نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتوں کے پڑھنے سے نماز درست ہوجاتی ہے صورت مسئولہ میں دو آیتیں اگر چھوٹی تین آیتوں کے برابر تھیں تو نماز درست ہوگئی ورنہ نہیں، تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سورہ عصر ، اخلاص ، کوثر وغیرہ کے برابر ہو یاکم از کم درج ذیل آیتوں کے برابر ہوجائے۔ {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} اگر آپ دوسری رکعت میں پڑھی گئی دونوں آیتیں لکھ دیں تو واضح طور پر بتادیا جائے گا کہ یہ دو آیتیں چھوٹی تین آیتوں کے برابر ہیں یا نہیں، نیز امام کو اتنی کم قرأت نہیں کرنی چاہئے کہ شبہ ہونے لگے کہ نماز ہوئی یا نہیں۔(۱)
(۱) وضم أقصر سورۃ کالکوثر أو ما قام مقامہا، وہو ثلاث آیات قصار، نحو {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثا قصاراً۔ ذکرہ الحلبي أي في شرحہ الکبیر علی المنیۃ۔ وعبارتہ: وإن قرأ ثلاث آیات قصاراً أو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاث آیات قصار خرج عن حد الکراہۃ المذکورۃ: یعنی کراھۃ التحریم (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹، ۱۵۰، زکریا)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص105

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: امام صاحب کو یہ عادت بنا لینا خلاف سنت ہے اور مکروہ ہے اگر کوئی عذر نہ ہو تو نماز فجر میں سورہ حجرات سے لے کر سورہ بروج تک سورتوں میں سے ایک ایک سورت یا اس کے بقدر ایک ایک رکعت میں پڑھے یہ ہی مسنون اور مستحب ہے۔ البتہ اگر وقت کی تنگی ہو یا کسی اور ضرورت یا عذر کی بنا پر قرآت مختصر کرنی پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۱)
(۱) واستحسنوا في الحضر طوال المفصل في الفجر والظہر … ویکرہ أن یوقت شیئاً من القرآن لشيء من الصلوات، قال الطحاوي و الإسبیجابي: وہذا إذا رآہ حتماً واجباً بحیث لایجوز غیرہ، أو رأي قراء ۃ غیرہ مکروہۃ، وأما إذا قرأ لأجل الیسر علیہ أو تبرکاً بقراء تہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلا کراہۃ في ذلک ولکن یشترط أن یقرأ غیرہ أحیانا لئلا یظن الجاہل أن غیرہ لایجوز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع‘‘: ج۱، ص: ۱۳۵، زکریا دیوبند)
ومشایخنا استحسنوا قراء ۃ المفصل لیستمع القوم ، و لیتعلموا … اختار في البدائع أنہ لیس في القراء ۃ تقدیر یعني، بل یختلف باختلاف الوقت، وحال الإمام والقوم، کما في البحر۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان سننہا‘‘: ص: ۲۶۳، شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص224

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلیہ ونوازل کی حالت میں فجر کی نماز میں قنوت نازلہ کا اصل حکم قائم ہے۔ فقہاء کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رفع یدین افضل نہیں ہے۔
’’والذي یظہر لي أن المقتدي یتابع إمامہ إلا إذا جہر فیؤمن وإنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ‘‘(۱)
اس کے لیے ارسال تو ہے ہی؛ لیکن رفع یدین کے بارے میں بدائع الصنائع جلد: ۳، ص: ۳۷۲ میں ہے۔
’’روي عن علي رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ کان إذا أراد أن یقنت کبر وقنت وأما رفع الیدین، فلقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا ترفع الیدین إلا في سبعۃ مواطن وذکر من جملتہا القنوت‘‘(۲)
لیکن شامی میں یہ حدیث اس طرح منقول ہے۔
’’لا ترفع الأیدي إلا في سبع مواطن: عند افتتاح الصلاۃ وفي العیدین والقنوت في الوتر وعند استلام الحجر الخ‘‘(۳)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رفع یدین قنوت وتر کے ساتھ ہے قنوت نازلہ کے وقت نہیں؛ لیکن عمومی جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قنوت نازلہ سے قبل بعد الرکوع رفع یدین ہے۔
بظاہر دونوں صورتیں جائز ہیں، فرق اولیت اور افضلیت کا ہوگا۔ لہٰذا اس مسئلہ میں نزاع اور بحث نہ ہونی چاہیے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹۔)
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، وقت الوتر و صفۃ القرائۃ فیہ‘‘: ج ۱، ص:  ۶۱۲۔)
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، حکم رفع الیدین‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۵۔)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص332

 

نماز / جمعہ و عیدین

 

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔شرعی حدود میں رہ کر تعویذ کرنا جائز ہے،اور ایسے شخص کی امامت درست ہے۔ جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا گناہ کبیرہ ہے، اور ایسے شخص کی امامت مکرہ تحریمی ہے۔ مذکورہ صورت میں تحقیق سے جو ثابت ہو اسی کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 37/1189

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  وہ کپڑے، موبائل  اور برتن وغیرہ   جو استعمال  میں ہوں ان کو نصاب میں شامل نہیں کیا جائے گا۔   واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 39/1061

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ۱/اشعری :  یہ مسلک امام ابوالحسن الاشعری کی طرف منسوب ہے جو حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔ عقیدہ کے باب میں ان کی پیروی کرنے والے اشعری کہلاتے ہیں ۔ ۲/ماتریدی : یہ مسلک ابومنصور ماتریدی کی طرف منسوب ہے جو امام محمد بن الشیبانی کے شاگرد ہیں۔ (یہ امام محمد امام ابوحنیفہ کے شاگرد اور امام شافعی کے استاذ ہیں)۔ان کے متبعین کو ماتریدی کہاجاتاہے۔ 

 امام  ابو الحسن اشعری  اور امام ابو منصور ماتریدی    یہ دونوں حضرات اہل سنت والجماعت میں سے ہیں ۔ ان کے دور میں عقیدہ کے باب میں لوگ مختلف نظریات اور شکوک و شبہات میں مبتلا تھے، ان دونوں حضرات   نے مسائل اعتقادیہ میں بڑی تحقیق و تدقیق کی ہے اور اسلامی عقائد کو عقل و نقل سے مدلل کر کے ثابت کیا اور عقائد کے باب میں جو غیروں نے شکوک و شبہات عوام کے ذہن میں ڈالے تھے ان کا خاتمہ کیا  تاکہ اہل سنت والجماعت کا مسلک خوب روشن ہوجائے ۔  ۳/معتزلی: اس فرقہ کا بانی واصل بن عطاء الغزال تھا جس کے عقائد  اہل سنت والجماعت کے  خلاف  تھے۔ اہل سنت والجماعت سے الگ ہوجانے کی بناپر ان کو معتزلہ کہا جاتا ہے اور ان کے ماننے والے کو معتزلی کہتے ہیں۔ معتزلہ کے مذہب کی بنیاد عقل پر ہے اور عقل کو نقل پر ترجیح دیتے ہیں، عقل کے خلاف قطعیات میں تاویلات کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ
الجواب وباللہ التوفیق:-بسم اللہ الرحمٰن الرحیم: بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں ہبہ درست ہوگیا۔ کچھ سامان کا رکھا رہنا ہبہ درست ہونے کے لئے مانع نہیں ہے۔ واللہ تعالی اعلم دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1034

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

'Alim' means a person who has deep and comprehensive Islamic knowledge. In our time, the one who completed the customary syllabus of Islamic sciences from a reliable madrasa is called ‘Alim.’  

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1007/41-166

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایسا  سوچنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ  اللہ کی مرضی اور اجازت  سے یہ تمام فائدے حاصل ہوں گے اور تمام مراحل آسان ہوں گے ان شا٫ اللہ۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1476/42-922

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں نشہ کی حالت میں دی گئی  دو طلاقیں واقع ہوگئیں۔ عدت گزرنے سےقبل رجعت کی گنجائش ہے، اور اگر عدت گزرچکی ہے تو دوبارہ نکاح کرکے دونوں میاں بیوی ایک ساتھ  رہ سکتے ہیں۔  لیکن خیال رہے کہ شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کااختیار رہے گا، اور اگر اس نے وہ ایک طلاق آئندہ کبھی دیدی تو عورت پر تین طلاقیں مکمل ہوجائیں گی اور دونوں کا نکاح فورا ختم ہوجائے گا، اور دوبارہ نکاح نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے آئندہ شوہر طلاق دینے میں غایت درجہ احتیاط برتے۔

وفي الذخيرة ": طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر والنبيذ، ولو أكره على الشرب فسكر أو شرب للضرورة فذهب عقله يقع طلاقه. وفي جوامع الفقه عن أبي حنيفة: يقع، وبه أخذ شداد ولو ذهب عقله بدواء أو أكل البنج لايقع. (البنایۃ، طلاق السکران 5/300) ولا يقع طلاق السكران منه بمنزلة النائم ومن ذهب عقله بالبنج ولبن الرماك۔ وعن محمد أنه حرام ويحد شاربه ويقع طلاقه إذا سكر منه كما في سائر الأشربة المحرمة (فتح القدیر للکمال، فصل فی الدعوی ولاختلاف والتصرف فیہ 10/99) واختار الكرخي والطحاوي أن طلاق السكران لا يقع؛ لأنه لا قصد له كالنائم، وهذا لأن شرط صحة التصرف العقل، وقد زال فصار كزواله بالبنج وغيره من المباحات ولنا أنه مخاطب شرعا لقوله تعالى {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى} [النساء: 43] فوجب نفوذ تصرفه؛ ولأنه زال عقله بسبب هو معصية فيجعل باقيا زجرا له بخلاف ما إذا زال بالمباح حتى لو صدع رأسه وزال بالصداع لا يقع طلاقه (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق 2/196)

وروى الطحاوي عن أبي سنان قال: سمعت عمر بن عبد العزيز يقول طلاق السكران والمكره واقع ولأنه قصد إيقاع الطلاق في منكوحته حال أهليته فلا يعرى عن قضيته وهذا لأنه عرف الشرين فاختار أهونهما وهذا علامة القصد والاختيار لأنه غير راض بحكمه وذلك غير مانع من وقوع الطلاق كالهازل. (الغرۃ المنیفۃ فی تحقیق بعض مسائل الامام، کتاب الطلاق 1/153)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند