Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حائضہ رمضان کا روزہ نہیں رکھے گی، بلکہ دوسرے وقت میں اس کی قضاء کرے گی۔(۳)
(۳)عن معازۃ قالت سالت عائشۃ فقلت ما بال الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاۃ؟ فقالت احروریۃ أنت؟ قلت لست بحروریۃ ولکن اسأل، قالت: کان یصیبنا ذالک فنؤمر بقضاء الصوم ولا نؤمر بقضاء الصلاۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ کتاب الحیض باب:وجوب قضاء الصوم علی الحائض دون الصلاۃ، ج۱، ص:۱۵۳، رقم : ۳۲۵مکتبہ نعیمیہ دیوبند)؛ و عن أبي سعید الخدري قال : خرج رسول اللّٰہ ﷺ في أضحی أو فطر إلی المصلي، اذ المصلی فمر علی النساء قال ألیس شھادۃ المرأۃ مثل نصف شھادۃ الرجل؟ قلن بلی فذلک من نقصان عقلھا، ألیس إذا حاضت لم تصل ولم تصم؟ قلن: بلی،…قال فذلک من نقصان دینھا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض، باب ترک الحائض الصوم‘‘ ج۱، ص:۴۴، رقم ۳۰۴)؛ و عن عائشۃ قالت کنا نحیض علی عھد رسول اللّٰہ ﷺ ثم نطھر۔ فیأمرنا بقضاء الصیام، ولا یأمرنا بقضاء الصلاۃ۔ والعمل علی ھذا عند أھل العلم لا نعلم بینھم اختلافاً أن الحائض تقضي الصیام ولا تقضي الصلاۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الصوام، باب ما جاء في قضاء الحائض الصیام دون الصلوٰۃ‘‘ ج۱، ص:۱۶۳، رقم: ۷۸۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص383
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک مشت ڈاڑھی رکھنا واجب ہے، اس لیے مقطوع اللحیہ شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ کسی بھی نماز میں ایسے شخص کو امام نہ بنایا جائے۔ تاہم جو نمازیں پہلے پڑھی جاچکی ہیں ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ مسجد کی کمیٹی وکمیٹی کے ممبران کے انتخاب کے وقت ہی باشرع لوگوں کو ترجیح دینی چاہئے، مقطوع اللحیہ اشخاص کو مسجد کا ٹرسٹی یا ممبر بنانا بالکل مناسب نہیں ہے، جو لوگ خوف خدا سے ڈاڑھی نہ رکھ سکیں وہ کوئی فیصلہ کرنے میں کیوں کر انصاف کا خیال کریں گے۔ تاہم اگر کوئی امامت کے لیے نہ ہو، تو ایسے مقطوع اللحیہ کے پیچھے نماز پڑھنا، تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔(۱)
(۱) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لا تزول العلۃ، فإنہ لا یؤمن أن یصلي بہم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال: بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم لما ذکرنا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ،مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
ولأن الإمامۃ أمانۃ عظیمۃ فلا یتحملہا الفاسق؛ لأنہ لا یؤدي الأمانۃ علی وجہہا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب بیان من یصلح للإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۷، زکریا دیوبند)
وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزا ثواب الجماعۃ لکن لا ینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
ویکرہ تقلید الفاسق، ویعزل بہ إلا لفتنۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۲، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص164
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد کے علاوہ کسی جگہ پر نماز باجماعت پڑھی جائے تو جماعت کا پورا ثواب ملتا ہے اس میں تو کمی نہیں ہوتی؛ البتہ مسجد میں نماز کا جو ثواب ہے اس سے محروم ہوجاتا ہے۔(۱)
(۱) عن انس بن مالک -رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم: صلاۃ الرجل في بیتہ بصلاۃ، وصلاتہ في مسجد القبائل بخمس وعشرین صلاۃ، وصلاتہ في المسجد الذي یجمع فیہ بخمس مائۃ صلاۃ وصلاتہ في المسجد الأقصی بخمسین ألف صلاۃ وصلاتہ في مسجدی بخمسین ألف صلاۃ وصلاۃ في المسجد الحرام بمائۃ ألف صلاۃ۔ رواہ ابن ماجہ۔ (مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث‘‘: ص: ۵۲، رقم: ۷۵۲،مکتبہ یاسر ندیم دیوبند)
عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ الجمیع تزید علی صلاتہ في بیتہ و صلاۃ في سوقہ خمسا و عشرین درجۃ الخ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في مسجد السوق، ج۱، ص۶۹، رقم:۴۷۲)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص368
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں قراء ۃ کے ختم ہونے پر ہاتھ چھوڑ کر رکوع کی تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں جانا چاہئے پس مولوی صاحب کا قول درست ہے۔(۱)
(۱) (ثم) کما فرغ (یکبر) مع الانحطاط (للرکوع) (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘، ج۲، ص: ۱۹۶)
أفاد أن السنۃ کون ابتداء التکبیر عند الخرور وانتہائہ عند استواء الظہر وقیل إنہ یکبر قائماً والأول ہو الصحیح کما في المضمرات وتمامہ في القہستاني۔ (أیضًا:)
ویکبر مع الانحطاط، کذا في الہدایۃ قال الطحطاوي: وہو الصحیح کذا في معراج الدرایۃ، فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلوۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۱، ط: دارالکتب العلمیۃ ،بیروت)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 410
اسلامی عقائد
Ref. No. 1087 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔دیگر مسالک کے لوگوں کا بھی احترام لازم ہے۔ اچھے اخلاق سے پیش آنا ایمان کی علامت ہے، اسے بہرحال ملحوظ رکھنا چاہئے۔ دوسروں کا مذاق بنانے اور نازیبا حرکت کرنے سے کسی خیرکی توقع نہیں کیجاسکتی۔ ان کو اچھے اور مشفقانہ لہجے میں سمجھانا چاہئے۔ ان سےاچھے تعلقات اگر رکھیں گے تو وہ آپ کی بات سنیں گے اور حق کو قبول کریں گے۔ ان کے دل میں صحابی کی عظمت پیداکرنے کے لئے صحابہ کے واقعات سنائے جائیں ، اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جبکہ وہ صحابہ کی شان اپنے اندر پیداکریں ۔ اس لئے اہل حق کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے، وجادلھم بالتی ھی احسن۔ ﴿القرآن﴾۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
طلاق و تفریق
Ref. No. 39 / 826
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں کسی قریبی شرعی دارالقضاء سے رابطہ کرلیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 39/1058
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
If you marry your daughter to a boy who holds barelvi aqaaid, the nikah would be valid, but you should avoid it, you should marry your daughter to a Sahih ul Aqeedah person.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 1473/42-920
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بطور تاکید اور بعض مرتبہ بطور فرض اور تقدیر اس طرح کے الفاظ کا اضافہ کردیا جاتاہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرآن میں ہے کہ " لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وماتاخر"(سورۃ الفتح) واللہ غفور رحیم (سورۃ التحریم) جبکہ آپ ﷺ معصوم ہیں۔
وقوله - عَزَّ وَجَلَّ -: (وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ). أي: غفور لما تقدم من ذنبك وما تأخر لو كان. أو يكون رحيما؛ حيث لم يعاقبك بما اجترأت من الإقدام على اليمين؛ لا بإذن سبق من اللَّه تعالى لك فيه. (تفسیر الماتریدی، تاویلات اھل السنۃ2، 10/77)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1571/43-1099
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس لڑکے سے آپ کا نکاح ہوا ہے اگر وہ اپنے ساتھ آپ کو رکھنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اس سے کسی طرح طلاق حاصل کریں، اگرخلع کا معاملہ کرتے ہوئے کچھ پیسے دینے پڑیں تو دے کر اس سے طلاق حاصل کریں، اس سے طلاق لئے بغیر آپ کا نکاح دوسری جگہ نہیں ہوسکتاہے۔ اور اگرکسی بھی طرح شوہر طلاق نہیں دیتا ہے تو کسی قریبی شرعی دارالقضاء سے رجوع کریں۔ قاضی صاحب نوٹس جاری کریں گے، اور شوہر کی سرکشی متحقق ہوجانے پر آپ کا نکاح ان سے فسخ کردیں گے۔ اس کے بعد آپ کسی دوسرے لڑکے سے نکاح کرسکیں گی۔البتہ عدالت سے بھی طلاق کی قانونی کارروائی مکمل کرالیں تاکہ بعد میں وہ لڑکا آپ کو پریشان نہ کرسکے۔(ماخوذ از حیلۃ ناجزۃ، ص؛73،74/ ط؛ دارالاشاعت)
قوله تعالى: ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا (البقرة231) فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان الی قولہ: فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اﷲِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِه. (البقرۃ 229)
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول".بدائع 3/145)
لا يجوز الخلع إلا إذا كرهته المرأة وخافت أن لا توفيه حقه أو لا يوفيها حقها ومنعوا إذا كرهها الزوج لما تلونا وجوابه ما ذكرناه، وذكر القدوري في مختصره إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به أخرجه مخرج العادة أو الأولوية لا مخرج الشرط وأراد بالخوف العلم والتيقن به (تبیین الحقائق باب الخلع 2/268)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند