طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح شہوت کی وجہ سے نکلنے والا پانی مذی کہلاتا ہے اس سے وضو واجب ہوتاہے، غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔(۲)

(۲) أجمع العلماء علی أنہ لا یجب الغسل بخروج المذي والودي (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، فصل فيعشرۃ أشیاء، لا یغتسل منھا‘‘ ج۱، ص:۱۰۱)؛ وللجمھور حدیث علي رضي اللّٰہ عنہ أن النبي ﷺ قال في المذي: یغسل ذکرہ و یتوضأ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایہ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۲۵۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص292

نماز / جمعہ و عیدین
رشوت خور کی امامت: (۱۴۸)سوال: ہمارے یہاں ایک امام صاحب جن کی عمر اسّی سال کے قریب ہے وہ ہر نیک آدمی کی مخالفت اور غیبت کرتا ہے یہی اس کا شیوہ ہوچکا ہے۔ اور رشوت خور بھی ہے لوگوں کو آپس میں لڑانا اس کے لیے بہت آسان ہے اس کی امامت کا حکم شرعاً کیا ہے؟ فقط: والسلام المستفتی: غلام محی الدین، جموں وکشمیر

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وضو یا سنت میں مشغول نمازیوں کی رعایت کرتے ہوئے جماعت میں تاخیر کی گنجائش ہے تاہم امام صاحب کا تاخیر کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے، اگر کبھی اتفاقاً چار، پانچ منٹ کی تاخیر ہوجائے تو اس پر مقتدیوں کو بھی ناراض نہیں ہونا چاہئے۔(۲)
(۲) وینتظر المؤذن الناس ویقیم للضعیف المستعجل ولا ینتظر رئیس المحلۃ وکبیرہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘:ج۱، ص: ۵۷)
ینبغي للمؤذن مراعاۃ الجماعۃ فإن رآہم اجتمعوا أقام وإلا انتظرہم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج۱، ص: ۴۴۹)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص377

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  وقت سے پہلے نماز نہیں ہوتی اگرکسی نے وقت سے پہلے نماز پڑھ لی تو دوبارہ پڑھنی ضروری ہے۔(۱)

(۱) (ومنہا) الوقت لأن الوقت کما ہو سبب لوجوب الصلاۃ فہو شرط لأدائہا، قال اللّٰہ تعالی: {اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًاہ۱۰۳} (سورۃ النساء: ۱۰۳)، أي فرضا موقتا حتی لا یجوز أداء الفرض قبل وقتہ الخ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: الصلاۃ في جوف الکعبۃ، ج۱، ص:۳۱۵)
قولہ: بأنہ سبب للأداء من حیث تعلق الوجوب بہ وإفضاؤہ إلیہ قولہ: وظرف للمؤدی لأنہ یسعہ ویسع غیرہ قولہ: وشرط للوجوب من حیث توقف وجوب فعل الصلاۃ علی وجودہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵)
(اعلم) أن الصلاۃ فرضت لأوقاتہا قال اللہ تعالی: {أقم الصلاۃ لدلوک الشمس} (سور الإسراء: ۷۸) ولہذا تکرر وجوبہا بتکرار الوقت وتؤدی في مواقیتہا، قال اللّٰہ تعالی: {اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًاہ۱۰۳} (سورۃ النساء: ۱۰۳)، أي فرضا موقتا۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب مواقیت الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص279

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1062 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داڑھی رکھنا واجب ہے، اور ایک مشت پہونچنے سے پہلے کٹوانا بالاتفاق ناجائز ہے۔ حدیث میں آپ نے فرمایاخالفوا المشرکین واوفروا اللحی واحفوا الشوارب ﴿متفق علیہ﴾ یحرم قطع لحیتہ ﴿شامی﴾  واما الاخذمنھا ای من اللحیة وھی دون ذلک ای دون القبضة کمایفعلہ بعض المغاربةومخنثة الرجال فلم یبحہ احد واخذ کلھا فعل یھود الھند ومجوس الاعاجم فتح اہ ﴿درمختار﴾۔ حدیث  شریف میں امر کا صیغہ ہے جو وجوب کے لئے ہوتا ہے جیسا ک فقہ کا قاعدہ ہے الامر للوجوب مالم تکن قرینة خلافہ۔ لہذا  جب داڑھی بڑھانا واجب ہوا تواس کی ضد  کٹوانا یقینا حرام ہوگا۔  اگر امر وجوب کے لئے نہ ہوتا تو احیاناًاس کے خلاف بھی منقول ہوتا مگر قولاً و فعلا ًکبھی بھی بیان جواز کے لئے اس کی نوبت نہیں آئی۔ چنانچہ مالکیہ وحنابلہ نے داڑھی منڈانے کو حرام اور حنفیہ وشوافع نے مکروہ تحریمی یعنی قریب بہ حرام قراردیا ہے۔ ﴿قاموس الفقہ / فقہ اسلامی﴾۔

رہا ایک مشت کی تحدید کا مسئلہ تو چونکہ الفاظ حدیث کاتقاضہ تھا کہ بڑھانے کی کوئی حد مقرر نہ ہوتی اور کٹانا بالکل جائز نہ ہوتا مگر حدیث کے راوی صحابی کا معمول تھا کہ ایک مشت سے جو مقدار آگے بڑھ جاتی اس کو کٹادیتے ۔ ایک مشت سے پہلے کٹوانا کسی صحابی سے ثابت نہیں۔ جو لوگ کٹوانے کے قائل ہیں ان پر  لازم ہےکہ کٹوانے کی کوئی دلیل پیش کریں۔ و اللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 39 / 844

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کے لئے جو بھی مقصد مفید ہو اس مقصد سے بنانے  کی اجازت ہے۔ آپ کے پیش نظر جو مقصد ہو اس کی وضاحت کرکے مسئلہ معلوم کرلیں کہ اس مقصد  کے لئے مسجد میں تہخانہ بنانا کیسا ہے، ان شاء اللہ اس کا حکم لکھ دیا جائے گا۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 39/1049

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

In the above mentioned case, you have to do Wudu only; you do not need to do ghusl.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 40/915

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 41/847

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب کوئی مرد اپنی بیوی کو تین طلاق دیدیتا ہے تو وہ عورت اس مرد کے لئے ہمیشہ کے لئےحرام ہو جاتی ہے۔ اب اس کا نکاح کسی دوسرے مرد ہی سے ہوسکتا ہے۔ البتہ اگرکسی دوسرے مرد سے نکاح ہوا، اس نے صحبت کی، لیکن کسی وجہ سے طلاق ہوگئی یا دوسرے شوہر کا انتقال ہوگیا، تو اب یہ عورت عدت گزارنے کے بعد آزاد ہوجاتی ہے، اب وہ تیسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے اور چاہے تو پہلے شوہر (جس نے تین طلاق دی تھی اور اس سے نکاح حرام تھا) سے نکاح  کر سکتی ہے۔ چونکہ اس ورانیہ میں دوسرے مرد کا صحبت کرنا پہلے مرد سے نکاح کو حلال کردیتا ہے اس لیے اس کو حلالہ کہا جاتاہے۔  فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔ (القرآن، سورہ بقرہ آیت 230) مزید تفصیل کے لئے اس لنک پر کلک کریں : https://www.jahan-e-urdu.com/halala-kia-hai/

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1126/42-357

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ نظربد سے موت واقع ہوجائے، تاہم حاسد حسد کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا، ماردینا اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ بری نظر شیطان کی نظر ہوتی ہے جس کے پیچھے حاسد کا حسد چھپاہوتا ہے۔ اللہ پاک نے اپنے قرآن میں فرمایا کہ حسد کرنے والوں کے شر سے پناہ مانگو۔ لہذا حاسدوں سے بچنا چاہئے۔ اپنی ترقی و خوبصورتی صبح وشام دعا ء پڑھ کر اللہ کی پناہ میں رکھیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند