متفرقات

Ref. No. 1655/43-1238

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ناظم مدرسہ نے تنخواہ میں کمی کردی اور اساتذہ کو اس سے شروع میں ہی آگاہ کردیا، اور سب نے اس سے اتفاق کرلیا، اس لئے ناظم مدرسہ پر تنخواہ وضع کرنے کا کوئی الزام نہیں آئے گا۔ البتہ ناظم مدرسہ نے اساتذہ کے تئیں شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنخواہ کے بقیہ حصہ کی تلافی کی ایک شکل اساتذہ کے سامنے رکھی، اور اس کے مطابق جو چندہ کرے گا وہ اس کا مستحق ہوگا، اور جو نہیں کرے گا وہ مستحق نہیں ہوگا۔ ناظم صاحب نے چندہ کی شرط ان کے لئے رکھی ہے جو بقیہ پچیس فیصد کی تلافی چاہتے ہیں ورنہ ان پر چندہ لازم نہیں۔ اور جن لوگوں نے پچیس فی صد اضافی تنخواہ لے لی اور چندہ نہیں کیا تویقینا شرط کے مطابق وہ  پچیس فی صد کے حقدار نہ ہونے کی وجہ سے اس کے مستحق نہیں تھے، اس لئے یا تو وہ پیسے ناظم صاحب کو واپس کریں یا پھر اگلی تنخواہوں میں وضع کرائیں، ناظم مدرسہ نے  اگلی تنخواہوں میں وضع کرکے اس میں بھی  اساتذہ کی رعایت کی  ہے۔

لقول النبي ﷺ: المسلمون على شروطهم (رواه الترمذي في (الأحكام) باب ما ذكر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلح برقم 1352)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 2185/44-2297

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کرسی بنانے کے لئے وصول کئے گئے  پیسوں کی زکوۃ بکر کے ذمہ  ہے۔ زکوۃ نکالتے ہوئے اس ایک لاکھ کی بھی زکوۃ ادا کرے گا جو بطور اڈوانس اس نے وصول کیا ہے، اس لئے کہ وہ مال اب اس کی ملکیت ہے اور اسی کا قبضہ بھی ہے۔  اور جب تک کرسی تیار کرکے زید کے قبضہ میں نہیں دیتا اس وقت تک کرسی  اور دیگر سامان تجارت کی زکوۃ بھی بکر کے ذمہ ہوگی۔

"الاستصناع جائز في كل ما جرى التعامل فيه كالقلنسوة والخف والأواني المتخذة من الصفر والنحاس وما أشبه ذلك استحسانا كذا في المحيط ثم إن جاز الاستصناع فيما للناس فيه تعامل إذا بين وصفا على وجه يحصل التعريف أما فيما لا تعامل فيه كالاستصناع في الثياب بأن يأمر حائكا ليحيك له ثوبا بغزل من عند نفسه لم يجز كذا في الجامع الصغير وصورته أن يقول للخفاف اصنع لي خفا من أديمك يوافق رجلي ويريه رجله بكذا أو يقول للصائغ صغ لي خاتما من فضتك وبين وزنه وصفته بكذا وكذا لو قال لسقاء أعطني شربة ماء بفلس أو احتجم بأجر فإنه يجوز لتعامل الناس، وإن لم يكن قدر ما يشرب وما يحتجم من ظهره معلوما كذا في الكافي الاستصناع ينعقد إجارة ابتداء ويصير بيعا انتهاء قبل التسليم بساعة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي."(فتاوی عالمگیری، 3/ 207،  کتاب البیوع، الباب التاسع عشر في القرض والاستقراض والاستصناع، ط:رشیدیہ)

"وأما حكم الاستصناع: فهو ثبوت الملك للمستصنع في العين المبيعة في الذمة، وثبوت الملك للصانع في الثمن ملكا غير لازم." (بدائع الصنائع، 5 / 3، كتاب الاستصناع، ط: سعيد)

"فصح بيع الصانع) لمصنوعه (قبل رؤية آمره) ولو تعين له لما صح بيعه. (قوله فأخذه) أي الآمر (قوله بلا رضاه) أي رضا الآمر أو رضا الصانع (قوله قبل رؤية آمره) الأولى قبل اختياره لأن مدار تعينه له على اختياره، وهو يتحقق بقبضه قبل الرؤية ابن كمال." (فتاوی شامی 5 / 225،باب السلم ، مطلب في الاستصناع، ط: سعيد )

"ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة ."( بدائع الصنائع، 2 / 9، كتاب الزكاة، ط: سعيد)

ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج (الھندیۃ: (172/1، ط: دار الفکر)

وأما الشرائط التي ترجع إلى المال فمنها: الملك فلا تجب الزكاة في سوائم الوقف والخيل المسبلة لعدم الملك وهذا؛ لأن في الزكاة تمليكا والتمليك في غير الملك لا يتصور۔۔۔۔ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة، وقال زفر: " اليد ليست بشرط " وهو قول الشافعي فلا تجب الزكاة في المال الضمار عندنا خلافا لهما. (بدائع الصنائع: (9/2، ط: دار الکتب العلمیة)

"(ولو كان الدين على مقر مليء ... ( فوصل إلى ملكه لزم زكاة ما مضى  ( الدر المختار: (266/2، ط: دار الفکر)

" الثمن المدفوع مقدّمًا عند إبرام العقد مملوک للصانع یجوز لہ الانتفاع والاسترباح وتجب علیہ الزکاة فیہ․․․․ تخریجًا للثمن المقدم فی الاستصناع علی الأجرة المقدمة أو ما اشترط تعجیلہ (فقہ البیوع: (404/1، ط: معارف القرآن)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نکاح کے بعد یہ بندھن درست نہیں ہے۔(۲)

(۲) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْاط} (سورۃ المائدہ: ۸۷)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لم نر للمتحابین مثل النکاح۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب النکاح، باب ما جاء في فضل النکاح‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۸، ۱
۸۴۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص436

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:۲۷؍ رجب کے بارے میں جو روایات ہیں وہ موضوع اور ضعیف ہیں، صحیح اور قابل اعتماد نہیں؛ لہٰذا ۲۷؍ رجب کا روزہ مثل عاشورہ کے ثواب سمجھ کر کہ ہزار روزوں کا ثواب ملے گا یہ سمجھ کر روزہ رکھنا ممنوع ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے منع فرمایا کرتے تھے(۱) البتہ اگر کوئی شخص ہزار روزہ کے اجر کی نیت نہ کرے محض ثواب کے لیے رکھے تو کوئی ممانعت نہیں ہے۔(۲)

(۱) ۲۷؍ رجب کے روزے کی فضیلت صحاح احادیث میں ثابت نہیں مگر غنیہ میں سیدنا عبد القادر جیلانی قدس سرہ نے لکھا ہے، اس کو محدثین ضعیف کہتے ہیں حدیث ضعیف سے ثبوت نہیں ہو سکتا ہے، نفس روزہ جائز ہے۔  فقط: واللہ اعلم (رشید احمد، گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ: ص: ۴۵۵)
(۲) وقد وردت فیہ أحادیث لا تخلو من طعن وسقوط کما بسطہ ابن حجر في تبیین العجب مما ورد في فضل رجب، وما اشتہر في بلاد الہند وغیرہ أن الصوم صباح تلک اللیلۃ یعد ألف صوم فلا أصل لہ۔ (الآثار المرفوعۃ، ’’ذکر عاشر رجب‘‘: ج ۱، ص: ۷۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص489

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی بھی زمانے کے مستند علماء کی ایک بڑی تعداد کو جمہور علماء سے تعبیر کیا جا تا ہے۔(۲)

(۲) اتفاق علماء العصر علی حکم النازلۃ، تعریف الإجماع علی کل من ہذین الاتفاقین ووجہ الجواز أنہ یجوز أن یظہر مستند جلی یجمعون علیہ۔ (القاضي أبو یعلی، العدۃ في أصول الفقہ: ج ۱، ص: ۱۷۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص165

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر لوٹے میں گرد وغبار یا گندگی گرنے کا اندیشہ ہو، تو لوٹے کو الٹا رکھنا مناسب ہے اور اگر کوئی اندیشہ نہ ہو، تو سیدھا رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے،مگر سیدھا رکھنے کی صورت میں بھی اس پر کچھ رکھ دینا چاہئے۔
حدیث میں ہے:
’’عن جابر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال أغلق بابک واذکر اسم اللّٰہ فإن الشیطان لا یفتح باباً مغلقا وأطف مصباحک واذکر اسم اللّٰہ وخمر إناء ک ولو بعود وتعرضہ علیہ واذکر اسم اللّٰہ وأوکِ سقاء ک واذکر اسم اللّٰہ‘‘(۱)
’’وقد یقال إن الضرورۃ في البئر متحققۃ بخلاف الأواني لأنہا تخمر‘‘(۲)

(۱) أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الأشربۃ: باب في إیکاء الآنیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۴، رقم: ۳۷۳۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مبحث في بول الفارۃ وبعرہا وبول الہرۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص193

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ غسل نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ ہی سنت اور نہ مباح؛ بلکہ بدعت ہے، جو سجاد نشین اس بدعت کو ترک کرے گا،وہ مستحق اجر وثواب ہوگا۔(۲)

(۲) فإن کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ ابوداود، في سننہ، کتاب السنۃ، باب لزوم السنۃ،ج ۲، ص:۶۳۵،رقم:۴۶۰۷)؛ و عن عائشۃ أن رسول اللّٰہ ﷺ من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، باب تعظیم حدیث رسول اللّٰہ، ج۱، ص:۳، رقم ۱۴(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص286

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر دس دن کے اندر اندر خون آتا رہا، تو تمام کا تمام حیض شمار ہوگا، اور اگر دس دن سے آگے بڑھے گا، تو ایام عادت یعنی پانچ دن حیض، اور باقی  استحاضہ شمار ہوگا۔(۱)

(۱)و إذا زاد الدم علی العادۃ فإن جاوز العشرۃ فالزائد کلہ استحاضۃ و إلا فحیض۔ (إبراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر،  ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض‘‘ ج۱، ص:۸۱، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان) و إن جاوز العشرۃ ففي المبتدأۃ حیضھا عشرۃ أیام و في المعتادۃ معروفتھا في الحیض حیض والطھر طھر۔ ھکذا في السراج الوھاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الدول: في الحیض و منھا تقدم نصاب الطہر‘‘ ج۱، ص:۹)؛ و لنا ما روي أبوأمامۃ الباھلي رضی اللہ عنہ عن النبي ﷺ أنہ قال أقل ما یکون الحیض للجاریۃ الثیب و بکر جمیعا ثلاثۃ أیام، و أکثر ما یکون من الحیض عشرۃ أیام، و مازاد علی العشرۃ فھو استحاضۃ۔(الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في تفسیر الحیض، النفاس والاستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۱۵۴  مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص385

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جو شخص اپنی خوشی اور رضامندی سے یا کسی لالچ میں خصی ہوگیا ہو، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ کیوں کہ خصی ہونا حرام ہے؛(۱) لہٰذا حرام کام کرنے والے کو امامت جیسا منصب دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔(۲)

(۱) {وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِط} (سورۃ النساء: ۱۱۹)
إن خصاء الآدمي حرام صغیرا کان أو کبیرا لورود النہي عنہ۔(جماعۃ من الفقہاء، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ج۱۹، ص: ۱۲۰)
(۲) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص167

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  پوری مسجد برابر ہے جس جگہ بھی نماز پڑھی جائے مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب برابر ملتا ہے؛ لیکن جماعت کے لیے محراب بنائی جاتی ہے بوقت جماعت امام کو محراب میں کھڑا ہونا چاہئے بغیر کسی عذر کے محراب چھوڑ کر دوسری جگہ جماعت کرنا افضلیت کے خلاف ہے۔(۱)
(۱) السنۃ أن یقوم الإمام في المحراب … لئلا یلزم عدم قیامہ في الوسط فلو لم یلزم ذلک لایکرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰، زکریا دیوبند)
وینبغي للإمام أن یقف بإزاء الوسط فإن وقف في میمنۃ الوسط أو في میسرتہ فقد أساء لمخالفۃ السنۃ، ہکذا في التبیین، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ،  ’’الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘:ج۱، ص: ۱۴۷)، زکریا دیوبند۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص371