ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 40/919

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہمارے عرف میں گوشت کا اطلاق مچھلی پر نہیں ہوتا ہے، اس لئے مچھلی کھانے سے قسم نہیں ٹوٹے گی اور کفارہ بھی نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1020/41-180

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   قصدا اقامت ترک کرنا مکروہ ہے، تاہم نماز ہوجائے گی۔ ایک ہی شخص کا اقامت اور امامت کرنا بھی درست ہے۔

والأفضل أن يصلي بالأذان والإقامة كذا في التمرتاشي وإذا لم يؤذن في تلك المحلة يكره له تركهما ولو ترك الأذان وحده لا يكره كذا في المحيط ولو ترك الإقامة يكره. كذا في التمرتاشي". (عالمگیری 1/54)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1350/42-755

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The aforementioned saying was not found in authentic books. Such sayings are propagated to inculcate the teacher’s respect into the mind of children. But it has no reality at all.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طلاق و تفریق

Ref. No. 1478/42-923

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تحریر پڑھنے کے بعد صحیح نشان پر کلک کرنا اس تحریر سے اتفاق کی دلیل ہے اور اس نشان پر کلک کرنا  زبان سے لفظ ہاں  کہنے کے مترادف ہے۔  اس لئے صحیح کے نشان والا بٹن دبانے سے تحریر شدہ تینوں طلاقیں شرعا واقع ہوگئیں۔  لہذا  میاں بیوی دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے، اب نہ دورانِ عدت رجعت  جائز ہے، اور نہ ہی تجدیدِ نکاح کی ،اور عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے ۔

كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة. (شامی، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ 3/246)  وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه (شامی باب صریح الطلاق 3/247) قال للكاتب اكتب إني إذا خرجت من المصر بلا إذنها فهي طالق واحدة فلم تتفق الكتابة وتحقق الشرط وقع وأصله أن الأمر بكتابة الإقرار إقرار كتب أم لا اهـ. (البحر، باب الفاظ الطلاق 3/272)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Business & employment

Ref. No. 1956/44-1872

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

A person whose income includes both halal and haram, if he repays the debt, this payment will be considered from his halal income. And taking this money will be permissible for the creditor too, there will be no suspicion of Haram in it, and there will be no dislike of any kind. Since the wealth you received is not haram, the negative effects of the haram wealth will not be transferred.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2258/44-2414

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں طلاق کا کوئی لفظ ہی استعمال نہیں ہوا ، ڈائیو یا ڈے کو طلاق کے لئے نہیں بنایاگیا ہے اس لئے محض اس لفظ کے بولنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔  توہم پرستی سے بچنے کی کوشش کرے، اوربلاوجہ  ہر لفظ سے طلاق کا خیال دل میں نہ لائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 2314/44-3524

واللہ الموفق:ملتزم پر جانا مناسک عمرہ میں سے نہیں ہے اس لیے کہ عمرہ کے دو ارکان ہیں احرام اور طواف اور سعی بین الصفا و المروہ واجب ہے ۔ملتزم کے بارے میں حضرات فقہاء کی رائے ہے کہ طواف کے بعد دو رکعت طواف کا دوگا نہ پڑھے اس کے بعد زمزم نوش کرے ملتزم کا التزام کرے اور پھر واپس حجر اسو د کی طرف آکر استلام کرے یہ تفصیلات حضرات فقہاء نے طواف صدر کے موقع پر ذکر کی ہیں یہی وجہ ہے کہ طواف قدوم کے موقع پر طواف کے بعد دوگانہ طواف اور حجراسود کے استلام کے بعدصفاو مروہ کی سعی کرے گایہاں پر حضرات فقہاء نے ملتزم پر جانے کا تذکرہ نہیںکیا ہے ۔معلوم ہے کہ جس طواف کے بعد سعی ہے اس میں ملتزم پر جانا مستحب نہیں ہے اورجس طواف کے بعد سعی نہیں ہے اس طواف کے بعد ملتزم پر جانا مستحب ہے صاحب غنیہ نے بھی اس اصول کی طرف رہنمائی کی ہے اس لیے عمرہ کی ادائیگی میں چوں کہ طواف کے بعد سعی ہے اس لیے عمرہ کے طواف میں ملتزم پر جانا مستحب نہیں ہوگا ہاں عمرہ کی ادائیگی کے بعد جب وطن واپس لوٹے اس وقت طواف وداع کے بعد ملتزم پر جانا مستحب ہوگا ۔

والمختار بعد طواف القدوم و صلاتہ العود الی الحجر ثم الی الصفاء و لم یذکروا الاتیان الی زمزم ولا الی  الملتزم بعد ہذا الطواف و انما ذکروا ذلک بعد طواف الوداع -و من ثم سن لہ أن یاتی الملتزم عقب طواف لا سعی لہ (غنیۃ الناسک 175)(ثم) إذا أراد السفر (طاف بالبيت سبعة أشواط لا يرمل فيها، وهذا) يقال له (طواف الصدر) وطواف الوداع، وطواف آخر عهد بالبيت، لأنه يودع البيت ويصدر به (وهو واجب إلا على أهل مكة) ومن في حكمهم ممن كان داخل الميقات، لأنهم لا يصدرون ولا يودعون (2) ، ويصلي بعده ركعتي الطواف، ويأتي زمزم فيشرب من مائها، ثم يأتي الملتزم (3) فيضع صدره ووجهه عليه. ويتشبث بالأستار، (اللباب فی شرح الکتاب 1/194)

(٢) کعبۃ اللہ اور ملتزم سے چمٹنے کی صورت میں اگر خوشبو کے اثرات لگ جائیں تو اس پر کفارہ لازم ہوگا اگر مکمل ایک عضو میں لگ جائے تو دم دینا پڑےگااور اگر ایک عضو سے کم ہو تو صدقہ کرنا ہوگا ۔

وإذا تطيب المحرم فعليه الكفارةفإن طيب عضوا كاملا فما زاد فعليه دم) ( وذلك مثل الرأس والساق والفخذ وما أشبه ذلك؛ لأن الجناية تتكامل بتكامل الارتفاق، وذلك في العضو الكامل فيترتب عليه كمال الموجب (وإن طيب أقل من عضو فعليه الصدقة) ؛(فتح  القدیر ،3/24)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 2346/44-3525

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If blood flows out of the body, then the ablution is broken. This is the principle of the Hanafis. According to Imam Shafi'i, the ablution does not break due to the discharge of blood. Both are proven by the traditions. The Hanafis have preferred the breaking of ablution because Blood is impure, and just like the discharge of impurity from the sabyilain breaks the ablution, it is also in the hadiths that the discharge of blood breaks the ablution. A Hadith says: There is no ablution in one or two drops of blood unless it is flowing blood (Sunan Dar-al Qutni 1/287) and There is another Hadith: Wudu is obligatory from all dripping blood. Musannaf Ibne Abi Shaibah 1/127) and there is a hadith that says:  Wudu is from every liquid blood (Marifat us Sunan wal Asar 1/427)

In the same way, in many traditions, it has been prescribed to perform ablution on the flowing of the liquid blood. As far as the quoted tradition is concerned, it is the practice of the companion.  There is a conflict between the words of the Holy Prophet (saws) and the actions of the said companion. And the Muhaddiseen says that in such a situation the saying of the Prophet (saws) would be preferred.

It is totally rubbish to abuse theologians. If someone abuses a theologian on the basis of his knowledge, there is fear of his disbelief, so one must abstain from abuse.

If a theologian has made religion a means of sustenance, then the theologian himself is responsible for his actions. However, one should refrain from abusing a theologian.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دولہا کا نکاح کے بعد سلامی کے لیے عورتوں میں جانا ایک رسم اور بدعت ہے، نیز غیر محرم عورتوں سے اختلاط ہوتا ہے، جو جائز نہیں؛ تاہم مذکورہ رسم ورواج کے تحت اگر پیسہ لیا گیا تو کوئی حرمت نہیں آئے گی۔ اس لیے اس کا استعمال جائز اور درست ہوگا، اگر ایسے موقع پر ہدیہ یا تحفہ کی نیت سے کچھ دیں تو گناہ نہ ہوگا۔(۱)

(۱) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص441

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جوئے میں سب کچھ گنوا دینا کاروبار میں خسارہ ہے، پھر ایک موقع اور لینا کاروبار میں لگے رہنا ہے، اور نماز کے لئے چلے جانا، اس خسارہ میں اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے، جو خسارہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھے اس کی جان ومال میں اضافہ ہوتا ہے؛ اس لئے نوافل، صدقہ وخیرات وغیرہ سے اللہ تعالیٰ سے خوب تعلق بڑھائیں؛ تجارت میں بھی نفع ہوگا ’’إن شاء اللّٰہ‘‘(۱) ریا کاری اور کار خیر انجام دینے کے بعد اس کا لوگوں کے سامنے ذکر کرنے سے احتراز کریں۔

(۱) {قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْأَخْسَرِیْنَ أَعْمَالًاہط  ۱۰۳أَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِي الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ أَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًاہ۱۰۴} (سورۃ الکہف: ۱۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص173