نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1344/42-729

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تو حدیث میں استخارہ کی ترغیب دی گئی ہے، تاکہ اللہ تعالی اس کے لئے خیروالا راستہ واضح فرمادے۔  استخارہ خود کرنا چاہئے اور درپیش معاملہ میں خود اللہ تعالی سے تعلق قائم کرکے خیر کا طالب ہوناچاہئے۔ حدیث پاک میں ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کو استخارہ کی تعلیم ایسے دیتے تھے جیسے قرآن کی کوئی سورہ سکھاتے تھے۔ حدیث پاک میں کسی جگہ دوسروں سے استخارہ کرانا ثابت نہیں ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو اپنا تعلق اللہ سے مضبوط کرنا چاہئے اور خود سے استخارہ کرنا چاہئے۔ تاہم دوسروں سے استخارہ کو حرام بھی نہیں کہا جاسکتاہے، بعض مرتبہ آدمی کسی بزرگ کو نیک سمجھ کر اس سے استخارہ کراتاہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے البتہ خود سے بھی استخارہ کرتے رہنا چاہئے اور اگر معاملہ واضح نہ ہو تو سات دن کرتا رہے۔ کسی بھی مناسب وقت یا سونے سے قبل دو رکعت نفل نماز پڑھے اور نماز کے بعد استخارہ کی دعا پڑھے۔ استخارہ کی دعا یہ ہے: "اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به"۔ جب  "ھذا الامر" پر پہونچے تو اپنے کام کو دھیان میں رکھے۔

مطلب في ركعتي الاستخارة: (قوله ومنها ركعتا الاستخارة) عن «جابر بن عبد الله قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن يقول إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به، قال ويسمي حاجته» رواه الجماعة إلا مسلما شرح المنية. (شامی، باب الوتر والنوافل 2/26)

وإذا استخار يمضي لا ينشرح له صدره وينبغي أن يكررها سبع مرات لما روي عن أنس قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا أنس إذا هممت بأمر فاستخر ربك فيه سبع مرات ثم انظر إلى الذي يسبق إلى قلبك فإن الخير فيه". (مراقی الفلاح، فصل فی تحیۃ المسجد 1/149)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1658/43-1239

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف بالائی منزل وقف کرنا درست  ہے۔ البتہ مسجدشرعی ہونے  کے لئے ضروری ہے  کہ وہ نیچے سے اوپر تک مسجد  یا مصالح مسجد کے لئے ہو،مسجدِ شرعی اوپر آسمان تک اور نیچے تحت الثریٰ تک مسجد ہوتی ہے، اس لئے صرف بالائی منزل مسجد کے لئے وقف کرناگوکہ  درست  ہوگیا  مگر یہ مسجد شرعی نہ ہوگی ، اور مسجد شرعی کا ثواب اس سے حاصل نہ ہوگا۔  

و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء (واتخاذه طريقاً بغير عذر) وصرح في القنية بفسقه باعتياده (وإدخال نجاسة فيه) وعليه (فلايجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولاتطيينه بنجس (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء) ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره وينبغي لداخله تعاهد نعله وخفه، وصلاته فيهما أفضل (لا) يكره ما ذكر (فوق بيت) جعل (فيه مسجد) بل ولا فيه؛ لأنه ليس بمسجد شرعاً. (و) أما (المتخذ لصلاة جنازة أو عيد) فهو (مسجد في حق جواز الاقتداء) وإن انفصل الصفوف رفقاً بالناس (لا في حق غيره) به يفتى نهاية (فحل دخوله لجنب وحائض) كفناء مسجد ورباط ومدرسة ومساجد حياض وأسواق لا قوارع.

 قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي. بقي لو جعل الواقف تحته بيتاً للخلاء هل يجوز كما في مسجد محلة الشحم في دمشق؟ لم أره صريحاً، نعم سيأتي متناً في كتاب الوقف أنه لو جعل تحته سرداباً بالمصالحة جاز تأمل ... (قوله: لايكره ما ذكر) أي من الوطء والبول والتغوط نهر (قوله: فوق بيت إلخ) أي فوق مسجد البيت: أي موضع أعد للسنن والنوافل، بأن يتخذ له محراب وينظف ويطيب كما أمر به صلى الله عليه وسلم، فهذا مندوب لكل مسلم، كما في الكرماني وغيره قهستاني، فهو كما لو بال على سطح بيت فيه مصحف وذلك لايكره كما في جامع البرهاني معراج... (قوله: وأسواق) أي غير نافذة يجعلون مصطبة للصلاة فيها ح وذلك كالتي تجعل في خان التجار". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 656):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص اپنے مذکورہ قول و فعل کی وجہ سے اسلام سے خارج ہوگیا ہے، اس سے اسلامی تعلق باقی رکھنا درست نہیں اور ضروری ہے کہ ہر طرح سے رابطہ منقطع کرلیا جائے۔ تاہم اگر وہ توبہ کرلے او راگر شادی شدہ ہے، تو اپنے نکاح کی تجدید کرے تو اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کیا جائے گا۔ (۱)

’’إذا أنکر آیۃ القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أوعاب شیئاً من القرآن … أو سخر بآیۃ منہ کفر‘‘(۲)

 

(۱) إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي ’’الخزانۃ‘‘: أو عاب کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)

(۲) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)

 

دارالافتاء

دار العلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عرف میں کسی معتبر ادارہ سے علوم دینیہ کے مخصوص نصاب کوپڑھ کر فارغ ہونے والے شخص کو عالم کہا جاتا ہے، جب کہ حقیقت میں عالم اسے کہتے ہیں جس کے اندر علم دین کی وجہ سے خشیت الٰہی پیدا ہو جائے؛ اس لئے عالم بننے کے لئے کسی ادارے سے فارغ ہونا ضروری نہیں ہے۔(۲)

(۲) {إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُاط إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌہ۲۸} (سورۃ الفاطر: ۲۸)
وأفادت الآیۃ الکریمۃ أن العلماء ہم أہل الخشیۃ وأن من لم یخف من ربہ فلیس بعالم: ابن کثیر۔
ولہٰذا قال شیخ الإسلام عن الآیۃ: وہذا یدل علی أن کل من خشي اللّٰہ فہو عالم وہو حق ولا یدل علی أن کل عالم یخشاہ۔ (ابن تیمیہ، انتہی من مجموع الفتاویٰ: ج ۷، ص: ۵۳۹)
قال الذہبي رحمہ اللّٰہ: لیس العلم عن کثرۃ الروایۃ ولکنہ نور یقذفہ اللّٰہ في القلب وشرطہ الإتباع والفرار من الہوی والابتداع۔ (جامع بیان القرآن: ج ۲، ص: ۲۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص166

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تمام بریلوی مشرک نہیں ہیں، بلکہ جو لوگ قبروں پر سجدہ کرتے ہیں اور صاحب قبر کو مشکل کشا وحاجت روا اور مختار سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں اندیشۂ کفر ہے۔ تاہم تاویل کی گنجائش ہے؛ اس لئے ان کو مشرک نہیں کہیں گے(۱)۔ غیرمسلم اور مشرک دونوں کا درجہ ایک ہی ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد سمجھائے جائیں کہ اسلام میں اصل شرک وبت پرستی سے روکنا اور تمام امور میں اللہ تعالیٰ کو ہی مشکل کشا وحاجت روا ہونے کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔ دین کی بنیادی باتوں کا انکار کفر ہے۔ (۲) البتہ جو بریلوی حضرات شرکیہ اعمال میں مبتلا ہیں اور ان کے اعمال کی کوئی مناسب تاویل کی جا سکتی ہے، تو ان کو مشرک قرار دینے سے گریز کریں گے، ہمارے اکابر کا مزاج؛ بلکہ اصول یہ ہے کہ وہ کسی کلمہ گو مسلمان کو کافر قرار دینے میں عجلت سے کام نہیں لیا کرتے تھے۔

(۱) {لاَ تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِيْ خَلَقَہُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَہ۳۷} (سورۃ حٓم سجدۃ: ۳۷)

لا یفتی بکفر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل حسن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد:  باب المرتد، مطلب في حکم من شتم دین مسلم‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

(۲) وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ کفر بہا۔ (ابن عابدین،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۰)

ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان ونسمیہ مؤمناً حقیقۃ۔ (أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص263

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں تعلیم وتربیت کے نقطۂ نظر سے نابالغ بچے کو ہاتھ میں قرآن کریم یا سپارے دینے سے قبل والدین کو وضو کرانا چاہئے تاکہ بچے کو وضو کا طریقہ معلوم ہو سکے؛ البتہ بچے احکامِ شرع کے مکلف نہیں ہیں، نماز، روزہ، وضو اور غسل وغیرہ بھی ان پر فرض نہیں ہے؛ اس لیے بچوں کو بے وضو قرآن کریم چھونے کی شریعت نے رخصت دی ہے، والدین یا اساتذہ اگر بے وضو ان کے ہاتھ میں قرآن کریم یا سپارے دے دیں تو ان پر کوئی گناہ بھی نہیں ہوگا۔
بچوں کے بے وضوقرآن پکڑنے پر والدین اور اساتذہ کے گنہگارنہ ہونے کے بارے میں علامہ ابن عابدینؒ لکھتے ہیں:
’’إن الصبي غیر مکلف والظاھر أن المراد لا یکرہ لولیہ أن یترکہ یمس‘‘(۱)
نابالغ کوبے وضوقرآن چھونے کی اجازت کے بارے میں مجمع الانہر میں ہے:
’’ولا مس صبي لمصحف ولوح لأن في تکلیفہم بالوضوء حرجا بہا وفي تأخیرہ إلی البلوغ تقلیل حفظ القرآن فرخص للضرورۃ‘‘(۲)
تبیین الحقائق میں ہے:
’’وکرہ بعض أصحابنا دفع المصحف واللوح الذي کتب فیہ القرآن إلی الصبیان ولم یر بعضھم بہ بأسا وھو الصحیح لأن في تکلیفھم بالوضوء حرجا بھم وفي تأخیرھم إلی البلوغ تقلیل حفظ القرآن فیرخص للضرورۃ‘‘(۳)
ہمارے بعض اصحاب نے قرآن پاک اور وہ تختی جس پر قرآن لکھا ہو،بچوں کو دینے کو مکروہ قرار دیا ہے اوربعض کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہی صحیح ہے، کیونکہ بچوں کو وضو کا مکلف بنانے میں حرج ہے اور اگر ان کے بالغ ہونے تک قرآن انہیں نہ دیا جائے، تو حفظِ قرآن میں کمی واقع ہوگی؛ لہٰذا بوجہ ضرورت بچوں کو قرآن پاک دینے کی رخصت دی گئی ہے۔

(۱) ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطھارۃ:…  باب سنن الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۴۔
(۲) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنھر، ’’کتاب الطھارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۔
(۳) عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’کتاب الطھارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸۔(زکریا بک ڈپو دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص195

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسے غسل خانے میں جس کی دیواریں بڑی بڑی ہوں، بے پردگی نہ ہوتی ہو، وہاں برہنہ غسل کرنا جائز ہے؛ البتہ اولیٰ اور کمال حیا یہ ہے کہ ننگا ہوکر غسل نہ کرے ہاں اگر کوئی ضرورت ہو، تو کر سکتا ہے۔(۱)

(۱) عن یعلی أن رسول اللّٰہ ﷺ رأی رجلا یغتسل بالبراز فصعد المنبر فحمد اللّٰہ و أثنی علیہ ثم قال: إن اللّٰہ عز و جل حیيّ ستیر یحب الحیاء والستر، فإذا اغتسل أحدکم فلیستتر۔ (أخرجہ ابو داود، في سننہ، ’’کتاب الحمام، باب النھي عن التعري‘‘ج۱، ص:۵۵۷)؛  و قال ابن حجر: حاصل حکم من اغتسل عاریا أنہ إن کان بمحل خال لا یراہ أحد ممن یحرم علیہ نظر عورتہ حل لہ ذلک لکن الأفضل الستر حیاء من اللّٰہ تعالی (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’باب الغسل، الفصل الثالث،‘‘ ج۲، ص:۱۳۸، مکتبۃ فیصل دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص287

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: غیر معتادہ کے لیے حیض کی اکثر مدت دس دن ہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں جب کہ اس کی کوئی عادت متعین نہیں ہے، دس دن مکمل ہونے سے پہلے جب بھی خون دیکھے گی وہ حیض میں شمار ہوگا۔ نویں دن غسل کرنے کے بعدجو خون دیکھا وہ حیض ہے ابھی نماز نہ پڑھے۔(۲)

(۲) الطھر المتخلل من الدمین والدماء في مدۃ الحیض یکون حیضاً۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس: في الدماء المختصۃ بالنساء ، الفصل الأول: في الحیض، و منھا: تقدم نصاب الطہر‘‘ج۱، ص:۹۱)؛ الطھر إذا تخلل بین الدمین في مدۃ الحیض،…فھو کا لدم المتوالی۔(المرغیناني، ہدایۃ، ’’باب الحیض والاستحاضہ‘‘ ج۱، ص:۶۶)؛ وما تراہ في مدتہ سوی بیاض خالص ولو طھرامتخللاً بین الدمین فیھا حیض، لأن العبرۃ لأولہ و آخرہ و علیہ المتون فلیحفظ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض ، مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال الخ‘‘ ج۱، ص:۴۸۲-۴۸۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص387

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جب کہ بکری کی قیمت بھی مقرر ہوگئی اور امام صاحب نے قیمت دینے کا وعدہ بھی کیا مگر اب قیمت کی ادائیگی سے انکار کر رہا ہے ان کے لیے سخت گناہ کی بات اور دھوکہ بازی ہے۔(۱)
اگر امام صاحب کو مدرس کے کام کا معاوضہ طلب کرنا تھا، تو اس کا مطالبہ مدرسہ کے ذمہ داروں سے کرتے یہی اصولی بات تھی مگر انہوں نے ایسا نہ کرکے زید کا ذاتی حق دبانا چاہا یہ ان کے لیے درست اور جائز نہیں ہے۔ اگر وہ اس سے توبہ کرلیں اور حق زید ادا کردیں تو وہ قابلِ امامت ہیں(۲) اور اگر ایسا نہ کریں تو وہ قابل امامت نہیں ہیں ،اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۳)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من غشنا فلیس منا۔ (أخرج الترمذي في سننہ، ’’کتاب البیوع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۵)
(۲) التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ  في سننہ، ’’کتاب الزہد: باب: ذکر التوبۃ‘‘: ص:۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۳) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص169

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں فرداً فرداً نماز پڑھیں گے اور خارج مسجد جماعت کر سکتے ہیں، اس صورت میں جاعت سے نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔(۱)
(۱) ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لاإمام لہ ولا مؤذن، قولہ ویکرہ، أي تحریماً لقول الکافي لایجوز والمجمع لایباح وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي، (قولہ بأذان وإقامۃ، الخ … والمراد بمسجد المحلۃ مالہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدر وغیرہا قال في المنبع والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ، جماعۃ لغیر أذان حیث یباح اجماعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ مع الشافعي أم لا‘‘: ج۲، ص: ۳۰۷)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص372