Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اس طرح اٹھائیں کہ انگوٹھوں کے سرے کانوں کی لو سے ملے ہوئے ہوں اور عورت اس طرح اٹھائے کہ انگلیوں کے سرے کندھوں کے برابر ہوں، شامی میں ہے۔
’’ورفع یدیہ ماسًا بإبہامیہ شحمتي أذنیہ ہو المراد بالمحاذۃ‘‘ عورت کے متعلق ’’والمرأۃ ترفع بحیث یکون رؤوس أصابعہا حذاء منکبیہا‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في حدیث ’’الأذان جزم‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۲، ۴۸۳۔
وکیفیتہا إذا أراد الدخول في الصلوۃ، کبر ورفع یدیہ حذاء أذنیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ وبرؤوس الأصابع فروع أذنیہ، کذا في التبین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، زکریا دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 416
روزہ و رمضان
Ref. No. 39/1052
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ام المومنين حضرت عائشہ رضي اللہ عنھا نےنبی اکرم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ ميں شب قدر ميں كون سى دعا مانگوں؟ تو آپ نے فرمایا اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ (اے اللہ ، تو معاف كرنے والا ہے ، معافى كو پسند كرتا ہے ، تُو مجھے معاف فرما دے)۔ سنن الترمذی
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1647/43-1229
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے ان کے ساتھ کاروبار میں اس طرح پیسے لگائے کہ خریدنے اور بیچنے کی ذمہ داری آپ نے ان کو دیدی ، وہ اپنی صوابدید پر خریدتے اور بیچتے ہیں، اور آپ کے پیسے کو صحیح جگہ لگاتے ہیں ، اور پھر فائدے کو برابر تقسیم کرکے آپ کو آپ کا حصہ دیدیتے ہیں، تو اس معاملہ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اور خریدی ہوئی زمین کو جاننا اور دیکھنا وغیرہ کوئی چیز آپ کے لئے ضروری نہیں ہے؛ اس لئے ان کا آپ کی اجازت کے بغیر خریدنا اور بیچنا درست ہے، اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں اس میں کوئی شبہ کی چیز نہیں ہے۔
إلا في صورة الخلط والاختلاط استثناء من صحة البيع بلا إذن الشريك، وحاصله توقف الصحة على إذن الشريك (شامی، کتاب الشرکۃ 4/304) ولكل واحد منهما أن يبيع ما اشتراه، وما اشترى صاحبه مرابحة على ما اشترياه؛ لأن كل واحد منهما وكيل لصاحبه بالشراء والبيع، والوكيل بالبيع يملك البيع مرابحة وهل لأحدهما أن يسافر بالمال من غير رضا صاحبه؟ ذكر الكرخي أنه ليس له ذلك والصحيح من قول أبي يوسف ومحمد أن له ذلك (بدائع، فصل فی حکم الشرکۃ 6/71)
(مَا يَفْعَله الشَّرِيك فِي مَال الشّركَة) وَيجوز للشَّرِيك ان يفعل فِي مَال الشّركَة سِتَّة عشر شَيْئا احدهما ان يَبِيع وَيَشْتَرِي وَالثَّانِي ان يرْهن ويرتهن وَالثَّالِث ان يُؤجر ويستأجر وَالرَّابِع ان يقبل البيع وَالشِّرَاء وَالْخَامِس ان يُولى انسانا السّلْعَة بِمَا اشْتَرَاهُ وَالسَّادِس ان يُشْرك انسانا فِيمَا اشْترى وَالسَّابِع ان يودع المَال من الشّركَة وَالثَّامِن ان يعير شَيْئا من مَال التِّجَارَة وَالتَّاسِع ان يستبضع مَالا من مَال الشّركَة والعاشر ان يَبِيع بِالنَّقْدِ والنسيئة وَالْحَادِي عشر ان يَبِيع بالاثمان وَالْعرُوض وَالثَّانِي عشر ان يَأْذَن للْعَبد من مَال الشّركَة فِي التِّجَارَة وَالثَّالِث عشر ان يُوكل فِي البيع وَالشِّرَاء وَالرَّابِع عشر ان يَدْعُو احدا الى الطَّعَام وَالْخَامِس عشر ان يهدي الشَّيْء الْيَسِير وَالسَّادِس عشر ان يتَصَدَّق بِشَيْء يسير (النتف فی الفتاوی للسغدی، باب مالایجوز للشریک فعلہ فی مال الشرکۃ 1/537)
المادة (1372) إذا كان رأس مال الشريكين متفاضلا كأن كان رأس مال أحدهما مائة ألف درهم ورأس مال الآخر مائة وخمسين ألف درهم فإذا شرط تقسيم الربح بينهما بالتساوي فيكون بمعنى أنه شرط زيادة حصة في الربح للشريك صاحب رأس المال القليل بالنسبة إلى رأس ماله ويكون ذلك كشرط ربح زائد لأحد الشريكين حال كون رأس مالهما متساويا , فلذلك إذا عمل شرط كليهما أو شرط عمل الشريك صاحب الحصة الزائدة في الربح أي صاحب رأس المال القليل صحت الشركة واعتبر الشرط , وإذا شرط العمل على صاحب الحصة القليلة من الربح أي صاحب رأس المال الكثير فهو غير جائز ويقسم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما. المادة (1373) يجوز لكل واحد من الشريكين أن يبيع مال الشركة نقدا أو نسيئة بما قل أو كثر. (مجلۃ الاحکام العدلیۃ، الفصل الخامس فی شرکۃ الاموال والاعمال 1/264)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1748/43-1488
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں بنیادی بات یاد رکھیں کہ نکاح درست ہونے کے لئے ضروری ہے کہ لڑکی یا اس کا وکیل مجلس نکاح میں موجود ہو، اور وہ ایجاب کرے اور لڑکا قبول کرے اور دو گواہ نکاح کے ایجاب و قبول کو سنیں اور یہ سب مجلس نکاح میں موجود ہوں؛ اگر ان چاروں میں سے کوئی ایک بھی مجلس نکاح سے غائب ہوگا یا آن لائن ہوگا تو اس کا عتبار نہیں ہوگا، اور نکاح درست نہیں ہوگا۔
آپ کے سوال میں پوری صورت حال واضح نہیں ہورہی ہے اس لئے اگر چاہیں تو دوبارہ وضاحت کے ساتھ لکھ کر سوال کریں۔ بہرحال نکاح کے لئے بنیادی بات ذکرکردی گئی ہے۔
ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین الخ۔ (الدر المختار 4/76 زکریا)
وشرط حضور شاہدین حرین، أو حر وحرتین مکلفین سامعین قولہما معاً۔ (الدر المختار 4/91-87 زکریا)
ومنہا أن یکون الإیجاب والقبول في مجلس واحد حتی لو اختلف المجلس بأن کانا حاضرین فأوجب أحدہما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل یوجب اختلاف المجلس لا ینعقد، وکذا إذا کان أحدہما غائبًا لم ینعقد۔ (الفتاویٰ الہندیۃ 1/269زکریا)
ومنہا سماع الشاہدین کلامہما معًا، ہٰکذا في فتح القدیر … ولو سمعا کلام أحدہما دون الآخر أو سمع أحدہما کلام أحدہما والآخر کلام الآخر لا یجوز النکاح، ہٰکذا في البدائع۔
(الفتاویٰ الہندیۃ 1؍268زکریا، بدائع الصنائع، کتاب النکاح / عدالۃ الشاہدین 2؍527 زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1854
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ جنت و جہنم کی تخلیق ہوچکی ہے۔ قرآن کریم اور احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1950/44-1855
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شہر میں کسی ایک جگہ بھی عید الاضحی کی نماز ہوگئی تو قربانی کی جاسکتی ہے۔ محل قربانی کا اعتبار کیاجائے گا۔ جو قربانی دیہات میں ہو اس میں نماز عید کا ہوجانا شرط نہیں ہے، اس لئے نماز عید سے پہلے بھی قربانی کی جاسکتی ہے، پھراگرکوئی شخص قربانی کا گوشت شہر میں لائے تو حرج نہیں ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں آپ سب کی قربانی درست ہوگئی۔
وأول وقتها) (بعد الصلاة إن ذبح في مصر) أي بعد أسبق صلاة عيد، ولو قبل الخطبة لكن بعدها أحب وبعد مضي وقتها لو لم يصلوا لعذر، ويجوز في الغد وبعده قبل الصلاة لأن الصلاة في الغد تقع قضاء لا أداء زيلعي وغيره (وبعد طلوع فجر يوم النحر إن ذبح في غيره).
(قوله: إن ذبح في غيره) أي غير المصر شامل لأهل البوادي، وقد قال قاضي خان: فأما أهل السواد والقرى والرباطات عندنا يجوز لهم التضحية بعد طلوع الفجر، وأما أهل البوادي لايضحون إلا بعد صلاة أقرب الأئمة إليهم اهـ وعزاه القهستاني إلى النظم وغيره وذكر في الشرنبلالية أنه مخالف لما في التبيين ولإطلاق شيخ الإسلام". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 318)، كتاب الأضحية, ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایصال ثواب اور صدقہ کرنے کے لئے، وقت، تاریخ اور طریقہ اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت ہے اس لئے یہ طریقہ بھی بدعت وناجائز ہے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
وہو أیضاً: بدعۃ لم یرد فیہ شیء بہ علی أن الناس إنما یفعلون ذلک تعظیماً لہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فالعوام معذورون لذلک بخلاف الخواص۔ (أحمد بن محمد، الفتاوی الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۵۸)
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص345
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2474/45-3746
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The world we live in is a house of material resources; we all are forced to take help from one another, without one another's help the system of this world cannot run, obviously this kind of help seeking will not be called Shirk. However, the help that is specific to Allah, i.e. asking someone for help in matters that do not come under worldly causes, considering someone to be omnipotent and supreme, is special attribute of Allah. Regarding the matters of the hereafter or the issues of this world which are only in the control of Allah, if a person considers an angel, a prophet, a saint or a human being as omnipotent and sovereign as Allah Almighty, and asks the same for help in needs then it is considered shirk.
قال اللہ تعالی: وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِنَ الظَّالِمِیْنَ․ (سورہٴ یونس آیت: ۱۰۶)، لَہُ دَعْوَةُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ (سورہٴ رعد آیت: ۱۴)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2643/45-4016
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں بلکہ ان حالات میں پڑھنا چاہئے۔
دعائے قنوت یہ ہے : اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِیْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِیْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، اِنَّہ لَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، وَ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ۔ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُوْمِنِیْنَ وَلِلْمُومِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَ أَصْلِحْھُمْوَ أَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِھِمْ وَاجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَةََ، وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّةِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ، وَأَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِیْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ، لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَةَ وَالْمُشْرِکِیْنَ، الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَائَکَ۔ اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذیْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔
و عن سالم عن أبیہ أنہ سمع رسول الله صلی الله علیہ وسلم إذا رفع رأسہ من الرکوع من الرکعة الآخرة من الفجر یقول: ”اللہم العن فلانا وفلانا وفلانا“ بعد ما یقول: سمع الله لمن حمدہ ربنا ولک الحمد، کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یدعو علی صفوان بن أمیة، وسہیل بن عمرو، والحارث بن ہشام۔ (بخاری شریف، کتاب المغازی، باب قولہ ثم انزل علیکم من بعد الغم الآیة، النسخة الہندیة /۲ ۵۸۲، رقم: ۳۹۲۲، ف: ۴۰۶۹)إن نبی الله صلی الله علیہ وسلم قنت شہرا فی صلاة الصبح یدعو علی أحیاء من أحیاء العرب علی رعل وذکوان وعصیة، وبنی لحیان، … أولئک السبعین من الأنصار قتلوا ببئر معونة۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة الرجیع، ورعل وذکوان، النسخة الہندیة /۲ ۵۸۶، رقم: ۳۹۴۳) ان قنوت النازلة عندنا مختص بصلاة الفجر دون غیرھا من الصلوات الجھریة أو السریة (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۴۴۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعی علی قنوت الفجر، وفیہ تصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماونا علی القنوت للنازلة، ثم رأیت الشرنبلالی فی مراقی الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظھر الحموی أنہ قبلہ، والأظھر ما قلناہ، واللّٰہ أعلم (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب: فی القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو وغسل اور کپڑوں وغیرہ کو پاک کرنے کے لیے پانی کا پاک ہونا ضروری ہے، بڑے تالاب میں جو رکا ہوا پانی ہوتا ہے وہ فی نفسہ پاک ہے، اس کے اندر زندہ مچھلیاں رہنے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا اسی طرح اگر اس میں کچھ مچھلیاں مر جائیں، تو بھی وہ پانی پاک ہی رہتا ہے، اس لئے کہ وہ حیوان جس کا مردار حلال ہے جیسے مچھلی وہ موت وحیات دونوں حالتوں میں پاک ہے، مچھلیوں میں حقیقت میں خون نہیں ہوتا وہ پانی ہی میں پیدا ہوتی اور اسی میں مرتی رہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’ہو الطہور مائہ الحل میتتہ‘‘(۱)
مچھلی پالن کرنے والے لوگ مچھلیوں کو کھلانے کے لیے مرے ہوئے جانور بیل، بھینس یا دیگر گلی سڑی ناپاک چیزیں تالاب میں ڈالتے ہیں، اگر ایسی ناپاک چیزیں تالاب میں ڈالی گئی ہوں، تو پھر دو صورتیں ہیں، اگر تالاب دہ در دہ سے کم ہے، تو نجاست کے گرنے ہی سے ناپاک ہو جائے گا اور اگر بڑا تالاب ہے اور نجاست کی وجہ سے پانی کے اوصاف ثلاثہ رنگ، بو اور ذائقہ میں سے کوئی وصف بدل گیا تو وہ تالاب ناپاک کہلائے گا اور اس سے وضو وغسل اسی طرح کپڑے پاک کرنا درست نہیں ہوگا۔
’’الماء إذا وقعت فیہ نجاسۃ فإن تغیر وصفہ لم یجز الانتفاع بہ بحال‘‘ (۱)
’’إن تغیرت أوصافہ لا ینتفع بہ من کل وجہ کالبول‘‘ (۲)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ: باب ما جاء في ماء البحر أنہ طہور‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۶۹۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مسئلۃ البئر جحط‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني فیما لا یجوز بہ التوضئ، ومما یتصل بذلک مسائل‘‘: ج ۱، ص: ۷۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص70