طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جب کہ واقعۃً گٹر کا پانی ٹینک میں داخل ہو گیا اوراس پانی میں بدبو وغیرہ پیدا ہوگئی یا پانی کا ذائقہ تبدیل ہوگیا، تو یہ پانی شرعاً ناپاک ہے۔ ٹینک کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سارا پانی نکال کر اسے دھو لیا جائے یا اگر سارے پانی کا نکالنا ممکن نہ ہو، تو ٹینک میں مزیداس قدر صاف پانی داخل کیا جائے کہ پانی نکل کر بہتا رہے یہاں تک کہ صاف ہوجائے اور رنگ اور بدبو ختم ہوجائے تو پانی پاک ہو جائے گا۔
المحیط البرہانی میں ہے:
’’ویجوز التوضؤ بالماء الجاري، ولا یحکم بتنجسہ لوقوع النجاسۃ فیہ ما لم یتغیر طعمہ أو لونہ أو ریحہ، وبعدما تغیر أحد ہذہ الأوصاف وحکم بنجاستہ لا یحکم بطہارتہ ما لم یزل ذلک التغیر بأن یزاد علیہ ماء طاہر حتی یزیل ذلک التغیر، وہذا؛ لأن إزالۃ عین النجاسۃ عن الماء غیر ممکن فیقام زوال ذلک التغیر الذي حکم بالنجاسۃ لأجلہ مقام زوال عین النجاسۃ‘‘(۱)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’الماء الجاري بعدما تغیر أحد أوصافہ وحکم بنجاستہ لا یحکم بطہارتہ ما لم یزل ذلک التغیر بأن یرد علیہ ماء طاہر حتی یزیل ذلک التغیر‘‘ (۲)
(۱) محمد بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الرابع في المیاہ ……التي یجوز التوضؤ بہا والتي لا یجوز التوضؤ بہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۰۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطارۃ: الباب الثالث في المیاہ، النوع الأول: الماء الجاري‘‘: ج ۱، ص: ۶۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص77

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کچھا (انڈر ویئر) پہن کر غسل کرنے سے غسل درست ہو جاتا ہے؛ لیکن لوگوں کے سامنے صرف کچھا پہن کر غسل کرنا درست نہیں ہے۔ مرد کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہے، گھٹنہ بھی ستر میں داخل ہے اور ستر ڈھانکنا ضروری ہے، ستر دکھانا جائز نہیں ہے۔(۲)

(۲) عن أبي سعید الخدري أن النبی ﷺ قال: عورۃ الرجل من سُرَّتہ إلی رکبتہ ……(أخرجہ الحارث بن أبي أسامہ، في مسند الحارث،  ’’باب ما جاء في العورۃ‘‘ج۱، ص:۲۶۴، رقم:۱۴۳) ؛ وعن عبد الرحمن بن أبي سعید، عن أبیہ أن رسول اللّٰہ ﷺ قال: لا ینظر الرجل إلی عورۃ الرجل، والمرأۃ إلی عورۃ المرأۃ، ولا یفضي الرجل إلی الرجل في الثوب الواحد، ولا تفضي المرأۃ إلی المرأۃ في الثوب الواحد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ،’’کتاب الحیض، باب تحریم النظر إلی العورات‘‘ ج۱، ص: ۱۵۴، رقم: ۳۳۸، مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص293

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ ابتداء اسلام میں عورتوں کا مردوں کے ساتھ جماعت کرنا ثابت ہے؛ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد سے یہ عمل ترک ہو گیا اور عورتوں کا جماعت میں شامل ہونا مکروہ ہو گیا۔(۱)

(۱) إن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: لقد کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي الفجر فیشہد معہ نسائٌ من المؤمنات متلفعات في مروطہن ثم یرجعن إلی بیوتہن ما یعرفہن أحد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في کم تصلي المرأۃ في الثیاب‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم: ۳۷۲)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تمنعوا نسائکم المساجد وبیوتہن خیرلہن۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ماجاء في خروج النساء إلی المسجد: ج ۱، ص:۸۳، رقم: ۵۶۷)…عن عبد اللّٰہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ المرأۃ في بیتہا أفضل من صلاتہا في حجرتہا وصلاتہا في حجرتہا أفضل من صلاتہا فيبیتہا۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب التشدید في ذلک‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم:۰ ۵۷)
وکرہ لہن حضور الجماعۃ إلا للعجوز في الفجر والمغرب والعشاء، والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل الصلوات لظہور الفساد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم: ج ۱، ص: ۱۴۶)
وأما بیان من تجب علیہ الجماعۃ فالجماعۃ إنما تجب علی الرجال العاقلین الأحرار القادرین علیہا من غیر حرج فلا تجب علی النساء۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان والإقامۃ للفائتۃ، فصل في بیان محل وجوب الأذان: ج ۱، ص: ۳۸۰)
والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل صلوات لظہور الفساد۔ (عالم بن العلاء، التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ، ج ۱، ص: ۱۵۷)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص502

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر والدہ کے بدن یا کپڑوں پر پیشاب نہ لگا ہو اور برابر میں جگہ ہو تو پیشاب کی جگہ سے معمولی سا الگ ہوجائے اور نماز پوری کرے نماز توڑنے کی ضرورت  نہیں ہے اور اگر یہ نہ ہوسکے تو دوسری پاک جگہ پر نماز پڑھے۔ اور اگر بدن یا کپڑوں پر پیشاب لگ جائے تو نماز توڑ کر پاکی کے بعد نماز کا اعادہ کرے۔(۱)

(۱) اتفق المذاہب الأربعۃ علی أن بول الصبي نجس۔ (الکشمیري، معارف السنن: ج ۱، ص: ۲۶۸)
وبول غیر مأکول ولو من صغیر لم یطعم (در مختار) وفي الشامي: أي لا یأکل، فلا بد من غسلہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۳)
بول مایؤکل لحمہ کالاٰدمي ولو رضیعاً۔ قال الطحطاوي: ولو رضیعاً لم یطعم سواء کان ذکراً أو أنثیٰ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ص:۱۵۴)
(ومن أصابہ من النجاسۃ المغلظۃ کالدم والبول) من غیر مأکول اللحم ولو من صغیر لم یطعم (والغائط والخمر) وخرء الطیر لا یزرق في الہواء کذجاج وبط وإوز (مقدار الدرہم فما دونہ جازت الصلاۃ معہ: لأن القلیل لا یمکن التحرز عنہ؛ فیجعل عفواً، وقدرناہ بقدر الدرہم أخذاً عن موضع الاستنجاء (فإن زاد) عن الدرہم (لم تجز) الصلاۃ، ثم یروی اعتبار الدرہم من حیث المساحۃ، وہو قدر عرض الکف في الصحیح، ویروي من حیث الوزن، وہو الدرہم الکبیر المثقال، وقیل في التوفیق بینہما: إن الأولی في الرقیق، والثانیۃ فی الکثیف، وفي الینابیع: وہذا القول أصح، … (وإن أصابتہ نجاسۃ مخففۃ کبول ما یؤکل لحمہ) ومنہ الفرس، … (جازت الصلاۃ معہ ما لم یبلغ ربع) جمیع (الثوب) … وقیل: ربع الموضع الذي أصابہ کالذیل والکم والدخریص، إن کان المصاب ثوبا۔ وربع العضو المصاب کالید والرجل، إن کان بدناً وصححہ في التحفۃ والمحیط والمجتبی والسراج، وفي الحقائق: وعلیہ الفتوی۔ (عبد الغني المیداني، اللباب في شرح الکتاب، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس‘‘: ص: ۶۸، ط، قدیمی)(شاملہ)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص280

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2783/45-4344

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور قاری صاحب نیک نیتی سے اس کو مجمع میں لانا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کوقرات کے مختلف انداز معلوم ہوں ، اور مناسب ہوگا کہ پروگرام سے پہلے قراءت سبعہ پر تھوڑی روشنی ڈال دی جائے  تاکہ لوگوں کی اجنبیت دور ہوجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2820/45-4423

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعا اولاد کی کثرت پسندیدہ ہے۔ احادیث میں زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرنے کی طرف رغبت دلائی گئی ہے۔

عن معقل بن يسار قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تزوجوا الودود الولود فانی مکاثر بکم الامم - و قید بھذین لأن الولود إذا لم تكن ودودا لم يرغب الزوج فيها ، و الودود إذا لم تكن ولودا لم يحصل المطلوب وھو تكثير الأمة بكثرة التوالد ای مفاخر بکم سائر الأمم لكثرة أتباعى (مرقاة المفاتيح شرح مشكوة المصابیح ، کتاب النکاح 5/2047 دارالفکر)

رزق اور دیگر وسائل کے پیدا کرنے کی ذمہ داری الللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے: وما من دابۃ فی الارض الاعلى الله رزقها ويعلم مستقرها ومستودعها كل في كتاب مبين' (سور ہود 6) اسلئے معاشی خوف سے مانع حمل ذرائع کا استعمال شرعا جائز نہیں ہے۔  

ولا تقتلوا اولادكم خشية املاق نحن نرزقهم واياكم إن قتلهم كان خطئا كبيرا (سورة الاسراء ٣١ )

اگر بچہ کے اعضاء بن چکے ہوں جس کی مدت ایکسوبیس دن ہیں تو ایسی صورت میں حمل کو ساقط کرنا یا کروانا قتل نفس کی وجہ سے ناجائز ہے اور ایک سو بین دن سے پہلے حمل ساقط کرانا مکرده و نا پسندیدہ ہے ۔

وفى الذخیر لو أرادت إلقاء الماء بعد وصوله إلى الرحم قالوا ان مضت مدۃ ینفخ فیہ الروح لایباح لھا وقبلہ اختلف المشائخ فیہ والنفخ مقدر بمائة وعشر ين يوما با لحدیث کمافی الشامی۔ العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقہ کا لشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق یجوز (الفتاوی الھندیۃ 5/456)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت
زید کی راشدہ سے چار ماہ قبل شادی ہوءی۔ شادی سے پہلے راشدہ کے بینک اکاونٹ میں ۵ لاکھ روپءے تھے۔ ابھی راشدہ کا اکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔ گاڑی وغیرہ کا انشورنس تھا۔ اب انشورنس میں تقریبا دس لاکھ روپءے مل رہے ہیں۔ زید کہتا ہے کہ وہ پیسے میرے ہیں جبکہ لڑکی کے والدین کہتے ہیں کہ وہ پیسے میرے ہیں۔ آپ شریعت کی روشنی میں فیصلہ فرماءیں کہ شادی سے پہلے سے جو ۵ لاکھ روپءے اس کی ملکیت میں چلے آرہے تھے اس کا مالک کون ہے اور اس انشورنس رقم کا مالک کون ہے؟ والسلام اختر ممبءی

Eating & Drinking

Ref. No. 813 Alif

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

There is no issue in purchasing items from non-Muslims’ companies. Yes, if it is confirmed or probable that they use urine or any other impurity as ingredients of their products one must not use such product.  

As for bank loans and insurance, they are haram. And using something haram as a means to achieve halal things is not allowed.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

حج و عمرہ

Ref. No. 38/798

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایسا کچھ ضروری نہیں ہے، بلکہ عورتوں کے لئے مسجد نبوی اور مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے اپنے مکان میں پڑھنا زیادہ ثواب کا باعث ہے۔ کذا فی کتب الفقہ۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/910

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا کرنا  بے ادبی ہے، مکرہ ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند