Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 1732/43-1431

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Masturbation is Haram and forbidden, and such a person is cursed in Hadith. It causes all kinds of spiritual and physical ailments. Therefore, you have to truly repent from it immediately and do not repeat this action in future. It may affect your married life badly. Try to avoid it and pray to Allah Almighty and also give something in charity. To stay away from this habit, you can impose a pledge upon you in the case of failure, so that you won’t repeat the same and seek the help of Allah Almighty meanwhile.

After the semen comes out of the penis, the penis becomes loose and the sperm slowly comes out of it. Therefore, ghusl should not be taken immediately after ejaculation, there should be an interval of about half an hour so that whatever is in the urethra comes out, and then take a ghusl.

Pouring cold water on pubes, while bathing, also releases the remaining liquid in the urethra out of the organ.

If you do ghusl immediately after ejaculation, then it is probable that the substance comes out and gets on the towel etc. and hence the towel and the body became impure, so it is obligatory to wash it. And since the substance has come out of the organ after ghusl, ablution will also be obligatory. Moreover, the tip of the penis can be checked with the finger to see if the substance is still coming out or stopped and the liquid on the towel is water or semen. You can act according to your Dominant assumption.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1936/44-1862

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1)  جوشخص آن لائن کسی کمپنی میں کوئی کام کرے، اور اس کے عوض کمپنی کوئی رقم دے، تو یہ جائز ہے۔ اسی طرح اگر کمپنی کے ضابطہ کے مطابق کسی کو کمپنی سے جوڑنے پر کوئی انعام ملے تو وہ بھی جائز ہے کہ بندہ نے محنت کرکے ایک آدمی کو جوڑا ہے۔ البتہ دوسرے لوگ جن کے کمپنی کے ساتھ جوڑنے میں اس بندہ کا کوئی دخل نہیں ہے ، ان کے بدلے کوئی معاوضہ لینا شرعا جائز نہیں ہے۔ (2) اگر کمپنی کی شرط ہو کہ آپ کے اکاؤنٹ میں ایک متعین رقم رہنا ضروری ہے  اور پھر کمپنی آپ کے کام کے عوض اس میں اضافہ کرے تو درست ہے، اور اگر پیسے کاؤنٹ میں رکھنے پر پیسے بڑھتے رہیں اور جتنی رقم (کم یا زیادہ) رکھی جائے اسی تناسب سے اضافہ ہو تو یہ سود ہے جو حرام ہے اور اس سے بچنا لازم ہے۔ (3) پیسے رکھنے پر بلاکسی عمل کے پیسے میں اضافہ سود ہے جو حرام ہے۔

حدثنا ‌قتيبة، قال: حدثنا ‌أبو عوانة ، عن ‌سماك بن حرب، عن ‌عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود ، عن ‌ابن مسعود قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل ‌الربا وموكله وشاهديه وكاتبه»." ) سننِ ترمذی باب ما جاء في أكل الربا، ج:2، ص:496، ط: دار الغرب الإسلامي – بيروت(

قوله: كل قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر وعن الخلاصة. وفي الذخيرة: وإن لم يكن النفع مشروطًا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به، ويأتي تمامه. (شامی، کتاب البیوع،فصل فی القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج : 5، ص : 166 ،ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند 

 

متفرقات

Ref. No. 2243/44-2385

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگراس کے علاوہ کوئی اور طریقہ علاج نہ ہو، اور وہ غیرمسلم خود ہی کچھ پڑھتاہو اور پھونکتاہو، اور یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ وہ شرکیہ کلمات پڑھتاہے  تو اس سے علاج کرانے کی گنجائش ہے، گوکہ پرہیز بہتر ہے۔  اور اگر یقینی طور پر اس کے شرکیہ کلمات کا علم ہو تو اس سے علاج کرانا جائز نہیں ہے۔

في ”مرقاة المفاتیح“: (بقول: إن الرقي) أي رقیة فیہا اسم صنم أو شیطان أو کلمة کفر أو غیرہا مما لایجوز شرعاً ومنہا لم یعرف معناہا (۸/۳۷۱، کتاب الطب والرقی مطبوعہ، فیصل دیوبند) وعن عوف بن مالک الأشجعي قال: کنا نرقی في الجاھلیة، فقلنا: یارسول اللہ! کیف تری فی ذلک؟ فقال: ”اعرضوا عليّ رقاکم، لابأس بالرقي مالم یکن فیہ شرک۔ رواہ مسلم۔ (مرقاة المفاتیح: ۸/۳۵۹، مطبوعہ، فیصل دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس شخص کو اپنا عمل اور اپنی عبادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کرنی چاہئے اگر ان جانے میں خلاف سنت کچھ ہوگیا ہے تو اس کی معافی خدا تعالیٰ سے مانگیں، اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی پوری اور قوی امید ہے۔(۱) {إِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ج}(۲)

(۱) {إِنَّمَاالتَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓئَ بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًاہ۱۷} (سوۃر النساء: ۱۷)
عن قتادۃ أنہ کان یحدث: أن أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا یقولون: کل ذنب أصابہ عبد فہو بجہالۃ۔ عن قتادۃ: ’’للذین یعملون السوء بجہالۃ‘‘، قال: اجتمع أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرأوا أن کل شيء عصي بہ فہو ’’بجہالۃ‘‘ عمداً أو کان غیرہ۔
عن مجاہد في قولہ: ’’للذین یعملون السوء بجہالۃ‘‘، قال: کل من عصی ربہ فہو جاہل حتی ینزع عن معصیتہ۔ (محمد بن جرید الطبري: جامع البیان، ’’سورۃ النساء: ۱۷‘‘: ج ۸، ص: ۸۹، رقم: ۸۸۳۲-۸۸۳۳)
وقال عکرمۃ: أمور الدنیا کلہا جہالۃ یعني ما اختص بہا وحرج عن طاعۃ أدلۃ۔ (أبو حبان محمد بن یوسف، البحر المحیط، ’’سورۃ النساء: ۱۷‘‘: ج ۳، ص: ۵۶۱)
(۲) سورۃ النساء: ۴۸۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص535

طلاق و تفریق

Ref. No. 2541/45-3887

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں اگر والدین اپنے اختیار سے کسی کو وکیل بنائیں اور وکیل نکاح کرے تو یہ مؤکل کی طرف ہی منسوب ہوگا، اور والدین کا ہی نکاح کرنا پایاجائے گا، اور مؤکل کی طرف سے طلاق بھی واقع ہوجائے گی، ۔ ہاں اگر لڑکی بالغہ ہو اور وہ بلا ولی کی اجازت کے نکاح کرے تو ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2592/45-4091

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    مذکورہ جملہ کہنا دینی باتوں کے استخفاف کے طور پر نہیں ہے، بلکہ دین کی باتوں کا کثرت سے سننا و سنانا بتانا ہے، نیز  دین کی باتوں کا کسی خاص انداز سے سننے سنانے کو لازم سمجھنے پر رد بھی ہوسکتاہے، اس لئے محض اس جملہ کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی کی روح کے حاضر مجلس ہونے کا عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے، اور مذکورہ وظیفہ پڑھنا بھی جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) یجوز في الأذکار المطلقۃ الإتیان بما ہو صحیح في نفسہ مما یتضمن الثناء علی اللّٰہ تعالی ولا یستلزم نقصاً بوجہ من الوجوہ وإن لم تکن تلک الصیغۃ ما ثورۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (وزارۃ الأوقاف الکویتیۃ، الموسوعۃ الفقہیۃ، ’’الذکر بعد المأثور، أ-في الأذکار المطلقۃ‘‘: ج ۲۱، ص: ۲۳۸)…وقد یکون الذکر حراماً، وذلک کان یتضمن شرکاً کتابیۃ أہل الجاہلیۃ، أو یتضمن نقصاً، مما کانوا یقولون في أول الإسلام: السلام علی اللّٰہ من عبادہ، فقال: النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تقولوا السلام علی اللّٰہ فإن اللّٰہ ہو السلام ولکن قولوا: التحیات للّٰہ والصلوٰت والطیبات۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۲۱، ص: ۲۳۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص363

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ والتوفیق:ٹائلس اور پتھر والے پکے فرش کو پاک کرنے کے سلسلے میں کتب فتاویٰ میں دو طریقے مذکور ہیں:
پہلا طریقہ:
مذکورہ فرش پر اتنی وافر مقدار میں پانی ڈال کر بہا دیا جائے کہ اس پر نجاست کا کوئی اثر باقی نہ
رہے، تو اس طرح وہ فرش پاک ہوجائے گا۔
دوسرا طریقہ:
اس پر پانی ڈال کر صاف کیا جائے، پھر کپڑے سے خشک کرلیا جائے، اس طرح تین مرتبہ کرنے سے بھی وہ پاک ہوجائے گا۔
یہ حکم احتیاط پر مبنی ہے، از روئے فتویٰ تو مذکورہ زمین خشک ہونے اور نجاست کا اثر باقی نہ رہنے کی صورت میں بغیر دھوئے بھی پاک ہوجائے گی، اس جگہ پر نماز پڑھنا درست ہوگا؛ البتہ اس جگہ سے تیمم اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک اسے دھو کر پاک نہ کرلیا جائے؛ لیکن جہاں سہولت ہو احتیاط پر عمل کرنا چاہیے۔
لہٰذا اگر زمین پر پیشاب یا نجاست کا اثر باقی نہ ہو، تو محض گیلا کپڑا پھیرنا بھی کافی ہو گا؛ لیکن احتیاط کرنا زیادہ بہتر ہے۔
’’الأرض إذا تنجست ببول واحتاج الناس إلی غسلھا، فإن کانت رخوۃ یصب الماء علیھا ثلاثاً فتطھر، وإن کانت صلبۃ قالوا: یصب الماء علیھا وتدلک  ثم تنشف بصوف أوخرقۃ، یفعل کذلک ثلاث مرات فتطھر، وإن صب علیھا ماء  کثیر حتی تفرقت النجاسۃ ولم یبق ریحھا ولا لونھا وترکت حتی جفت تطھر   کذا في فتاوی قاضي خان‘‘(۱)  
’’البول إذا أصاب الأرض واحتیج إلی الغسل یصب الماء علیہ ثم یدلک  وینشف ذلک بصوف أو خرقۃ فإذا فعل ذلک ثلاثاً طہر، وإن لم یفعل ذلک  ولٰکن صب علیہ ماء کثیر حتی عرف أنہ زالت النجاسۃ ولایوجد في ذٰلک لون ولا ریح ثم ترک حتی نشفتہ الأرض کان طاہراً‘‘(۱)
’’وإن کان اللبن مفروشا فجف قبل أن یقلع طہر بمنزلۃ الحیطان، وفي النہایۃ إن کانت الآجرۃ مفروشۃ في الأرض فحکمہا حکم الأرض، وإن کانت موضوعۃ تنقل وتحول، فإن کانت النجاسۃ علی الجانب الذي یلی الأرض جازت الصلاۃ علیہا، وإن کانت النجاسۃ علی الجانب الذي قام علیہ المصلی لا تجوز صلاتہ‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع: في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الأول في تطہیر النجاسۃ، منہا: الغسل‘‘: ج ۱، ص:  ۹۶۔
(۱) برہان الدین، محمد بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل السابع في النجاسات وأحکامہا، تطہیر النجاسات‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۰۔
(۲) ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص363

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر سوال صحیح ہے تو حکم یہ ہے کہ صورت مذکورہ میں زید کی امامت درست نہیں ہے اور اگر کوئی امام نہ ہو یا زبردستی زید کو امام بنا دیا گیا ہے، تو پھر ایسی صورت میں کراہت کے ساتھ زید کی امامت درست ہوگی اور نماز بھی ہو جائے گی، مگر زبردستی امام بنانے والالائق تہدید اور گنہگار ہوگا۔ اور لواطت کی سزا میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے۔ صاحبین اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہم کا قول یہ ہے کہ فاعل اگرمحصن (شادی شدہ) ہے، تو اس کو رجم کیا جائے گا ورنہ سو کوڑے مارے جائیں گے اور مفعول بہ کو بقول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سو کوڑے لگائے جائیں گے اور شہر بدر کیا جائے گا اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا قول یہ ہے کہ فاعل ومفعول بہ دونوں کو قتل کیا جائے گا، ’’ کما في حدیث عکرمۃ: فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ‘‘(۱) اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول یہ ہے کہ لوطی کو رجم کیا جائے گا، محصن ہو یا غیر محصن ’’کما في روایتہ فارجموا الأعلیٰ والأسفل‘‘(۲) اور سیدنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لوطی پر شرعاً کوئی حد اور سزا متعین نہیں ہے؛ بلکہ امام المسلمین کی صوابدید پر ہے۔ وہ جس قدرمصلحت سمجھے تعزیر جاری کر سکتا ہے؛ پس اسے اختیار ہے کہ وہ لواطت کے عادی ہونے کی صورت میں قتل بھی کرے۔(۳) اور امام صاحب کے قول کی حکمت یہ ہے کہ معاملہ لواطت انسانی؛بلکہ حیوانی طبیعت کے بھی خلاف ہے؛ لہٰذا اس پر قانون حد جاری نہ ہوگا؛ پس زجر وتوبیخ اور مصلحت پر سزا مبنی ہوگی اور یہی مطلب ہے ان تمام اقوال اور احادیث کا جن میں قتل وغیرہ کرنے کا ظاہراً حکم ہے کہ ضرب شدید بھی کبھی موجب قتل ہوتا ہے؛ پس چوںکہ ہمارا مسلک حنفی ہے؛ اس لیے اگر کوئی امام المسلمین ہے تووہ اپنے طور پر مطابق ما حول سزا متعین کرے اور اگر کوئی امام نہیں ہے اور اسلامی ملک نہیں ہے؛ بلکہ دار الحرب ہے، تو صرف زجر وتوبیخ کی جائے گی ملامت کی جائے، اور اس سزا میں فاعل و مفعول دونوں کو شامل کیا جائے گا اور ان کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی عادت چھوڑ دیں۔(۴)

(۱) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الحدود: باب الوطي الذي یوجب الحد والذي لا یوجبہ‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۶۔
(۲) أیضًا۔
(۳) ومن عکرمہ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من وجدتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ، رواہ الترمذي وابن ماجہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الحدود، الفصل الأول‘‘: ج ۷، ص: ۱۴۷، رقم: ۳۵۷۵، اشرفیہ دیوبند)
(۴) ویکرہ إمامۃ عبد … وفاسق … (قولہ وفاسق) من الفسق۔ وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص150

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد کی چھت پر تنہا یا جماعت سے نماز ادا کی جائے تو شرعاً نماز درست ہوجاتی ہے اور جماعت بھی درست یعنی جائز ہے اس لیے نماز باجماعت کی صحت کے لیے مسجد کے اندر ہونا شرط نہیں ہے۔ مسجد کی چھت پر نماز پڑھنے میں کراہت و عدم کراہت کا مدار اس پر ہے کہ مسجد کی چھت پر چڑھنا مکروہ ہے پس ان عبارات کے پیش نظر مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
 شامی میں ہے ’’ثم رأیت القہستانی نقل عن المفید کراہۃ الصعود علی سطح المسجد ویلزمہ کراہۃ الصلاۃ أیضاً فوقہ‘‘(۱)
اور بعض عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کی چھت پر چڑھنا مکروہ نہیں ہے پس ان عبارات کے پیش نظر مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا بھی مکروہ نہیں ہے در مختار میں ہے ’’وکرہ تحریما الوطئ فوقہ‘‘(۲) اس کی شرح میں علامہ شامی نے لکھا ہے۔ ’’أما الوطؤ فوقہ بالقدم فغیر مکروہ‘‘(۳) علامہ شامیؒ کراہت وعدم کراہت دونوں قول نقل فرماتے ہیں؛ لیکن کراہت کے اس قول پر جو قہستانی سے نقل کیا ہے۔ علامہ شامیؒ  کو اطمینان نہیں ہے؛ اس لیے اس کے بعد فرمایا فلیتأمل کہ یہ قابل غور ہے۔ پس علامہ شامی کا رجحان عدم کراہت ہی کی طرف معلوم ہوتا ہے۔
بہر حال فقہا کی عبارتیں کراہت وعدم کراہت دونوں طرح کی ملتی ہیں جن میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جہاں پر کراہت کی نفی ہے وہاں مراد کراہت تحریمی ہے کہ مسجد کی کہ چھت پرنماز پڑھنا خلاف اولیٰ یعنی مکروہ تنزیہی ہے۔
 البتہ اگر کوئی پریشانی ہو مسجد کے اندر کوئی تعمیری کام ہو رہا ہو جس کی وجہ سے نماز پڑھنے میں سخت دشواری ہو رہی ہو یا شدید گرمی ہو اور دریچوں سے ہوا نہ آتی ہو نیز کوئی مانع شرعی بھی نہ ہو مثلاً مسجد کے اوپر نماز پڑھنے سے قرب وجوار کے مکانوں کی بے پردگی نہ ہوتی ہو تو اس مجبوری کے پیش نظر مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا ‘‘: ج۲، ص:۴۲۸۔
(۲) أیضًا۔

(۳) أیضًا۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص358