Frequently Asked Questions
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 1839/43-1670
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دیگر کتب سماویہ کو کلام اللہ کہنا حقیقۃً درست نہیں ہےالبتہ مجازا ان کو بھی کلام اللہ کہاجاسکتاہے۔ کیونکہ کلام اللہ ازلی وابدی ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے اٹھائی ہے، جو تغیروتبدل سے پاک ہے ، جو چیلینج کرتاہوا آیاہے، اور وہ محفوظ بھی ہے جبکہ دیگر کتب سماویہ غیرمحفوظ ہیں اور ان کی اصل عبارات فنا ہوگئیں ۔ قرآن و حدیث میں قرآن کو ہی کلام اللہ کہاگیاہے، دیگر کتب سماویہ کو کلام اللہ نہیں کہاگیاہے۔ قرآن کریم بعینہ اللہ کا کلام ہے جبکہ دیگر کتب سماویہ کا مضمون من جانب اللہ ہے، ان کی حیثیت حدیث قدسی کی سی ہے ۔ ان کا مضمون اللہ کی جانب سے ہے اس لئے ان کو کتاب اللہ کہاجاتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2043/44-2136
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحومہ نے جو کچھ زمین و جائداد و روپیہ پیسہ چھوڑا ہے، اس کو کل بیس (20) حصوں میں تقسیم کریں، جن میں سے پانچ حصے مرحومہ کے شوہرکو ، چھ 6 حصے ہر ایک بیٹے کو اور تین حصے بیٹی کو ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس رونمائی سے معاشرے پر غلط اثر پڑتا ہے؛ اس لئے اس کی نمائش درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) وعن جندب رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع الندبۃ ومن یرائی یرائي اللّٰہ بہ، متفق علیہ۔( مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الریاء والسمعۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۴)
قال نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یقبل اللّٰہ عزوجل عملا فیہ مثقال ذرۃ من ریاء (اتحاف السادۃ المتقین، ’’کتاب ذم الجاہ والریاء‘‘:ج ۱۱، ص: ۷۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص437
اجماع و قیاس
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس طرح واش بیسن میں چہرہ اور ہاتھ دھونے اور ناک صاف کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور اس کو کوئی برا نہیں سمجھتا اسی طرح پیر دھونے میں بھی کوئی برائی نہیں ہے؛ تاہم جب لوگوں کو اعتراض ہو، تو احتیاط کرنی چاہئے اور کوئی متبادل تلاش کرنا چاہئے، آفس والوں کے ساتھ اختلاف اچھی بات نہیں ہے، اب ایک شکل تو یہ ہے کہ آپ بوتل میں پانی لے کر پیر کسی اور جگہ دھو لیا کریں؛ دوسری شکل یہ ہے کہ خفین پہن کر آفس جائیں اور خفین پر مسح کر لیا کریں؛ البتہ صرف لوگوں کے اعتراض کی وجہ سے پانی کے موجود ہوتے ہوئے پیروں پر مسح یا تیمم کی اجازت نہیں ہوگی۔
’’قال تعالیٰ: {فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْداً طَیِّبًا}(۱)
’’لقولہ علیہ السلام: یمسح المقیم یوماً ولیلۃ والمسافر ثلثۃ أیام ولیالیہا‘‘(۲)
(۱) سورۃ المائدۃ: ۶۔
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص194
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس شخص پر غسل واجب ہے اور وہ شخص سخت گناہ گار ہے، اس کو اس فعلِ بد سے توبہ لازم ہے؛ ایسا عمل شریعت کی نگاہ میں انتہائی ناپسندیدہ اور قابل مؤاخذہ ہے۔(۱)
(۱) یفترض الغسل بواحد من سبعۃ أشیاء أولھا خروج المنی إلی ظاھر الجسد… و منھا إنزال المني بوطئ میتۃ أو بھیمۃ۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، فصل ما یوجب الاغتسال،‘‘ ج۱، ص:۹۶-۹۸ ، دارالکتاب دیوبند) و قیدنا بکونہ في قبل إمرأۃ لأن التواري في فرج البھیمۃ لا یوجب الغسل إلا بالإنزال۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۰۹)؛ و الإیلاج في البھیمۃ لا یوجب الغسل بدون الإنزال (عالم بن العلاء، لفتاویٰ التاتارخانیہ، بیان أسباب الغسل، ج۱، ص:۲۷۹، مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص287
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی عورت جو مستقل ماہواری کی پریشانی میں ہو اور حیض بند نہ ہوتا ہو، تو ہرماہ دس دن حیض کے شمار ہوں گے، اور باقی استحاضہ یعنی بیماری کے ہوں گے، حیض کے دنوں میں بیوی سے نہ ملے، اس کے علاوہ کے دنوں میں یعنی استحاضہ کے باوجود اپنی بیوی سے صحبت کرنا درست ہے۔ ’’فالعشرۃ من أول ما رأت حیض والعشرون بعدذلک طھرھا‘‘(۲) البتہ استحاضہ جو شرعی وطبعی عذر ہے، محض اس کی وجہ سے طلاق دینا بہتر نہیں ہے، ایسی حالت میں دوسری شادی کرنا بھی جائز ہے۔(۱)
(۲) الکاساني،بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل: في تفسیر الحیض، والنفاس، والاستحاضۃ، دم الحامل لیس بحیض‘‘ ج۱، ص:۱۶۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص386
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مدرس نے جعلی کاپیاں چھپوائی، پھر جانچ کے وقت ان کو یہ پھاڑ ڈالا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے کاپیاں جعلی چھپوائی تھی اس نے اس سے چندہ بھی کیا ہوگا ان کاپیوں پر اگر چندہ کیا گیا ہے تو مدرسہ کے ذمہ دار ان کو یہ شرعاً بالکل حق نہیں تھا اور نہ ہے کہ وہ اس رقم کو معاف کردیں؛ اس لیے کہ یہ ان حضرات کی ذاتی رقم نہیں ہے وہ رقم مدرسہ کی ہے جس کے معاف کرنے کا ان کو کوئی حق نہیں ہے، رقم پوری لی جائے یا ماہ بماہ تنخواہ سے وضع کی جائے(۱) اور یہ مدرس اپنی سچی توبہ واستغفار کا اعلان کردے تو مدرسہ کے ذمہ دار ان کو حق ہے کہ اس
کی خیانت کو معاف کرکے دو بارہ مدرس رکھیں؛(۲) لیکن رقم کا لینا لازم ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ آئندہ اس پر نظر رکھیںاس کو اس طرح خیانت کرنے کا موقعہ نہ ملے پس توبہ و استغفار کے اعلان کے بغیر اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔(۳)
(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ التوبہ: ۳۴)
{ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ النساء: ۲۹)
(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۳) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص168
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: در مختار میں مشغولیتِ علم فقہ کو ترکِ جماعت کا عذر قرار دیا گیا ہے ، لہٰذا اگر اتفاقاً ایسا ہوجائے تو حرج نہیں؛ البتہ اس کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے۔(۲)
(۲) منہا مطر وبرد وخوف وظلمۃ وحبس وعمی وفلج وقطع ید ورجل وسقام وإقعاد ووحل وزمانۃ وشیخوخۃ وتکرار فقہ لا نحو ولغۃ بجماعۃ تفوتہ ولم یداوم علی ترکہا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، کتاب الصلاۃ، ص: ۹۷، ۹۸)
قولہ وکذا اشتغالہ بالفقہ، الخ، عبارۃ نور الإیضاح، وتکرار فقہ بجماعۃ تفوتہ ولم أر ہذا القید لغیرہ ورمز في القنیۃ لنجم الأئمۃ فیمن لایحضرہا لاستغراق أوقاتہ في تکریر الفقہ لایعذر ولا تقبل شہادتہ ثم رمزلہ ثانیاً أنہ یعذر بخلاف مکرر اللغۃ ثم وفق بینہما بحمل الأول علی المواظب علی الترک تہاوناً والثاني علی غیرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۳، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص371
اسلامی عقائد
Ref. No. 2757/45-4289
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مشت زنی کرنے والوں کی انگلیاں قیامت کے دن گیابھن ہوں گی۔ میدانِ حشر میں تمام انسان اسے دیکھیں گے، سب کے سامنے اس کی رسوائی ہوگی۔ اس لئے اس سے شوہر کو بچنا چاہئے اور اپنے اوپر کنٹرول کرنا چاہئے، عورت کے بدن کے ساتھ رگڑنے وغیرہ کی اجازت ہے، نیز عام احوال میں بیوی سے مشت زنی کرانا بھی مکروہ ہے، لیکن اگر بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہو اور شوہر پر شہوت کا غلبہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ تاہم مشت زنی سے آدمی کافر نہیں ہوتاہے۔
{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ}
وله أن يقبلها ويضاجعها ويستمتع بجميع بدنها ما خلا ما بين السرة والركبة عند أبي حنيفة وأبي يوسف. هكذا في السراج الوهاج. (الفتاوى الهندية، كتاب الطهارة، الباب السادس : الدماء المختصة بالنساء، الفصل الرابع في الحيض، ج:1، ص:93)
(و) يمنع (وقربان ما تحت إزار) يعني ما بين سرة وركبة ولو بلا شهوة، وحل ما عداه مطلقا. (الدر المختار على صدر رد المحتار، كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:486)
أنه يجوز له أن يلمس بجميع بدنه حتى بذكره جميع بدنها إلا ما تحت الإزار فكذا هي لها أن تلمس بجميع بدنها إلا ما تحت الإزار جميع بدنه حتى ذكره۔ (رد المحتار، كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:487)
ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته، وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه۔ (رد المحتار،باب مايفسد الصوم وما لا يفسده، مطلب في حكم الاستمناء بالكف، ج:3، ص:371)
علامہ شہاب الدين محمود بن عبد الله حسينی آلوسی � (المتوفی: 1270ھ) روح المعانی میں مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں: ”فجمهور الأئمة على تحريمه وهو عندهم داخل فيما وراء ذلك، وكان أحمد بن حنبل يجيزه لأن المني فضلة في البدن فجاز إخراجها عند الحاجة كالفصد والحجامة … وعن سعيد بن جبير: عذب الله تعالى أمة كانوا يعبثون بمذاكيرهم، وعن عطاء: سمعت قوما يحشرون وأيديهم حبالى وأظن أنهم الذين يستمنون بأيديهم “(تفسیر ابن کثیر ،جلد نمبر 5،صفحہ نمبر 463، مطبوعہ: دار طيبة للنشر والتوزيع)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند