نکاح و شادی

Ref. No. 1477/42-925

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں دونوں کے ماں باپ الگ الگ ہیں، اس لئے اولاد میں  کوئی وجہ حرمت نہیں پائی جارہی ہے، اس لئے اولاد کا آپس میں پردہ کرنا لازم ہے اورمحرمات میں نہ ہونے کی وجہ سے  آپس میں نکاح  درست ہے، لہذا  ایک بیٹے کا نکاح فاطمہ سے کرناجائزہے۔  

وأما بنت زوجة أبیہ أو ابنہ فحلال(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 4/ 105،ط: زکریا،دیوبند، فصل فی المحرمات)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1856/43-1761

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی اصطلاح میں قبضہ کا مفہوم یہ ہے کہ مبیع اور مشتری کے مابین ایسے طور پر تخلیہ کردیا جائے کہ مشتری کو مبیع پر قبضہ کرنے میں بائع کی طرف سے کوئی مانع اوررکاوٹ نہ رہے، قبضہ کے لئے صرف زبانی نفع و نقصان کا ذمہ دار ہوجانا کافی نہیں ہے۔ مختلف چیزوں کا قبضہ ان کے حسب حال ہوتا ہے۔ قبضہ کی قدرت اور موقعہ دیدینا بھی قبضہ ہی کےقائم مقام ہے ۔

انٹرنیٹ کے ذریعہ ہونے والی تجارت میں قبضہ کا مطلب یہ ہے کہ مبیع کی تمام اوصاف ،مقدار وغیرہ بیان کردی جائے اور پھر مبیع کو آپ کے کہنے پر آپ کے نمائندہ  یا کسی ٹرانسپورٹ کمپنی کی تحویل میں دیدیا  جائے۔ تو اب جبکہ اس سامان کا ضمان  اور فائدہ آپ کی طرف منتقل ہوگیا تو آپ کا قبضہ تام ہوگیا۔ لیکن اگر کسی نے مذکورہ طریقہ پر قبضہ سے  قبل ہی کوئی سامان بیچ دیا تو یہ بیع فاسد ہوگی۔

التسلیم والقبض عندنا هو التخلیة والتخلی وهو أن یخلي البائع بین المبیع والمشتري برفع الحائل بینهما علی وجه یتمکن المشتری من التصرف فیه فیجعل البائع مسلماً للمبیع والمشتری قابضاً له وکذا تسلیم الثمن من المشتري إلی البائع. (بدائع الصنائع 5/244) قال في الدر ثم التسلیم یکون بالتخلیة علی وجهٍ یتمکن من القبض بلا مانع ولا حائل (شامي مع الدر، ج2، ص568) وَفِي الاِصْطِلاَحِ: هُوَ حِيَازَةُ الشَّيْءِ وَالتَّمَكُّنُ مِنْهُ، سَوَاءٌ أَكَانَ مِمَّا يُمْكِنُ تَنَاوُلُهُ بِالْيَدِ أَمْ لَمْ يُمْكِنْ (الموسوعة الفقهية الكويتية) معنی القبض هو التمکین والتخلي وارتفاع الموانع عرفاً وعادۃ حقیقة. (بدائع الصنائع 5/244) والتمکن من القبض کالقبض (شامي، ج2، ص568)  أنه من شروط التخلیة التمکن من القبض بلا حائل ولا مانع (شامی 4/516)

ولا یشترط القبض بالبراجم؛ لأن معنی القبض ہو التمکن والتخلّي وارتفاع الموانع عرفًا وعادةً حقیقةً (بدائع: ۴/۳۴۲، ط: زکریا) وفي رد المحتار: اشتری بقرة مریضة وخلاہا في منزل البائع قائلاً إن ہلکت فمني، وماتت فمن البائع لعدم القبض (درمختار مع الشامي: ۷/۸۹، زکریا) وفي الہندیة: إذا قال المشتری للبائع ابعث إلی ابنی واستأجر البائع رجلا یحملہ إلی ابنہ فہذا لیس بقبض والأجر علی البائع إلا أن یقول استأجر علی من یحملہ فقبض الأجیر یکون قبض المشتری إن صدقہ أنہ استأجر ودفع إلیہ وإن أنکر استئجارہ والدفع إلیہ فالقول قولہ کذا فی التتارخانیة․ (الہندیة: ۳/۱۹، ط: زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1954/44-1877

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دوران حمل اگر خون جاری ہوجائے تو وہ یقینی طور پر بیماری کا خون ہے جس کو استحاضہ کہاجاتاہے، ایسی حالت میں عورت وضو کرکے نماز پڑھے گی۔ دوران حمل رحم کا منھ بند ہوتاہے، اس لئے  رحم سے خون نہیں آسکتاہے، اس لئے جوخون نظر آرہاہے وہ حیض یا نفاس نہیں ہے۔

(والناقص) عن أقلہ (والزائد) علی أکثرہ أو أکثرالنفاس أوعلی العادة وجاوز أکثرہما. (وما تراہ) صغیرة دون تسع علی المعتمد وآیسة علی ظاہر المذہب (حامل) ولو قبل خروج أکثر الولد (استحاضة.)(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 1/ ط:زکریا، دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو مسلمان ایسا عقیدہ رکھتے ہیں اور پھر اس کے لئے مذکورہ عمل کرتے ہیں وہ فاسق و فاجر ہیں کافر و مرتد ان کو نہ کہا جائے؛ کیونکہ فقہاء نے تکفیر کرنے میں احتیاط کرنے کو فرمایا ہے؛ لیکن تجدید نکاح کرلینا ان کے لئے بہتر ہے۔ جب تک وہ ان رسوم شرکیہ سے توبہ نہ کرے اس سے تعلقات ختم کردیئے جائیں۔(۱)

(۱) ما کان في کونہ کفرا اختلافٌ فإن قائلہ یؤمر بتجدید النکاح و بالتوبۃ والرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط، وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ مؤمنٌ علی حالہ، ولا یؤمر بتجدید النکاح والرجوع عن ذلک، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

إن ما یکون کفراً اتفاقاً یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ و تجدید النکاح، وظاہرہ أنہ أمر احتیاطي۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام یکون بالفعل کالصلاۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

وإذا وصف اللّٰہ تعالیٰ بہا فہي نفي العجز عنہ ومحال أن یوصف غیر اللّٰہ بالقدرۃ المطلقۃ۔ (أبو القاسم الحسین بن محمد، المفردات في غریب القرآن، ’’قدر‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۵)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

 

متفرقات

Ref. No. 2187/44-2300

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  (1) ملازمت کے امور میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہوتی ہو تو خارج اوقات میں والد صاحب کی مدد کرنے میں یا ان کو از راہ تعاون پیسے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اس کو شرط کی خلاف ورزی نہیں کہیں گے۔ (2) اولا تو والدصاحب کے تعلق سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر والدصاحب کوئی دوسرا کاروبار بھی کرلیں تو پھر اس طرح کہنا درست ہوگا جو آپ نے لکھا ہے۔ ایسی صورت میں آپ بوس کے سامنے والد صااحب کے کاسمیٹک کے کام کا انکار نہ کریں بلکہ والد صاحب کے دوسرے کاروبار کا اقرار کریں تاکہ جھوٹ سے بچ سکیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سمدھی ملن کی رسم اور اس میں مطالبات سے معاشرہ پر انتہائی غلط اثر پڑتا ہے، شادیوں میں دشواری پیدا ہوتی ہے؛ نیز غیر لازم امور کو لازم سمجھا جاتا ہے؛ اس لیے اس طرح کی رسم کی شرعاً کوئی گنجائش نہیں، شادی بغیر کسی رسم کے سادہ طریقہ پر کی جائے۔(۱)

(۱) ولو أخذ أہل المرأۃ شیئاً عند التسلیم فللزوج أن یستردہ لأنہ رشوۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب النکاح: الباب السابع: في المہر، الفصل السادس عشر: في جہاز البیت‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۳)
قال تعالی: {وَلَا تَأْکُلُوْٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِل} (سورۃ البقرۃ: ۱۸۸)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: الفصل الثاني: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص437

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور امت کا اس پر اجماع ہے کہ انبیاء علیہم السلام گناہ سے معصوم ومحفوظ ہوتے ہیں۔(۱) اس کے باوجود قرآن کریم میں لفظ ذنب وعصیان ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور لفظ ذنب کا ترجمہ گناہ وخطاء دونوں صحیح ہیں مگر انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے باوجود بعض اوقات اجتہاد میں ان سے خطاء ہوجاتی ہے اور اجتہادی خطا قانون شریعت میں گناہ نہیں کہلاتی؛ بلکہ اس پر بھی اجر وثواب ملتا ہے۔
مگر انبیاء علیہم السلام کو اس پر متنبہ ضرور کردیا جاتا ہے اور ان کی شان عالی کی مناسبت سے  خلاف اولی اور اجتہادی خطا کو بھی ذنب، گناہ و خطا کہا جاتا ہے بطور تہدید اللہ تعالیٰ نے ذنب سے تعبیر فرمایا ہے یہ انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے خلاف نہیں ہے؛ بلکہ ان کے مقام کی رفعت وبلندی پر دلالت ہے؛ اس لیے کوئی شبہ نہ کیا جائے اور اگر پوری طرح سمجھ میں نہ آئے تو یہ جواب کسی مقامی عالم کو دکھلا کر اس سے سمجھ لیں یہ خطاء اجتہادی بھی ایسے احکام میں نہیں ہوتی جو قانون شرع کی حیثیت رکھتے ہوں، معلوم ہوا کہ دوسرا ترجمہ ہی صحیح ہے۔(۱)

(۱) الأنبیاء معصومون قبل النبوۃ وبعدہا عن کبائر الذنوب وصغائرہا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الکبائر وعلامات النفاق، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۵۵)
 الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کلہم منزہون عن الصغائر والکبائر والکفر والصبائح۔ (الإمام أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الأنبیاء منزہون عن الکبائر‘‘: ص: ۱۰۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص38

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ نے جو کچھ دیکھا اور جو کچھ لوگو ں سے سنا وہ سچ ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں، درود شریف کا ورد کثرت سے کریں، مایوس اور پریشان کن حالات میں اس سے دلوں کو راحت ملتی ہے، اللہ پر بھروسہ رکھئے اور جس میدان میں بھی کامیابی چاہتی ہیں، اس کے لئے پوری کوشش جاری رکھئے، آپ کی مراد ان شاء اللہ ضرور پوری ہوگی، آپ خوش بخت ہیں اور جب تک سنت کو مضبوطی سے تھامے رہیں گی آپ کی خوش بختی قائم رہے گی۔(۱)

(۱) إن أبا ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: (من رآني في المنام فسیراني في الیقظۃ، ولا یتمثل الشیطان بي) قال أبو عبد اللّٰہ:…  قال: ابن سیرین: إذا رآہ في صورتہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التعبیر: باب من رأی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في المنام‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۳۵، رقم: ۶۹۹۳)
عن أبي سعید الخدري، رضي اللّٰہ عنہ: سمع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: (من رآني فقد رأی الحق، فإن الشیطان لا یتکونني)۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التعبیر: باب من رأی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۳۵، رقم: ۶۹۹۷)
{أَلَّذِیْنَ أٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ط أَلاَ! بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُہط ۲۸} (سورۃ الرعد: ۲۸)
عن الطفیل بن أبي بن کعب عن أبیہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا ذہب ثلثا اللیل قام فقال: یآ أیہا الناس أذکروا اللّٰہ أذکروا اللّٰہ جائت الراجفۃ تتبعہا الرادفۃ جاء الموت بما فیہ جاء الموت بما فیہ، قال أبي قلت: یا رسول اللّٰہ إني أکثر الصلاۃ علیک فکم أجعل لک من صلاتي؟ فقال: ما شئت قال: قلت الربع، قال: ما شئت فإن زدت فہو خیر لک، قلت النصف، قال: ما شئت فإن زدت فہو خیر لک، قال: قلت: فالثلثین، قال: ما شئت، فإن زدت، فہو خیر لک، قلت: أجعل لک صلاتي کلہا، قال: إذا تکفي ہمک ویغفرلک ذنبک۔ قال أبو عیسیٰ: ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ، باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۰، رقم: ۲۴۵۷)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص169

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب آدمی سوتا ہے، تو اسے یہ معلوم نہیں رہتا کہ اس کا ہاتھ کہاں کہاں لگا ہے، اسی طرح عام غفلت کے وقت بھی آدمی کا ہاتھ بدن میں کسی بھی جگہ لگ جاتا ہے؛ اس لئے جب آدمی سوکر اٹھے، تو اس کے لئے مسنون ہے کہ پہلے ہاتھ دھو لے، ہاتھ دھوئے بغیر پانی کے اندر ہاتھ نہ ڈالے۔
’’لحدیث الصحیحین: إذا استیقظ أحدکم من منامہ فلا یغمس یدہ في الإناء حتی یغسلہا ولفظ مسلم حتی یغسلہا ثلاثاً فإنہ لا یدري أین باتت یدہ‘‘(۱)
لیکن اگر پانی میں ہاتھ ڈال ہی دیا، تو پانی ناپاک نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ ہاتھ پر بالیقین ناپاکی نہیں ہے۔ ’’الیقین لایزول بالشک‘‘(۲)

(۱)  ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب سائر بمعنی باقی، یا بمعنی جمیع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸۔
(۲)  ابن نجیم، الأشباہ والنظائر‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص76

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوسری بار صحبت کرنے کے لیے غسل کسی پر ضروری نہیں ہے، البتہ وضو بنا لینا اولیٰ ہے، اسی طرح کئی بار ہم بستری کے بعد ایک غسل کافی ہے۔(۱)

(۱) ولا بأس للجنب أن ینام و یعاود أھلہ قبل أن یتوضأ و إن توضأ فحسن۔ ( جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ،’’کتاب الطہارۃ، الباب الثاني، أو مما یتصل بذلک مسائل‘‘ ج ۱، ص:۶۸)؛  و إذا أتی أحدکم أھلہ ثم أراد أن یعود فلیتوضأ بینھما وضوئً ا۔(طحطاوي،حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل في أوصاف الوضوء‘‘ ج ۱، ص:۸۵ )
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص293