کھیل کود اور تفریح

Ref. No. 838 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  کھیل کےتعلق سے فقہاء نے ایک ضابطہ یہ بھی بیان کیا ہے کہ ایسا کھیل جس میں لوگوں کے لئے مصلحت و فوائد تو ہوں مگر تجربہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہو کہ اس کے نقصانات فوائد  سے زیادہ ہیں اور ان کا کھیلنا غفلت میں مبتلاء کرتاہےتو اس کھیل سے احتراز لازم ہوگا، چنانچہ تجربہ سے ثابت ہے کہ کرکٹ ایسا کھیل ہے جس میں بہت زیادہ انہماک پایاجاتاہے، کھیلنے کے بعد بھی ذہن منتشر رہتا ہے۔ اس لئے بہرحال اس سے احترازہی بہتر ہے۔تفصیل کےلئے دیکھیے المسائل المھمة فیما ابتلت بہ العامة ج۲ص۲۶۰، کتاب الفتاوی ج۶ص۱۶۰، جدید فقہی مسائل ج۱ص۳۵۴۔  واللہ اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بال کی بڑھوتری کے لئے بالوں کے کناروں کو تھوڑا سا کاٹنے کی اجازت ہے، زیادہ کاٹنا جو بطور فیشن کے کاٹا جاتا ہے وہ جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1025

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

The word ‘abu’ means ‘father’ and also ‘possessor’. In names the word ‘abu’ refers to ‘possessor’. Hence, ‘Abul-ala’ means ‘possessor of high qualities’. So there is no iota of shirk in such names. People use the word ‘Maududi’ to express their association with Maulna Maududi sb.    

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 925/41-51B

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Recite Surah Al-Quraish along with Darood Shareef after fajr Namaz and make Dua. And read ‘Ya Wahhabu’ as often as possible. 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

خوردونوش

Ref. No. 1011/41-176

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   جھینگا کی حلت و حرمت کا دارومدار اس پر ہے کہ جھینگا مچھلی ہے یا نہیں؟ ماہرین لغت اس کو مچھلی کی ہی ایک قسم مانتے ہیں۔ جبکہ حیوانات کے ماہرین اس کو مچھلی تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اس لئے جو حضرات اس کو مچھلی قرار دیتے ہیں وہ حلال کہتے ہیں اور جو اس کو مچھلی نہیں مانتے وہ اس کو حرام کہتے ہیں۔ زیادہ راجح اس کا مچھلی ہونا ہے۔ (امدادالفتاوی  4/103) مقہی مقالات 3/217)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد
*بِســــــــــمِﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم*  ✭اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎✭ حضرت کیا ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تفسیر القرآن پڑھ سکتے ہیں اور کیا انکے بیان سن سکتے ہے کیا علماء دیوبند کا اُنسے اختلاف ہے وضاحت سے جواب مرحمت فرما کر شکریہ ادا کرنے کا موقع عنایت فرمائیں جزاک الله خیرا واحسن الجزاء فی الدارین عبدالرحمن حنفی دیوبندی اناوی 7348705030

طلاق و تفریق

Ref. No. 1755/43-1468

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آٹھ سال پہلے ہی آپ  کے طلاق و ہلاق لفظ سے شرعا تینوں طلاقیں واقع ہوچکی تھیں، اور آپ دونوں کا ایک ساتھ رہنا حرام تھا۔ اس درمیان سب ناجائز عمل ہوا ۔ اس لئے دونوں پر توبہ واستغفارلازم ہے اور حسب سہولت صدقہ بھی کریں۔ اور فوری طور پر دونوں  الگ الگ ہوجائیں۔  عورت کو لازم ہے کہ اس سے پردہ کرے اور اس سے کسی طرح کی بات چیت سے گریز کرے۔ اورعورت عدت کے بعد  جلد  کسی دوسری جگہ نکاح کرلے تاکہ پہلے شوہر سے رابطہ کا سد باب ہوسکے۔

نوٹ: اگر پہلے اس نے طلاق نہ دی ہوتی تو بھی آج کے سوال میں مذکور جملوں سے بھی شرعا تین طلاقیں واقع ہوگئیں۔ شوہر وبیوی کا تعلق بالکلیہ ختم ہوچکاہے۔

الطلاق مرتان الی قولہ ان طلقھا فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره (سورۃ البقرہ 229)

وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا في طهر واحد، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا. (البنایۃ شرح الھدایۃ، طلاق البدعۃ 5/284)

وفي المنية يدخل نحو " وسوبيا طلاغ، أو تلاع، أو تلاغ أو طلاك " بلا فرق بين الجاهل والعالم على ما قال الفضلي، وإن قال: تعمدته تخويفها لا يصدق قضاء إلا بالإشهاد عليه، وكذا أنت " ط ل اق "، أو " طلاق باش "، أو " طلاق شو " كما في الخلاصة ولم يشترط علم الزوج معناه فلو لقنه الطلاق بالعربية فطلقها بلا علم به وقع قضاء كما في الظهيرية والمنية. (مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، باب ایقاع الطلاق 1/386)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2189/44-2332

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مرحوم کے انتقال کے وقت جو کچھ ان کی ملکیت میں تھا، اس پورے جائداد کو اس طرح تقسیم کریں گے کہ آپ کی سوتیلی بہن کو مرحوم کی بیٹی کی حیثیت سے حصہ ملے گا، لہذا  مرحوم کی کل جائداد کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے بیوی کو 8(آٹھ) حصے، تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک  بیٹے کو 14 (چودہ) حصے، اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو 7 (سات) حصے ملیں گے۔  والد صاحب نے جو کچھ اپنی زندگی میں بیچ دیا یا کسی کو دے کر مالک بنادیا اس کا اب کوئی حساب نہیں ہوگا، اس لئے انتقال سے دس سال قبل جو زمین بیچی تھی ان پیسوں میں سے ان کے انتقال کے وقت جو بچ گیا تھا  صرف اس میں میراث تقسیم ہوگی۔ سرکار کی جانب سے آپ کی والدہ کو جو پینشن کی رقم ملتی ہے اس کی مالک آپ کی والدہ ہی ہیں، اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے، اس لئے کہ یہ رقم سرکار خاص ان کو ہی دے رہی ہےاور یہ سرکار کی جانب سے ایک عطیہ ہے وہ جس کو چاہے دے سکتی ہے۔

 امداد الفتاوی میں ہے: "چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چا ہے تقسیم کردے۔"امداد الفتاویٰ ، کتاب الفرائض جلد ۴ ص:۳۴۳)

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم." (بدائع الصنائع، کتاب الحدود ، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود جلد ۷ ص : ۵۷ ط : دار الکتب العلمیة)

"لأن ‌الملك ‌ما ‌من ‌شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص." (فتاوی شامی، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد ۵ ص : ۵۱ ط : دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:علمائے دیوبند یزید کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ یہی احوط ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف بیان کیا گیا ہے۔ (۲)

فتاوی رشیدیہ ص 76  ۔۔۔وینبغي أن لا یسأل الناس عما لاحاجۃ إلیہ … إلی غیر ذلک مما لا تجب معرفتہ ولم یرد التکلیف بہ۔ (ابن عابدین، ’’کتاب الخنثیٰ: مسائل شتی‘‘: ج ۱۰، ص: ۴۸۵)
وہل یجوز لعن یزید حکی القاضي ثناء اللّٰہ في مکتوباتہ إن للعماء فیہ ثلاثۃ مذاہب الأول المنع کما قالہ الإمام أبو حنیفۃ في الفقہ الأکبر۔ (ہامش بذل المجہود، ’’کتاب الأدب، باب اللعن‘‘: ج ۱۹، ص: ۱۴۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج1ص232

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزار پر ہاتھ اٹھاکر فاتحہ پڑھنا مباح ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ یا تو مزار کی طرف منہ کرکے بغیر ہاتھ اٹھائے فاتحہ پڑھے، یا قبلہ رخ کھڑے ہوکر ہاتھ اٹھاکر فاتحہ پڑھے۔ فاتحہ سے مراد یہ ہے کہ ایصال ثواب کی غرض سے کچھ قرآن پاک پڑھ کر اس کا ثواب بخش دے۔ اور میت کے لئے دعاء مغفرت کرے، صاحب قبر سے مرادیں مانگنا یا حاجتیں طلب کرنا ناجائز ہیں۔(۱)

(۱) وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص356