نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: سنت یہ ہے کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھے جائیں۔(۲)
’’عن أبي جحیفۃ أن علیا رضي اللّٰہ عنہ قال السنۃ وضع الکف علی الکف في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۱)
’’عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن أبیہ قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضع یمینہ علیٰ شمالہ في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۲)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال ثلاث من أخلاق النبوۃ تعجیل الإفطار وتاخیر السحور ووضع الید الیمنیٰ علی الیسری في الصلوۃ تحت السرۃ‘‘(۳)
’’قال ویعتمد الیمنیٰ علی الیسری تحت السرۃ لقولہ علیہ السلام إن من السنۃ وضع الیمین علی الشمال تحت السرۃ … وقال لأن الوضع تحت السرۃ أقرب إلی التعظیم‘‘(۴)

(۲) ووضع یمینہ علی یسارہ وکونہ تحت السرۃ للرجال لقولہ علی رضي اللّٰہ عنہ من السنۃ وضعہما تحت السرۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ خلف الإمام‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۲، ۱۷۳)
(۱) أخرجہ أبي داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب تفریع الستفتاح الصلاۃ، باب وضع الیمنی علی الیسری في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲، رقم: ۷۵۶۔
(۲) أخرجہ ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ: ج ۱، ص: ۱۳۹
(۳) فخر الدین العثمان الماردینی، الجوہرۃ النقی: ج ۲، ص: ۱۳۲۔
(۴) العیني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۲، دار الکتاب۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص400

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں عورتیں جہری نمازوں میں قرأت بالجہر کر سکتی ہیں بشرطیکہ ان کی آواز غیر محرموں تک نہ پہونچے اگر پہونچے تو جائز نہیں؛ اس لیے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے۔(۱)

(۱) أن المرأۃ منہیۃ عن رفع صوتہا بالکلام بحیث یسمع ذلک الأجانب إذ کان صوتہا أقرب إلی الفتنۃ من صوت خلخالہا، ولذلک کرہ أصحابنا أذان النساء لأنہ یحتاج فیہ إلی رفع الصوت، والمرأۃ منہیۃ عن ذلک وہو یدل أیضا علی حظر النظر إلی وجہہا للشہوۃ إذا کان ذلک أقرب إلی الریبۃ وأولیٰ بالفتنۃ۔ (أحمد بن علی أبو بکر الرازي الجصاص الحنفي، أحکام القرآن، ’’سورۃ النور: ۳۲‘‘: ج ۵، ص: ۱۷۷)
منہا أن یکون رجلاً فیکرہ أذان المرأۃ باتفاق الروایات؛ لأنہا إن رفعت صوتہا فقد ارتکبت معصیۃ، وإن خفضت فقد ترکت سنۃ الجہر؛ ولأن أذان النساء لم یکن في السلف فکان من المحدثات، وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل محدثۃ بدعۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل بیان سنن الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۲)
وفي الکافي ولا تلبي جہرا لأن صوتہا عورۃ، ومشی علیہ في المحیط في باب الأذان۔بحر۔ قال في الفتح: وعلی ہذا لو قیل إذا جہرت بالقرائۃ في الصلاۃ فسدت کان متجہا، ولہذا منعہا علیہ الصلاۃ والسلام من التسبیح بالصوت لإعلام الإمام بسہوہ إلی التصفیق اھـ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب: في ستر العورۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص198

 

نکاح و شادی

Ref. No. 999 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مہر فاطمی پانچ سو درہم ہےیعنی ڈیڑھ کلو تیس گرام  نو سو ملی گرام چاندی  ہے۔

  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل
اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں http://dud.edu.in/darulifta/?qa=55/%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D8%A7%D9%86-%DB%81%D9%88%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%D9%88%DA%86%DA%BE%D9%86%D8%A7-%DA%A9%D8%B1%D8%B3%DA%A9%D8%AA%D8%A7-%D8%AA%D8%B1%D8%A7%D9%88%DB%8C%D8%AD-%D9%84%D8%A6%DB%92%D8%AC%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D8%B1%DB%81%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%81%D8%B1%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%BA%DB%94&show=82#a82

Death / Inheritance & Will

Ref. No. 38 / 1201

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Your question is not clear. Write your question in detail and send us so that we can reply in detail.   

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/0000

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Naming ‘Gul’ as mentioned in the question is not permissible.  People should avoid using such guls. Nevertheless if a person has used it, he/she must not throw the gul packets containing mention of Allah's name on the ground or in dirty places. So that it will not lead to disrespect the name of Allah.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Miscellaneous

Ref. No. 996/41-159

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The extra money you have received from government is a reward which is halal for you.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1327/42-705

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ظاہر یہ ہے کہ بھائی نے مذکورہ جملہ معاذ اللہ اللہ و رسول کی توہین کے لئے نہیں کہا ہے، اس لئے اس صورت میں  کفر لازم نہیں آیا، مذکورہ جملہ کہتے وقت اس کے دل میں کیا بات تھی وہی جانتا ہے۔ اس لئے اگر اس نے ایسا بطور توہین کے کہا ہو تو تجدید نکاح وتجدید ایمان ضروری ہے۔ اور اگر ایسا اس کے منھ سے نکل گیا تھا تو توبہ واستغفار کرے۔ اللہ نفس کے شر سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین۔

فالقائل لمن يأمر بالمعروف: أنت فضولي يخشى عليه الكفر فتح. (قوله: يخشى عليه الكفر) ؛ لأن الأمر بالمعروف وكذا النهي عن المنكر مما يعني كل مسلم، وإنما لم يكفر لاحتمال أنه لم يرد أن هذا فضول لا خير فيه بل أراد أن أمرك لا يؤثر أو نحو ذلك (شامی 5/106)
واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1564/43-1081

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔شرائط پائی جائیں اور جمعہ واجب ہو تو جمعہ کی نماز بلا کسی عذر شرعی کے ترک کرنا گناہ ہے۔ البتہ اگر کسی نے ظہر کی نماز پڑھی تو ظہر کی نماز ادا ہوجائے گی، اور جمعہ ترک کرنے کا گناہ ہوگا۔  

ومن صلى الظهر يوم الجمعة في منزله ولا عذر له كره وجازت صلاته وإنما أراد حرم عليه وصحت الظهر لما سيأتي (قوله آكد من الظهر) أي لأنه ورد فيها من التهديد ما لم يرد في الظهر، من ذلك قوله - صلى الله عليه وسلم - " «من ترك الجمعة ثلاث مرات من غير ضرورة طبع الله على قلبه» رواه أحمد والحاكم وصححه، فيعاقب على تركها أشد من الظهر (شامی، باب الجمعۃ 2/136) (فتح القدیر، باب صلاۃ الجمعۃ 2/50)

"( وكره ) تحريمًا ( لمعذور ومسجون ) ومسافر ( أداء ظهر بجماعة في مصر ) قبل الجمعة وبعدها لتقليل الجماعة وصورة المعارضة، وأفاد أن المساجد تغلق يوم الجمعة إلا الجامع، (وكذا أهل مصر فاتتهم الجمعة ) فإنهم يصلون الظهر بغير أذان ولا إقامة ولا جماعة (شامی 2/157)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1636/43-1211

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   جس شخص کے پاس نصاب کے بقدر مال نہ ہو ،  اس کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہوجاتی ہے۔ البتہ اس کو نصاب سے زائد مال یک مشت دینا مکروہ ہے گوکہ اس سے بھی زکوۃ دہندہ کی زکوۃ ادا ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر نصاب کے بقدر کسی کے پاس مال ہو جائے، چاہے وہ چند گھنٹہ پہلے ہی مالک ِ نصاب ہوا ہو اس کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے ؛ ایسے شخص کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔  لہذا صورت مذکورہ میں اگر طالب علم کے پاس نصاب کے بقدر مال جمع ہوگیا تو اس کو زکوۃ دینا  اور لیناجائز نہیں ہے۔البتہ ایسا کرسکتے ہیں کہ زکوۃ کی ایک  رقم کو ٹکٹ بنانے میں خرچ کردیا، پھر مستحق ہوگیا، زکوۃ کی دوسری رقم لی اس سے فیس ادا رکردیا، پھر زکوۃ کی رقم آئی اور اس سے کمرہ کا کرایہ ادا کردیا، یا کتاب وغیرہ خریدلی، تو اس طرح زکوۃ کی رقم اپنے اخراجات میں صرف کرسکتاہے۔  زکوۃ دینے والا اگر کوئی ایک بندہ ہے تو وہ زکوۃ کی ساری رقم یک مشت نہ دے بلکہ موقع بموقع مختلف ضروریات میں دیتارہے۔  ایک شکل یہ بھی ہے کہ کسی سے بطور قرض  ، ایک موٹی رقم لے لے اور اپنی ضروریات میں صرف کرے، اور اس قرض کی ادائیگی کے لئے زکوۃ کی  بڑی رقم  یک مشت لے کر ادائیگی کردے۔

"فهذه جهات الزكاة، وللمالك أن يدفع إلى كل واحد، وله أن يقتصر على صنف واحد، كذا في الهداية. وله أن يقتصر على شخص واحد، كذا في فتح القدير. والدفع إلى الواحد أفضل إذا لم يكن المدفوع نصاباً، كذا في الزاهدي. ويكره أن يدفع إلى رجل مائتي درهم فصاعداً، وإن دفعه جاز، كذا في الهداية. هذا إذا لم يكن الفقير مديوناً فإن كان مديوناً فدفع إليه مقدار ما لو قضى به دينه لايبقى له شيء أو يبقى دون المائتين لا بأس به، وكذا لو كان معيلاً جاز أن يعطى له مقدار ما لو وزع على عياله يصيب كل واحد منهم دون المائتين، كذا في فتاوى قاضي خان. وندب الإغناء عن السؤال في ذلك اليوم، كذا في التبيين". (الھندیۃ 1/188) "(وكره إعطاء فقير نصاباً) أو أكثر (إلا إذا كان) المدفوع إليه (مديوناً أو) كان (صاحب عيال) بحيث (لو فرقه عليهم لايخص كلا) أو لايفضل بعد دينه (نصاب) فلايكره، فتح".( شامی 2/353)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند