نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2643/45-4016

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں بلکہ ان حالات میں پڑھنا چاہئے۔

دعائے قنوت یہ ہے : اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِیْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِیْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، اِنَّہ لَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، وَ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ۔ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُوْمِنِیْنَ وَلِلْمُومِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَ أَصْلِحْھُمْوَ أَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِھِمْ وَاجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَةََ، وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّةِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ، وَأَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِیْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ، لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَةَ وَالْمُشْرِکِیْنَ، الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَائَکَ۔ اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذیْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔

و عن سالم عن أبیہ أنہ سمع رسول الله صلی الله علیہ وسلم إذا رفع رأسہ من الرکوع من الرکعة الآخرة من الفجر یقول: ”اللہم العن فلانا وفلانا وفلانابعد ما یقول: سمع الله لمن حمدہ ربنا ولک الحمد، کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یدعو علی صفوان بن أمیة، وسہیل بن عمرو، والحارث بن ہشام۔ (بخاری شریف، کتاب المغازی، باب قولہ ثم انزل علیکم من بعد الغم الآیة، النسخة الہندیة /۲ ۵۸۲، رقم: ۳۹۲۲، ف: ۴۰۶۹)إن نبی الله صلی الله علیہ وسلم قنت شہرا فی صلاة الصبح یدعو علی أحیاء من أحیاء العرب علی رعل وذکوان وعصیة، وبنی لحیان، … أولئک السبعین من الأنصار قتلوا ببئر معونة۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة الرجیع، ورعل وذکوان، النسخة الہندیة /۲ ۵۸۶، رقم: ۳۹۴۳) ان قنوت النازلة عندنا مختص بصلاة الفجر دون غیرھا من الصلوات الجھریة أو السریة (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۴۴۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعی علی قنوت الفجر، وفیہ تصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماونا علی القنوت للنازلة، ثم رأیت الشرنبلالی فی مراقی الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظھر الحموی أنہ قبلہ، والأظھر ما قلناہ، واللّٰہ أعلم (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب: فی القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو وغسل اور کپڑوں وغیرہ کو پاک کرنے کے لیے پانی کا پاک ہونا ضروری ہے، بڑے تالاب میں جو رکا ہوا پانی ہوتا ہے وہ فی نفسہ پاک ہے، اس کے اندر زندہ مچھلیاں رہنے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا اسی طرح اگر اس میں کچھ مچھلیاں مر جائیں، تو بھی وہ پانی پاک ہی رہتا ہے، اس لئے کہ وہ حیوان جس کا مردار حلال ہے جیسے مچھلی وہ موت وحیات دونوں حالتوں میں پاک ہے، مچھلیوں میں حقیقت میں خون نہیں ہوتا وہ پانی ہی میں پیدا ہوتی اور اسی میں مرتی رہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’ہو الطہور مائہ الحل میتتہ‘‘(۱)
مچھلی پالن کرنے والے لوگ مچھلیوں کو کھلانے کے لیے مرے ہوئے جانور بیل، بھینس یا دیگر گلی سڑی ناپاک چیزیں تالاب میں ڈالتے ہیں، اگر ایسی ناپاک چیزیں تالاب میں ڈالی گئی ہوں، تو پھر دو صورتیں ہیں، اگر تالاب دہ در دہ سے کم ہے، تو نجاست کے گرنے ہی سے ناپاک ہو جائے گا اور اگر بڑا تالاب ہے اور نجاست کی وجہ سے پانی کے اوصاف ثلاثہ رنگ، بو اور ذائقہ میں سے کوئی وصف بدل گیا  تو وہ تالاب ناپاک کہلائے گا اور اس سے وضو وغسل اسی طرح کپڑے پاک کرنا درست نہیں ہوگا۔

’’الماء إذا وقعت فیہ نجاسۃ فإن تغیر وصفہ لم یجز الانتفاع بہ بحال‘‘ (۱)
’’إن تغیرت أوصافہ لا ینتفع بہ من کل وجہ کالبول‘‘ (۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ: باب ما جاء في ماء البحر أنہ طہور‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۶۹۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مسئلۃ البئر جحط‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني فیما لا یجوز بہ التوضئ، ومما یتصل بذلک مسائل‘‘: ج ۱، ص: ۷۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص70

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہم اللہ کے قول کے مطابق اس صورت میں غسل واجب ہے، اور اسی میں احتیاط ہے(۲) ’’وإن رأی بللا إلا أنہ لم یتذکر الاحتلام فإن تیقن أنہ ودي لا یجب الغسل، وإن تیقن أنہ مني یجب الغسل، و إن تیقن أنہ مذي لا یجب الغسل، و إن شک أنہ مني أو مذي قال أبو یوسف رحمہ اللّٰہ: لا یجب الغسل حتی یتقین بالاحتلام، وقالا یجب ہکذا ذکرہ شیخ الإسلام‘‘(۱)

(۲) إذا استیقظ فوجد علی فخذہ أو علی فراشہ بللا علی صورۃ المذي ولم یتذکر الإحتلام فعلیہ الغسل في قول أبي حنیفۃ و محمد، و عند أبي یوسف لایجب، و أجمعوا أنہ لو کان منیا أن علیہ الغسل۔ (الکاسانی، بدائع الصنائع،’’کتاب الطہارۃ، أحکام الغسل،‘‘ ج۱، ص:۱۴۸)؛ واستیقظ فوجد بفخذہ و ثوبہ بللا ولم یذکر الاحتلام فإن تیقن أنہ مذي أو ودي لا غسل۔۔۔۔ و إن شک أنہ مني أو مذي یجب عندھما خلافا لہ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ،’’کتاب الطہارات، فصل في الغسل، إنزال المني من موجبات الغسل،‘‘ ج۱، ص:۳۳۱مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
 (۱)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ ’’کتاب الطہارۃ، الباب الثانی في الغسل، الفصل الثالث في المعانی،‘‘ج۱، ص: ۶۶

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص289

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورتوں کے لیے حیض اور نفاس کے ایام میں اپنے خاص مقام پر کوئی ایسی چیز رکھنا ثابت شدہ ہے جو کپڑوں کو ملوث ہونے سے بچائے رکھے، اب یہ کپڑا ہو روئی ہو یا موجودہ دور میں خاص اسی مقصد سے بنائے گئے پیڈ ہوں، سب کا استعمال شرعاً جائز اور درست ہے۔
’’وضع الکرسف مستحب للبکر فی الحیض وللثیب فی کل حال وموضعہ موضع البکارۃ ویکرہ في الفرج الداخل الخ، وفي غیرہ أنہ سنۃ للثیب حالۃ الحیض مستحبۃ حالۃ الطہر ولو صلتا بغیر کرسف جاز‘‘(۱)
’’عن أم سعد امرأۃ زید بن ثابت قالت: سمعت رسول اللّٰہ یأمر بدفن الدم إذا احتجم۔ رواہ الطبراني في الأوسط‘‘(۲)
’’قال العلامۃ الحصکفیؒ: کل عضو لا یجوز النظر إلیہ قبل الانفصال لا یجوز بعدہ کشعر عانتہ وشعر رأسھا وعظم ذراع حرّۃ میتۃ وساقھا وقلامۃ ظفر رجلھا دون یدھا وان النظر الٰی ملاء ۃ الاجنبیۃ بشھوۃ حرام‘‘(۳)

اسلام نے طہارت وپاکی پر بڑا زور دیا ہے اس میں ظاہری طہارت بھی شامل ہے اور باطنی طہارت بھی، ظاہری طہارت سے دہن کی صفائی، بدن کی صفائی، لباس کی صفائی اور حال وماحول کی صفائی وغیرہ جیسے امور مراد ہیں، انسان فطری طور پر پاکی وصفائی کو پسند کرتا ہے ظاہری نظافت وپاکیزگی خود انسان کے لیے جہاں فرحت بخش ہوتی ہے وہیں اس میں دوسروں کی رعایت بھی ہے فرد کی نظافت وطہارت کے حکم میں فرد کے ساتھ سماج میں رہنے والے دوسرے لوگوں کی کس قدر رعایت ملحوظ ہے اس تعلق سے بھی مزاج شریعت کو ملحوظ رکھنا چاہئے، طہارت ونفاست ایک تہذیب یافتہ اور مثقف قوم کا امتیاز ہے، ایک انسان جس کا دہن پاک نہ ہو، بدن صاف ستھرا نہ ہو، لباس میلا کچیلا ہو نظافت پسند طبیعتیں اس کو نا پسند کرتی ہیں، ان تمام کی پاکی ونظافت کے ساتھ رہن سہن پاک صاف ہو، مکانات کی صفائی کے ساتھ گلی کوچوں اور محلوں کو بالخصوص مسلم آبادیوں کو طہارت وپاکی صفائی ونظافت کا مظہر ہونا چاہئے، عفونت وگندگی ہر اعتبار سے ناپسندیدہ ہے، خواہ وہ کہیں ہو لباس وبدن میں ہو، رہائش گاہوں میں، گلی کوچوں میں ہو یا بستیوں میں یہی وجہ ہے کہ اسلام نے طہارت ونظافت کے خصوصی احکام دئیے ہیں، کتب حدیث وفقہ میں طہارت کا ایک مستقل باب قائم ہے  اس میں وہ سارے مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں جن کا خاص طہارت وپاکی سے تعلق ہوتا ہے فرد کی نظافت بھی اسلام میں مطلوب ہے اور اجتماعی اعتبار سے بھی پاکی اور نظافت کی بڑی اہمیت ہے، طہارت ونظافت کو اسلام نے اس قدر اہمیت دی ہے کہ اس کو نصف ایمان قرار دیا ہے، جیسا کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے: ’’الطہور شطر الإیمان‘‘(۱)
خلاصۂ کلام:
حیض کو جذب کرنے کے لیے استعمال شدہ کپڑے، سینیٹری پیڈ، کرسف وغیرہ کو کھلے عام پھینکنا درست نہیں، تہذیب اور حیا کا تقاضا ہے کہ اس طرح کی چیزوں کو چھپاکر ایسی جگہوں پر پھینکا جائے جہاں عام لوگوں کی نگاہ نہ پڑے؛ اس لیے صورتِ مسئولہ میں بہتر یہی ہے کہ خواتین اپنے غیر ضروری کاٹے ہوئے بال، حیض کے کپڑے، ٹشو وغیرہ کسی مناسب جگہ میں ضائع کردیں، آج کل بلدیہ کی جانب سے نجاست وغلاظت ڈالنے کے لیے جگہ جگہ مناسب نظم ہوتا ہے بہتر ہے کہ اس میں ڈال دیا جائے، اگر یہ عمل مشکل ہو، تو اس پہلو کی رعایت کے ساتھ ضائع کرنا چاہئے؛ البتہ ایسی جگہ پھینکناجو گندگی یا بیماری  یا بے حیائی پھلانے کا سبب ہو، مکروہ ہے۔
’’یدفن أربعۃ: الظفر، والشعر، وخرقۃ الحیض والدم‘‘ (۲)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’فإذا قلم أظفارہ أو جز شعرہ ینبغي أن یدفن ذلک الظفر والشعر المجزوز فإن رمی بہ فلا بأس وإن ألقاہ في الکنیف أو في المغتسل یکرہ ذلک لأن ذلک یورث داء کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ یدفن أربعۃ الظفر والشعر وخرقۃ الحیض والدم کذا في الفتاویٰ العتابیۃ‘‘(۱)
 

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳۔
(۲) نور الدین الہیثمي، مجمع الزوائد، ’’باب دفن الدم‘‘: ج ۵، ص: ۱۵۸، رقم: ۸۳۴۱۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۳) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الکراہیۃ: فصل في النظر، مطلب في سترۃ العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۸۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب فضل الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸، رقم: ۲۲۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وقلم الأظفار الخ‘‘: ج ۵، ص: ۴۱۲۔
(۱)أیضًا:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص391

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام قابل امامت نہیں ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے اس کے پیچھے نماز بکراہت تحریمی ادا ہوتی ہے۔(۱)
متولی کو چاہئے کہ اس کو الگ کردے ورنہ محلہ کے ذمہ دار جو جماعت کے پابند ہوں اس کو الگ کردیں۔(۲)

(۱) ویکرہ إمامۃ عبد … وفاسق، وفي الشامیۃ قولہ وفاسق من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر، وفي المعراج قال أصحابنا: لاینبغی أن یقتدی بالفاسق الخ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۷)
قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (أیضًا:)
(۲)ویکرہ تقدیم العبد … والفاسق لأنہ لایہتم لأمر دینہ وإن تقدموا جاز لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل برو فاجر الخ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص172

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اگر امام کا یہ معمول ہے اور اس سے دریافت کرنے پر یہی جواب دیتا ہے (جو سوال میں مذکور ہے)، تو اس کا یہ جواب بالکل غلط ہے؛اس لیے کہ نماز کسی صورت میں معاف نہیں، اگر کھڑے ہوکر نہ پڑھ سکے، تو بیٹھ کر، اگر بیٹھ کر نہ پڑھ سکے، تو لیٹ کر اگر یہ بھی نہ ہو سکے، تو اشارے سے پڑھے، ہاں غشی وجنون کی حالت میں نماز معاف ہے،اگر امام صاحب کا یہی معمول ہے، تو وہ فاسق ہے اور فاسق کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے۔
’’قال في الدر المختار یکرہ إمامۃ عبد وفاسق۔ وقال في رد المحتار تحت قولہ وفاسق وقال في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴۔
کرہ إمامۃ العبد والأعربي والفاسق والمبتدع والأعمی و ولد الزنا، فالحاصل أنہ یکرہ الخ، قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم، (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق، ج۱، ص: ۶۱۰)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمیٰ ومبتدع أي صاحب بدعۃ وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص261

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سلام پھیر کر شریک جماعت ہوجائے۔ بعد میں ان کی قضاء کر لے؛ کیوں کہ شروع کرنے سے یہ واجب ہوگئیں، یا پھر دو رکعت مکمل کر کے سلام پھیر دے۔(۱)
البتہ فجر کی سنتوں کی چوں کہ خصوصی تاکید آئی ہے اس لیے متعدد صحابہ کرام ؓنے فجر کی اقامت ہونے کے بعد بھی سنت فجر کو اداء فرمایا ہے۔(۲)

(۱) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا أقیمت الصلاۃ فلا صلاۃ إلا المکتوبۃ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب إذا أقیمت الصلاۃ فلا صلاۃ إلا المکتوبۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۶، رقم: ۴۲۱)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہ، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا۔ (أبوجعفر الطحاوي في شرح مشکل الآثار: ج ۱، ص: ۳۲۰، ۳۲۱)۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص374

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) سمت قبلہ کی تعیین اور تعمیر مساجد کے سلسلے میں صحابہؓ و تابعین سے لے کر آج تک طریقہ یہ ہے کہ جس شہر میں پرانی مسجدیں مسلمانوں کی تعمیر کردہ موجود ہوں انھیں کے مطابق نئی مساجد تعمیر کرلی جائیں، ایسی جگہوں میں آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ کی باریکیوں میں پڑنا خلاف سنت اور نامناسب ہے؛ اس لیے آپ اپنے آس پاس کی پرانی مسجدوں کے مطابق اپنی مسجد کا قبلہ طے کرلیں۔ آلات جدیدہ پر کلی اعتماد نہ کریں کمپاس یا قبلہ نما کی تعیین کاکلی اعتبار نہیں ہے، ہاں اس سے آپ مدد لے سکتے ہیں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
(۲) اگر عین قبلہ سے پینتالیس ڈگری سے کم انحراف ہو، تو نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن جان بوجھ کر انحراف رکھنا درست نہیںہے۔
(۳) اگر واقعی مسجد جہت قبلہ سے منحرف ہے، تو مسجد کو از سر نو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ صفیںاس طرح لگادی جائیں کہ تمام صفوں کا رخ جہت قبلہ کی طرف ہوجائے۔
(۴) جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قدیم ترین مسجد کو معیار بنایا جائے، لیکن اس کی کوئی حتمی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شہر میں جو سب سے قدیم مسجد ہو اس کو معیار بنالیا جائے۔
’’فللمکي إصابۃ عینہا  ولغیرہ أي: غیر معاینہا إصابۃ جہتہا بأن یبقي شيء من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ أو لہوائہا، بأن یفرض من تلقاء وجہ مستقبلہا حقیقۃ في بعض البلاد الخ قال الشامي: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز، ویؤیدہ ما قال في الظہیریۃ: إذا تیامن أو تیاسر تجوز؛ لأن وجہ الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ إلی القبلۃ‘‘ (۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، بحث في استقبال القبلۃ:ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ: زکریا دیوبند۔
اتفقوا علی أن القبلۃ في حق من کان بمکۃ عین الکعبۃ، فیلزمہ التوجہ إلی عینہا، کذا في فتاویٰ قاضي خان … ومن کان خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ، وہو قول عامۃ المشائخ، ہو الصحیح ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث، في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، مکتبہ زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص272

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں ثنا پڑھنا سنت غیر مؤکدہ ہے اور سنت غیر مؤکدہ کو لفظ مستحب سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے، لہٰذا ان صاحب کے مستحب کہنے میں مضائقہ نہیں ہے۔(۲)
(۲) وأما سننہا فکثیرۃ إلی أن قال ثم یقول: سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا إلہ غیرک سواء کا إماماً أو مقتدیا أو منفرداً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في سننہا‘‘: ج ۱، ص: ۷۱، ۴۶۴، زکریا دیوبند)
وسننہا رفع الیدین للتحریمۃ ونشر أصابعہ وجہر الإمام بالتکبیر والثناء التعوذ التسمیۃ الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، زکریا دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  417

 

متفرقات

Ref. No. 2818/45-4422

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصولی طور پر تنہائی میں آہستہ آواز سے ذکر کرنا بہتر ہے۔ لیکن اجتماعی طور پر جہرا ذکرکرنا شرعا جائزہے۔ اوراس سلسلہ میں حدیث قدسی سے ثبوت ملتاہے۔

عن أبي ھریرہ رضى اللہ عنہ قال قال النبي ﷺ يقول الله تعالى أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه إذا ذکرنی فان ذکرنی في نفسه ذكرتہ فی نفسي وإن ذكرني في ملاء ذكرته في ملاء خير منهم (صحیح بخاری 9/121) (صحیح مسلم 4/2061)

اس لئے اگر کوئی متبع شریعت، شیخ کامل اپنے مریدوں کی اصلاح و تربیت کیلئے کسی ایسی جگہ ذکرکی مجلس منعقد کرے جہاں دوسرے عبادت کرنے والوں کی عبادت میں خلل نہ پڑے اور اسے لازم نہ سمجھا جائے تو اسکی اجازت ہے ۔ حضرت مولانا حکیم اخترصاحب نوراللہ مرقدہ یا ان کے خلفاء کی جانب سے ذکر کی مجالس کا انعقاد درست ہے۔ اور ان کے خلفاء سے اصلاحی تعلق قائم کرنا بھی درست ہے۔ صوفیاء کرام کا مقصد یہ ہے ذکر اللہ سے اللہ تبارک وتعالی کی یاد تازہ ہوتی ہے اور تعلق و محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔

عن ابی ھر یرۃ  قال قال النبي ﷺ يقول الله تعالى أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه إذا ذکرنی فان ذکرنی في نفسه ذكرتہ فی نفسي وإن ذكرني في ملاء ذكرته في ملاء خير منهم وإن تقرب إلى بشبر تقربت إليه ذراعا وإن تقرب إلى ذراعاً تقربت إليه باعا وإن أتاني يمشي أتيته هرولة – (متفق عليه) اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحید ، باب قول اللہ  و يحذركم اللہ نفسہ 6/2694)

( قوله ورفع صوت بذكر ) أقول : اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك فتارة قال إنہ حرام وتارة قال إنه جائز و فى الفتاوى الخيرية من الكراهة والإستحسان جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحوه وإن ذكرنى فى ملاء ذكرته فى ملاء خير منهم - رواه الشيخان .... فقال بعض أهل العلم إن الجھر أفضل لأنه أكثر عملا ولتعدى فائدته إلى السامعين و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همه إلى الفکر وبصرف سمعہ إليه ويطرد النوم ويزيد النشاط . (الدر المختار مع رد المحتار 1/660)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند