اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان کے لئے دو چیزوں پر یقین ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا یقین، یہاں پر صرف قرآن پر یقین ہے جو ناکافی ہے، ایسے شخص کو شرعاً مومن نہیں کہا جائے گا۔

 وإسلامہ أن یأتي بکلمۃ الشہادۃ ویتبرأ عن الأدیان کلہا سوی الإسلام، وإن تبرأ عما

انتقل إلیہ کفی، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ”کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین ومنہا الطوع“: ج ۲، ص: ۷۶۲)

من لم یقر بعض الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام أو لم یرض بسنۃ من سنن المرسلین فقد کفر۔ (أیضاً: موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام: ج ۲، ص: ۵۷۲)

وإسلامہ أن یتبرأ عن الأدیان سوی الإسلام أو عما انتقل إلیہ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ”کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا“: ج ۶، ص: ۱۶۳)

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1644/43-1224

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معاملہ کرتے وقت جب اینٹ کی صفت وغیرہ بیان کردی گئی،  اور جب اینٹیں تیار ہوگئیں تو چمنی کے مالک نے آپ کے حصہ کی اینٹیں الگ کردیں، تو آپ کی چیز متعین ہوگئی ، اور یہ تعیین ہی قبضہ کے قائم مقا م ہوگی، مبیع کو بیچنے سے پہلے دیکھنا ضروری نہیں ہے۔ پھر چمنے والے نے آپ کا وکیل بن کر اینٹیں بیچ دیں،  اس لئےمذکورہ  معاملہ درست ہے اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں۔  بظاہر اس پورے معاملہ کوئی بھی چیز مفضی الی النزاع بھی نہیں ہے۔

لأن القبض في المجلس لا يشترط إلا في الصرف وهو بيع الأثمان بعضها ببعض أما ما عداه فإنما يشترط فيه التعيين دون التقابض كما يأتي (شامی، مطلب فی الابراء عن الربوا 5/172)

نظر الوكيل بالقبض كنظر الرسول في أنه لا يسقط الخيار، قيد بالوكيل بالقبض؛ لأنه لو وكل رجلا بالرؤية لا تكون رؤيته كرؤية الموكل اتفاقا كذا في الخانية إلخ ما ذكره الشارح ابن ملك، والمسألة في المتون وأطال فيها في البحر فراجعه۔ وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)

قلت: لا يخفى أن الإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة فالبيع في الحقيقة من المشتري، ولذا قال في جامع الفصولين: شراه ولم يقبضه حتى باعه البائع من آخر بأكثر فأجازه المشتري لم يجز؛ لأنه بيع ما لم يقبض. اهـ. فاعتبره بيعا من جانب المشتري قبل قبضه فافهم، وظاهره أنه يبقى على ملك المشتري بالأول، ويأتي تمامه في فصل التصرف في المبيع.(شامی، مطلب فی بیع المرھون 5/111)

وصحة القبض بأحد الأمرين إما بالتخلية كما في المنقول وغيره أو بحقيقة القبض كما في المنقول وجه قول محمد عموم النهي وهو ما روي أنه «- عليه الصلاة والسلام - نهى عما لم يقبض» وهو بعمومه يشمل المنقول والعقار جميعا ولأن بيع المنقول قبل القبض لا يجوز فكذا غير المنقول؛ لأن عدم القبض موجود فيهما جميعا ولأن المقصود من البيع الربح وربح ما لم يضمن منهي شرعا والنهي يقتضي الفساد فيكون البيع فاسدا قبل القبض كما في المنقول؛ لأنه لم يدخل في ضمانه، ولهذا لا يجوز إجارته قبل القبض اهـ (قوله ولهما أنه لا يتوهم انفساخ العقد فيه) والأصل فيه أن ما لا ينفسخ العقد فيه بالهلاك فالتصرف فيه جائز قبل القبض (تبیین الحقائق فصل بیع العقار قبل القبض 4/79)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No 194344-1858

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز میں قیام فرض ہے، قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کرنماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اور نماز میں جب قیام پر قدرت ہو جائے قیام کرنا ضروری ہوجاتاہے۔ اس لئے اگربحالت مجبوری  بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے کوئی  شخص بھول کر قعدہ اولی کی نیت سے تشہد نہ پڑھ سکا، اور ابھی سورہ فاتحہ شروع نہیں  کی، تو اب واپس آکر قعدہ اولی کی نیت سے تشہد پڑھنا درست ہے۔   اور اگر سورہ فاتحہ شروع کردی تو اس کو چاہیے کہ نماز آگے پڑھے اور اخیر میں سجدہ سہو کرلے، اس سے نماز درست ہوجائے گی۔ اور اگر قراءت شروع کرنے کے بعد واپس قعدہ میں آگیا ، تو بھی صحیح قول کے مطابق نماز درست ہوجائے گی۔

من فرائضہا القیام في فرض لقادر علیہ وعلی السجود“ (درمختار مع الشامی زکریا: ۲/۱۳۲) وإن قدر علی بعض القیام ولو متکئا علی عصا أو حائط قام لزوما بقدر ما یقدر ولو قدر آیة أو تکبیرة علی المذہب لأن البعض معتبر بالکل“ (در مختار مع الشامی زکریا: ۲/۲۶۷) وإن لم یکن کذلک (أی بما ذُکر) ولکن یلحقہ نوع مشقة لا یجوز ترک القیام“ (تاتارخانیہ زکریا: ۲/۶۶۷) وإن عجز عن القیام وقدر علی القعود؛ فإنہ یصلی المکتوبة قاعدًا برکوع وسجود ولا یجزیہ غیر ذلک“ (تاتارخانیہ زکریا: ۲/۶۶۷)

سها عن القعود الأول من الفرض) ولو عملياً، أما النفل فيعود ما لم يقيد بالسجدة (ثم تذكره عاد إليه) وتشهد، ولا سهو عليه في الأصح  (ما لم يستقم قائماً) في ظاهر المذهب، وهو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) يعود لاشتغاله بفرض القيام (وسجد للسهو) لترك الواجب (فلو عاد إلى القعود) بعد ذلك (تفسد صلاته) لرفض الفرض لما ليس بفرض، وصححه الزيلعي (وقيل: لا) تفسد، لكنه يكون مسيئاً ويسجد لتأخير الواجب (وهو الأشبه)، كما حققه الكمال، وهو الحق، بحر''۔ (الدر المختار مع رد المحتار(2/ 83،  کتاب الصلوٰۃ ، باب سجود السہو، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:یہ غیر مسلموں کی رسمیں ہیں، بدعت اور گناہ ہیں، ان سے پرہیز لازم ہے۔(۲) اور ایسے مواقع پر اکثر عورتیں غیر محرم کے سامنے آجاتی ہیں، جن کے دیکھنے کا گناہ علیحدہ ہے، ایسی رسموں سے ہر مسلمان پر پر ہیز ضروری ہے۔(۱)

(۲) في شرح الکرخي النظر إلی وجہ الأجنبیۃ الحرۃ لیس بحرام ولکنہ یکرہ کغیر حاجۃ وظاہرہ الکراہۃ ولو بلا شہوۃ قولہ: (وإلا فحرام) أي إن کان عن شہوۃ حرم قولہ (وأما في زماننا فمنع من الشابۃ) لا لإنہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في النظر والمس، مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج ۹، ص: ۵۳۲)…ولا یحل لہ أن یمس وجہہا ولا کفہا وإن کان یأمن الشہوۃ وہذا إذا کانت شابۃ تشتہي فإن کانت لا تشتہي لا بأس بمصافحتہا ومس یدہا کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثاني: فیما یحل للرجل النظر إلیہ‘‘: ج ۵، ص: ۳۸۱)
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص433

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عمل تو قرآن وحدیث پر ہوتا ہے، البتہ جب تک بصیرت تامہ نہ ہو اس کے صحیح مفہوم تک رسائی ہر شخص کے بس کی بات نہیں(۱)۔ قرآن پاک کی تفسیر احادیث ہیں، پھر احادیث کے سبب ورود کی معلومات ضروری ہوتی ہیں، پھر نظائر کے تحت اجماع کا درجہ ہے، عام لوگوں کے بس کی بات نہیں کہ سب کو سمجھ سکیں؟ اب سوچنے والے عموماً علماء سے بدظن ہوتے ہیں، جو ان کے لئے خطرناک ہے۔(۲)

(۱) لیس في قوۃ أحد بعد الأئمۃ الأربعۃ أن یبتکر الأحکام ویستخرجہا من الکتاب والسنۃ فیما نعلم أبداً۔ (النافع الکبیر: ص: ۱۵،  اللباب في الجمع بین السنۃ والکتاب، أبو محمد علي بن زکریا، المنجبي: ص: ۱۰)
(۲) یخاف علیہ الکفر إذا شتم عالماً أو فقیہا من غیر سبب، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، منہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲
۸۲)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص161

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر غیر مقلد کے بارے میں ایسے الفاظ کا استعمال درست نہیں ہے،(۱) اور مذکورہ حدیث سے استدلال کرکے صرف قرآن وحدیث کو ماننا، اور آثار صحابہؓ واجماع امت وغیرہ چھوڑدینا درست نہیں ہے؛ اس لئے کہ آثار صحابہؓ واجماع امت، نیز قیاسِ صحیح کا حجت ہونا، قرآن وحدیث سے ثابت ہے، جو ایسا کہے وہ گمراہ کن اور غلطی کا باعث ہے وہ خود بھی گمراہ ہے، اس کی بات پر عمل کرنا درست نہیں ہے۔(۲)

(۱) عن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یرمي رجل رجلا بالفسوق ولا یرمیہ بالکفر إلا ارتدت علیہ إن لم یکن صاحبہ کذلک۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب ما ینہي السباب واللعن‘‘: ج ۲، ص: ۸۹۳، رقم: ۶۰۴۵)
(۲) عن عرفجۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ، قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إنہ سیکون ہناتٌ وہناتٌ فمن أراد أن یفرق أمر ہذہ الأمۃ وہي جمیع فاضربوہ بالسیف کائناً من کان، رواہ مسلم۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإمارۃ والقضاء‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۰، رقم: ۳۶۷۷)
وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لا یجمع أمتي، أو قال أمۃ محمدٍ علی ضلالۃ وید اللّٰہ علی الجماعۃ ومن شذَّ شذَّ في النار، رواہ الترمذي۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: بالإعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۰، رقم: ۱۷۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص257

تجارت و ملازمت

آف لائن 3973

الجواب وباللہ التوفیق:
ڈراپ شپنگ تجارت کی ایک جدید شکل ہے جس میں کوئی شخص کسی مینوفیکچرنگ کمپنی کی ویب سائٹ یا کسی بڑے ای اسٹور مثلاً ایمازون، والمارٹ، فلپ کارڈ، مووی کیوک اور منترا وغیرہ پر بکنے والی کسی پراڈکٹ کی تشہیر کرتا ہے اور کسٹمر کو خریداری کی آفر کرتا ہے اور آرڈر ملنے پر مطلوبہ شے مینوفیکچرنگ کمپنی یا ای اسٹور ویب سائٹ یا پیج کو دیکھ کر کسٹمر اپنی پسند کردہ شے (چیز) پر کلک کرکے اس چیز کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے اور کسٹمر سے رقم کی ادائیگی کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں، کبھی ادائیگی ڈیلیوری پر کی جاتی ہے یعنی جب مبیع مقرر ہ جگہ پر پہنچا دی جاتی ہے تو مشتری رقم ادا کرتا ہے اور بعض دفعہ ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جاتی ہے، بائع مشتری کا کریڈٹ کارڈ نمبر حاصل کرکے بینک کو بھیجتا ہے اور وہاں سے اپنی رقم وصول کرلیتا ہے، مبیع کی ادائیگی بعض اوقات ڈیبٹ کارڈ، یا آن لائن کی جاتی ہے، ضروری نہیں کہ مبیع (فروخت کی جانے والی چیز) بائع کی ملکیت میں موجود ہو، بلکہ وہ آرڈر ملنے پر اشیاء کا انتظام کرتا ہے اور مشتری کے پتے پر یہ اشیاء ارسال کرتا ہے۔ اس طریقہ کار وبار میں بظاہر خریدار کا آن لائن اپنی مطلوبہ اشیاء پر کلک کردینا قبول معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خریدار کا عمل ایجاب ہے اور بائع کا اپنی مصنوعات اپنی سائٹ پر ظاہر کردینا ایجاب کی پیشکش ہے، قبول نہیں، جیسے دوکان دار اشیاء اپنے اسٹال پر قرینے سے سجا دیتا ہے اور ان پر قیمت بھی چسپاں ہوتی ہیں، مگر وہ ایجاب نہیں ہوتا، بلکہ دعوتِ ایجاب ہوتی ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر بائع کااپنی اشیاء ظاہر کردینا بھی دعوتِ ایجاب ہے جیسے دکان پر دکان دار کا عمل بیع کو قبول کرنا ہوتا ہے، اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری میں بھی بائع کا عمل ایجاب کی قبولیت ہوتا ہے۔ ایک عام دکان پر اگر خریدار اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہیں تو دونوں جانب سے ’’بیع تعاطی‘‘ سے مکمل ہوجاتی ہے اوراگر خریدار زبان سے خریدار ی کی خواہش کا اظہارکرے اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہے، بلکہ چیز حوالے کردے یا ثمن قبول کرلے تو بائع کی طرف سے فعلاً قبول ہوتا ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر بھی فعلی قبول ہوجاتا ہے۔
بہرحال چیزوں کو پیش کرنا ایجاب نہیں، بلکہ ایجاب کی دعوت دینا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دکان میں جب خریدارکو ئی چیز اٹھا لیتا ہے تواس وقت بیع مکمل نہیں ہوتی، بلکہ کاؤنٹر پر آکر بیع تام ہوتی ہے، ایسے ہی مختلف ویب سائیٹس پر جب گاہک اپنی پسندیدہ شئی پر کلک کرتا ہے تو یہ تحریری ایجاب ہوتا ہے، جب یہ ایجاب کمپنی یا فرد کے پاس جاتا ہے تو وہ اسے قبول کرلیتا ہے یوں یہ عقد جانبین سے تحریری صورت میں عمل پذیر ہوتاہے۔نیز مذکورہ بیع میں قبضہ کی صورت یہ ہے کہ
شریعت اسلامیہ نے معاملات مالیہ میں قبضہ کی کسی خاص صورت یعنی حقیقی وحسی ایسے ہی معنوی وحکمی کسی کو مخصوص نہیں کیا بلکہ قبضہ کی ہر اُس صورت کو جائز قرار دیا ہے جسے عُرف میں قبضہ سمجھا جاتا ہے اور معاشرہ کے لوگ اُسے قبول کرتے ہیں۔ گویا مالی لین دین میں قدرت واختیار کی ہر وہ شکل جسے معاشرہ میں قبولیت حاصل ہو اُس کو شرعاً قبضہ کا مصداق سمجھا جاتا ہے یا سمجھا جانا چاہئے۔ اِسی طرح قبضہ کی قدرت اور موقعہ دیدینا بھی قبضہ کے قائم مقام اور اس کی ہی ایک شکل ہے۔ علمائے احناف کے نزدیک بھی شئی کا حسی قبضہ ضروری نہیں ہے، بلکہ مبیع کا تخلیہ (تمام رکاوٹوں کو ہٹا کے دوسرے کو تصرف واستعمال کا حق دینا) بھی کافی ہے۔
مشتری تصویر دیکھ کر جب کلک کرتا ہے تو یہ خریداری آرڈر بک کرتا ہے اور جب بائع وہ سامان مشتری تک پہونچا دیتا ہے تو بیع مکمل ہو جاتی ہے بعض مرتبہ تشہیر کرنے والے کے پاس سامان نہیں ہوتا وہ آرڈر لیکر اس کے مطابق دوسری جگہ سے سامان لاکر دیتا ہے جب وہ سامان لا کر دیدے گا تو بیع ہو جائے گی اور اس سے پہلے کی کارروائی کو وعدہ بیع کہا جائے گا۔
لہٰذا انٹرنیٹ پر اس طرح کی خرید وفروخت کرتے ہوئے درج ذیل امور کا اگر خیال رکھا جائے تو مذکورہ معاملہ کی شرعاً گنجائش ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔
(أ) مبیع اور ثمن کی مکمل تفصیل بتائی جائے، جس سے ہر قسم کی جہالت مرتفع ہو جائے۔
(ب) کوئی بھی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو۔
(ج) صرف تصویر دیکھنے سے خیارِ رویت ساقط نہ ہوگا، لہٰذا اگر مبیع تصویر کے مطابق نہ ہو تو مشتری کو واپس کرنے کا اختیار ہو۔
(د) اگر ویب سائٹ پرخریدی گئی چیز اس طرح نہیں جیسا کہ اس کی صفات میں بیان کیا گیا تھا تو مشتری کو خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، نیز اگر اس شئی میں کوئی ایسا عیب ہو جس کا مشتری کو علم نہیں تھا تو پھر مشتری کو خیارِ عیب حاصل ہوگا، اگر وہ چاہے تو پوری قیمت پر اسے لے لے، اگر چاہے تو واپس کردے، لیکن اسے یہ حق نہیں کہ وہ مبیع رکھ کر نقصان کی قیمت لے۔ بائع کو خیارِ رؤیت تو مطلقاً حاصل نہیں ہوگا، البتہ ثمن میں کھوٹ ہوتو اسے تبدیلی کاحق ہوگا، مگر سودے کو منسوخ کرنے کاحق اسے پھر بھی نہ ہوگا۔
الحاصل: آن لائن خرید وفروخت بکثرت وجود پزیر ہے اور عوام الناس اس طرح کی بیع وشراء میں عام طور پر مبتلا ہیں اس لئے مذکورہ تمام تر تفصیلات اور شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر معاملات کئے جائیں تو ان تفصیلات وتشریحات کی روشنی میں بیع وشراء میں ایجاب وقبول اور مبیع پر قبضہ (خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو رہی ہو) بھی پایا جا رہا ہے اس لئے مذکورہ بیع کرنے کی گنجائش ہے۔
’’شراء ما لم یرہ جائز، کذا في الحاوي، وصورۃ المسألۃ أن یقول الرجل لغیرہ: بعت منک ہذا الثوب الذي في کمی ہذا، وصفتہ کذا، والدرۃ التي في کفی ہذہ، وصفتہا کذا أو لم یذکر الصفۃ، أو یقول: بعت منک ہذہ الجاریۃ المنتقب … وإن أجازہ قبل الرؤیۃ لم یجز وخیارہ باق علی حالہ، فإذا رآہ إن شاء أخذ وإن شاء ردہ، ہکذا في المضمرات‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ۲۰، ص: ۲۰۳)
’’خیار العیب یثبت من غیر شرط، کذا فی السراج الوہاج، وإذا اشتری شیئًا لم یعلم بالعیب وقت الشراء ولا علمہ قبلہ والعیب یسیر أو فاحش فلہ الخیار إن شاء رضي بجمیع الثمن وإن شاء ردہ، کذا في شرح الطحاوي، وہذا إذا لم یتمکن من إزالتہ بلا مشقۃ، فإن تمکن فلا کإحرام الجاریۃ‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ۲۰، ص: ۲۸۸)

فقط: واللہ اعلم بالصواب
ا

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہاتھ آلہ تطہیر ونظافت ہے؛ اس لیے متوضی کو چاہئے کہ ابتداء وضو میں ہاتھ دھوتے ہوئے انگلیوں کا خلال کرے، تاکہ اچھی طرح نظافت حاصل ہو جائے، تاہم سنّت یہ ہے کہ کہنیوں تک ہاتھ دھوتے وقت خلال کرے۔
’’أن التخلیل إنما یکون بعد التثلیث لأنہ سنۃ التثلیث‘‘(۱)
’’وتخلیل الأصابح من الید والرجلین بعد التثلیث‘‘(۲)
’’والتخلیل إنما یکون بعد التثلیث لأنہ سنۃ التثلیث‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في منافع السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۸۔
(۲) علی حیدر خواجہ، درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام، ’’کتاب الطہارۃ: سنن الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۔(شاملۃ)
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: فرائض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص183

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض ونفاس سے پاکی حاصل کرتے وقت اگر زیر ناف صاف کرے تو گناہ گار نہیں ہوگی، دو تین دن بعد اگر صاف کرے تب بھی گناہ گار نہیں ہوگی، بلکہ چالیس دن کے اندر اندر جس وقت چاہے صاف کر لے کوئی ممانعت نہیں۔(۳)

(۳)حلق الشعر حالۃ الجنابۃ مکروہٌ و کذا قص الأظافیر (جماعۃ من علماء الہند، …الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر: في الختان والخضاء، و قلم الأظفار الخ‘‘ ج۵، ص:۴۱۴)؛ و قص الأظفار ھو إزالۃ ما یزید علی ما یلابس رأس الإصبع من الظفر بمقص أو سکین أو غیرھما و یکرہ … في حالۃ الجنابۃ، و کذا إزالۃ الشعر لما روی خالد مرفوعا من تنور قبل أن یغتسل جائتہ کل شعرۃ فتقول یارب سلہ لم ضیعنی ولم یغسلنی۔ (طحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ‘‘ج۱، ص:۵۲۵، دارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص378

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں اذان کا اعادہ کرلیا جائے، تو اچھا ہے؛ لیکن ضروری نہیں۔ اگر اعادہ نہ کیا گیا، تو مقصد اذان پورا ہوجائے گا اس لیے کوئی حرج نہیں۔(۱)

(۱) ولو قدم فیہما مؤخراً أعاد ما قدم فقط ولا یتکلم فیہما اصلا ولو رد سلام فإن تکلم استأنفہ، وفي الشامیۃ: قولہ أعاد ما قدم فقط، کما لو قدم الفلاح علی الصلاۃ یعیدہ فقط أي ولا یستأنف الأذان من أولہ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج۲، ص: ۵۶)
ویترتب بین کلمات الأذان والإقامۃ … وإذا قدم في أذانہ أو في إقامتہ بعض الکلمات علی بعض … فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ، وإن مضی علی ذلک جازت صلاتہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني: في الأذان، الفصل الثاني: في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص147