Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نوافل کے سجدہ میں دعا کرنا درست ہے، تاہم نوافل میں صرف وہی دعائیں کرسکتے ہیں جو قرآن و حدیث سے منقول ہوں اور انہیں الفاظ کے ساتھ کی جائیں۔
’’عن أبي ہریرۃ رضياللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أقرب ما یکون العبد من ربہ وہو ساجد فأکثروا الدعاء‘‘(۲)
’’وأما السجود فاجتہدوا في الدعاء فقمن أن یستجاب لکم‘‘(۳)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یقال في الرکوع والسجو‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۱، رقم: ۴۸۲۔
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب النہي عن قراء ۃ القرآن في الرکوع والسجود‘‘: ج ۱، ص:۱۹۱، رقم: ۴۷۹۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 411
Divorce & Separation
Ref. No. 39 / 810
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
After separation, the mother shall have the right to nourish her son up to seven years of his age and her daughter till she has reached the age of puberty, while father would be responsible for their all kinds of expenses. When the boy has reached the age of seven and the daughter the age of puberty then the right of nourishment shall turn to the father. Hence, after the said period, father has right to take the children into his custody.
And Allah Knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 1118/42-344
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں، زندہ لوگوں کو بھی ایصال ثواب کرسکتے ہیں۔ چونکہ زندہ لوگوں کا عمل ابھی جاری ہے، اور جو اس دنیا سے فوت ہوگئے ہیں، وہ ثواب کے زیادہ محتاج ہیں، اس لئے مردہ لوگوں کو ایصال ثواب کیاجاتاہے۔ تاہم زندہ لوگوں کو بھی ایصال ثواب کرسکتے ہیں۔
فإن من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا (البحرالرائق 3/63) (بدائع الصنائع 2/212)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1655/43-1238
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ناظم مدرسہ نے تنخواہ میں کمی کردی اور اساتذہ کو اس سے شروع میں ہی آگاہ کردیا، اور سب نے اس سے اتفاق کرلیا، اس لئے ناظم مدرسہ پر تنخواہ وضع کرنے کا کوئی الزام نہیں آئے گا۔ البتہ ناظم مدرسہ نے اساتذہ کے تئیں شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنخواہ کے بقیہ حصہ کی تلافی کی ایک شکل اساتذہ کے سامنے رکھی، اور اس کے مطابق جو چندہ کرے گا وہ اس کا مستحق ہوگا، اور جو نہیں کرے گا وہ مستحق نہیں ہوگا۔ ناظم صاحب نے چندہ کی شرط ان کے لئے رکھی ہے جو بقیہ پچیس فیصد کی تلافی چاہتے ہیں ورنہ ان پر چندہ لازم نہیں۔ اور جن لوگوں نے پچیس فی صد اضافی تنخواہ لے لی اور چندہ نہیں کیا تویقینا شرط کے مطابق وہ پچیس فی صد کے حقدار نہ ہونے کی وجہ سے اس کے مستحق نہیں تھے، اس لئے یا تو وہ پیسے ناظم صاحب کو واپس کریں یا پھر اگلی تنخواہوں میں وضع کرائیں، ناظم مدرسہ نے اگلی تنخواہوں میں وضع کرکے اس میں بھی اساتذہ کی رعایت کی ہے۔
لقول النبي ﷺ: المسلمون على شروطهم (رواه الترمذي في (الأحكام) باب ما ذكر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلح برقم 1352)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2185/44-2297
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرسی بنانے کے لئے وصول کئے گئے پیسوں کی زکوۃ بکر کے ذمہ ہے۔ زکوۃ نکالتے ہوئے اس ایک لاکھ کی بھی زکوۃ ادا کرے گا جو بطور اڈوانس اس نے وصول کیا ہے، اس لئے کہ وہ مال اب اس کی ملکیت ہے اور اسی کا قبضہ بھی ہے۔ اور جب تک کرسی تیار کرکے زید کے قبضہ میں نہیں دیتا اس وقت تک کرسی اور دیگر سامان تجارت کی زکوۃ بھی بکر کے ذمہ ہوگی۔
"الاستصناع جائز في كل ما جرى التعامل فيه كالقلنسوة والخف والأواني المتخذة من الصفر والنحاس وما أشبه ذلك استحسانا كذا في المحيط ثم إن جاز الاستصناع فيما للناس فيه تعامل إذا بين وصفا على وجه يحصل التعريف أما فيما لا تعامل فيه كالاستصناع في الثياب بأن يأمر حائكا ليحيك له ثوبا بغزل من عند نفسه لم يجز كذا في الجامع الصغير وصورته أن يقول للخفاف اصنع لي خفا من أديمك يوافق رجلي ويريه رجله بكذا أو يقول للصائغ صغ لي خاتما من فضتك وبين وزنه وصفته بكذا وكذا لو قال لسقاء أعطني شربة ماء بفلس أو احتجم بأجر فإنه يجوز لتعامل الناس، وإن لم يكن قدر ما يشرب وما يحتجم من ظهره معلوما كذا في الكافي الاستصناع ينعقد إجارة ابتداء ويصير بيعا انتهاء قبل التسليم بساعة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي."(فتاوی عالمگیری، 3/ 207، کتاب البیوع، الباب التاسع عشر في القرض والاستقراض والاستصناع، ط:رشیدیہ)
"وأما حكم الاستصناع: فهو ثبوت الملك للمستصنع في العين المبيعة في الذمة، وثبوت الملك للصانع في الثمن ملكا غير لازم." (بدائع الصنائع، 5 / 3، كتاب الاستصناع، ط: سعيد)
"فصح بيع الصانع) لمصنوعه (قبل رؤية آمره) ولو تعين له لما صح بيعه. (قوله فأخذه) أي الآمر (قوله بلا رضاه) أي رضا الآمر أو رضا الصانع (قوله قبل رؤية آمره) الأولى قبل اختياره لأن مدار تعينه له على اختياره، وهو يتحقق بقبضه قبل الرؤية ابن كمال." (فتاوی شامی 5 / 225،باب السلم ، مطلب في الاستصناع، ط: سعيد )
"ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة ."( بدائع الصنائع، 2 / 9، كتاب الزكاة، ط: سعيد)
ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج (الھندیۃ: (172/1، ط: دار الفکر)
وأما الشرائط التي ترجع إلى المال فمنها: الملك فلا تجب الزكاة في سوائم الوقف والخيل المسبلة لعدم الملك وهذا؛ لأن في الزكاة تمليكا والتمليك في غير الملك لا يتصور۔۔۔۔ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة، وقال زفر: " اليد ليست بشرط " وهو قول الشافعي فلا تجب الزكاة في المال الضمار عندنا خلافا لهما. (بدائع الصنائع: (9/2، ط: دار الکتب العلمیة)
"(ولو كان الدين على مقر مليء ... ( فوصل إلى ملكه لزم زكاة ما مضى ( الدر المختار: (266/2، ط: دار الفکر)
" الثمن المدفوع مقدّمًا عند إبرام العقد مملوک للصانع یجوز لہ الانتفاع والاسترباح وتجب علیہ الزکاة فیہ․․․․ تخریجًا للثمن المقدم فی الاستصناع علی الأجرة المقدمة أو ما اشترط تعجیلہ (فقہ البیوع: (404/1، ط: معارف القرآن)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نکاح کے بعد یہ بندھن درست نہیں ہے۔(۲)
(۲) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْاط} (سورۃ المائدہ: ۸۷)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لم نر للمتحابین مثل النکاح۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب النکاح، باب ما جاء في فضل النکاح‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۸، ۱۸۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص436
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:۲۷؍ رجب کے بارے میں جو روایات ہیں وہ موضوع اور ضعیف ہیں، صحیح اور قابل اعتماد نہیں؛ لہٰذا ۲۷؍ رجب کا روزہ مثل عاشورہ کے ثواب سمجھ کر کہ ہزار روزوں کا ثواب ملے گا یہ سمجھ کر روزہ رکھنا ممنوع ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے منع فرمایا کرتے تھے(۱) البتہ اگر کوئی شخص ہزار روزہ کے اجر کی نیت نہ کرے محض ثواب کے لیے رکھے تو کوئی ممانعت نہیں ہے۔(۲)
(۱) ۲۷؍ رجب کے روزے کی فضیلت صحاح احادیث میں ثابت نہیں مگر غنیہ میں سیدنا عبد القادر جیلانی قدس سرہ نے لکھا ہے، اس کو محدثین ضعیف کہتے ہیں حدیث ضعیف سے ثبوت نہیں ہو سکتا ہے، نفس روزہ جائز ہے۔ فقط: واللہ اعلم (رشید احمد، گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ: ص: ۴۵۵)
(۲) وقد وردت فیہ أحادیث لا تخلو من طعن وسقوط کما بسطہ ابن حجر في تبیین العجب مما ورد في فضل رجب، وما اشتہر في بلاد الہند وغیرہ أن الصوم صباح تلک اللیلۃ یعد ألف صوم فلا أصل لہ۔ (الآثار المرفوعۃ، ’’ذکر عاشر رجب‘‘: ج ۱، ص: ۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص489
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی بھی زمانے کے مستند علماء کی ایک بڑی تعداد کو جمہور علماء سے تعبیر کیا جا تا ہے۔(۲)
(۲) اتفاق علماء العصر علی حکم النازلۃ، تعریف الإجماع علی کل من ہذین الاتفاقین ووجہ الجواز أنہ یجوز أن یظہر مستند جلی یجمعون علیہ۔ (القاضي أبو یعلی، العدۃ في أصول الفقہ: ج ۱، ص: ۱۷۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص165
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر لوٹے میں گرد وغبار یا گندگی گرنے کا اندیشہ ہو، تو لوٹے کو الٹا رکھنا مناسب ہے اور اگر کوئی اندیشہ نہ ہو، تو سیدھا رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے،مگر سیدھا رکھنے کی صورت میں بھی اس پر کچھ رکھ دینا چاہئے۔
حدیث میں ہے:
’’عن جابر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال أغلق بابک واذکر اسم اللّٰہ فإن الشیطان لا یفتح باباً مغلقا وأطف مصباحک واذکر اسم اللّٰہ وخمر إناء ک ولو بعود وتعرضہ علیہ واذکر اسم اللّٰہ وأوکِ سقاء ک واذکر اسم اللّٰہ‘‘(۱)
’’وقد یقال إن الضرورۃ في البئر متحققۃ بخلاف الأواني لأنہا تخمر‘‘(۲)
(۱) أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الأشربۃ: باب في إیکاء الآنیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۴، رقم: ۳۷۳۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مبحث في بول الفارۃ وبعرہا وبول الہرۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص193
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ غسل نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ ہی سنت اور نہ مباح؛ بلکہ بدعت ہے، جو سجاد نشین اس بدعت کو ترک کرے گا،وہ مستحق اجر وثواب ہوگا۔(۲)
(۲) فإن کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ ابوداود، في سننہ، کتاب السنۃ، باب لزوم السنۃ،ج ۲، ص:۶۳۵،رقم:۴۶۰۷)؛ و عن عائشۃ أن رسول اللّٰہ ﷺ من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، باب تعظیم حدیث رسول اللّٰہ، ج۱، ص:۳، رقم ۱۴(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص286