اجتماع، یہ سب بدعت و گمراہی ہے۔ جس سے بچنا لازم اور ضروری ہے جو حضرات اسے جلسہ تعزیت کہتے ہیں وہ سوچیں کہ کیا جلسہ تعزیت کے لیے و خاص تاریخ اور خاص وقت کی تعیین کو لازم سمجھنا اور اس کا التزام کہیں سے ثابت ہے، اگر بغیر کسی التزام دن و وقت جلسہ تعزیت ہو، تو اس کو کون منع کرتا ہے، لیکن غیر لازم کو لازم سمجھنا اور ان کو دین و شریعت کا کام سمجھ کر کرنا ان سب پر اصرار اس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن جریر بن عبد اللّٰہ البجليِّ قال: (کنا نعد الاجتماع إلی أہل المیت وصنیعۃ الطعام بعد دفنہ من النیاحۃ۔ (أخرجہ أحمد، مسندہ، ’’مسند عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۵، رقم: ۶۹۰۵)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱) ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ومنہا الوصیۃ من المیت باتخاذ الطعام والضیافۃ یوم موتہ أو بعدہ وبإعطاء دراہم لمن یتلو القرآن لروحہ أو یسبح أو یہلل لہ وکلہا بدع منکرات باطلۃ، والمأخوذ منہا حرام للآخذ، وہو عاص بالتلاوۃ والذکر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۸
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص422
 

Fiqh

Ref. No. 2537/45-3874

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

1. If someone has an illness that makes it impossible to fast, or fasting threatens his life or the disease is feared to be aggravated or you are a Musafir, in all these cases, the Shariah has allowed him not to fast and make up for them later on. . You should describe your situation in detail so that the Shariah ruling can be found out for you.

2. If you need more time to stop urine dripping, start your preparation accordingly. Purity is compulsory for prayer, and if it takes you a long time to attain purity, you have to spend more time to attain purity. There is no room for you in this regard. You should also get it treated by a specialist.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس وقت ہاتھ اٹھانا اور آمین کہنا ممنوع ہے کیونکہ اس کا ثبوت خیر القرون میں نہیں ملتا ۔ ’’وما یفعلہ المؤذنون حال الخطبۃ من الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم والترضی من الصحابۃ والدعاء للسلطان بالنصر ینبغی أن یکون مکروہاً اتفاقاً‘‘۔(۱)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۴۔
قولہ: (یصلی سراً) بحیث یسمع نفسہ کذا آفادہ القہستاني وفي الشرح عن الحسامي یصلی في نفسہ وفي الفتح عن أبي یوسف ینبغي في نفسہ لأن ذلک مما لا یشغلہ عن سماع الخطبۃ فکان إحرازاً للفضیلتین وہو الصواب۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۹)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص358

طہارت / وضو و غسل
ناخن، سر کے بال، بغل کے بال، زیر ناف کے بالوںکو کاٹنے کے بعد کہاں پھینکنا چاہیے؟ (۲۷)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: ناخن، سر کے بال، بغل کے بال، زیر ناف کے بالوں، کو کاٹنے کے بعد ان کو کہیں بھی پھینک دیں یا ان کو کہیں زمین میں یا کہیں صاف جگہ دبا دیں؟ ذرا تفصیل سے سمجھا دیں۔ فقط: والسلام المستفتی: محمدعبد اللہ، حیدرآباد

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت زندگی کے تمام مراحل میں اعتدال کو پسند کرتی اور اسی کی ترغیب دیتی ہے، بے اعتدالی کو شریعت ناپسند کرتی ہے، افراط وتفریط اسلامی مزاج کے خلاف ہے، پانی کے استعمال میں بھی اس امر کی تاکید کی گئی ہے کہ وضو وغسل وغیرہ میں پانی ضرورت کے بقدر ہی استعمال کیا جائے، مطلوبہ مقدار سے زیادہ پانی استعمال کرنا اسراف اور کم استعمال کرنا تقتیر کہلاتا ہے۔ شریعت میں اسراف بھی ناپسندیدہ ہے اور تقتیر بھی کراہت کے زمرہ میں ہے۔
’’کما یکرہ الإسراف في الوضوء کراہۃ تنزیہیۃ کذلک التقتیر کراہۃ تنزیہیۃ والتقتیر عند الحنفیۃ ہو أن یکون تقاطر الماء عن العضو المغسول غیر ظاہر‘‘(۱)
اگر کوئی شخص وضو یا غسل میں مطلوبہ پانی سے کم استعمال کرتا ہے، تو وہ تقتیر ہے اور اگر مطلوبہ مقدار سے زیادہ استعمال کرتا ہے، تو وہ اسراف ہے، پانی کی فراوانی کی صورت میں لوگ زیادہ غفلت کرتے اور اسراف سے کام لیتے ہیں، یہ صورت ناپسندیدہ اور ممنوع ہے، روایت ہے:
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر بسعد، وہو یتوضأ، فقال: ما ہذا السرف، فقال: أ في الوضوء إسراف؟ قال: نعم: وإن کنت علی نہر جار‘‘(۲)
وضو وغسل میں میانہ روی کے لئے پیمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد یعنی تقریباً ساڑھے چھ سو گرام پانی سے وضو اور ایک صاع یعنی تقریباً چھبیس سو گرام پانی سے غسل فرما یا کرتے تھے۔
’’إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یتوضأ بالمد ویغتسل بالصاع، فقیل لہ: إن لم یکفنا فغضب وقال لقد کفی من ہو خیر منکم وأکثر شعراً‘‘(۳)
تاہم وضو وغسل وغیرہ میں پانی کے استعمال میں یہ مقدار لازمی وحتمی نہیں ہے؛ بلکہ ادنیٰ کفایتی مقدار کا بیان ہے، حسبِ ضرورت وحسبِ موقع اس میں اس حد تک کمی یا اضافہ درست ہے کہ وہ اسراف یا تقتیر کے تحت نہ آ جائے۔
’’ثم ہذا التقدیر الذي ذکرہ محمد من الصاع والمد في الغسل والوضوء لیس بتقدیر لازم بحیث لا یجوز النقصان عنہ أو الزیادۃ علیہ بل ہو بیان مقدار أدنی الکفایۃ عادۃ‘‘(۱)
حاصل کلام یہ ہے کہ وضو وغسل میں اتنا پانی استعمال کرنا چاہئے جس سے وضو وغسل مکمل طور پر درست ہوں اور اطمینان حاصل ہو جائے، اس سے کم پانی استعمال کرنا پسندیدہ نہیں ہے، اسی طرح ضرورت سے زیادہ پانی استعمال نہیں کرنا چاہئے کہ یہ اسراف اور مکروہ ہے۔
 

(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: مباحث الوضوء، مکروہات الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۷۶۔
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ وسننہا: باب ما جاء في القصد في الوضوء وکراہیۃ التعدي فیہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ’’کتاب الطہارۃ: آداب الغسل‘‘ج ۱، ص: ۱۴۴۔
(۱) أیضاً: ج ۱، ص: ۱۴۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص165

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :(۱) مقیم (غیر مسافر) کے لیے ایک دن ایک رات (۲۴؍ گھنٹے) اور مسافر شرعی کے لیے تین دن تین رات خفین پر مسح کرنے کی شرعاً اجازت ہے ’’عن المغیرۃ قال آخر غزوۃ غزونا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أمرنا أن نمسح علی خفافنا للمسافر ثلثۃ أیام ولیالیہن وللمقیم یوم ولیلۃ‘‘ (۱)
(۲) جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، ان تمام چیزوں سے مسح بھی ٹوٹ جاتا ہے؛ اس لیے جب سو گیا، تو وضو کے ساتھ مسح بھی ٹوٹ گیا۔ اگر وضو کیا مسح نہیں کیا، تو وضو درست نہیں ہوگا۔ ’’وینقض المسح کل شيء ینقض الوضوء لأنہ بعض الوضوء‘‘ (۲)
(۳) جو موزہ چمڑے کا نہ ہو؛ لیکن ایسا موٹا اور دبیز ہو کہ پیر کی کھال نظر نہ آتی ہو اور اس میں پانی نہ چھنتا ہو اور اس کو پہن کر بغیر جوتے کے میل بھر چلنا بھی دشوار نہ ہو، تو ایسے موزہ پر بھی مسح کرنے کی شرعاً اجازت ہے۔ کیوںکہ اصل میں چمڑے کے موزے پر مسح کرنا جائز ہے، اس لیے یہ شرطیں اگر کسی اور موزے میں پائی جائیں، تو وہ خفین کے مشابہ ہوگا اور اس پر بھی مسح درست ہوگا۔
     ’’ولا یجوز المسح علی الجوربین عند أبي حنفیۃ إلا أن یکونا مجلدین أو منعلین وقالا یجوز إذا کانا ثخینین لایشفان لما روي أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسح علی جوربیہ۔ وعنہ أنہ رجع إلی قولہما وعلیہ الفتویٰ‘‘ (۱)
(۴) جوتا نکالے بغیر جوتے پر مسح کرنے سے خفین پر مسح شمار نہ ہوگا؛ کیوںکہ جوتا پیروں کا بدل نہیں بن سکتا؛ لہٰذا جوتا نکال کر خفین پر ہی مسح کرنا ضروری ہوگا۔ اگر کوئی خفین پر مسح کر کے جوتے پر بھی مسح کرلے، تو اس میں حرج نہیں؛ لیکن صرف جوتوں پر مسح کرنا اور خفین پر مسح ترک کر دینا درست نہیں۔
 ’’عن المغیرۃ ابن شعبۃ قال توضأ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومسح علی الجوربین والنعلین(۲) ولو کان الجرموق (الخف الذي یلبس فوق الخف) من کرباس لا یجوز المسح علیہ لأنہ لا یصلح بدلا عن الرجل إلا أن تنفذ البلۃ إلی الخف‘‘ (۳)

(۱)الطبراني، الداریۃ في تخریج أحادیث الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم،‘‘ ج۱، ص: ۵۶ (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان، مکتبہ شاملہ)
(۲)المرغینانی، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص: ۵۹
(۱)ایضاً، ج ۱، ص: ۶۱
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب في المسح علی الجوربین والنعلین،‘‘ ج۱، ص: ۲۹ (مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۳) المرغینانی، الہدایۃ، کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، ج۱، ص: ۶۱

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص268

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر واقعی طور پر ایسا کیا ہے تو زید گناہگار ہے؛ کیوں کہ اس کے لیے پانچ ماہ کے حمل کو ضائع کرا دینا جائز نہیں تھا پس زید پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے اس گناہ سے توبہ کرے اور اگر زید نے لا علمی میں ایسا کیا ہے تب بھی زید پر ضروری تھا کہ کسی معتمد عالم یا مفتی سے معلوم کر لیتا پھر اس کے مطابق عمل کرتا بہر حال اگر زید نے اللہ تعالیٰ سے سچی پکی توبہ کرلی تو اس کا گناہ ختم ہونے کی بناء پر اس کی امامت درست اور جائز ہے اور اگر وہ اپنے اس عمل کو صحیح کہتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے اور توبہ بھی نہیں کرتا تو پھر چوں کہ وہ گناہگار ہے

(۱) رجل أم قوماً وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک، وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)
ومن یعمل سوء اً أو یظلم نفسہ ثمَّ یستغفر اللّٰہ یجد اللّٰہ غفوراً رحیماً (سورۃ النساء: ۱۱۰)، ففي ہذہ الآیۃ دلیل علی حکمین: أحدہما أن التوبۃ مقبولۃ عن جمیع الذنوب الکبائر والصغائر لأن قولہ: ومن یعمل سوء اً أو یظلم نفسہ عم الکل، والحکم الثاني أن ظاہر الآیۃ یقتضي أن مجرد الاستغفار کاف، وقال بعضہم: إنہ مقید بالتوبۃ لأنہ لا ینفع الاستغفار مع الإصرار علی الذنوب۔ (ابن کثیر، تفسیر الخازن، ’’سورۃ النساء: ۱۱۰‘‘ ج۱، ص: ۴۲۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص141

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: عذر کی وجہ سے اگر رکوع کا سنت طریقہ مکمل طور پر نہ ہو پائے اور رکوع اصلاً ہو رہا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں نماز اور امامت درست ہے(۱) مذکورہ صورت میں کوئی کراہت نہیں۔(۲)

(۱) المشقۃ تجلب التیسیر۔ (ابن نجیم، الاشباہ، ج۱، ص: ۱۶)
(۲) و إذا لم یقدر علی القعود مستویا وقدر متکئاً أو مستنداً إلی حائط أو انسان یجب أن یصلی متکئاً أو مستنداً ۔۔۔۔۔ ولا یجوز لہ أن یصلي مضطجعاً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع عشر في صلاۃ المریض‘‘: ج۱، ص: ۱۹۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص236