اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر عمر نے بکرا خرید کر اللہ کے نام پر ذبح کیا تو اس کا کھانا بلا شبہ درست ہے،(۱) لیکن یہ کہنا کہ یہ رقم وہاں چڑھا دینا جائز نہیں، فروخت کرنے والا اس رقم کا مالک ہے جو چاہے کرے۔(۲)

(۱) وأعلم أن المدار علی القصد عند إبتداء الذبح فلا یلزم أنہ لو قدم للضیف غیرہا أن لا تحل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الذبائح‘‘: ج ۹، ص: ۴۴۹)
(ذبح لقدوم الأمیر) ونحوہ کواحد من العظماء (یحرم) لأنہ أہل بہ لغیر اللّٰہ (ولو) وصلیۃ (ذکر اسم اللّٰہ تعالی)۔ (’’أیضاً‘‘)
(ولو) ذبح (للضیف) (لا) یحرم لأنہ سنۃ الخلیل وإکرام الضیف إکرام اللہ تعالیٰ۔ والفارق أنہ إن قدّمہا لیأکل منہا کان الذبح للّٰہ والمنفعۃ للضیف أو للولیمۃ أو للربح، وإن لم یقدّمہا لیأکل منہا بل یدفعہا لغیرہ کان لتعظیم غیر اللّٰہ فتحرم۔ (’’أیضاً‘‘)
(۲) والنذر للمخلوق لا یجوز لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون للمخلوق، أیضاً: فما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت وغیرہا وینقل إلی ضرائح الأولیاء تقربا إلیہم فحرام بإجماع المسلمین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۱)
عن ثابت عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا عَقْر في الإسلام۔ قلت کان أہل الجاہلیۃ یعقرون الإبل علی قبر الرجل الجواد یقولون نجازیہ علی فعلہ لأنہ کان یعقرہا في حیاتہ فیطعمہا الأضیاف فنحن نعقرہا عند قبرہ لتأکلہا السباع والطیر فیکون مطعما بعد مماتہ کما کان مطعما في حیاتہ۔ (أبو سلیمان، معالم السنن، ’’ومن باب کراہیۃ الذبح عند المیت‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص356

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال صورت خیر القرون میں ثابت نہیں اس لیے بدعت اور واجب الترک ہے فرداً فرداً اگر کوئی قبرستان جاتے ہوئے تکبیر یا دیگر دعاء پڑھے یا اتفاقاً جمع ہوجائیں تو شرعاً مضائقہ نہیں؛ لیکن اس پر استمرار یا اس کے ترک کو برا سمجھنا درست نہیں اور جو اس طریقہ کو لازم سمجھے وہ گناہ گار ہے اس کو متنبہ کیا جائے۔ (۲)

(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ص: ۴۰۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص493

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تفسیر کے پڑھنے سے منع نہیں کیا جاتا؛ بلکہ اس کتاب کے پڑھنے سے منع کیا جاتا ہے، جس میں ذاتی رائے کو ترجیح دی گئی ہو اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیات کے جو معنی ومطالب بیان کیے وہ ہی تفسیر کی کتابوں میں آنے چاہئیں۔ مودودی صاحب بعض عقائد میں اہل سنت والجماعت کے خلاف اور اعتزال وخوارج سے مطابقت رکھتے ہیں اور تفسیر میں جہاں جہاں اپنے خیالات کے مطابق اپنی رائے کو استعمال کیا ہے وہیں ان سے مسائل اور روایات میں غلطی ہوئی ہے؛ اس لیے وہ کتاب قابل اعتماد نہیں رہی، جن کو پڑھ کر عوام کھوٹے اور کھرے میں امتیاز نہیں کر سکتی ہے اور ان کے عقائد پر بھی غلط اثر ہوتا ہے؛ اس لیے اس کے مطالعہ یا اس کے سننے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، بنابریں اگر تفسیر سننے کا شوق ہے، تو ’’بیان القرآن‘‘ یا ’’تفسیر حقانی‘‘ وغیرہ معتمد تفاسیر سنا کریں۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من النار، ہذا حدیثٌ حسنٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب التفسیر، باب ما جاء في الذي یفسر القرآن برأیہ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۲۹۵۰)
من تکلم (في القرآن) أي: في معناہ أو قراء تہ (برأیہ) أي: من تلقاء نفسہ من غیر تتبع أقوال الأئمۃ من أہل اللغۃ والعربیۃ المطابقۃ للقواعد الشرعیۃ، بل بحسب ما یقتضیہ عقلہ، وہو مما یتوقف علی النقل بأنہ لا مجال للعقل فیہ کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ وما یتعلق بالقصص والأحکام، أو بحسب ما یقتضیہ ظاہر النقل، وہو مما یتوقف علی العقل کالمتشابہات التی أخذ المجسمۃ بظواہرہا، وأعرضوا عن استحالۃ ذلک في العقول، أو بحسب ما یقتضیہ بعض العلوم الإلہیۃ مع عدم معرفتہ ببقیتہا وبالعلوم الشرعیۃ فیما یحتاج لذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵، رقم: ۲
۳۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص45

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعہ حضرات میں متعدد فرقے ہیں کچھ وہ ہیں جو اصول و نصوص کے صراحۃً منکر ہیں مثلاً اس کے قائل ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے رسالت کو پہونچانے میں غلطی ہوئی ہے یاقرآن کریم میں تحریف کے قائل ہیں یا حضرت عائشہؓ پر لگائی گئی تہمت کو سچ مانتے ہیں وغیرہ۔ ایسے لوگ ایمان سے خارج ہیں ان کا ذبیحہ مردار ہے اس کو کھانا جائز نہیں ہے باقی جن حضرات پر کفر عائد نہیں ہوتا اور وہ شرعی طریقہ پر ذبح کریں تو ان کا ذبیحہ حلال ہے۔(۱)

(۱)اور جو لوگ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خلفائے ثلاثہ پر صرف افضل مانتے ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ جائز ہے۔ (کفایت المفتی، ’’باب الفرق‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۵)
وإن کان یفضل علیاً کرم اللّٰہ وجہہ علي أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ لا یکون کافراً إلا أنہ مبتدع۔ (جماعۃ من علماء الہند: الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أو أنکر صحبۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أو اعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرئیل علیہ السلام غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہا: باب المرتد، مطلب فہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۴، ص: ۱۳۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص281

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2651/45-4008

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اعمل برائک کہنے کی صورت میں مضارب کے لئے دوسرے کے ساتھ مضاربت  اور شرکت کا معاملہ کرنا جائز ہوگا اگر مضارب کو اس میں نفع کی امید ہو۔ رب المال نے مضارب کو بااختیار بنایاہے تاکہ نفع زیادہ حاصل ہو، اور نفع حاصل کرنے کا ایک طریقہ مضاربت پر دینے یا شرکت پر دینے کا بھی ہے۔ اس لئے مضارب رب المال کے مال کو اس کی اجازت سے دوسرے کو مضاربت پر دے سکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض کے ایام کے دوران رک کر دوبارہ آنے والا خون حیض ہی کا ہوگا اگرچہ وہ خون تھوڑا ہی کیوں نہ ہو؛ اس لیے مذکورہ صورت میں کپڑوں پر داغ لگنے والا خون حیض ہی کا شمار ہوگا فقہاء احناف کے نزدیک حیض کی کم از کم مدت تین دن اور تین راتیں ہیں جب کہ زیادہ سے زیادہ مدت دس دن اور دس راتیں ہیں۔ امام دار قطنی نے ایک روایت نقل کی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی کنواری اور شادی شدہ عورت کا حیض تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہیں ہوتا، دس دن کے بعد نکلنے والا خون استحاضہ ہے، حائضہ ایام حیض کے بعد کی نمازوں کی قضا کرے، حیض میں سرخی مائل سیاہ گاڑھا خون ہوتا ہے اور استحاضہ میں زرد رنگ کا پتلا خون ہوتا ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یکون الحیض للجاریۃ والثیب الذی قد أیست من الحیض أقل من ثلاثۃ أیام ولا أکثر من عشرۃ أیام، فإذا رأت الدم فوق عشرۃ أیام فہي مستحاضۃ فما زاد علی أیام أقرائہا قضت، ودم الحیض أسود خاثر تعلوہ حمرۃ، ودم المستحاضۃ أصفر رقیق‘‘(۱)
ایک اور روایت میں ہے:
’’عن واثلۃ بن الأسقع قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أقل الحیض ثلاثۃ أیام وأکثرہ عشرۃ أیام‘‘(۲)
احناف کے نزدیک تین دن اور تین راتوں سے کم حیض نہیں ہے اور مدت حیض میں خون شروع ہو کر درمیان میں رک کر دوبارہ خون جاری ہو جاتا ہے اس سلسلے میں صاحب ہدایہ رحمۃ اللہ علیہ احناف کا موقف بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’والطہر إذا تخلل بین الدمین في مدۃ الحیض فہو کالدم المتوالي قال: وہذہ إحدی الروایات عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ ووجہہ أن استیعاب الدم مدۃ الحیض لیس بشرط بالإجماع فیعتبر أولہ وآخرہ کالنصاب في باب الزکاۃ‘‘(۳)
اور وہ طہر جو دو خونوں کے درمیان متخلل یعنی خلل انداز ہو وہ بھی مسلسل آنے والے خون کی طرح ہے، صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی روایات میں سے ایک روایت ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ خون کا پوری مدتِ حیض کو گھیرنا بالاجماع شرط نہیں ہے؛ لہٰذا اس کے اول اور آخر کا اعتبار کیا جائے گا، جیسے زکوٰۃ کے باب میں نصاب ہے۔
خلاصہ:
حیض کی مدت کم از کم تین دن اور تین راتیں ہیں اورزیادہ سے زیاد دس دن ہے اور جو دس دن سے زیادہ یا تین دن سے کم ہو وہ استحاضہ ہے۔
لہٰذا اگر حیض کے ایام میں چار دن خون آنے کے بعد دو دن کے لیے بند ہو جاتا ہے اور پھر آنا شروع ہو جاتا ہے تو یہ تمام مدت حیض ہی شمار ہوگی۔ جیسا کہ صاحب ہدایہ نے بیان فرمایا ہے:
’’أقل الحیض ثلاثۃ أیام ولیالیہا، وما نقص من ذلک فہو استحاضۃ‘‘(۴)
البتہ حیض کا ایک دور ختم ہونے کے بعد دوسرا دور شروع ہونے کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔ اگر پندرہ دن سے پہلے خون آجائے تو وہ استخاضہ شمار کیا جائے گا۔ اس صورت میں جسم اور کپڑوں کو پاک کر کے عبادات بھی انجام دی جائیں گی اور ہر نماز کے لیے نئی وضو کر کے نماز بھی ادا کی جائے گی۔

(۱) أخرجہ دار قطني، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: کتاب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۔
(۲) أیضاً، رقم: ۶۱۔
(۳) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: باب الحیض والاستحاضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۔
(۴) أیضاً:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص394

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورتِ مذکورہ میں اگر امام میں کوئی شرعی نقص ہو تو قابلِ عزل ہوسکتا ہے بغیر وجہ شرعی کسی امام کو علاحدہ کرنا درست نہیں(۱) نیز یہ انتظامی امر ہے آپ مقامی علماء سے معاملہ طے کرائیں اور اگر آپ تحریر کردیں کہ وجہ عزل کیا ہے عوام کی رائے امام صاحب کو  الگکرنے کی کیوں بنی، تو واضح جواب لکھا جائے گا۔

(۱) في البحر أخذ منہ عدم العزل لصاحب وظیفۃ إلا بجنحۃ أو عدم أہلیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب لیس للقاضي عزل الناظر‘‘:ج۶، ص: ۶۵۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص271

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کلمہ پڑھنا باعث ثواب اور باعث خیر وبرکت ہے، اور استحکام ایمان کی دلیل بھی ہے؛نماز کے بعد دعاکے لیے متعدد اذکار ہیں، لیکن نماز کے بعد کلمہ پڑھنے کو لازم سمجھنا نہ ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور نہ اکابر علماء سے ہے؛ اس لیے اگر ایسا کر لیا تو امر مباح ہے؛ لیکن ایسا کرنے کو لازم اور ضروری سمجھنا مناسب نہیں، اس کا خیال رکھیں۔(۱)

(۱) عن ابن مسعود أنہ أخرج جماعۃً من المسجد یہللون ویصلون علی النبي   صلی اللّٰہ علیہ وسلم جہراً وقال لہم ’’ما أراکم إلا مبتدعین‘‘۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘ باب الإستبراء وغیرہ‘‘: فصل في البیع، ج ۹، ص: ۵۷۰)
 عن أبي الزبیر رضي اللّٰہ عنہ قال: کان ابن الزبیر یقول: في دبر کل صلاۃ حین یسلم (لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شيء قدیر، لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ، لا إلہ إلا اللّٰہ، ولا نعبد إلا إیاہ لہ النعمۃ ولہ الفضل، ولہ الثناء الحسن، لا إلہ إلا اللّٰہ مخلصین لہ الدین ولو کرہ الکافرون) وقال: (کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہلل بہن دبر کل صلاۃ)۔ (أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب استجاب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص420

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے نزدیک دیکھ کر قرآن پڑھنا مفسد نماز ہے، جن لوگوں نے اس کا مشورہ دیا ہے وہ غلط مشورہ دیا، ممکن ہے کہ کسی دوسرے امام کی پیروی میں انہوں نے ایسا مشورہ دیا ہو لیکن احناف کے یہاں یہ عمل درست نہیں ہے اور اس کی احناف کے یہاں دو علتیں ہیں؛ ایک علت یہ ہے کہ قرآن میں دیکھنا،اوراق کو پلٹنا اور رکوع سجدے میں جاتے وقت قرآن کو رکھنا یہ عمل کثیر ہے اور عمل کثیر مفسد نماز ہے۔
دوسری علت یہ ہے کہ قرآن دیکھ کرپڑھنا یہ درحقیقت تعلیم حاصل کرنا ہے،جس طرح نماز میں کسی زندہ آدمی سے اگر کوئی تعلیم حاصل کرے تو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اسی طرح قرآن کے نسخے کے ذریعہ بھی اگر کوئی تعلیم حاصل کرے تو نماز فاسد ہوجائے گی، اس لیے کورونا کا بہانا بنا کر نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کا مشورہ دینا درست نہیں ہے، تراویح میں اگر بڑی سورت یاد نہ ہو تو چھوٹی سورت پر اکتفاء کرے، لیکن قرآن دیکھ کر تراویح میں بھی درست نہیں ہے۔ علامہ ابن ہمامؒ نے اس کی صراحت کی ہے وہ لکھتے ہیں:
’’و تحقیقہ أنہ قیاس قراء ۃ ما تعلمہ في الصلاۃ من غیر معلم حي علیہا من معلم بجامع أنہ تلقن من خارج وہو المناط في الأصل‘‘(۱)
’’ولأبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ وجہان:  أحدھما أن حمل المصحف وتقلیب الأوراق، والنظر فیہ، و التفکر لیفھم ما فیہ فیقرأ، عمل کثیر، والعمل الکثیر مفسد؛ لما تبین بعد ھذا، و علی ھذا الطریق لا یفترق الحال (بینھما إذا کان المصحف في یدیہ، أو بین یدیہ، أو قرأ من المحراب)‘‘(۲)

(۱) ابن الہمام، فتح القدیر’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘:  ج ۱، ص: ۴۱۲۔
(۲) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني:’’کتاب الصلاۃ، الفصل الخامس: باب ما یفسد الصلاۃ و ما لا یفسد‘‘ ج ۲، ص: ۱۵۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص118

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2803/45-4391

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز کے بعد اگرآپ نے  عضو خاص پر بالیقین تری دیکھی یا ہاتھوں سے چکناہت محسوس کی تو ظاہر ہے کہ وضو جاتا رہا اور نماز نہیں ہوئی، اس لئے نماز کا اعادہ واجب ہوگا،۔ کمرے میں جاکر آپ نے دیکھا تو تری نظر نہیں آئی اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کمرے میں جاتے ہوئے کپڑے میں مس ہو کر تری کپڑے میں جذب ہوگئی  جو کمرے میں پہونچنے پر نظر نہیں آئی۔ ایسی حالت میں پڑھی گئی نماز  لوٹالی جائے اور قرآن کو بلاوضو چھونے پر توبہ واستغفار کیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند