نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قبلہ مشتبہ ہونے کی صورت میں بلا تحری نماز پڑھنا درست نہیں، لیکن اگر پڑھ لی اور بعد میں معلوم ہوا کہ صحیح سمت میں پڑھی ہے، تو نماز ہو گئی اعادہ کی ضرورت نہیں، آپ نے جن کتابوں کے حوالے دئے ہیں وہ بھی درست ہیں۔
’’وإن شرع بلا تحر لم یجز وإن أصاب لترکہ فرض التحري إلا إذا علم إصابتہ بعد فراغہ فلا یعید اتفاقاً‘‘(۱)
’’فلو صلی من اشتبہ علیہ حالہا بلا تحری أعادہا لترک ما افترض علیہ من التحري إلا إذا علم أنہ أصاب بعد الفراغ لحصول المقصود‘‘(۲)
’’قولہ: اجتہد فلو صلی من اشتبہت علیہ بلا تحری فعلیہ الإعادۃ إلا إن علم بعد الفراغ أنہ أصاب‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب مسائل التحري في القبلۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۱۹۔
(۲) أبوالبرکات، عبداللّٰہ بن أحمد النسفي، حاشیہ کنز الدقائق: ص: ۲۱، مکتبہ: تھانوی، دیوبند۔
(۳) المرغیناني، حاشیہ ہدایہ: ج ۱، ص: ۹۷، حاشیہ: ۷،یاسر ندیم، کمپنی، دیوبند۔
وإن اشتبہت علیہ القبلۃ ولیس بحضرتہ من یسألہ عنہا اجتہد وصلیّ، کذا في الہدایۃ فإن علم أنہ أخطأ بعد ما صلیّ لا یعیدہا وإن علم ہو في الصلاۃ استدار إلی القبلۃ وبنی علیہا، کذا في الزاہدي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، زکریا، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص269

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں قیام کی حالت میں دونوں کے درمیان چار انگشت کے بقدر جگہ رکھنا افضل ہے اور یہ خشوع کے زیادہ قریب ہے شامی میں ہے ’’لأنہ أقرب إلی الخشوع‘‘ (۱) یہ افضلیت عام حالات میں ہے اگر کسی کو اس سے زیادہ فاصلہ رکھنے میں سکون ملے کہ کوئی موٹے جسم کا لحیم شحیم ہو تو اس کے لیے وہی افضل ہے جس میں اس کو سکون حاصل ہو اور خشوع و خضوع پایا جاسکے۔(۲)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص:۱۳۱۔
(۲) عن أبي عبیدۃ قال: مر ابن مسعود برجل صاف بین قدمیہ، فقال: أما ہذا فقد أخطأ السنۃ، لو راوح بہما کان أحب إلي۔ (أخرجہ عبد الرزاق الصنعاني في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، رقم: ۳۳۰۶)

عن عیینۃ بن عبد الرحمن، قال: کنت مع أبي في المسجد، فرأی رجلاً صافاً بین قدمیہ، فقال: الزق إحداہما بالأخری، لقد رأیت في ہذا المسجد ثمانیۃ عشر من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ما رأیت أحداً منہم فعل ہذا قط۔ (أخرجہ مصنف ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ من کان راوح بین قدمیہ في الصلاۃ: ج ۲، ص: ۱۰۹، رقم: ۷۰۶۳)
وقال الکمال: وینبغي أن یکون بین رجلیہ حالۃ القیام قدر أربع أصابع۔ (فخر الدین بن عثمان، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیۃ الشلبي، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴)
ویسن تفریج القدمین في القیام قدر أربع أصابع؛ لأنہ أقرب إلی الخشوع۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۹۸)
وینبغي أن یکون بینہما مقدار أربع أصابع الید؛ لأنہ أقرب إلی الخشوع، ہکذا روي عن أبي نصر الدبوسي إنہ کان یفعلہ، کذا في الکبری۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱)
ویکرہ أن یلصق إحدی قدمیہ بالأخری في حال قیامہ؛ لما روي الأثرم،  عن عیینۃ بن عبد الرحمن، قال: کنت مع أبي في المسجد، فرأی رجلاً یصلي، قد صف بین قدمیہ، وألزق إحداہما بالأخری، فقال أبي: لقد أدرکت في ہذا المسجد ثمانیۃ عشر رجلاً من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما رأیت أحداً منہم فعل ہذا قط۔ وکان ابن عمر لا یفرج بین قدمیہ ولا یمس إحداہما بالأخری، ولکن بین ذلک، لا یقارب ولا یباعد۔ (ابن قدامۃ، المغني: ج ۲، ص: ۹)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  414

اسلامی عقائد

Ref. No. 1055 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اقتصادیات اور اس میں بھی بالخصوص غلہ کی شریعت اسلامیہ میں بڑی اہمیت ہے، اور اقتصادیات کی ترقی کے لیے یونین بنانا اور ایک نظام کے مطابق چلنا بہت بہتر ہے۔ لیکن تمام کا مقصد یہی ہونا چاہئےکہ اقتصادی حالت بہتر سے بہتر ہو۔ فخرومباہات اور اپنی ہرجائز و ناجائز بات کو دوسروں پر نافذکرنا اس کے لیے بہرحال مضر ہے۔ یونین کو چاہئے کہ صرف تعمیری جائز امور کو نافذ کرنے کی کوشش کرے، ناجائز و جابرانہ رویہ اختیار نہ کیاجائے ۔ اور ناجائز امور میں یونین کی باتوں کو ماننا درست نہیں ہے۔ ترک روابط صرف انھیں صورتوں میں درست ہے جب کوئی تخریبی وناجائز کام میں لگا ہواہو بصورت دیگرایساکرنادرست نہیں ہے۔ ولاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار، الآیة۔ وتعاونوا علی البر والتقوی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان ، الآیة۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 796

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:   جمعہ  کے روز سرمہ لگانا مسنون نہیں ہے ؛البتہ لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

Ref. No. 39 / 824

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔احادیث کی معتبر کتابوں میں اس کا ذکر ہمیں نہیں ملا۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 41/848

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے گروپ میں شامل ہوکر اپنی  نیکی کا اظہار کرنا درست معلوم نہیں ہوتا ۔ ہرشخص  خاموشی اور اخلاص کے ساتھ  پڑھے، ریاکاری وغیرہ امور عبادت کے ثواب کو ضائع کردیتے ہیں۔ اس لئے بچنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1012

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

The hadith mentioned in the question is ‘Sahih’. It is narrated by Imam Ibne Majah, Imam Ahmad, Abu Dawood, Tirmizi, Nasai, and Muwatta. Imam Tirmizi remarked that this Hadith is Hasan. Imam Hakim and Zahabi also have the same remark. (مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ 7/329(

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 917/42-483

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سوال میں مذکور وضاحت کے مطابق تجارت کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس کا خیال رکھا جائے کہ ایسی کوئی چیز نہ ہو جو نزاع کا باعث بنے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 1120/42-346

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Wash the clothes and bed sheets with pure water and repeat the prayers performed in those impure clothes.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

روزہ و رمضان

Ref. No. 1345/42-730

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔  اس طرح کی قسم منعقد بھی نہیں ہوگی، اور جب قسم ہوئی ہی نہیں تو اس کو توڑنے پر کوئی کفارہ بھی لازم نہیں ہوگا۔ البتہ  اگر کوئی گناہ کا کام نہ ہو بلکہ جائز کام ہو اور اس میں  کسی چیز کا وعدہ ہو  تو بطور وعدہ پورا کرنے کے اس کام کو کرنا جائز ہوگا۔ اور وعدہ پورا کرنا بھی قرآن کا حکم ہے۔  اس لئے اگر کوئی کسی بات کے لئے ایسی قسم کھالے تو گرچہ قسم کھانا غلط ہے مگر اس کام کو کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ جیسے ماں سے بیٹے نے کہا کہ آپ کے سر کی قسم میں اس جمعرات کو ضرور آؤں گا۔ تو گرچہ یہ قسم جائز نہیں ہے لیکن اس ضمن میں جو والدہ  سے جمعرات کو آنے کا وعدہ ہے  اس کو پورا کرنا چاہئے۔  

قال: ومن حلف بغير الله تعالى لم يكن حالفا كالنبي والكعبة، لقوله - عليه الصلاة والسلام - " من كان منكم حالفا فليحلف بالله أو ليذر" (شامی ، کتاب الایمان 3/712) "عن عبداللہ ابن عمر  عن النبی ﷺ انہ قال :"من کان حالفاً فلیحلف بالله أو لیصمت". ( بخاری ومسلم) "وعنہ قال : قال رسول الله ﷺ :  من حلف بغیر الله فقد أشرک".( الترمذی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند