Frequently Asked Questions
اجماع و قیاس
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس طرح واش بیسن میں چہرہ اور ہاتھ دھونے اور ناک صاف کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور اس کو کوئی برا نہیں سمجھتا اسی طرح پیر دھونے میں بھی کوئی برائی نہیں ہے؛ تاہم جب لوگوں کو اعتراض ہو، تو احتیاط کرنی چاہئے اور کوئی متبادل تلاش کرنا چاہئے، آفس والوں کے ساتھ اختلاف اچھی بات نہیں ہے، اب ایک شکل تو یہ ہے کہ آپ بوتل میں پانی لے کر پیر کسی اور جگہ دھو لیا کریں؛ دوسری شکل یہ ہے کہ خفین پہن کر آفس جائیں اور خفین پر مسح کر لیا کریں؛ البتہ صرف لوگوں کے اعتراض کی وجہ سے پانی کے موجود ہوتے ہوئے پیروں پر مسح یا تیمم کی اجازت نہیں ہوگی۔
’’قال تعالیٰ: {فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْداً طَیِّبًا}(۱)
’’لقولہ علیہ السلام: یمسح المقیم یوماً ولیلۃ والمسافر ثلثۃ أیام ولیالیہا‘‘(۲)
(۱) سورۃ المائدۃ: ۶۔
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص194
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس شخص پر غسل واجب ہے اور وہ شخص سخت گناہ گار ہے، اس کو اس فعلِ بد سے توبہ لازم ہے؛ ایسا عمل شریعت کی نگاہ میں انتہائی ناپسندیدہ اور قابل مؤاخذہ ہے۔(۱)
(۱) یفترض الغسل بواحد من سبعۃ أشیاء أولھا خروج المنی إلی ظاھر الجسد… و منھا إنزال المني بوطئ میتۃ أو بھیمۃ۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، فصل ما یوجب الاغتسال،‘‘ ج۱، ص:۹۶-۹۸ ، دارالکتاب دیوبند) و قیدنا بکونہ في قبل إمرأۃ لأن التواري في فرج البھیمۃ لا یوجب الغسل إلا بالإنزال۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۰۹)؛ و الإیلاج في البھیمۃ لا یوجب الغسل بدون الإنزال (عالم بن العلاء، لفتاویٰ التاتارخانیہ، بیان أسباب الغسل، ج۱، ص:۲۷۹، مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص287
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی عورت جو مستقل ماہواری کی پریشانی میں ہو اور حیض بند نہ ہوتا ہو، تو ہرماہ دس دن حیض کے شمار ہوں گے، اور باقی استحاضہ یعنی بیماری کے ہوں گے، حیض کے دنوں میں بیوی سے نہ ملے، اس کے علاوہ کے دنوں میں یعنی استحاضہ کے باوجود اپنی بیوی سے صحبت کرنا درست ہے۔ ’’فالعشرۃ من أول ما رأت حیض والعشرون بعدذلک طھرھا‘‘(۲) البتہ استحاضہ جو شرعی وطبعی عذر ہے، محض اس کی وجہ سے طلاق دینا بہتر نہیں ہے، ایسی حالت میں دوسری شادی کرنا بھی جائز ہے۔(۱)
(۲) الکاساني،بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل: في تفسیر الحیض، والنفاس، والاستحاضۃ، دم الحامل لیس بحیض‘‘ ج۱، ص:۱۶۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص386
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مدرس نے جعلی کاپیاں چھپوائی، پھر جانچ کے وقت ان کو یہ پھاڑ ڈالا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے کاپیاں جعلی چھپوائی تھی اس نے اس سے چندہ بھی کیا ہوگا ان کاپیوں پر اگر چندہ کیا گیا ہے تو مدرسہ کے ذمہ دار ان کو یہ شرعاً بالکل حق نہیں تھا اور نہ ہے کہ وہ اس رقم کو معاف کردیں؛ اس لیے کہ یہ ان حضرات کی ذاتی رقم نہیں ہے وہ رقم مدرسہ کی ہے جس کے معاف کرنے کا ان کو کوئی حق نہیں ہے، رقم پوری لی جائے یا ماہ بماہ تنخواہ سے وضع کی جائے(۱) اور یہ مدرس اپنی سچی توبہ واستغفار کا اعلان کردے تو مدرسہ کے ذمہ دار ان کو حق ہے کہ اس
کی خیانت کو معاف کرکے دو بارہ مدرس رکھیں؛(۲) لیکن رقم کا لینا لازم ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ آئندہ اس پر نظر رکھیںاس کو اس طرح خیانت کرنے کا موقعہ نہ ملے پس توبہ و استغفار کے اعلان کے بغیر اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔(۳)
(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ التوبہ: ۳۴)
{ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ النساء: ۲۹)
(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۳) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص168
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: در مختار میں مشغولیتِ علم فقہ کو ترکِ جماعت کا عذر قرار دیا گیا ہے ، لہٰذا اگر اتفاقاً ایسا ہوجائے تو حرج نہیں؛ البتہ اس کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے۔(۲)
(۲) منہا مطر وبرد وخوف وظلمۃ وحبس وعمی وفلج وقطع ید ورجل وسقام وإقعاد ووحل وزمانۃ وشیخوخۃ وتکرار فقہ لا نحو ولغۃ بجماعۃ تفوتہ ولم یداوم علی ترکہا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، کتاب الصلاۃ، ص: ۹۷، ۹۸)
قولہ وکذا اشتغالہ بالفقہ، الخ، عبارۃ نور الإیضاح، وتکرار فقہ بجماعۃ تفوتہ ولم أر ہذا القید لغیرہ ورمز في القنیۃ لنجم الأئمۃ فیمن لایحضرہا لاستغراق أوقاتہ في تکریر الفقہ لایعذر ولا تقبل شہادتہ ثم رمزلہ ثانیاً أنہ یعذر بخلاف مکرر اللغۃ ثم وفق بینہما بحمل الأول علی المواظب علی الترک تہاوناً والثاني علی غیرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۳، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص371
اسلامی عقائد
Ref. No. 2757/45-4289
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مشت زنی کرنے والوں کی انگلیاں قیامت کے دن گیابھن ہوں گی۔ میدانِ حشر میں تمام انسان اسے دیکھیں گے، سب کے سامنے اس کی رسوائی ہوگی۔ اس لئے اس سے شوہر کو بچنا چاہئے اور اپنے اوپر کنٹرول کرنا چاہئے، عورت کے بدن کے ساتھ رگڑنے وغیرہ کی اجازت ہے، نیز عام احوال میں بیوی سے مشت زنی کرانا بھی مکروہ ہے، لیکن اگر بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہو اور شوہر پر شہوت کا غلبہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ تاہم مشت زنی سے آدمی کافر نہیں ہوتاہے۔
{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ}
وله أن يقبلها ويضاجعها ويستمتع بجميع بدنها ما خلا ما بين السرة والركبة عند أبي حنيفة وأبي يوسف. هكذا في السراج الوهاج. (الفتاوى الهندية، كتاب الطهارة، الباب السادس : الدماء المختصة بالنساء، الفصل الرابع في الحيض، ج:1، ص:93)
(و) يمنع (وقربان ما تحت إزار) يعني ما بين سرة وركبة ولو بلا شهوة، وحل ما عداه مطلقا. (الدر المختار على صدر رد المحتار، كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:486)
أنه يجوز له أن يلمس بجميع بدنه حتى بذكره جميع بدنها إلا ما تحت الإزار فكذا هي لها أن تلمس بجميع بدنها إلا ما تحت الإزار جميع بدنه حتى ذكره۔ (رد المحتار، كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:487)
ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته، وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه۔ (رد المحتار،باب مايفسد الصوم وما لا يفسده، مطلب في حكم الاستمناء بالكف، ج:3، ص:371)
علامہ شہاب الدين محمود بن عبد الله حسينی آلوسی � (المتوفی: 1270ھ) روح المعانی میں مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں: ”فجمهور الأئمة على تحريمه وهو عندهم داخل فيما وراء ذلك، وكان أحمد بن حنبل يجيزه لأن المني فضلة في البدن فجاز إخراجها عند الحاجة كالفصد والحجامة … وعن سعيد بن جبير: عذب الله تعالى أمة كانوا يعبثون بمذاكيرهم، وعن عطاء: سمعت قوما يحشرون وأيديهم حبالى وأظن أنهم الذين يستمنون بأيديهم “(تفسیر ابن کثیر ،جلد نمبر 5،صفحہ نمبر 463، مطبوعہ: دار طيبة للنشر والتوزيع)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہم لوگ جہت (سمت) قبلہ کے مکلف ہیں اس میں اگر کچھ معمولی کمی زیادتی ہو جائے تب بھی نماز اداء ہو جاتی ہے، پس مذکورہ صورت میں نمازیں ادا ہو گئیں اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)
(۲) ولغیر المشاہد إصابۃ جہتہا البعید والقریب سواء (ولو بمکۃ) وحال بینہ وبین الکعبۃ بناء أو جبل (علی الصحیح) کما في الدرایۃ والتنجیس۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۱۳-۲۱۴، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)
ومن کان خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ وہو قول عامۃ المشائخ، وہو الصحیح ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث، في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، زکریا، دیوبند)
والأصح أن من بینہ وبینہا حائل کالغائب، وأقرہ المصنف قائلاً: والمراد بقولي ’’فللمکي‘‘ مکي یعاین الکعبۃ (ولغیرہ) أي غیر معاینہا إصابۃ جہتہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: مبحث في استقبال القبلۃ، ج۲، ص: ۱۰۸-۱۰۹، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص268
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بسم اللہ یا مذکورہ آیت ضروری اور شرعی سمجھ کر یا سنت سمجھ کر نہیں پڑھنا چاہئے نہ ہی اس پر دائمی عمل ہونا چاہئے حکم شرعی سمجھے بغیر اتفاقاً اگر کوئی پڑھ لے توکوئی حرج نہیں ہے۔(۲)
(۲) ولہذا صرح في الذخیرۃ والمجتبی بأنہ إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ المقروئۃ سرا أو جہرا کان حسنا عند أبي حنیفۃ ورجحہ المحقق ابن الہمام وتلمیذہ الحلبي … وقال في شرح المنیۃ إنہ الأحوط، لأن الأحادیث الصحیحۃ تدل علی مواظبتہ علیہ الصلاۃ والسلام علیہا، جعلہ في الوہبانیۃ قول الأکثرین أي بناء علی قول الحلواني إن أکثر المشایخ علی أنہا من الفاتحۃ، فإذا کانت منہا تجب مثلہا لکن لم یسلم کونہ قول الأکثر (قولہ ضعفہ فی البحر) حیث قال في سجود السہو: إن ہذا کلہ مخالف لظاہر المذہب المذکور فيالمتون والشروح والفتاوی من أنہا سنۃ لا واجب فلا یجب بترکہا شيء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۲، ۱۹۳)
ثم یسمی سرا کما تقدم ویسمی کل من یقرأ في صلاتہ في کل رکعۃ سواء صلی فرضا أو نفلا قبل الفاتحۃ بأن یقول بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم وأما في الوضوء والذبیحۃ فلا یتقید بخصوص البسملۃ بل کل ذکر لہ یکفی فقط فلا تسن التسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ ولا کراہۃ فیہا وإن فعلہا اتفاقا للسورۃ سواء جہر أو خافت بالسورۃ وغلط من قال لا یسمی إلا في الرکعۃ الأولی۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۳۷)
فائدۃ: یسن لمن قرأ سورۃ تامۃ أن یتعوذ ویسمی قبلہا واختلف فیما إذا قرأ آیۃ والأکثر علی أنہ یتعوذ فقط ذکرہ المؤلف في شرحہ من باب الجمعۃ ثم أعلم أنہ لا فرق فی الإتیان بالبسملۃ بین الصلاۃ الجہریۃ والسریۃ وفي حاشیۃ المؤلف علی الدرر واتفقوا علی عدم الکراہۃ في ذکرہا بین الفاتحۃ والسورۃ بل ہو حسن سواء کانت الصلاۃ سریۃ أو جہریۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 413
Games and Entertainment
Ref. No. 1665
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
For justice to be delivered it is not that only video is necessary, before arrival of video justice has been much more, and every case is not to be dragged to the court. Therefore, in usual circumstances video etc. are not allowed.
Yes, in case there is no other way to (attain) justice, and it is most probable that in such a situation (using video) justice can be attained while in other conditions (when not using video) considerable harms are feared, then there may be scope for video.
However, if there is any compulsion it is better to describe it and ask the question again. And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband