Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 1855/43-1687
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انعام کے معنی ہیں عطیہ اور بخشش، اور حسن کے معنی ہیں عمدہ اور بہتر۔ لہذا انعام الحسن کے معنی ہوئے بہت عمدہ عطیہ اور بخشش۔ (القاموس الوحید ج 1 ص 339 و ج 2 ص1674 مطبوعہ حسینیہ دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1953/44-1870
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ جوا، اور قمار ہی کی ایک شکل ہے، جس میں لاٹری کی طرح کوپن فروخت ہو گا پھر اس کے بعد کسی کے کوپن ڈرا کرنے پر کم یا زیادہ قیمت کا سامان ملے گا۔ چونکہ یہ کام جائز نہیں ہے اس لئے آپ کا اس طرح کا کوپن فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر عقیدہ حرام کو حلال سمجھنے کا نہ تھا، اور ایسے ہی حرام کو حلال کہہ دیا تو ایمان ونکاح باقی ہے؛ لیکن ٹخنوں سے نیچے پائجامہ کرنا مکروہ تحریمی ہے، اس سے اجتناب کریں۔(۳)
(۳) {یاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبْتَغِيْ} (سورۃ تحریم: ۱)
وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ مؤمنٌ علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح والرجوع عن ذلک کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)
عن عبد الرحمن عن أبیہ، قال: سألت أبا سعید الخدريّ عن الإزار فقال: علی الخبیر سقطت، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إزارۃ المسلم إلی نصف الساق ولا حرج -أو لا جناح- فیما بینہ وبین الکعبین، ما کان أسفل من الکعبین فہو في النار، من جرَّ إزارہ بطرا لم ینظر اللّٰہ إلیہ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب في قدر موضع الإزار‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۶، رقم: ۴۰۹۵)
دار الافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبروں کی زیارت و ایصال ثواب جائز ہے، فقہاء نے اس کو مستحب بھی کہا ہے، شامی میں ہے ’’وبزیارۃ القبور أي لابأس؛ بل ندب‘‘ بلکہ فقہاء لکھتے ہیں کہ ہر ہفتہ جانا مناسب ہے اور جمعہ کے دن، اور بعض روایات کے اعتبار سے جمعرات اور جمعہ کا دن افضل ہے، بعض نے پیر اور ہفتہ کا دن ’’أي یوم السبت والإثنین‘‘ بھی شامل کیا ہے۔ ابن ابی شیبہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے تھے۔ غرض ایصال ثواب کے لئے قبور پر جانا اور کھڑے ہوکر زیارت کرنا اور دعا کرنا ثابت ہے۔ ’’کذا في الشامي: والسنۃ زیارتہا قائماً أوالدعا وعقدہا قائماً کما کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الخروج إلی البقیع‘‘۔(۲)
لیکن وہاں جاکر نذر و نیاز مروجہ جائز نہیں، نیز طواف کرنا قطعاً ناجائز و حرام ہے، اور ان سے حاجت چاہنا ہی قطعاً ناجائز، بلکہ یہ فعل کفر ہے اور عرس کے بارے میں حرمت کی تصریح ہے، جیسا کہ در مختار میں ہے:
’’من المنکرات الکثیرہ کإیقاد الشموع والقنادیل التي توجد في الأفراح، وکدق الطبول، والغناء وبالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرۃ علی الذکر وقراء ۃ القرآن وغیر ذلک۔ مما ہو مشاہد في ہذہ الأزمان وماکان کذلک فہو شک في حرمتہ‘‘ (۱)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار، مطلب في زیارۃ القبور: ج ۲، ص: ۲۴۲۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار، مطلب في الثواب علی المصیبۃ: ج ۲، ص: ۲۴۱۔
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلي ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب فی النذر الذي یقع للأموات من أکثرا العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
قولہ: (باطل وحرام) لوجوہ منہا: أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق ومنہا: أن المنذور لہ میت والمیت لا یملک ومنہا: أنہ إن ظن أن المیت یتصرف في الأمور دون اللّٰہ تعالیٰ واعتقادہ ذلک کفر۔ (’’أیضاً‘‘)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص348
نکاح و شادی
Ref. No. 2375/44-3588
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احناف کے یہاں بالغہ لڑکی اگر اپنا نکاح از خود والدین کی مرضی کے بغیر کفوء میں کرلے تو نکاح درست ہوجاتاہے، آپ کی عمر 32 سال ہے، والدین کی ذمہ داری ہے کہ آپ کا نکاح مناسب جگہ کردیتے لیکن بظاہر انہوں نے اس دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جو ان کو کرنا چاہئے تھا ، اس لئے اگر آپ کو رشتہ مناسب معلوم ہوتاہے تو پہلے کوشش کریں کہ والدین راضی ہوجائیں اور ان کی مرضی سے نکاح ہو، ورنہ آپ از خود کسی کو وکیل بناکر نکاح کرسکتی ہیں، اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے۔ الایم احق بنفسھا من ولیھا (الحدیث)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن مقدس کی تفسیر بہت اہمیت کی حامل ہے، اس کے ترجمے اور نکات کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو عربی زبان کی قابل قدر تعلیم کا حامل ہو، نیز اس کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر بھی اس کی اچھی نظر ہو، اور اصول شریعت سے واقفیت رکھتا ہو، اصول حدیث، اصول فقہ کے ساتھ ساتھ نحو وصرف اور بلاغت سے بھی آشنا ہو، پس غیر عالم اس کے ترجمے کو بھی نہیں سمجھ سکتا، چہ جائے کہ وہ اس کے مفاہیم کو سمجھ سکے؛ اس لیے غیر عالم کے لیے درست نہیں کہ وہ قرآن مقدس کی تفسیر کرے اور اگر وہ اس کا ترجمہ وغیرہ سناتا ہو یا مکتوبہ ومطبوعہ تفاسیر سناتا ہو، یعنی وہ شخص خود مفسر نہ ہو، بلکہ تفاسیر میں جو لکھا ہے اس کو گاہے گاہے لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہو، جب کہ اردو تفاسیر کو لوگ عموماً پڑھتے ہیں، اور دوسروں کو سناتے ہیں تو اس میں حرج نہیں ہے، البتہ احتیاط ضروری ہے کہ قرآن مقدس کا ترجمہ سامنے رکھ کر وہی باتیں بیان کرے، جو معتمد تفاسیر میں اس نے پڑھی ہوں، اور ان کو ذہن نشین بھی کیا ہو، اپنی طرف سے استنباط یا نکات بیان نہ کرے؛ اس لیے کہ اس صورت کے خلاف کرنے میں خوف ہے کہ کہیں مقصد ورضاء الٰہی کے خلاف نہ ہو جائے، اور اللہ رب العزت پرافتراء وکذب بیانی لازم نہ آجائے، حاصل یہ کہ ان تمام احتیاطوں کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان تو کر سکتاہے، نقل تفسیر تو درست ہے؛ لیکن اپنی سمجھ سے تفسیر یا نکات بیان کرنا درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) وقد قال الشافعي رضي اللّٰہ عنہ: کُلُّ ما حکم بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فہو مما فہمہ من القرآن قال تعالی: {إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللَّہُ} في آیات آخر وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا إني أوتیت القرآن ومثلہ معہ، یعني السنۃ، فإن لم یجدہ في السنۃ رجع إلی أقوال الصحابۃ فإنہم أدري بذلک لما شاہدوہ من القرائن والأحوال عند نزولہ ولما اختصوا بہ من الفہم التام والعلم الصحیح والعمل الصالح۔ وقال الإمام أبو طالب الطبري: إعلم أن من شرطہ صحۃ الاعتقاد أولا ولزوم سنۃ الدین فإن من کان مغموصا علیہ في دینہ لا یؤتمن علی الدنیا فکیف علی الدین ثم لا یؤتمن من الدین علی الإخبار عن عالم فکیف یؤتمن في الإخبار عن أسرار اللّٰہ تعالی ولأنہ لا یؤمن إن کان متہما بالإلحاد أن یبغي الفتنۃ ویغر الناس بلیہ وخداعہ کدأب الباطنیۃ وغلاۃ الرافضۃ۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر، جلال الدین الیسوطي، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع الثانی … …وسبعون، في معرفۃ شروط المفسر وآدابہ‘‘: ج ۴، ص: ۲۰۵)
وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار، وفی روایۃ من قال في القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار، رواہ الترمذي (برأیہ) أي: من تلقاء نفسہ من غیر تتبع أقوال الأئمۃ من أہل اللغۃ والعربیۃ المطابقۃ للقواعد الشرعیۃ، بل بحسب ما یقتضیہ عقلہ، وہو مما یتوقف علی النقل بأنہ لا مجال للعقل فیہ کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ وما یتعلق بالقصص والأحکام، أو بحسب ما یقتضیہ ظاہر النقل، وہو مما یتوقف علی العقل کالمتشابہات التي أخذ المجسمۃ بظواہرہا، وأعرضوا عن استحالۃ ذلک في العقول، أو بحسب ما یقتضیہ بعض العلوم الإلہیۃ مع عدم معرفتہ ببقیتہا وبالعلوم الشرعیۃ فیما یحتاج لذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵، رقم: ۲۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص36
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں اگر رضاخانی سے مراد وہی شخص ہے جو مولانا احمد رضا خان بریلوی کو اعلی حضرت مانتے ہیں تو اہل حق سے کچھ امور میں ان کا اختلاف ہے وہ مبتدع ہیں ان کے بعض نظریات سے اہل حق کو اتفاق نہیں ہے(۱) اس کے باوجود وہ اسلام سے خارج نہیں اس لئے ان کی نماز جنازہ پڑھنے والے گناہ گار نہیں ہیں۔(۲)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۲) الذي تحرر أنہ لا یفتی بتکفیر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل أو کان في کفرہ اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر والجہاد: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۱۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص271
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2645/45-4012
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث پاک کی قراءت کے وقت بھی تجوید کی رعایت کرنی چاہئے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے تاہم قرآن کے طرز سے حدیث کا طرز مختلف ہونا چاہئے تاکہ اشتباہ نہ ہو۔ حروف کی پورے طور پر ادائیگی ضرور ی ہے ہاں غنہ و مدہ اس قدر اہم نہیں ہیں۔
(ورتلِ الحدیث) أیہا المحدث أی تمہل فی قرائتہ ولا تعجل ولاتسردہا سرداَ یمنع فہم بعضہ، ففی الصَّحِیحین عن عائشة - رضی اللہ عنہا - أنہ - صلی اللہ علیہ وسلم -: "لم یکن یسرُد الحدیث کسردکم "زاد الإسماعیلی: "إنما کان حدیثہ فہما تفہمہ القلوب " وزاد الترمذی: "ولکنہ کان یتکلم بکلام بین فصل یحفظہ من جَلَسَ إلیہ "وقال: حدیث حسن صحیح.( شرح الأثیوبی علی أَلْفِیَّةِ السُّیوطی فی الحدیث:2/107،الناشر: مکتبة الغرباء الأثریة - المدینة المنورة، المملکة العربیة السعودیة)
ویستحب أن یرتل الحدیث، ولا یسردہ سردایمنع السامع من إدراک بعضہ․ ففی الصحیحین من حدیث عائشة رضی اللہ عنہا، قالت: إن النبی - صلی اللہ علیہ وسلم - لم یکن یسرد الحدیث کسردکم․ زاد الترمذی: ولکنہ کان یتکلم بکلام بین فصل، یحفظہ من جلس إلیہ. وقال: حدیث حسن صحیح.( شرح ألفیة العراقی:2/24،الناشر: دار الکتب العلمیة، بیروت لبنان)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جانوروں میں اصلاً ماں کا اعتبار ہوتا ہے، اگر بچہ بھیڑیئے کے پیٹ سے پیدا ہو، تو اسے بھیڑیا اور بکری کے پیٹ سے پیدا ہو، تو اسے بکری ہی کہا جائے گا، مذکورہ صورت میں بھیڑیئے نے بکری سے جفتی کی اور بکری کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوا ہے، تو اسے بکری ہی کہا جائے گا اور اس کا جھوٹا پانی پاک کہلائے گا، اس پانی سے کیا گیا غسل اور وضو وغیرہ درست ہے۔
’’لتصریحہم بحل أکل ذئب ولدتہ شاۃ اعتباراً للأم وجواز الأکل یستلزم طہارۃ السؤر کما لا یخفٰی، قولہ لتصریحہم الخ صرح في الہدایۃ وغیرہا في الأضحیۃ بجواز الأضحیۃ بہ حیث قال: والمولود بین الأہلي والوحشي یتبع الأم لأنہا الأصل في التبعیۃ حتی إذا نزا الذئب علی الشاۃ یضحی الولد‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب ست تورث النسیان‘‘: ج۱، ص: ۳۸۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص74
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل جنابت کے لیے وضو کے طریقہ پر کلی کرلی، ناک میں پانی ڈالا، تو وہ اس کے لیے کافی ہوگیا اور غسل اس کا صحیح ہو گیا؛ اگرچہ مبالغہ بہتر تھا، اب اس کو شک نہیں کرنا چاہیے کہ اس قسم کی باتیں شیطان کا وسوسہ ہوتی ہیں، اس کا غسل بھی صحیح اور نمازیں بھی صحیح ہو گئیں؛ کیوںکہ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا غسل میںفرض ہے، غرغرہ فرض نہیں ہے۔(۱)
(۱) غسل الفم والأنف أي بدون مبالغۃ فیھما فإنھا سنۃ فیہ علی المعتمد (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، کتاب الطہارۃ، فصل لبیان فرائض الغسل، ص:۱۰۲)المضمضۃ تحریک الماء في الفم۔ والاستنشاق أو إدخال الماء في الأنف۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۲۰۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص292