نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نفس خیال آجانا مفسد نماز نہیں۔(۲)
(۲) یجب حضور القلب عند التحریمۃ؛ فلو اشتغل قلبہ بتفکر مسألۃ مثلا في أثناء الأرکان فلا تستحب الإعادۃ۔ وقال البقالي: لم ینقص أجرہ إلا إذا قصر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ج۲، ص: ۹۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص103

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: ابتداء میں امام کے پیچھے قرات رہی ہے بعد میں منسوخ کردی گئی، نسخ کی روایات قوی بھی ہیں اور عملی بھی ہیں، مثلاً ترمذی اور موطاء امام مالک میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت آرہی ہے کہ آپ نے بعد نماز کہا کہ تم میں سے کس نے ابھی قرآن پڑھا ہے، ایک شخص نے ہاں عرض کی، آپ نے فرمایا میں بھی کہتا تھا مجھ سے قرآن چھینا جاتا ہے۔
راوی کہتے ہیں اس کے بعد لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قراء ۃ جہری نمازوں میں چھوڑ دی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت عمران بن حصن رضی اللہ عنہ حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی یہی روایت آرہی ہے سند کے لحاظ سے یہ روایت حسن صحیح ہے۔ پھر مسلم میں یہ روایت آرہی ہے کہ جب امام قراء ۃ کرے تو تم خاموش رہواور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت آرہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب امام قراء ۃ پڑھے تو تم خاموشی کے ساتھ سنو! حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت آرہی ہے کہ جب کوئی شخص امام کے پیچھے ہو تو امام کی قراء ۃ اس شخص کا پڑھنا سمجھا جائے گا۔ احناف کا عمل ان حدیثوں پر ہے۔(۱)
(۱) عن جابر بن عبداللّٰہ (رضي اللّٰہ عنہ) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا۔ باب: إذا قرأ الإمام فانصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم ۸۵۰)
عن حطان بن عبداللّٰہ الرقاشي، قال: صلیت مع أبي موسی الأشعري صلاۃ… فقال: أبو موسیٰ: أما تعلمون کیف تقولون في صلاتکم إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خطبنا، فبین لنا سنتنا وعلمنا صلاتنا، فقال: إذا صلیتم فأقیموا صفوفکم، ثم لیؤمکم أحدکم، فإذا کبر فکبروا الخ۔ وفي حدیث قتادۃ من الزیادۃ وإذا قرأ فانصتوا الحدیث۔ (أخرجہ مسلم،  في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب التشہد في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۴، رقم ۴۰۴)
والمؤتم لایقرأ مطلقاً ولا الفاتحۃ… فإن قرأ کرہ تحریما، وتصح في الأصح الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶، زکریا)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص221

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں تاخیر رکن کی بناء پر سجدہ سہو واجب تھا اور وہ نہیں کیا گیا تو ترک واجب لازم آیا پس ترک واجب کی بناء پر اعادہ واجب ہوگا۔(۲)

(۲)أوإعادتہا بترکہ عمدا أي ما دام الوقت باقیا وکذا في السہو إن لم یسجد لہ وإن لم یعدہا حتی خرج الوقت تسقط مع النقصان، وکراہۃ التحریم، ویکون فاسقا آثما وکذا الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم … والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولی، لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ۔ ویندب إعادتہا لترک السنۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۷، ۲۴۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص329

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حدیث شریف میں ہے ’’إنما الاعمال بالنیات‘‘ اس ثواب کا مدار نیت پر ہے۔ اگر خالص اللہ کے لیے کوئی شخص پڑھے گا تو ثواب بھی اسی قدر ملے گا اور حضرت ابن عباسؓ کو جو تسبیح سکھائی تھی وہ صرف ان کی خصوصیت نہیں تھی۔(۱)

(۱) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: للعباس بن عبدالمطلب: یا عباس، یا عماہ ألا أعطیک، ألا أمنحک، ألا أحبوک، ألا أفعل بل عشر خصال، إذا أنت فعلت ذلک غفر اللّٰہ لک ذلک أولہ وآخرہ، قدیمہ وحدیثہ، خطأہ وعمدہ، صغیرہ وکبیرہ، سرہ وعلانیتہ، أن تصلی أربع رکعات۔ تقرأ في کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب۔ الخ۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ التسبیح، ج۱، ص۱۸۴، رقم ۱۲۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص439

روزہ و رمضان

Ref. No. 39 / 799

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسے شخص پر قضالازم  ہے کفارہ نہیں ۔  کذا فی الفقہ  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous
Ref. No. 40/1177 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as follows: When the bitcoin is not controlled or issued by the government, it would be regarded as a ‘fake currency’. One should avoid buying or selling such a fake currency. One day it may cause a big loss to your wealth. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

طلاق و تفریق

Ref. No. 915/41-38

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں شوہر نے دوبار بیوی کی طلاق کو معلق کیا  مگر بیوی شرط کے مطابق باہر آگئی، تو اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اور اگر متعینہ وقت گزرنے کے بعد باہر آئی تو طلاق واقع ہوچکی ۔

وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق (الھدایۃ 1/244)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 1005/41-175

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

The woman must always obey her husband as much as possible, and try never to avoid when he calls for bed. If a woman is really sick then you should arrange a better treatment for her. How can you obligate her beyond her capacity if she is not in good health? You should try your level best to maintain your married life with good conduct. If you are still not able to overcome on your desire you can keep fast to control your passion. Divorce is not a solution for the problems.

ولو تضررت من کثرۃ جماعہ لم تجز الزیادۃ علی قدر طاقتھا۔ (الدرالمختار مع رد المحتار 3/203)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Fasting & Ramazan

Ref. No. 1220/42-526

In the name of Allah the most Grcious the most merciful

The answer to your question is as follows:

If people give something to Imam of Taraweeh on their own will, then it will be permissible. However, collection should not be made forcefully from the people for this purpose.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1343/42-716

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داماماد محرم ہے، داماد اور ساس میں حرمت مؤبدہ ہے، جو شخص ایک بار داماد بن گیا ، اس کا ساس سے نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتاہے چاہے اس ساس کی بیٹی زندہ ہو یا نہ ہو۔  اور جن لوگوں سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے ان سے پردہ نہیں ہے۔ اس لئے داماد اپنی ساس سے (بیوی کے انتقال کے بعد بھی ) ملاقات کرسکتا ہے۔داماد کا ساس سے  لوگوں کا پردہ کرانا غلط ہے۔  البتہ اگر دونوں جوان ہوں اور فتنہ کا اندیشہ ہوتو فقہاء نے احتیاطا داماد کو ساس سے ملنے سے منع کیا ہے۔

اسباب التحریم انواع قرابۃ مصاھرۃ ....... الخ (شامی 3/38) وإن كانت الصهرة شابة فللجيران أن يمنعوها منه إذا خافوا عليهما الفتنة .   (شامی :9/530، ط. زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند