متفرقات

Ref. No. 1838/43-1669

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استقرار حمل کے بعد اگر کوئی خاص وجہ نہ ہو تو ایک مہینہ کے حمل کو بھی ضائع کرناجائز نہیں ہے۔  البتہ اگر کوئی معقول وجہ ہو جیسے کہ حمل سے عورت کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہویا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کو نقصان ہوتو ایسی مجبوری کی صورتوں میں  ابھی ابتدائی مرحلہ میں  اسقاط  حمل کی گنجائش ہے۔

"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج. (قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم! يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح. وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح۔ (شامی،  مطلب فی اسقاط الحمل، باب نکاح الرقیق، 3/176ط؛ سعید)

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل." (الموسوعة الفقهیة الکویتیة 30/285)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ عقائد قرآن وحدیث کے صریح خلاف ہیں اور اگر مذکورہ شخص واقعۃً ایسے عقائد رکھتا ہے تو وہ خارج از اسلام ہے اس پر تجدید ایمان ضروری ہے۔(۱)

 

(۱) وإنَّ محمدعبدہ ورسولہ وأمینہ علی وحیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم …… وإن الجنۃ حق وإن النار حق وإن میزان حق وإن الحساب حق وإن الصراط حقٌّ وإن الساعۃ آتیۃ لاریب فہا وإن اللّٰہ یبعث من في القبور۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الشروط: الفصل العشرون في الوصیۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۶)

وفي البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعبا کفر عند الکلِّ ولا اعتبار باعتقادہ …… ومن تکلم بہا عالما عامداً کفر عند الکلِّ۔ (ابن عابدین، رد المختار علی الدر المختار، کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)

 

رجل کفر بلسانہ طائعا وقلبہ مطمئنٌ بالإیمان یکون کافراً ولا یکون عند اللّٰہ مؤمناً کذا في فتاوی قاضي خان، (جماعۃ من علماء الھند، الفتاوی الھندیۃ ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳) وکذا الرجل إذا ابتلی بمصیبات متنوِّعۃ فقال أخذت مالی وأخذت ولدي وأخذت کذا وکذا فما ذا نفعل و ما ذا بقی لم تفعلہ و ما أشبہ ہذا من الألفاظ فقد کفر، کذا في المحیط۔ (أیضا:، ’’ومنہا ما یتعلق بالحلال والحرام‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)

دار الافتاء

 دار العلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2343/44-3527

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    صورت مذکورہ میں بھائی کوچاہئے کہ اپنی بہن سے وقتی طور پر قطع تعلق کرلے تاکہ وہ اپنے گناہ سے باز آجائے اور اس کی اصلاح ہوسکے۔ البتہ اگر قطع تعلق سے اس کے مزید بگڑنے کااندیشہ ہو تو اس سے قطع تعلق نہ کیا جائے، بلکہ  وقتًا فوقتًا اس کو حکمت سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔

" أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر و هو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها."

(فتح الباری شرح صحیح البخاری،قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، 10/497،ط:دارالمعرفۃ بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ عنہا میں شادیوں کے موقعہ پر عورتوں کا اس قسم کا اجتماع نیک اعمال نماز وغیرہ سے روکنے والا اور بے پردگی وفحش گوئی (جو حرام ہے) تک پہونچا دینے والا ہے؛ اس لیے عورتوں کا مجمع حرام اور ناجائز ہوگا، جن سے ہر مسلمان عورت کے لئے پرہیز لازم ہے۔ (۱)

(۱) في شرح الکرخي النظر إلی وجہ الأجنبیۃ الحرۃ لیس بحرام ولکنہ یکرہ کغیر حاجۃ وظاہرہ الکراہۃ ولو بلا شہوۃ قولہ: (وإلا فحرام) أي إن کان عن شہوۃ حرام قولہ (وأما في زماننا فمنع من الشابۃ) لا لأنہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في النظر والمس‘‘: ج ۹، ص: ۵۳۲)
ولا یحل لہ أن یمس وجہہا ولا کفہا وإن کان یأمن الشہوۃ وہذا إذا کانت شابۃ تشتہي فإن کانت لا تشتہي لا بأس بمصافحتہا ومس یدہا کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثاني: فیما یحل للرجل النظر إلیہ، وأما النظر إلی الأجنبیات‘‘: ج ۵، ص: ۳۸۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص435

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جشن میلاد النبی کا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد سلف صالحین میں کوئی رواج نہیں رہا اور نہ ہی اسے قربت و طاعت قرار دیا گیا اب کچھ جگہوں پر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جشن منایا جانے لگا اس تکلیف دہ صورت حال پر کنڑول کے لئے علماء کرام نے وعظ و خطاب کو اختیار کیاجس کی برکت سے اس صورت حال پر کافی حد تک کنٹرول ہوا لہٰذا جشن میلاد غیر شرعی و بدعت ہے اور اس میں ڈھول باجا وغیرہ ناجائز ہے، نیز وعظ و خطاب کے لئے ثواب سمجھ کر اور جشن کی وجہ سے اسی رات کی تعیین بھی درست نہیں۔(۱)

(۱) واستماعہ کالرقص والسخریۃ والتصفیق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق فإنہا کلہا مکروہۃ لأنہا زي الکفار واستماع ضرب الدف والمزمار وغیر ذلک حرام۔ (ابن عبادین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۶۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث… في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص488

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) جماعت اسلامی کے کفر کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، اکابرین میں سے بھی کسی معتبر شخصیت نے اس جماعت کی تکفیر نہیں کی؛ اس لئے جماعت اسلامی کو کافر کہنا قطعاً درست نہیں ہے۔ (۱)

(۲) اس صورت میں والد صاحب کا اپنے لڑکے کو گھر سے نکالنا اور وراثت سے محروم کرنا جائز نہیں ہے۔ (۲)

(۳) رشتۂ نکاح کو ختم کر دینا یا شادی نہ کرنا بھی شرعاً درست نہیں ہے؛ بلکہ بغیر شرعی وجہ کے ایسا کرنا قطع رحمی ہے۔

(۴) بھائی کو ہی گھر سے نکالنا جائز نہیں ہے، امی تو بے قصور ہے اس کی تو والد کے باطل خیال کے اعتبار سے بھی کوئی خطاء نہیں ہے؛ اس لئے اس کو گھر سے باہر نکالنے یا دھمکی دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

(۵) جماعت اسلامی کے مختلف وکثیر مصنفین ہیں، کسی کی کتاب دیکھے بغیر اس پر کلام نہیں کیا جا سکتا، اتنا ضرور ہے کہ ’’مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ‘‘ کی بعض کتابوں سے اور ان کے خیالات سے علماء حق کو اختلاف ہے، اس لئے ان کی وہ کتابیں کہ جن سے اختلاف ہے، نہ پڑھی جائیں۔ ہر آدمی اس بات کو نہیں سمجھ سکتا کہ کہاں پر کون سی بات حق ہے کون سی ناحق ہے، رطب ویا بس میں فرق معتمد علماء ہی کر سکتے ہیں؛ اس لئے کم سمجھدار اور کم علم حضرات احتیاط کریں تو بہتر ہے، مولانا ابو اللیث صاحب کی کتابوں سے اس طرح کا کوئی اختلاف نہیں، ان کے خیالات شریعت کے معارض نہیں حتی کہ بعض مقامات پر انھوں نے ’’مولانا ابو الاعلیٰ مودودی‘‘ سے اختلاف بھی کیا ہے۔ اسی طرح دیگر مصنفین کی کتابیں پڑھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، اور اگر کسی متعین کتاب سے علماء حق کو شرعی اختلاف ہو، اس میں غلطیاں ہوں تو ایسی کتاب کے بارے میں دیکھ کر ہی کچھ کہا جا سکتا ہے، مذکورہ وضاحت کی روشنی میں اپنے بھائی کو کتابیں پڑھنے اور نہ پڑھنے کی ترغیب دیجئے، نیز آپ بھی بھائی کے ساتھ اپنے رویہ میں ترمیم کریں آپ کا عمل بھی درست نہیں، گھر سے نکالنا شادی نہ کرنا یا وراثت سے محروم کرنا سب غلط ہیں۔

(۶) باپ کو چاہئے کہ وہ بیٹے جیسا برتاؤ کرے، اور بھائی کو بھائی سمجھ کر اس کا تعاون کرنا چاہئے جب کہ صلہ رحمی شرعاً مطلوب ہے، اور قطع رحمی ناجائز ومبغوض ہے بلاوجہ شرعی قطع تعلقی جائز نہیں ہے۔ (۱)

(۱) وفي روایۃ: وعلی أن لا ننزع الأمر أہلہ إلا أن تروا کفراً بواحاً عند کم من اللّٰہ فیہ برہان۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الأمارۃ والقضاء‘‘: ج ۶، ص: ۲۳۹۳، رقم: ۳۶۶۶)

(۲) إعدلوا بین أبنائکم إعدلوا بین أبنائکم إعدلوا بین أبنائکم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الہبۃ وفضلہا والتحریض علیہا، باب الہبۃ للولد‘‘: ج ۲، ص: ۹۱۴، رقم: ۲۴۴۷)

إعدلوا بین أولادکم إعدلوا بین أبنائکم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الإجارۃ: باب في الرجل یفضل بعض ولدہ في النحل‘‘: ج ۳، ص: ۲۹۳، رقم: ۳۵۴۴)

(۱) {الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَلَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَہلا ۲۰} (سورۃ الرعد: ۲۰)

عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحب أن یبسط لہ في رزقہ وینسأ لہ في أثرہ فلیصل رحمہ، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الأدب:   …باب البر والصلاۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۹، رقم: ۴۹۱۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص259

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ اور اسی طرح صرف ’’إلا اللّٰہ‘‘ کا ذکر کرنا بھی صحیح ہے۔ کلام عرب میں مستثنیٰ منہ کا حذف بکثرت رائج ہے۔ (۳)
(۳) فقال العباس رضي اللّٰہ عنہ، یا رسول اللّٰہ إلا الإذخر، فإنہ لقینہم لبیوتہم فقال: إلا الإذخر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب جزاء الصید ونحوہ‘‘: ج ۲، ص: ۷۸۲، رقم: ۱۸۳۴)
وإنما فعلوا ذلک لکون الذکر عند ہم ضد النسیان فکل ذکر صاحبہ غفلۃ أو نسیان لیس بذکر معتد بہ عند ہم ثم رأوا أن الذکر البسیط یر تسخ في القلب أسرع من المرکب   فلقنوا ذکر إسم الذات مرۃ وذکر الإثبات إلا اللّٰہ، إلا اللّٰہ مرۃ أخریٰ فالأذکار التي أخترعہا المشایخ وإن لم تکن ماثورۃ فإنہا مقدمات لقبول القلب وصلاحہ للذکر المأثور فہو نظیر تقطیع کلمات القرآن عند تعلیم الصبیان۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، باب الذکر والدعاء: ج ۱۸، ص: ۴۶۵)
أشرف علي التھانوي، إمدادالفتاوی جدید: ج ۱۱، ص: ۳۱۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص373

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جسم پر میل کچیل ہونے کی وجہ سے پانی کے اعضا تک پہونچنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے، عام طور پر میل کچیل ہونے کی صورت میں بھی پانی اعضا تک پہونچ ہی جاتا ہے اس لیے میل کچیل کے ساتھ بھی وضو اور غسلِ جنابت صحیح ہو جاتا ہے؛ البتہ صفائی ستھرائی کا بھر پور خیال رکھنا چاہئے۔ فطری طور پر انسان صفائی ستھرائی، طہارت وپاکیزگی اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور اسلام ایک دین فطرت ہے جس میں انسانی فطرت کا بھر پور لحاظ ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے صاف ستھرا رہنے والے افراد سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ قول باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا اور بہت پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ {إن اللّٰہ یحب التوابین ویحب المتطہرین}(۱)
’’ولا یمنع الطہارۃ ونیم … وحناء ولو جرمہ، بہ یفتی ودرن ووسخ۔ قال ابن عابدین: قولہ: (وبہ یفتی) صرح بہ في المنیۃ عن الذخیرۃ في مسألۃ الحناء والطین والدرن معللا بالضرورۃ، قال في شرحہا: ولأن الماء ینفذہ لتخللہ وعدم لزوجتہ و صلابتہ، والمعتبر في جمیع ذلک نفوذ الماء ووصولہ إلی البدن‘‘(۲)

سر اور داڑھی کے بالوں میں جمع ہونے والے میل اور جؤں کا صاف کرنا مستحب ہے۔ ان کی صفائی کے لئے بالوں کو دھونے، تیل لگانے اور کنگھا کرنے کا حکم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں میں کبھی کبھی تیل لگاتے اور کنگھا کرتے تھے جیسا کہ امام ابوداؤدؒ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’آپ B کا فرمان ہے کہ جس کے بال ہوں اسے چاہئے کہ ان کی تکریم کرے (یعنی دیکھ بھال کرے) ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کان لہ شعر فلیکرمہ‘‘(۱)
صاحب عون المعبود مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بالوں کی تکریم کا مطلب یہ ہے کہ انہیں دھو کر تیل لگائے اور کنگھی کر کے صاف ستھرا اور خوشنما رکھے، بالوں کو بکھرا ہوا نہ رکھے کیونکہ صفائی ستھرائی اور خوبصورتی مطلوب امر ہے۔(۲)
لہٰذا جسم پر میل کچیل یا سر میں روسی ہونے کی وجہ سے غسل یا وضو میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی ہے کیونکہ یہ غسل اور وضو کی ادائیگی کے لئے مانع نہیں ہے۔
 

 (۱) سورۃ البقرۃ: ۲۲۲۔    …
…(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۸، وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الأول في فرائض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۵۳؛ وطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في تمام أحکام الوضوء‘‘: ج ، ص: ۶۳۔
(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’أول کتاب الترجل، باب في إصلاح الشعر‘‘: ج ۲، ص: ۷۶، رقم: ۴۱۶۳۔(کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
(۲) شمس الحق العظیم آبادي، عون المعبود، ’’باب في إصلاح الشعر‘‘: ج ۹، ص: ۱۱۸۳۔(القاھرۃ: القدس للنشر والتوزیع، مصر)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص191


 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:افضل تو یہی ہے کہ غسل کے بعد سوئے۔ تا ہم بغیر غسل کے بھی سونا جائز ہے(۱)  حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے ’’کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا أراد أن ینام وہو جنب غسل فرجہ وتوضأ للصلوٰۃ‘‘(۲)

(۱) الجنب إذا أخر الاغتسال إلی وقت الصلوٰۃ لا یأثم کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’ کتاب الطہارۃ، الباب الثاني: في الغسل، و مما یتصل بذلک مسائل،‘‘ ج۱، ص:۶۸، مکتبہ فیصل دیوبند)
(۲)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الغسل، باب الجنب یتوضأثم ینام، ج۱، ص:۴۳، رقم:۲۵ (مکتبۃ نعیمیۃ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص285

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایام حیض ونفاس میں قرآن کریم کو چھونا یا پڑھنا قطعاً درست نہیں، اور کوئی دوسری دینی کتاب پڑھنا اور سننا دونوں درست ہے۔(۱)

(۱)لَا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ (الواقعہ:۷۹) ؛ وقال مالک ولا یحمل أحد المصحف بعلاقتہ ولا علی وسادۃ أحد إلا وھو طاھر(مکتبہ بلال دیوبند) (أخرجہ مالک بن انس بن مالک، في الموطا،باب لا یمس القرآن إلا طاھر، ج۱، ص:۱۹۹، رقم :۲۳۶)؛ ولا یجوز لحائض ولا جنب قراء ۃ القرآن لقولہ علیہ السلام لا یقرأ الجنب ولا الحائض شیئا من القرآن۔ (أبوبکر بن علي، الجوہرۃ النیرۃ، ’’باب الحیض‘‘ ج۱، ص:۳۶، دارالکتاب دیوبند) ؛ وعن حفصۃ قالت: فلما قدمت أم عطیۃ سألتھا أسمعت النبي ﷺ قالت بأبي نعم۔ و کانت لا تذکرہ إلا قالت: بأبي سمعتہ یقول: یخرج العواتق و ذوات الحذور، أوالعواتق ذوات الحذور والحیّض ولیشھدن الخیر، ودعوۃ المومنین، و یعتزل الحیض المصلی قالت حفصۃ: فقلت الحیض؟ فقالت ألیس تشھد عرفۃ و کذا و کذا۔(أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض، باب شہود الحائض العیدین‘‘ ج۱، ص:۴۶، رقم: ۳۲۴،  مکتبہ نعیمیہ دیوبند) ؛ و یکرہ مسُّ کتب التفسیر والفقہ والسنن، لأنھا لا تخلوا عن آیات القرآن۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض‘‘ ج۱، ص:۳۵؛ و ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ھذا الأقوال‘‘ ج۱، ص:۴۸۸) ؛ ولا تقرأ لحائض ولا الجنب شیئا من القرآن والنفساء کالحائض و یحرم مسھا (حسن بن عمار، مراقي الفلاح  شرح نورالإیضاح، ’’باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱، ص:۵۸المکتبۃ الاسعدی، سہارنپور)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص384