Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کے بعد کا وقت خاص طور پر دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہے؛ اس لیے فرض نماز کے بعد دعاء کرنی چاہیے؛ لیکن دعاء ضروری نہیں ہے؛ اس لیے اگر کوئی دعا کئے بغیر اٹھ کر چلا جائے، تو اس پر اعتراض ولعن وطعن نہ کیا جائے؛ تاہم دعاء مانگے بغیر چلے جانے کی عادت بنا لینا اچھا نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: ما من عبد بسط کفیہ في دبر کل صلاۃ ثم یقول: اللہم إلہي وإلہ إبراہیم وإسحاق ویعقوب وإلہ جبریل ومیکائیل وإسرافیل أسألک أن تستجیب دعوتي فإني مضطر وتعصمني في دیني فإني مبتلی وتنالني برحمتک فإني مذنب وتنفي عني الفقر فإني متمسکن إلا کان حقا علی اللّٰہ عز وجل أن لا یرد یدیہ خائبتین۔ (محمد عبد الرحمن، تحفۃ الأحوذي، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایقول الرجل إذا سلم من الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱)
قال الطیبي: وفیہ أن من أصر علی أمر مندوب، وجعلہ عزما، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر؟ وجاء في حدیث ابن مسعود: ’’إن اللّٰہ -عز وجل- یحب أن تؤتی رخصہ کما یحب أن تؤتی عزائمہ‘‘ اھـ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في التشہد‘‘: ج ۳، ص: ۲۶، رقم: ۹۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص423
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز ہو یا خارجِ نماز باریک اور ایسا چست لباس جس سے جسم کی ساخت نظر آئے پہننا حرام ہے اس طور پر اعضاء مخفیہ کا دکھانا بھی حرام اور دیکھنا بھی حرام ہے اگرچہ بلا شہوت ہو اس لیے کہ عورت کے لئے چہرہ پاؤں اور ہاتھ کے علاوہ پورا بدن ڈھانپنا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی اگر کپڑے سے ستر کا رنگ بھی نظر آئے تو اس لباس میں نماز فاسد ہو جاتی ہے اگر نماز پڑھ لی گئی ہو اس کو لوٹانا ضروری ہے، اگر کوئی مرد ایسا لباس پہنتا ہے جس سے اس کے جسم کی بناوٹ ظاہر ہو رہی ہو تو ایسے لباس کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے تاہم ایسے لباس میں اگر نماز پڑھ لی گئی تو نماز ادا ہوگئی اس نماز کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’بدن الحرۃ عورۃ إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا‘‘(۱)
’’إذا کان الثوب رقیقاً بحیث یصف ما تحتہ أي لون البشرہ لا یحصل بہ ستر العوۃ‘‘(۲)
’’(قولہ: لایصف ما تحتہ) بأن لایری منہ لون البشرۃ احترازا عن الرقیق ونحو الزجاج (قولہ: ولایضر التصاقہ) أي بالألیۃ مثلا، وقولہ: وتشکلہ من عطف المسبب علی السبب۔ وعبارۃ شرح المنیۃ: أما لو کان غلیظا لایری منہ لون البشرۃ إلا أنہ التصق بالعضو وتشکل بشکلہ فصار شکل العضو مرئیا فینبغي أن لایمنع جواز الصلاۃ لحصول الستر‘‘(۳)
’’أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حذر أہلہ وجمیع المؤمنات من لباس رقیق الثیاب الواصفۃ لأجسامہن بقولہ: کم من کاسیۃ في الدنیا عاریۃ یوم القیامۃ، وفہم منہ أن عقوبۃ لابسۃ ذلک أن تعری یوم القیامۃ‘‘(۴)
’’في تکملۃ فتح الملہم: فکل لباس ینکشف معہ جزء من عورۃ الرجل والمرأۃ، لاتقرہ الشریعۃ الإسلامیۃ … وکذلک اللباس الرقیق أو اللاصق بالجسم الذي یحکی للناظر شکل حصۃ من الجسم الذي یجب سترہ، فہو في حکم ماسبق في الحرمۃ وعدم الجواز‘‘(۱)
’’إذا کان الثوب رقیقًا بحث یصف ماتحتہ أي لون البشرۃ لایحصل بہ سترۃ العورۃ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، مکتبہ فیصل دیوبند۔)
(۲) إبراہیم الحلبي، الحلبي کبیری: ص: ۲۱۴۔)
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ‘‘ج ۱، ص: ۴۱۰۔)
(۴) العیني، عمدۃ القاري شرح البخاري، ’’باب ماکان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتجوز من اللباس‘‘: ج ۲۲، ص: ۲۰دارالفکر۔)
(۱) المفتي محمد تقي العثماني، تکملۃ فتح الملہم شرح المسلم، ’’کتاب اللباس والزینۃ‘‘: ج ۴، ص: ۸۸۔)
(۲) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۱۴۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص121
متفرقات
Ref. No. 2800/45-4389
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں زید نے مطلق بات نہ کرنے کی قسم کھائی ہے، اس لئے اسی کال پر رہتے ہوئے بات کرے گا تب بھی حانث ہوجائے گا، البتہ بذریعہ میسیج جواب دینے پر حانث نہیں ہوگا۔
﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (المائدة: 89)
الكلام) والتحديث (لا يكون إلا باللسان) فلا يحنث بإشارة وكتابة كما في النتف.... وفي الرد: (قوله فلا يحنث بإشارة وكتابة) وكذا بإرسال رسول." (الدر المختار مع رد المحتار،كتاب الايمان، باب اليمين في الأكل والشرب واللبس والكلام، 792/3، سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: سنت ونوافل میں مطلق نیت نماز بھی کافی ہے اور یہ یقین کرنا کہ سنت فجر ہے یا ظہر ہے احوط ہے، اگر سنت رسول اللہ کہے تب بھی کوئی حرج نہیں۔(۱)
(۱) وکفی مطلق نیۃ الصلاۃ وإن لم یقل للّٰہ، لنفل وسنۃ راتبۃ وتراویح علی المعتمد، إذ تعیینہا بوقوعہا وقت الشروع، والتعیین أحوط۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۴، زکریا دیوبند)
أن المختار عند المصنف والمحققین وقوع السنۃ بنیۃ مطلق الصلاۃ … ہذا الإسم أعني اسم السنۃ حادث منا أما ہو صلی اللّٰہ علیہ وسلم فإنما کان ینوي الصلاۃ للّٰہ تعالیٰ فقط لا السنۃ، فلما واظب صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی الفعل لذلک سمیناہ سنۃ، فمن فعل مثل ذلک الفعل في وقتہ فقد فعل ما سمي بلفظ السنۃ۔ (ابن الھمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۰، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص348
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2829/45-4416
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حیض کے بند ہونے کی مختلف صورتیں ہیں؛ بعض مرتبہ خون بند ہوتاہے حیض کی اکثر مدت پوری ہونے پر، اور بعض مرتبہ عورت کی عادت کے مطابق اور بعض مرتبہ عورت کی ایام عادت سے پہلے ہی حیض بند ہوجاتاہے۔ اس لئے اگر حیض اپنی پوری مدت یعنی دس دن پورے ہوجانے پر بند ہوا ہے تو خون بند ہوتےعورت کے غسل کرنے سے پہلے عورت سے ہمبستری کرنا درست ہے، اگرچہ بہتر یہ ہے کہ غسل کے بعدہمبستری کرے۔اور اگر عورت کی عادت کے مطابق چھ یا سات روز میں حیض بند ہوگیا تو حیض ختم ہونے کے بعد جب عورت غسل کر لے یا ایک نماز کا وقت گزر جائے (جس میں غسل کرکے کپڑے پہن کر نماز شروع کرسکے) اس کے بعد ہی اس سے ہمبستری جائز ہوگی۔ اور اگر عادت کے ایام سے پہلے ہی خون بند ہوگیا مثلا عادت چھ یا سات روز کی تھی اور پانچ دن میں خون بند ہوگیا تو اس صورت میں عادت کے ایام مکمل ہونے سے پہلے اس سے ہمبستری کرنا جائز نہیں ہے۔
''(ويحل وطؤها إذا انقطع حيضها لاكثره) بلا غسل وجوبابل ندبا.(وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لاقله) فإن لدون عادتها لم يحل، أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب بحر، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطا، وإن لعادتها، فإن كتابية حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه(أو يمضي عليها زمن يسع الغسل) ولبس الثياب." (شامی، (1/294،ط:دارالفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 932/41-67
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں بغیر حلالہ دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا ہے۔ حلالہ کے لئے نکاح صحیح کا ہونا شرط ہے۔ عورت کے مرتد ہونے سے وہ بلاحلالہ شوہر اول کے لئے حلال نہیں ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں زوجا غیرہ کا لفظ ہے اور زوج ہونے کے لئے نکاح صحیح کا ہونا ضروری ہے۔
حتی یطاھا غیرہ ولو الغیر مراھقا بنکاح نافذ (شامی 5/42)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1134/42-355
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کل خون کی بہت کثرت سے ضرورت پڑتی ہے اور بسا اوقات جس گروپ کا خون چاہئے افرادِ خاندان میں کوئی ایسا نہیں ہوتاہے جس کا گروپ موافق ہو، اور بسا اوقات کسی حادثے کی وجہ سے بہت زیادہ لوگوں کو خون کی ضرورت پڑ جاتی ہے، جس کا فوری طور پر دستیاب ہونا مشکل ہوتا ہے، اس ضرورت کے پیشِ نظر بلڈ بینک کا قائم کرنا بھی جائز ہے، حضرت مفتی نظام الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں:
جب خون کے استعمال کی گو بدرجہ مجبوری گجائش ہوگئی تو چوں کہ ایسی مجبوریاں اچانک بھی پیدا ہوجاتی ہیں، اور خون کی بہت زیادہ مقدار کی متقاضی ہوجاتی ہیں، جیسے ریل کے ایکسڈینٹ کے موقع پر - -- پھر اس میں بھی خون کا نمبر بالکل یکساں ہونا ضروری ہوتا ہے، ورنہ بجائے نفع کے نقصان کا اندیشہ ہوجاتا ہے، اس لئے اچانک پیش آمدہ ضروریات کے لئے ہر نمبر کے خون کا فراہم رکھنا ضروری ہوتا ہے ، اور مقدار کی تعیین وتحدید معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کافی مقدار میں محفوظ رکھنا ضروری ہوگا، اور اس کا ایک خزانہ بنانا لازم ہوگا، جس کو آج کل کی اصطلاح میں بینک کا نام دیا جاتا ہے ، لأن الشيء إذا ثبت ثبت بجمیع لوازمہ۔ (منتخبات نظام الفتاوی، ۱؍۴۲۲)
حضرت مفتی صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ بلڈ بینک کا قیام جائز ہے اور جب بلڈ بینک کا قیام جائز ہوا تو بلڈ بینک کو خون کا عطیہ دینا بھی جائز ہے، اس کے لئے بلڈ کیمپ قائم کرنا اور لوگوں کو خون دینے کی ترغیب دینا بھی جائز ہے ، اس سلسلے میں مسلمانوں کو اپنا بلڈ بینک قائم کرنا بھی مفید ثابت ہوگا، تاکہ مسلمانوں کو بلا شرط وعوض کے خون فراہم کرکے کمزور اور معذور انسانوں کی خدمت کی جاسکے، اس کے لئے کسی مخصوص دن کیمپ قائم کرنا اور لوگوں کو ترغیب دینا بھی درست ہے، نیز اگر بینک کسی مریض کو خون دیتے وقت اس کے کسی رشتہ دار سے خون کا مطالبہ کرے تو یہ ہبہ بالعوض ہے، اس لئے بینک کایہ مطالبہ جائز ہے، تاکہ بینک میں خون کا اسٹاک موجود رہے اور آئندہ دوسرے مریض کی ضرورت پوری کی جاسکے، علامہ شامی لکھتے ہیں:
وہب لرجل عبدا بشرط أن یعوضہ ثوبا إن تقایضا جاز وإلا لا۔
(رد المحتار ۸؍۵۰۸، مکتبہ زکریادیوبند)
اگر کسی مریض کو خون کی شدید ضرورت ہو اور اس کا خون نادر گروپ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دستیاب نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں جس شخص کے پاس اس گروپ کا خون ہے اگر اس کے خون دینے میں اس کو کوئی جسمانی ضررلاحق نہ ہو اور اس کو جس مقدار خون کی ضرورت ہے اس کے جسم میں اس سے زیادہ خون ہوتو ایسے شخص کے لئے ایک انسان کی جان بچانے کے لئے خون کا عطیہ دینا مستحب ہوگا، اس لئے کہ یہ مصیبت زدہ شخص کی مصیبت دور کرنا اور کسی کے ساتھ احسان اور تعاون علی البر والخیر کی قبیل سے ہے، جس کے مستحب ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، حضورﷺ کا ارشاد ہے:
جو شخص کسی مسلمان کی دنیا میں کسی مصیبت کو دور کردے گااللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی مصیبت کو دور فرمادیں گے۔(مسلم شریف، رقم الحدیث:۳۸)۔معلوم ہوا کہ فقہ اکیڈمی انڈیا کے تجاویز صحیح اور معتبر ہیں فقط
واللہ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1236/42-552
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد اور والدہ کی کل جائداد کو ایک ساتھ تقسیم کریں گے۔ان کی کل جائداد کے ایک سو بانوے(۱۹۲) حصے کریں گے، جن میں سے ہر ایک بیٹے کو چھیالیس (۴۶) اور ہر ایک بیٹی کو تیئیس (۲۳) حصے ملیں گے۔ اور پھر والدہ کے والدین یعنی نانا نانی میں سے ہر ایک کو چار(۴) حصے ملیں گے۔ اس طرح کل ایک سو بانوے (۱۹۲) حصے ہوگئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1358/42-769
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ ایک اچھا نام ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور بچے اکثر ضدی ہی ہوتے ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ سمجھدار ہوگی اور ضد بھی کم ہوتی جائے گی ۔صرف اس وجہ سے نام بدلنے ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ بدلنا چاہیں تو بدل سکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 1661/43-1269
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ہر مسلمان پر اس قدر علم حاصل کرنا فرض عین ہے جس سے فرائض و واجبات، حلال و حرام کی تمیز ہوسکے پورا عالم بننا ہر شخص کے لئے ضروری نہیں ہے۔ اس لئے اگر کوئی عقیدہ کا صحیح علم نہ رکھنے کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہوگا تو اس کا یہ عذر قابل قبول نہیں ہوگا، اسی طرح اگر کوئی کسی حرام کام میں لگاہواہو لاعلمی کی وجہ سے تو وہ چیز اس کے لئے حلال نہیں ہوگی، وہ حرام کام کرنے والا ہی شما ر ہوگا۔ اگر کسی نے فرض چھوڑدیا لاعلمی میں تو اس کے ذمہ سے فریضہ ساقط نہیں ہوگا بلکہ وہ گنہگار ہوگا، اور اس سے مواخذہ ہوگا۔ اس لئے عقیدہ وغیرہ کا ضروری علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
(2) آپ کے لئے فی الحال آئی اے ایس آفیسر بننا زیادہ آسان ہے، اس میں مہارت پیدا کریں اور قوم کی خدمت کریں، اور ساتھ ساتھ دینی علوم میں کسی ماہر عالم دین سے مستقل طور پر رابطہ میں رہیں، اس طرح دونوں کے تقاضے پورے کرسکیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند