نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مدرسہ میں بھی نماز جمعہ اور دیگر نمازیں باجماعت درست ہیں؛ لیکن مسجد میں نماز پڑھنے کا جو ثواب ہے وہ نہیں ملے گا۔(۲)
(۲) المسجد الجامع لیس بشرط لہذا أجمعوا علی جوازہا بالمصلي في فناء المصر، (محمد بن محمد، کبیری، ’’حلبي کبیري، کتاب الصلاۃ‘‘:ص: ۵۵۱، مطبع اشرفي دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص373

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) سمت قبلہ کی تعیین اور تعمیر مساجد کے سلسلے میں صحابہؓ و تابعین سے لے کر آج تک طریقہ یہ ہے کہ جس شہر میں پرانی مسجدیں مسلمانوں کی تعمیر کردہ موجود ہوں انھیں کے مطابق نئی مساجد تعمیر کرلی جائیں، ایسی جگہوں میں آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ کی باریکیوں میں پڑنا خلاف سنت اور نامناسب ہے؛ اس لیے آپ اپنے آس پاس کی پرانی مسجدوں کے مطابق اپنی مسجد کا قبلہ طے کرلیں۔ آلات جدیدہ پر کلی اعتماد نہ کریں کمپاس یا قبلہ نما کی تعیین کاکلی اعتبار نہیں ہے، ہاں اس سے آپ مدد لے سکتے ہیں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
(۲) اگر عین قبلہ سے پینتالیس ڈگری سے کم انحراف ہو، تو نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن جان بوجھ کر انحراف رکھنا درست نہیںہے۔
(۳) اگر واقعی مسجد جہت قبلہ سے منحرف ہے، تو مسجد کو از سر نو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ صفیںاس طرح لگادی جائیں کہ تمام صفوں کا رخ جہت قبلہ کی طرف ہوجائے۔
(۴) جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قدیم ترین مسجد کو معیار بنایا جائے، لیکن اس کی کوئی حتمی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شہر میں جو سب سے قدیم مسجد ہو اس کو معیار بنالیا جائے۔
’’فللمکي إصابۃ عینہا  ولغیرہ أي: غیر معاینہا إصابۃ جہتہا بأن یبقي شيء من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ أو لہوائہا، بأن یفرض من تلقاء وجہ مستقبلہا حقیقۃ في بعض البلاد الخ قال الشامي: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز، ویؤیدہ ما قال في الظہیریۃ: إذا تیامن أو تیاسر تجوز؛ لأن وجہ الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ إلی القبلۃ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، بحث في استقبال القبلۃ:ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ: زکریا دیوبند۔
اتفقوا علی أن القبلۃ في حق من کان بمکۃ عین الکعبۃ، فیلزمہ التوجہ إلی عینہا، کذا في فتاویٰ قاضي خان … ومن کان خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ، وہو قول عامۃ المشائخ، ہو الصحیح ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث، في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، مکتبہ زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص272

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اس طرح اٹھائیں کہ انگوٹھوں کے سرے کانوں کی لو سے ملے ہوئے ہوں اور عورت اس طرح اٹھائے کہ انگلیوں کے سرے کندھوں کے برابر ہوں، شامی میں ہے۔
’’ورفع یدیہ ماسًا بإبہامیہ شحمتي أذنیہ ہو المراد بالمحاذۃ‘‘ عورت کے متعلق ’’والمرأۃ ترفع بحیث یکون رؤوس أصابعہا حذاء منکبیہا‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في حدیث ’’الأذان جزم‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۲، ۴۸۳۔
وکیفیتہا إذا أراد الدخول في الصلوۃ، کبر ورفع یدیہ حذاء أذنیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ وبرؤوس الأصابع فروع أذنیہ، کذا في التبین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، زکریا دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  416

 

روزہ و رمضان

Ref. No. 39/1052

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ام المومنين حضرت عائشہ  رضي اللہ عنھا نےنبی اکرم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ ميں شب قدر ميں كون سى دعا مانگوں؟ تو آپ نے فرمایا اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ (اے اللہ ، تو معاف كرنے والا ہے ، معافى كو پسند كرتا ہے ، تُو مجھے معاف فرما دے)۔ سنن الترمذی

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1647/43-1229

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے ان کے ساتھ کاروبار میں اس طرح پیسے لگائے کہ خریدنے اور بیچنے کی ذمہ  داری آپ نے ان کو دیدی ، وہ اپنی صوابدید پر خریدتے اور بیچتے ہیں، اور آپ کے پیسے کو صحیح جگہ لگاتے ہیں ،  اور پھر فائدے کو برابر تقسیم کرکے آپ کو آپ کا حصہ دیدیتے ہیں، تو اس معاملہ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اور خریدی ہوئی زمین کو جاننا اور دیکھنا وغیرہ کوئی چیز آپ کے لئے ضروری نہیں ہے؛ اس لئے ان کا آپ کی اجازت کے بغیر خریدنا اور بیچنا درست ہے، اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں اس میں کوئی شبہ کی چیز نہیں ہے۔

إلا في صورة الخلط والاختلاط استثناء من صحة البيع بلا إذن الشريك، وحاصله توقف الصحة على إذن الشريك (شامی، کتاب الشرکۃ 4/304) ولكل واحد منهما أن يبيع ما اشتراه، وما اشترى صاحبه مرابحة على ما اشترياه؛ لأن كل واحد منهما وكيل لصاحبه بالشراء والبيع، والوكيل بالبيع يملك البيع مرابحة وهل لأحدهما أن يسافر بالمال من غير رضا صاحبه؟ ذكر الكرخي أنه ليس له ذلك والصحيح من قول أبي يوسف ومحمد أن له ذلك (بدائع، فصل فی حکم الشرکۃ 6/71)

(مَا يَفْعَله الشَّرِيك فِي مَال الشّركَة) وَيجوز للشَّرِيك ان يفعل فِي مَال الشّركَة سِتَّة عشر شَيْئا احدهما ان يَبِيع وَيَشْتَرِي وَالثَّانِي ان  يرْهن ويرتهن وَالثَّالِث ان يُؤجر ويستأجر وَالرَّابِع ان يقبل البيع وَالشِّرَاء وَالْخَامِس ان يُولى انسانا السّلْعَة بِمَا اشْتَرَاهُ وَالسَّادِس ان يُشْرك انسانا فِيمَا اشْترى وَالسَّابِع ان يودع المَال من الشّركَة وَالثَّامِن ان يعير شَيْئا من مَال التِّجَارَة وَالتَّاسِع ان يستبضع مَالا من مَال الشّركَة والعاشر ان يَبِيع بِالنَّقْدِ والنسيئة وَالْحَادِي عشر ان يَبِيع بالاثمان وَالْعرُوض وَالثَّانِي عشر ان يَأْذَن للْعَبد من مَال الشّركَة فِي التِّجَارَة وَالثَّالِث عشر ان يُوكل فِي البيع وَالشِّرَاء وَالرَّابِع عشر ان يَدْعُو احدا الى الطَّعَام وَالْخَامِس عشر ان يهدي الشَّيْء الْيَسِير وَالسَّادِس عشر ان يتَصَدَّق بِشَيْء يسير (النتف فی الفتاوی للسغدی، باب مالایجوز للشریک فعلہ فی مال الشرکۃ 1/537)

المادة (1372) إذا كان رأس مال الشريكين متفاضلا كأن كان رأس مال أحدهما مائة ألف درهم ورأس مال الآخر مائة وخمسين ألف درهم فإذا شرط تقسيم الربح بينهما بالتساوي فيكون بمعنى أنه شرط زيادة حصة في الربح للشريك صاحب رأس المال القليل بالنسبة إلى رأس ماله ويكون ذلك كشرط ربح زائد لأحد الشريكين حال كون رأس مالهما متساويا , فلذلك إذا عمل شرط كليهما أو شرط عمل الشريك صاحب الحصة الزائدة في الربح أي صاحب رأس المال القليل صحت الشركة واعتبر الشرط , وإذا شرط العمل على صاحب الحصة القليلة من الربح أي صاحب رأس المال الكثير فهو غير جائز ويقسم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما. المادة (1373) يجوز لكل واحد من الشريكين أن يبيع مال الشركة نقدا أو نسيئة بما قل أو كثر. (مجلۃ الاحکام العدلیۃ، الفصل الخامس فی شرکۃ الاموال والاعمال 1/264)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1748/43-1488

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس سلسلہ میں بنیادی بات یاد رکھیں کہ نکاح درست ہونے کے لئے ضروری ہے کہ لڑکی یا اس کا وکیل مجلس نکاح میں موجود ہو، اور وہ ایجاب کرے اور لڑکا قبول کرے اور دو گواہ نکاح کے ایجاب و قبول کو سنیں اور یہ سب مجلس نکاح میں موجود ہوں؛ اگر ان چاروں میں سے کوئی ایک بھی مجلس نکاح سے غائب ہوگا یا آن لائن ہوگا تو اس کا عتبار نہیں ہوگا، اور نکاح درست نہیں ہوگا۔

آپ کے سوال میں پوری صورت حال واضح نہیں ہورہی ہے اس لئے اگر چاہیں تو دوبارہ وضاحت کے ساتھ لکھ کر سوال کریں۔ بہرحال  نکاح کے لئے بنیادی بات ذکرکردی گئی ہے۔

ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین الخ۔ (الدر المختار 4/76 زکریا)
وشرط حضور شاہدین حرین، أو حر وحرتین مکلفین سامعین قولہما معاً۔ (الدر المختار 4/91-87 زکریا)
ومنہا أن یکون الإیجاب والقبول في مجلس واحد حتی لو اختلف المجلس بأن کانا حاضرین فأوجب أحدہما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل یوجب اختلاف المجلس لا ینعقد، وکذا إذا کان أحدہما غائبًا لم ینعقد۔ (الفتاویٰ الہندیۃ 1/269زکریا)
ومنہا سماع الشاہدین کلامہما معًا، ہٰکذا في فتح القدیر … ولو سمعا کلام أحدہما دون الآخر أو سمع أحدہما کلام أحدہما والآخر کلام الآخر لا یجوز النکاح، ہٰکذا في البدائع۔
(الفتاویٰ الہندیۃ 1؍268زکریا، بدائع الصنائع، کتاب النکاح / عدالۃ الشاہدین 2؍527 زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1854

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ جنت و جہنم کی تخلیق ہوچکی ہے۔ قرآن کریم اور احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1950/44-1855

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شہر میں کسی ایک جگہ بھی عید الاضحی کی نماز ہوگئی تو قربانی کی جاسکتی ہے۔ محل قربانی کا اعتبار کیاجائے گا۔ جو قربانی دیہات میں ہو اس میں نماز عید کا ہوجانا شرط نہیں ہے، اس لئے نماز عید سے پہلے بھی قربانی کی جاسکتی ہے،  پھراگرکوئی شخص قربانی کا  گوشت شہر میں لائے تو حرج نہیں ہے۔  اس لئے صورت مسئولہ میں آپ سب کی قربانی درست ہوگئی۔

وأول وقتها) (بعد الصلاة إن ذبح في مصر) أي بعد أسبق صلاة عيد، ولو قبل الخطبة لكن بعدها أحب وبعد مضي وقتها لو لم يصلوا لعذر، ويجوز في الغد وبعده قبل الصلاة لأن الصلاة في الغد تقع قضاء لا أداء زيلعي وغيره (وبعد طلوع فجر يوم النحر إن ذبح في غيره).

 (قوله: إن ذبح في غيره) أي غير المصر شامل لأهل البوادي، وقد قال قاضي خان: فأما أهل السواد والقرى والرباطات عندنا يجوز لهم التضحية بعد طلوع الفجر، وأما أهل البوادي لايضحون إلا بعد صلاة أقرب الأئمة إليهم اهـ وعزاه القهستاني إلى النظم وغيره وذكر في الشرنبلالية أنه مخالف لما في التبيين ولإطلاق شيخ الإسلام". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 318)، كتاب الأضحية, ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند 

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایصال ثواب اور صدقہ کرنے کے لئے، وقت، تاریخ اور طریقہ اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت ہے اس لئے یہ طریقہ بھی بدعت وناجائز ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
وہو أیضاً: بدعۃ لم یرد فیہ شیء بہ علی أن الناس إنما یفعلون ذلک تعظیماً لہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فالعوام معذورون لذلک بخلاف الخواص۔ (أحمد بن محمد، الفتاوی الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۵۸)
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص345

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2474/45-3746

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The world we live in is a house of material resources; we all are forced to take help from one another, without one another's help the system of this world cannot run, obviously this kind of help seeking will not be called Shirk. However, the help that is specific to Allah, i.e. asking someone for help in matters that do not come under worldly causes, considering someone to be omnipotent and supreme, is special attribute of Allah. Regarding the matters of the hereafter or the issues of this world which are only in the control of Allah, if a person considers an angel, a prophet, a saint or a human being as omnipotent and sovereign as Allah Almighty, and asks the same for help in needs then it is considered shirk.

قال اللہ تعالی: وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِنَ الظَّالِمِیْنَ (سورہٴ یونس آیت: ۱۰۶)، لَہُ دَعْوَةُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ (سورہٴ رعد آیت: ۱۴)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband