فقہ

Ref. No. 1580/43-1112

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صلاتک ایپ  ہم نے استعمال کیا ہے، اور دائمی کلینڈر سے اس کو چیک کیا توبہت مناسب ایپ لگا۔ اس لئے اس ایپ کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اوقات صلوۃ میں اس پر اعتبار کیا جاسکتاہے البتہ اس طرح کے تمام ایپ نیٹ سے مربوط ہوتے ہیں ، اس ایپ کو کھولنے سے پہلے موبائل کا انٹرنیٹ  اور لوکیشن (Location)بھی چیک کرلیں  تاکہ صحیح وقت کی معرفت حاصل ہوسکے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ عورت نے جب کہ اسلام قبول کرلیا، تو وہ مسلمان ہوگئی مندر جانے کی وجہ سے وہ کافر نہیں ہوگی(۱) (اگر وہ مورتی کی پوجا نہیں کرتی) البتہ گناہگار ضرور ہے۔ ایسی مسلمان گناہگار عورت سے جو نکاح گواہوں کی موجودگی میں ہوا وہ صحیح ہوگیا اور اگر وہ پوجا کرتی ہے، تو مسلمان نہیں ہے اور اس سے کیا ہوا نکاح باقی نہیں رہا۔(۲)

(۱) {مَنْ  کَفَرَ  بِاللّٰہِ  مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ج وَلَھُمْ عَذَاب’‘ عَظِیْمٌ  ہ۱۰۶}(سورۃ النحل، آیۃ: ۱۰۶)

ومنہا أن لا تکون المرأۃ مشرکۃ إذا کان الرجل مسلماً فلا یجوز للمسلم أن ینکح المشرکۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب النکاح: فصل أن لا تکون المرأۃ مشرکۃ إذا کان الرجل مسلماً‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰)

(۲) قال: والکافر إذا صلی بجماعۃ أو أذّن في مسجد أو قال: أنا معتقد حقیقۃ الصلاۃ في جماعۃ یکون مسلما لأنہ أتی بما ہو من خاصیّۃ الإسلام کما أن الإتیان بخاصیَّۃ الکفر، یدل علی الکفر فإن من سجد لصنم أو تزیا بزنارٍ أو لبس قلنسوۃ المجوس یحکم بکفرہ۔ (عبد اللّٰہ ابن محمد، الاختیار لتعلیل المختار، ’’فصل فیما یصیر بہ الکافر مسلماً‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۰)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Miscellaneous

Ref. No. 1955/44-1878

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Falak means ‘sky’ ‘Heaven,’ Zuha means ‘light,’ ‘morning light’, and Aye-noor means ‘moonlight’. Ay is a Turkish word which means moon, and Noor is an Arabic word which means light. So aye-noor means 'moonlight'.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال غیر مسلم کے مرنے اور اس کی تیرھویں میں شریک ہونے سے مذکورہ شخص ایمان سے خارج نہیں ہوتا؛ البتہ گناہگار ہوتا ہے۔(۱

(۱) و إذا مات الکافر قال لوالدہ أو قریبہ في تعزیتہ أخلف اللّٰہ علیک خیرا منہ وأصلحک أي أصلحک بالإسلام ورزقک ولدا مسلما لأن الخیریۃ بہ تظہر، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس عشر في الکسب‘‘: ج ۵، ص: ۳۴۸)

جار یہودي أو مجوسي مات ابن لہ أو قریب ینبغي أن یعزبہ ویقول أخلف اللّٰہ علیک خیرا منہ وأصلحک وکان أصلحک اللّٰہ بالإسلام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۵۷)

ولا نکفر مسلما بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

)

نوٹ: ہاں کوئی مصلحت پیش نظر نہ ہو تو ان کی رسموں میں شرکت نہیں کرنی چاہئے؛ اس لئے کہ ان کی رسموں میں شرکت باعث گناہ ہے، اور ان کی رسوم وعقائد کو دل سے برا سمجھنا چاہئے؛ اس لئے کہ ان کے باطل عقائد کو صحیح سمجھنے اور ان کی غیر شرعی رسموں پر رضامندی سے ایمان ہی خطرہ میں پڑجاتا ہے۔

الجواب صحیح:

دار العلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعہ حضرات میں جو لوگ یا جماعتیں مذکورہ نظریات رکھتی ہیں وہ سب اسلام سے خارج ہیں۔(۱)

(۱) نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ - رضی اللہ تعالی عنہا - أو أنکر صحبۃ الصدیق، أو اعتقد الألوہیۃ في عليّ، أو أن جبریل غلط في الوحي، أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۳۷۸)
ویجب إکفار الروافض في قولہم: برجعۃ الأموات إلی الدنیا وبتناسخ الأرواح وبانتقال روح الإلہ إلی الأئمۃ وبقولہم: في خروج إمام باطن وبتعطیلہم الأمر والنہي إلی أن یخرج الإمام الباطن وبقولہم: إن جبریل -علیہ السلام- غلط في الوحي إلی محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- دون علي بن أبي طالب -رضي اللّٰہ عنہ- وہؤلاء القوم خارجون عن ملۃ الإسلام، وأحکامہم أحکام المرتدین، کذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: أحکام المرتدین، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص228

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:بیری کی لکڑی کا قبر کے اندر رکھنا ثابت نہیں اس کو ضروری سمجھنا بدعت ہے نیز یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ مردہ اس کے سہارے سے اٹھ کر بیٹھتا ہے یا یہ کہ مسواک کرتا ہے یہ من گھڑت باتیں ہیں، (۱) البتہ تدفین سے فارغ ہونے کے بعد قبر پر تھوڑی دیر میت کے لئے دعائے مغفرت کرنی چاہئے جو ثابت ہے۔ (۲)

(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا-، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحۃ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸؛ مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ص:۲۷، رقم: ۱۴۰)
من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (’’أیضاً‘‘)
(۲) عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل، رواہ أبو داود۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب إثبات عذاب القبر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶رقم: ۱۳۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص353

اسلامی عقائد

Ref. No. 2428/45-3692

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، بعض مرتبہ بہت چھوٹی چیز کو لوگ اپنی انا کا مسئلہ بنالیتے ہیں، اس کی وجہ سے طلاق تک نوبت پہونچ جاتی ہے، اس سلسلہ میں دونوں کو ہی خیال  کرنا چاہئے، زید چونکہ اس گھر کا داماد ہے ، اور داماد کا درجہ بیٹے جیسا ہوتاہے، اس لئے اگر ساس و سسر انہیں  اسی مکان میں بُلائیں تو وہاں جاکر بیوی کو لے آنا چاہئے ۔ ہاں اگر زید کسی معقول بنیاد پر اس گھر میں نہ جانا چاہتاہو تو سسرال والوں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہئے ، ضد کوئی اچھی چیز نہیں ہے، اس میں دونوں فریق کا نقصان ہوتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2477/45-3767

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as followed

It is not permissible to use scented soap in the state of Ihram. The use of perfume is one of the prohibitions of Ihram. So, if you washed your hands once with scented soap, you should give charity equal to the Sadaqa al-Fitr, and if you washed your hands repeatedly or took a bath with scented soap, then it is necessary to give Damm. Doing it intentionally or without an intention has the same ruling.

ويستوي في وجوب الجزاء بالتطيب الذكر والنسيان والطوع والكره والرجل والمرأة هكذا في البدائع." (فتاوی ہندیہ، كتاب المناسك ،الباب الثامن في الجنايات، الفصل الأول في ما يجب بالتطيب،241/1،ط:رشيدية)

"فإذا استعمل الطيب فإن كان كثيراً فاحشاً ففيه الدم، وإن كان قليلاً ففيه الصدقة ، كذا في المحيط. واختلف المشايخ في الحد الفاصل بين القليل والكثير، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكبير، والشيخ الإمام أبو جعفر اعتبر القلة والكثرة في نفس الطيب إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره الناس ككفين من ماء الورد، وكف من الغالية والمسك، بقدر ما استكثره الناس فهو كثير، وما لا فلا، والصحيح أن يوفق ويقال: إن كان الطيب قليلاً فالعبرة للعضو لا للطيب، حتى لو طيب به عضواً كاملاً يكون كثيراً يلزمه دم، وفيما دونه صدقة، وإن كان الطيب كثيراً فالعبرة للطيب لا للعضو حتى لو طيب به ربع عضو يلزمه دم، هكذا في محيط السرخسي والتبيين. هذا في البدن وأما الثوب والفراش إذا التزق به طيب اعتبرت فيه القلة والكثرة على كل حال، وكان الفارق هو العرف، وإلا فما يقع عند المبتلى، كذا في النهر الفائق".

(فتاوی ہندیہ، کتاب المناسک،الباب الثامن في الجنايات،الفصل الأول فيما يجب بالتطيب والتدهن،240/1 ،ط: رشيدية)

 

And Allah knows the best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2549/45-3888

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ خود اپنے حساب سے ایک اندازہ لگائیں اور اس کے مطابق وقتا فوقتا سجدہ کرتے رہیں جب غالب گمان ہوجائے کہ جتنے سجدہ ذمہ میں تھے اس سے زیادہ ادا کرلیے تو پھر سجدہ  کرنا بند کردیں، لیکن اس کا اندازہ آپ کو ہی لگانا ہوگا۔ آپ اپنے معمول کے مطابق قرآن کی تلاوت وغیرہ کا حساب  کرکے جو  تعداد متعین کرلیں وہی معتبر ہوگا۔

وتجب ... (على من كان) متعلق بيجب (أهلاً لوجوب الصلاة)؛ لأنها من أجزائها (أداء) كالأصم إذا تلا، (أو قضاءً) كالجنب والسكران والنائم، (فلا تجب على كافر وصبي ومجنون وحائض ونفساء قرءوا أو سمعوا)؛ لأنهم ليسوا أهلاً لها، (وتجب بتلاوتهم) يعني المذكورين (خلا المجنون المطبق) فلا تجب بتلاوته؛ لعدم أهليته.

قوله: وتجب بتلاوتهم) أي وتجب على من سمعهم بسبب تلاوتهم ح. (قوله: يعني المذكورين) أي الأصم والنفساء وما بينهما (قوله: خلا المجنون) هذا ما مشى عليه في البحر عن البدائع. قال في الفتح: لكن ذكر شيخ الإسلام أنه لايجب بالسماع من مجنون أو نائم أو طير؛ لأن السبب سماع تلاوة صحيحة، وصحتها بالتمييز ولم يوجد، وهذا التعليل يفيد التفصيل في الصبي، فليكن هو المعتبر إن كان مميزاً وجب بالسماع منه وإلا فلا اھ  ـ واستحسنه في الحلية". (شامی، 2/107)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:درست ہے کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے۔ (۱)

(۱) {وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِيْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْأٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَہ۲۰۵} (سورۃ الأعراف: ۲۰۵)
عن ثوبان قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من قال: حین یمسی رضیت باللّٰہ ربا وبالإسلام دیناً وبمحمدٍ نبیاً کان حقاً علی اللّٰہ أن یُرضیہ: ہذا حدیث حسن غریب من ہذا الوجہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات: باب ما جاء في الدعاء إذا أصبح وإذا أمسیٰ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۶، رقم: ۳۳۸۹)
عن أبي ہریرۃ أن أبابکر الصدیق رضي اللّٰہ عنہما، قال: یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مرني بکلمات أقولہن إذا أصبحت وإذا أمسیت قال: قل اللہم فاطر السماوات والأرض عالم الغیب والشہادۃ رب کل شيء وملیکہ أشہد أن لا إلہ إلا أنت أعوذ بک من شر نفسي وشر الشیطان وشرکہ قال: قلہا إذا أصبحت وإذا أمسیت وإذا أخذت مضجعک۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’ کتاب الأدب، أبواب النوم، باب ما یقول إذا أصبح وإذا أمسیٰ‘‘: ج ۲، ص: ۶۹۱، رقم: ۵۰۶۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص378