نکاح و شادی

Ref. No. 1223/42-537

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہر فلور ایک الگ مکان ہے، اور بیوی کو رہنے کے لئے وہ مکان کافی بھی ہے اور شوہر کے گھر والوں کی اس میں کوئی مداخلت بھی نہیں ہے  ، تو ایسی صورت میں  بیوی کا  الگ سے ایک گھر کا مطالبہ شرعا جائز نہیں ہے۔  شریعت میں رہایش کا انتظام کرنے سے یہی مراد ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں ہے۔  اپنی ازدواجی زندگی کی حفاظت کے لئے بشرط استطاعت اور مصلحت ، الگ سے مکان دینے کی گنجائش ہے  تاہم والدین کی خدمت  اور حسن سلوک کو ہرگز ترک نہ کرے۔ 

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك (الھندیہ / الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)

إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك".  (شامی / مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد)

وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدين إحسانا (القرآن: 17/23)  لا طاعة في معصية، إنما الطاعة في المعروف (صحیح البخاری 9/88 الرقم 7257)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1575/43-1111

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماں کے دودھ کی طرح بکری اور گائے کا دودھ بھی مفید ہوسکتاہے، اس سلسلہ میں ڈاکٹر سے بات کرلی جائے، تاہم اگر کوئی دوسری  صورت نہ ہو تو بدرجہ مجبوری ماں کا دودھ بقدر ضرورت کچھ دنوں تک اس طرح پلایاجاسکتاہے۔

’’وتكره ألبان الأتان للمريض وغيره، وكذلك لحومها، وكذلك التداوي بكل حرام، كذا في فتاوى قاضي خان. ... يجوز للعليل شرب الدم والبول وأكل الميتة؛ للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن شفاءه فيه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه‘‘.  (الھندیۃ 5/355)

"مطلب في التداوي بالمحرم: قوله: اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله: لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ.

أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لايحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل (قوله: وظاهر المذهب المنع) محمول على المظنون كما علمته (قوله: لكن نقل المصنف إلخ) مفعول نقل قوله: وقيل: يرخص إلخ والاستدراك على إطلاق المنع، وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك. ونص ما في الحاوي القدسي: إذا سال الدم من أنف إنسان ولاينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلا يرخص له فيه؛ وقيل: يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى. اهـ (قوله:  ولم يعلم دواء آخر) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي، إلا أنه يفاد من قوله كما رخص إلخ؛ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط. قال: ونقل الحموي أن لحم الخنزير لا يجوز التداوي به وإن تعين، (شامی 1/210)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1644/43-1224

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معاملہ کرتے وقت جب اینٹ کی صفت وغیرہ بیان کردی گئی،  اور جب اینٹیں تیار ہوگئیں تو چمنی کے مالک نے آپ کے حصہ کی اینٹیں الگ کردیں، تو آپ کی چیز متعین ہوگئی ، اور یہ تعیین ہی قبضہ کے قائم مقا م ہوگی، مبیع کو بیچنے سے پہلے دیکھنا ضروری نہیں ہے۔ پھر چمنے والے نے آپ کا وکیل بن کر اینٹیں بیچ دیں،  اس لئےمذکورہ  معاملہ درست ہے اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں۔  بظاہر اس پورے معاملہ کوئی بھی چیز مفضی الی النزاع بھی نہیں ہے۔

لأن القبض في المجلس لا يشترط إلا في الصرف وهو بيع الأثمان بعضها ببعض أما ما عداه فإنما يشترط فيه التعيين دون التقابض كما يأتي (شامی، مطلب فی الابراء عن الربوا 5/172)

نظر الوكيل بالقبض كنظر الرسول في أنه لا يسقط الخيار، قيد بالوكيل بالقبض؛ لأنه لو وكل رجلا بالرؤية لا تكون رؤيته كرؤية الموكل اتفاقا كذا في الخانية إلخ ما ذكره الشارح ابن ملك، والمسألة في المتون وأطال فيها في البحر فراجعه۔ وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)

قلت: لا يخفى أن الإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة فالبيع في الحقيقة من المشتري، ولذا قال في جامع الفصولين: شراه ولم يقبضه حتى باعه البائع من آخر بأكثر فأجازه المشتري لم يجز؛ لأنه بيع ما لم يقبض. اهـ. فاعتبره بيعا من جانب المشتري قبل قبضه فافهم، وظاهره أنه يبقى على ملك المشتري بالأول، ويأتي تمامه في فصل التصرف في المبيع.(شامی، مطلب فی بیع المرھون 5/111)

وصحة القبض بأحد الأمرين إما بالتخلية كما في المنقول وغيره أو بحقيقة القبض كما في المنقول وجه قول محمد عموم النهي وهو ما روي أنه «- عليه الصلاة والسلام - نهى عما لم يقبض» وهو بعمومه يشمل المنقول والعقار جميعا ولأن بيع المنقول قبل القبض لا يجوز فكذا غير المنقول؛ لأن عدم القبض موجود فيهما جميعا ولأن المقصود من البيع الربح وربح ما لم يضمن منهي شرعا والنهي يقتضي الفساد فيكون البيع فاسدا قبل القبض كما في المنقول؛ لأنه لم يدخل في ضمانه، ولهذا لا يجوز إجارته قبل القبض اهـ (قوله ولهما أنه لا يتوهم انفساخ العقد فيه) والأصل فيه أن ما لا ينفسخ العقد فيه بالهلاك فالتصرف فيه جائز قبل القبض (تبیین الحقائق فصل بیع العقار قبل القبض 4/79)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1951/44-1857

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کی موت کے بعد اسکی بیوی کو سرکار کی جانب سے بطور تبرع ملنے والی پینشن خاص بیوی کے لئے ہی  ہوتی ہے، اس میں دیگر لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے، اس لئے آپ کی والدہ اس مال کی مکمل مالک ہیں، وہ جیسے چاہیں تصرف کریں، اور جس کو چاہیں جتنا دیدیں، یہ ان کا اپنا اختیار ہے۔ ان پر کسی طرح کا کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہئے۔

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم." (بدائع الصنائع، (کتاب الحدود ، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود جلد ۷ ص : ۵۷ ط : دار الکتب العلمیة) "لأن ‌الملك ‌ما ‌من ‌شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص."( فتاوی شامی، (کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد ۵ ص : ۵۱ ط : دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ایسے کام کی منت مانی جائے جو بذات خود معصیت ہو تو وہ منت منعقد ولازم نہیں ہوتی اور مذکورہ فی السوال منت (چادر چڑھانا وغیرہ) بذات خود معصیت ہے؛ اس لئے یہ منت منعقد ولازم نہیںہوگی، بلکہ ایسا کرنا بدعت وباعث گناہ ہوگا اور یہ سمجھنا کہ اس منت کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے کوئی پریشانی آ رہی ہے غلط ہے۔ گناہوں کے کام چھوڑ کر نیک کام کرنے کی پابندی کی جائے تو ان شاء اللہ پریشانیاں دور ہوں گی کوئی خاص پریشانی ہو تو کسی قریبی بزرگ سے مل کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔(۱)

(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الد المختارمع الرد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
لا یلزم النذر إلا إذا کان طاعۃ ولیس بواجب وکان من جنسہ واجب علی التعیین فلا یصح النذر بالمعاصي ولا بالواجبات إلخ۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر: ج ۱، ص: ۱۴۴)
واعلم أنہم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثۃ کون المنذور لیس بمعصیۃ کونہ من جنسہ واجب۔ (ابن نجیم،  البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: فصل في النذر‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۴)… منہا أن یکون قربۃ فلا یصح النذر بما لیس بقربۃ رأسا کالنذر بالمعاصي بأن یقول للّٰہ عز شأنہ علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلانا أو أضربہ أو أشتمہ ونحو ذلک لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا نذر في معصیۃ اللّٰہ تعالٰی وقولہ: من نذر أن یعصي اللّٰہ تعالیٰ فلا یعصہ ولأن حکم النذر وجوب المنذور بہ ووجوب فعل المعصیۃ محال وکذا النذر بالمباحات من الأکل والشرب والجماع ونحو ذلک لعدم وصف القربۃ لاستوائہما فعلاً وترکاً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل وأما شرائط الرکن فأنواع‘‘: ج ۵، ص: ۸۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص346

متفرقات

Ref. No. 2426/45-3673

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ناموں کے آخرمیں اس طرح کاا ضافہ درست ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ہر جگہ کا یک عرف ہے، اور نام  رکھنے کا ایک طریقہ ہے جس سے بعض مرتبہ  اس علاقہ کی شناخت ہوتی ہے، اس لئے اس طرح نام رکھنے میں  کوئی حرج نہیں ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2475/45-3763

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کنایہ کے طور پر استعمال شدہ الفاظ سے  اگر طلاق کی نیت کی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ الفاظ  ایسے ہوں جن میں طلاق کے معنی کا احتمال ہو،  لہذا اگر بولنے والے نے  ایسے الفاظ بولے جن میں طلاق اور سب و شتم کا کوئی معنی نہ ہو تو محض نیت کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔  بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں 'تین بات' سے  تین طلاقیں مراد نہیں لی جاسکتی ہیں، اس لئے محض نیت کرنے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

 والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح. (اللباب في شرح الكتاب 3 / 44، کتاب الطلاق، ط؛ المکتبۃ العلمیہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ بالا صورت میں آپ کی بات درست ہے، کپڑا تین مرتبہ پاک کر لیا گیا، تو اب وہ کپڑا پاک ہو گیا، صرف کپڑا پانی میں بھکو دینے سے پانی مستعمل نہیں کہلاتا؛ اس لیے مذکورہ صورت میں بالٹی میں جو پانی تھا اس سے وضو درست ہوگئی اور جب وضو درست ہوئی، تو اس سے نماز بھی درست ہو گئی؛ لیکن اس سے بہتر پانی ہوتے ہوئے طبعی کراہت کی وجہ سے ایسے پانی سے وضو نہیں کرنی چاہئے۔

’’قلت: أرأیت ثوبا نجسا غسل في إجانۃ بماء نظیف ثم عصر ولم یہرق ذلک الماء ثم غسل في إجانۃ أخری بماء نظیف ثم عصر ولم یہرق ذلک الماء ثم غسل في إجانۃ أخری بماء نظیف ثم عصر ما حکم الثوب، قال: قد طہر قلت فہل یجزی من توضأ بالماء الأول أو الثاني أو الثالث؟ قال: لا قلت: فإن توضأ رجل من ذلک وصلی؟ قال یعید الوضوء والصلاۃ۔ قلت: أرأیت إن غسل ذلک الثوب في إجانۃ أخری بماء طاہر ہل یجزی من توضأ بذلک الماء الرابع؟ قال: قلت: نعم: قلت: لم؟ قال: لأنہ لما غسل في الإجانۃ الثالثۃ فقد صار طاہرا ثم غسل في الإجانۃ الرابعۃ وہو طاہر فلا بأس بأن یتوضأ بذلک الماء الرابع لأنہ طاہر‘‘(۱)

(۱) محمد بن الحسن الشیباني، الأصل، ’’کتاب الصلاۃ: باب البئر وما ینجسہا‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص71

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کیے بغیر بھی غسل ہو جائے گا۔(۲)

(۲) یفترض في الاغتسال… و منہ الفرج الخارج لأنہ کالفم لا الداخل لأنہ کالحلق۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي،’’کتاب الطہارۃ، فصل بیان فرائض الغسل‘‘ج۱،ص: ۱۰۲)
لا یجب غسل فرج داخل۔ ولا تدخل إصبعھا في قبلھا أي لا یجب ذلک۔ (ابن عابدین، ردالمحتار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۸۵، مکتبۃ زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص290

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جھوٹ بولنا اور حرام مال کھانا سخت گناہ ہے(۱) ایسا کرنے والا فاسق ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے۔(۲)

(۱) {فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَہ۶۱} (آل عمران: ۶۱)
ما کان من خلق أبغض إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الکذب۔ (صحیح ابن حبان ذکر البیان بأن الکذب کان من أبغض الأخلاق: رقم: ۵۷۳۶)     آکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام لایقبل ولا یأکل مالم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالاً لابأس بقبول ھدیتہ والأکل منہا الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج۵، ص: ۳۴۳)
(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص173