اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جمیع ما کان وما یکون یعنی ہر چیز کا علم یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جس میں کوئی بھی مخلوق بشمول انبیاء علیہم الصلوٰۃ والتسلیم اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم دیا گیا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا تھا ذاتی علم نہیں تھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں ہیں؛ کیونکہ عالم الغیب ہونا یہ خدا تعالیٰ کی خاص صفت ہے؛ لہٰذا ایسا عقیدہ رکھنے والا گمراہ اور کھلی ہوئی بدعت میں ہے اس طرح کے عقیدہ سے بچنے کی سخت ضرورت ہے {وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ إِلَّا ھُوَط} (۱) {قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُط} (۲) {إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ شَھِیْدًاہ۵۵}(۳) {عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلاَ  یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ أَحَدًاہلا ۲۶ إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ}(۴)
(۱) سورۃ الأنعام: ۵۹۔             (۲) سورۃ النمل: ۶۵۔
(۳) سورۃ الأحزاب: ۵۵۔            (۴) سورۃ الجن: ۲۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص225

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں تلک کا لفظ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی مشرکانہ ذہنیت کار فرما ہے۔ اگر ایسا ہے، تو اس کی قطعاً اجازت اور گنجائش نہیں ہے، ویسے دلہا کو بغیر کسی دکھلاوے کے کچھ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، شرط یہ ہے، اس کو رسم کی شکل نہ دی جائے۔(۲)

(۲) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
أخذ أہل المرأۃ شیئا عند التسلیم فللزوج أن یستردہ لأنہ رشوۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۳، ص: ۲۰۰)
ومن السحت: ما یأخذہ الصہر من الختن بسبب بنتہ بطیب نفسہ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فرع یکرہ إعطاء مسائل المسجد إلا إذا لم‘‘: ج ۶، ص: ۴۲۴)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: الفصل الثاني: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص438

بدعات و منکرات

Ref. No. 2425/45-3671

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سال گرہ یعنی برتھ ڈے یا شادی کی سالگرہ منانے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ یہ اغیار کی طرف سے آئی ہوئی ایک رسم ہے جس میں عموماً خرافات  ہوتی ہیں، لہٰذا اگر اس موقع پر اغیار کی طرح مخصوص لباس پہنا جائے، موم بتیاں لگا کر کیک کاٹا جائے، موسیقی ہو، مرد وزن کااختلاط ہو، تصویر کشی ہو تو پھر سالگرہ منانا شرعاً ناجائز ہے، ہاں اگر اس طرح کی خرافات نہ ہوں اور نہ دیگر اقوام سے مشابہت مقصود ہو بلکہ گھر والے یا دوست  واحباب اس مقصد کے لئے اس دن کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس بات کا شکر ادا ہو کہ اللہ تعالیٰ صحت وعافیت اور عبادات کی توفیق کے ساتھ زندگی کا ایک سال مکمل فرمایا ہے، اس کے لئے منکرات سے پاک کوئی تقریب کرلی جائے جس میں کھانا پینا ہو اور ہدیہ کا لین دین ہو تو اس کی گنجائش ہے تاہم احتیاط بہتر ہے۔

(وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ) (سورۃ آل عمران: 85)

’’عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ (سنن أبوداود: ج ٢، ص: ٢٠٣)

عن أبي موسی قال المرء مع من أحب‘‘ (صحیح ابن حبان: ج ١، ص: ٢٧٥)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کوئی بات کتب تاریخ سے لی گئی ہو اور اسلام نے اس پر نکیر نہ کی ہو؛ بلکہ اسلام میںبھی اس بات کو سراہا گیا ہو، جیسے: جھوٹ بولنا درست نہیں، ظلم وزیادتی بری چیز ہے، زنا فحش گناہ ہے، آپس میں مل جل کر رہنا چاہئے، تو اس کو درست سمجھا جائے۔ اور اگر کوئی بات اسلامی ضابطے کے خلاف ہو، تو اس کو روک دیا جائے اور اگر کوئی بات کسی واقعہ اور قصہ کی حد تک ہو اور تشریع اسلامی اس سے متعلق نہ ہو اور نہ ہی وہ بات اسلامی شریعت سے متصادم ہو، تو تاریخی طور پر اس کی صحت وعدم صحت کو پرکھا جائے الغرض ایسی تفسیر کا مطالعہ کرنا پڑے تو بغور کریں۔(۲)

(۲)  ولہذا غالب ما یرویہ إسماعیل بن عبد الرحمن السدي الکبیر في تفسیرہ، عن ہذین الرجلین: عبد اللّٰہ بن مسعود وابن عباس، ولکن في بعض الأحیان ینقل عنہم ما یحکونہ من أقاویل أہل الکتاب، التي أباحہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حیث قال: ’’بلغوا عني ولو آیۃ، وحدثوا عن بني إسرائیل ولا حرج، ومن کذب علي متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار‘‘ رواہ البخاري عن عبد اللّٰہ؛ ولہذا کان عبد اللّٰہ بن عمرٍو یوم الیرموک قد أصاب زاملتین من کتب أہل الکتاب، فکان یحدث منہما بما فہمہ من ہذا الحدیث من الإذن في ذلک۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الکہف: ۲۲‘‘: ج ۱، ص: ۸)
عن عبد اللّٰہ بن عمرو أن البني صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال بلغوا عني ولو آیۃً وحدثوا عن بنی إسرائیل ولا حرج ومن کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب ما ذکر عن بني إسرائیل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۱، رقم: ۳۴۶۱)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: کان أہل الکتاب یقرؤون التوراۃ بالعبرانیۃ ویفسرونہا بالعربیۃ لأہل الإسلام، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تصدقوا أہل الکتاب ولا تکذبوہم وقولوا {آمنا باللّٰہ وما أنزل إلینا} (الآیۃ)۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر: باب قولوا أمنا باللّٰہ وما أنزلنا‘‘: ج ۲،ص: ۶۴۴، رقم: ۴۴۸۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص39

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس میں نماز کی پابندی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اور یہ اطلاع ہے کہ اس کے ذریعہ سے آپ کی ہر طرح سے حفاظت ہوگی۔(۱)

(۱) {وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰیط کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ط…وَمَا  ظَلَمُوْنَا وَلٰکِنْ کَانُوْٓا أَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَہ۵۷} (سورۃ البقرۃ: ۵۷)
{وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ} وہو السحاب الأبیض، ظللوا بہ في التیہ لیقیہم حر الشمس، کما رواہ النسائي وغیرہ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في حدیث الفتون، قال: ثم ظلل علیہم فيالتیہ بالغمام۔ وقال ابن جریر وآخرون: وہو غمام أبرد من ہذا وطیب، (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ البقرۃ: ۵۷‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
قال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ: {وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ} قال: غمام أبرد من ہذا وطلب، وہو الذي یأتي اللّٰہ فیہ في قولہ: {ھَلْ یَنْظُرُوْنَ إِلَّآ أَنْ یَّأْتِیَھُمُ اللّٰہُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ} (البقرۃ: ۲۱۰) وہو اللذي جائت فیہ الملائکۃ یوم بدرٍ، قال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: وکان معہم في التیہ۔ (’’أیضاً‘‘)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص170

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جب کہ واقعۃً گٹر کا پانی ٹینک میں داخل ہو گیا اوراس پانی میں بدبو وغیرہ پیدا ہوگئی یا پانی کا ذائقہ تبدیل ہوگیا، تو یہ پانی شرعاً ناپاک ہے۔ ٹینک کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سارا پانی نکال کر اسے دھو لیا جائے یا اگر سارے پانی کا نکالنا ممکن نہ ہو، تو ٹینک میں مزیداس قدر صاف پانی داخل کیا جائے کہ پانی نکل کر بہتا رہے یہاں تک کہ صاف ہوجائے اور رنگ اور بدبو ختم ہوجائے تو پانی پاک ہو جائے گا۔
المحیط البرہانی میں ہے:
’’ویجوز التوضؤ بالماء الجاري، ولا یحکم بتنجسہ لوقوع النجاسۃ فیہ ما لم یتغیر طعمہ أو لونہ أو ریحہ، وبعدما تغیر أحد ہذہ الأوصاف وحکم بنجاستہ لا یحکم بطہارتہ ما لم یزل ذلک التغیر بأن یزاد علیہ ماء طاہر حتی یزیل ذلک التغیر، وہذا؛ لأن إزالۃ عین النجاسۃ عن الماء غیر ممکن فیقام زوال ذلک التغیر الذي حکم بالنجاسۃ لأجلہ مقام زوال عین النجاسۃ‘‘(۱)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’الماء الجاري بعدما تغیر أحد أوصافہ وحکم بنجاستہ لا یحکم بطہارتہ ما لم یزل ذلک التغیر بأن یرد علیہ ماء طاہر حتی یزیل ذلک التغیر‘‘ (۲)
(۱) محمد بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الرابع في المیاہ ……التي یجوز التوضؤ بہا والتي لا یجوز التوضؤ بہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۰۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطارۃ: الباب الثالث في المیاہ، النوع الأول: الماء الجاري‘‘: ج ۱، ص: ۶۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص77

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کچھا (انڈر ویئر) پہن کر غسل کرنے سے غسل درست ہو جاتا ہے؛ لیکن لوگوں کے سامنے صرف کچھا پہن کر غسل کرنا درست نہیں ہے۔ مرد کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہے، گھٹنہ بھی ستر میں داخل ہے اور ستر ڈھانکنا ضروری ہے، ستر دکھانا جائز نہیں ہے۔(۲)

(۲) عن أبي سعید الخدري أن النبی ﷺ قال: عورۃ الرجل من سُرَّتہ إلی رکبتہ ……(أخرجہ الحارث بن أبي أسامہ، في مسند الحارث،  ’’باب ما جاء في العورۃ‘‘ج۱، ص:۲۶۴، رقم:۱۴۳) ؛ وعن عبد الرحمن بن أبي سعید، عن أبیہ أن رسول اللّٰہ ﷺ قال: لا ینظر الرجل إلی عورۃ الرجل، والمرأۃ إلی عورۃ المرأۃ، ولا یفضي الرجل إلی الرجل في الثوب الواحد، ولا تفضي المرأۃ إلی المرأۃ في الثوب الواحد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ،’’کتاب الحیض، باب تحریم النظر إلی العورات‘‘ ج۱، ص: ۱۵۴، رقم: ۳۳۸، مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص293

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ ابتداء اسلام میں عورتوں کا مردوں کے ساتھ جماعت کرنا ثابت ہے؛ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد سے یہ عمل ترک ہو گیا اور عورتوں کا جماعت میں شامل ہونا مکروہ ہو گیا۔(۱)

(۱) إن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: لقد کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي الفجر فیشہد معہ نسائٌ من المؤمنات متلفعات في مروطہن ثم یرجعن إلی بیوتہن ما یعرفہن أحد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في کم تصلي المرأۃ في الثیاب‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم: ۳۷۲)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تمنعوا نسائکم المساجد وبیوتہن خیرلہن۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ماجاء في خروج النساء إلی المسجد: ج ۱، ص:۸۳، رقم: ۵۶۷)…عن عبد اللّٰہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ المرأۃ في بیتہا أفضل من صلاتہا في حجرتہا وصلاتہا في حجرتہا أفضل من صلاتہا فيبیتہا۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب التشدید في ذلک‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم:۰ ۵۷)
وکرہ لہن حضور الجماعۃ إلا للعجوز في الفجر والمغرب والعشاء، والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل الصلوات لظہور الفساد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم: ج ۱، ص: ۱۴۶)
وأما بیان من تجب علیہ الجماعۃ فالجماعۃ إنما تجب علی الرجال العاقلین الأحرار القادرین علیہا من غیر حرج فلا تجب علی النساء۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان والإقامۃ للفائتۃ، فصل في بیان محل وجوب الأذان: ج ۱، ص: ۳۸۰)
والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل صلوات لظہور الفساد۔ (عالم بن العلاء، التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ، ج ۱، ص: ۱۵۷)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص502

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر والدہ کے بدن یا کپڑوں پر پیشاب نہ لگا ہو اور برابر میں جگہ ہو تو پیشاب کی جگہ سے معمولی سا الگ ہوجائے اور نماز پوری کرے نماز توڑنے کی ضرورت  نہیں ہے اور اگر یہ نہ ہوسکے تو دوسری پاک جگہ پر نماز پڑھے۔ اور اگر بدن یا کپڑوں پر پیشاب لگ جائے تو نماز توڑ کر پاکی کے بعد نماز کا اعادہ کرے۔(۱)

(۱) اتفق المذاہب الأربعۃ علی أن بول الصبي نجس۔ (الکشمیري، معارف السنن: ج ۱، ص: ۲۶۸)
وبول غیر مأکول ولو من صغیر لم یطعم (در مختار) وفي الشامي: أي لا یأکل، فلا بد من غسلہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۳)
بول مایؤکل لحمہ کالاٰدمي ولو رضیعاً۔ قال الطحطاوي: ولو رضیعاً لم یطعم سواء کان ذکراً أو أنثیٰ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ص:۱۵۴)
(ومن أصابہ من النجاسۃ المغلظۃ کالدم والبول) من غیر مأکول اللحم ولو من صغیر لم یطعم (والغائط والخمر) وخرء الطیر لا یزرق في الہواء کذجاج وبط وإوز (مقدار الدرہم فما دونہ جازت الصلاۃ معہ: لأن القلیل لا یمکن التحرز عنہ؛ فیجعل عفواً، وقدرناہ بقدر الدرہم أخذاً عن موضع الاستنجاء (فإن زاد) عن الدرہم (لم تجز) الصلاۃ، ثم یروی اعتبار الدرہم من حیث المساحۃ، وہو قدر عرض الکف في الصحیح، ویروي من حیث الوزن، وہو الدرہم الکبیر المثقال، وقیل في التوفیق بینہما: إن الأولی في الرقیق، والثانیۃ فی الکثیف، وفي الینابیع: وہذا القول أصح، … (وإن أصابتہ نجاسۃ مخففۃ کبول ما یؤکل لحمہ) ومنہ الفرس، … (جازت الصلاۃ معہ ما لم یبلغ ربع) جمیع (الثوب) … وقیل: ربع الموضع الذي أصابہ کالذیل والکم والدخریص، إن کان المصاب ثوبا۔ وربع العضو المصاب کالید والرجل، إن کان بدناً وصححہ في التحفۃ والمحیط والمجتبی والسراج، وفي الحقائق: وعلیہ الفتوی۔ (عبد الغني المیداني، اللباب في شرح الکتاب، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس‘‘: ص: ۶۸، ط، قدیمی)(شاملہ)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص280

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2783/45-4344

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور قاری صاحب نیک نیتی سے اس کو مجمع میں لانا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کوقرات کے مختلف انداز معلوم ہوں ، اور مناسب ہوگا کہ پروگرام سے پہلے قراءت سبعہ پر تھوڑی روشنی ڈال دی جائے  تاکہ لوگوں کی اجنبیت دور ہوجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند