اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  نماز میں ستر عورت فرض ہے۔ چہرہ ،ہتھیلی اور پائوں کے علاوہ پور ا جسم عورت کے ستر میں داخل ہے اس میں کسی بھی عضو کے ایک چوتھائی کھلنے سے نماز نہیں ہوتی ہے۔ عورت کا بازو (کلائی سے کہنی تک کا حصہ) بھی صحیح قول کے مطابق ستر میں داخل ہے اس کا چوتھائی حصہ ایک رکن کے بقدر کھلارہا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ گٹوں سے کہنی تک کی مقدار بارہ انگلی ہوتی ہے اس کا چوتھائی تین انگلی ہے؛ اس لیے مولانا صاحب نے تقریر میں جو تین انگلی بیان کیا ہے وہ درست ہے۔
’’ذراعاہا عورۃ کبطنہا في ظاہر الروایۃ، عن أصحابنا الثلاثۃ وروي في غیر ظاہر الروایۃ عن أبي یوسف أنہ روي عن أبي حنیفۃ أن ذراعیہا لیسا بعورۃ وفي الاختیار قال لو انکشف ذراعہا جازت صلاتہا لأنہا من الزینۃ الظاہرۃ والسوار وتحتاج إلی کشفہ للخدمۃ وسترہ أفضل وصحح بعضہم أنہ عورۃ في الصلاۃ لا خارجہا ولکن القول الأول وہو ظاہر الروایۃ ہو الصحیح إذ لا ضرورۃ في ابدائہ وکون السوار من الزینۃ الظاہرۃ محل النزاع بل ہو للید کالخلخال للرجل‘‘(۱)
’’(وکشف ربع ساقہا یمنع) یعنی جواز الصلاۃ؛ لأن ربع الشيء یحکی حکایۃ الکل کما في حلق الراس في الإحرام حتی یصیر بہ حلالا في أوانہ ویلزمہ الدم قبلہ، وعند أبي یوسف یعتبر انکشاف الأکثر؛ لأن الشيء إنما یوصف بالکثرۃ إذا کان ما یقابلہ أقل منہ وفي النصف عنہ روایتان في روایۃ یمنع لخروجہ عن حد القلۃ ولا یمنع في أخری لعدم دخولہ في حد الکثرۃ قال رحمہ اللّٰہ (وکذا الشعر والبطن والفخذ والعورۃ الغلیظۃ)‘‘(۲)
’’قال في القنیۃ وہذا نص علی أمرین الناس عنہما غافلون: أحدہما أنہ لا یعتبر الجمع بالأجزاء کالأسداس والأسباع والاتساع بل بالقدر۔ والثاني أن المکشوف من الکل لو کان قدر ربع أصغرہا من الأعضاء المکشوفۃ یمنع الجواز حتی لو انکشف من الأذن تسعہا ومن الساق تسعہا تمنع؛ لأن المکشوف قدر ربع الأذن‘‘(۳)
’’وأما المرأۃ یلزمہا أن تستر نفسہا من فرقہا إلی قدمہا ولا یلزمہا ستر الوجہ والکفین بلا خلاف، وفي القدمین اختلاف المشایخ واختلاف الروایات عن أصحابنا رحمہم اللّٰہ، وکان الفقیہ أبو جعفر تردد في ہذا فیقول مرۃ؛ إن قدمہا عورۃ، ویقول مرۃ: إن قدمہا لیست بعورۃ، فمن یجعلہا عورۃ یقول یلزمہا سترہا ومن لا یجعلہا عورۃ یقول: لا یلزمہا سترہا، والأصح أنہا لیست بعورۃ، وہي مسألۃ کتاب الاستحسان أیضاً۔ قال أبو حنیفۃ ومحمد: الربع وما فوقہ کثیر، وما دون الربع قلیل،وقال أبو یوسف: ما فوق النصف کثیر وما دونہ قلیل، وفي النصف عنہ روایتان، والصحیح قولہما؛ لأن ربع الشيء أقیم مقام الکل في کثیر من الأحکام کمسح ربع الرأس في الوضوء، وکحلق ربع الرأس في حق المحرم‘‘(۱)
(۱) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المتملی: ج ۱، ص: ۴۳۹۔
(۲) فخرالدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۶۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۳۔
(۱) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الصلاۃ، الفصل الرابع في فرائض الصلاۃ و سننہا‘‘: ج ۲، ص:۱۴، ادارۃ التراث الاسلامي لبنان۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص266


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا نہ فرض ہے اور نہ ہی واجب، بلکہ دونوں سورتوں کے درمیان ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا بہتر ہے، خواہ سورۃ الفاتحہ اور سورت کی تلاوت جہراً (بآواز بلند) ہو یا سراً (آہستہ آواز سے) ہو، اگر کوئی ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ نہ پڑھ سکے تو اس سے نماز میں کوئی کراہت لازم نہیں آتی ہے، نماز ادا ہو جاتی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ حاشیہ الطحطاوی میں لکھا ہے:
’’فلا تسن التسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ ولا کراہۃ فیہا وإن فعلہا اتفاقاً للسورۃ سواء جہر أو خافت بالسورۃ‘‘(۱)
علامہ ابن نجیمؒ البحر الرائق اور علامہ ابن عابدین رد المحتار میں بیان کرتے ہیں:
’’إن سمی بین الفاتحۃ و السورۃ کان حسناً عند أبي حنیفۃ‘‘(۲)
’’إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ المقروء ۃ سراً أو جہراً کان حسناً عند أبي حنیفۃ الخ‘‘(۳)
’’عن أنس بن مالک، قال: صلی معاویۃ بالمدینۃ صلاۃ فجہر فیہا بالقراء ۃ، فقرأ فیہا بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم لأم القرآن ولم یقرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم للسورۃ التي بعدہا حتی قضی تلک القراء ۃ، فلما سلم ناداہ من سمع ذلک من المہاجرین، والأنصار من کل مکان: یا معاویۃ أسرقت الصلاۃ، أم نسیت؟ فلما صلی بعد ذلک قرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم للسورۃ التي بعد أم القرآن، وکبر حین یہوی ساجداً  ‘‘(۱)
(۱) احمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في کیفیۃ ترتیب أفعال الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۲۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: فصل وإذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۲۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فروع قرأ بالفارسیۃ أو التوراۃ‘‘: ج ۲، ص:۱۸۹۔
(۱) أخرجہ الحاکم، في مستدرک:  ج ۱، ص: ۲۳۳، رقم: ۸۸۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  412

حج و عمرہ

Ref. No. 1052

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سوال واضح نہیں ہے۔ دونوں سوالات تفصیل کے ساتھ دوبارہ تحریر کریں۔ 

متفرقات

Ref. No. 1266

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:   مذکورہ بات درست نہیں ہے۔ ٹخنوں سے نیچے تک پائجامہ یا کرتا  درست نہیں ہے۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 37/1191

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں باپ نے اپنی زندگی میں جو جائداد جس کو دے کر مالک بنادیا وہ اس کی ہوگئی ، اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔  بہن کا مذکورہ مطالبہ درست نہیں ہے۔ تاہم اگر بہن ضرورتمند ہو تو بھائی کو اس کا خیال رکھنا چاہئے، ایک دوسرے کی مدد کرنا بڑی نیکی کی بات ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1078

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Blood donattion is allowed but taking charge is not allowed.

If a patient is in critical condition and there is no option left except for blood transfusion then it is allowed to donate blood only as much as required. But the donor is not allowed to charge the patient for it. Moreover, donating organs of human beings is not allowed. It must be noted that all the organs of a human being are in full possession of Allah (swt) and they are not in his/her ownership in order that he/she can treat with them as they like. Human beings have no right to utilise them in accordance with his free will.

ولا يجوز بيع شعور الإنسان ولا الانتفاع بها" لأن الآدمي مكرم لا مبتذل فلا يجوز أن يكون شيء من أجزائه مهانا ومبتذلا )ہدایہ 3/46) کسر عظم المیت ککسرہ حیا (سنن ابی داؤد حدیث 3207)۔

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 911/41-23B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سرکاری ملازمت کی وجہ سے ماہانہ تنخواہ مقرر ہوگی، اس لئے یہ کمیشن لینا یقینا رشوت ہے اور رشوت کا لین دین شریعت کی نطر میں حرام  اور گناہ کبیرہ ہے۔ اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اور اگرمجبوری  میں لے لیا ہو تو  بلانیت ثواب غرباء میں صدقہ کردے۔

ولاتاکلوا اموالکم  بینکم بالباطل  وتدلوا بھا الی الحکام لتاکلوا فریقا من اموال الناس بالاثم وانتم تعلمون (البقرۃ 188)

آپ ﷺ نے فرمایا رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ کی لعنت برستی ہے (ابن ماجہ) ایک اور حدیث میں ہے رشوت لینے و دینے والا دونوں دوزخ میں جائیں گے۔ (طبرانی)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1839/43-1670

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دیگر کتب سماویہ کو کلام اللہ کہنا حقیقۃً  درست نہیں ہےالبتہ مجازا ان کو بھی کلام اللہ کہاجاسکتاہے۔  کیونکہ کلام اللہ ازلی وابدی ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے اٹھائی ہے، جو تغیروتبدل سے پاک ہے ، جو چیلینج کرتاہوا آیاہے،  اور وہ محفوظ بھی ہے جبکہ دیگر کتب سماویہ غیرمحفوظ ہیں اور ان کی اصل عبارات  فنا ہوگئیں ۔ قرآن و حدیث میں قرآن کو ہی کلام اللہ کہاگیاہے، دیگر کتب سماویہ کو کلام اللہ نہیں کہاگیاہے۔ قرآن کریم بعینہ اللہ کا کلام ہے جبکہ دیگر کتب سماویہ کا مضمون من جانب اللہ ہے، ان کی حیثیت حدیث قدسی کی سی ہے ۔ ان کا مضمون اللہ کی جانب سے ہے اس لئے ان کو کتاب اللہ کہاجاتاہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2043/44-2136

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحومہ نے جو کچھ زمین و جائداد و روپیہ پیسہ چھوڑا ہے،  اس کو کل بیس (20) حصوں میں تقسیم کریں، جن میں سے پانچ حصے مرحومہ کے شوہرکو ، چھ 6 حصے ہر ایک بیٹے کو اور تین حصے بیٹی کو ملیں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس رونمائی سے معاشرے پر غلط اثر پڑتا ہے؛ اس لئے اس کی نمائش درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) وعن جندب رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع الندبۃ ومن یرائی یرائي اللّٰہ بہ، متفق علیہ۔( مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الریاء والسمعۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۴)
قال نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یقبل اللّٰہ عزوجل عملا فیہ مثقال ذرۃ من ریاء (اتحاف السادۃ المتقین، ’’کتاب ذم الجاہ والریاء‘‘:ج ۱۱، ص: ۷۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص437