متفرقات

Ref. No. 40/1124

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  واللہ الموفق:(۱) بعض لوگ اپنے مخصوص اعمال کے ذریعہ جن کو اپنے قابو میں کرلیتے ہیں پھر وہ علاج وغیرہ میں ان سے مدد لیتے ہیں ایسے جنات کو وہ اپنا مؤکل کہتے ہیں (۲) جن کا موجود ہونا اور اس کا جسم انسانی میں حلول کرنا اور اس کے ذریعہ سے اپنا اثر ڈالنے کا ثبوت قرآن کریم سے ہے (۳)جو عامل حضرات آیات کریمہ، اذکار،یا دیگر مباح چیزوں کے ذریعہ علاج کرتے ہیں ان سے علاج کرانا درست ہے اور تعویذ کے ذریعہ علاج کرانے کا ثبوت بھی احادیث سے ہے (۴)عامل حضرات جو مؤکل سے علاج کراتے ہیں وہ اگر امور مباحہ سے متعلق ہو تو درست ہے لیکن جنات سے غیب کی خبر معلوم کرنادرست نہیں ہے (۵) اگر عامل حضرات غیر اللہ سے مدد لے کر علاج کرتے ہیں یا غیر اللہ کو کسی چیز میں مؤثر سمجھتے ہیں تو یہ شرک ہے لیکن اگر قرآن و حدیث کے علاوہ غیر معلوم الفاظ سے علاج کرتے ہیں تو یہ ناجائز ہے لیکن اس کو شرک نہیں کہا جائے گا۔لاباس بالمعاذات اذا کتب فیہا القرآن و اسماء اللہ تعالی (شامی ۶/۳۶۳)عن عوف بن مالک الاشجعی قال کنا نرقی فی الجاہلیۃ قلنا یا رسول اللہ کیف تری ذلک فقال لا بأس فی الرقی ما لم تکن شرکا (سنن ابی داؤد ۲/۲۴۵)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1133/42-354

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داماد سسرال کا ایک فرد ہوتا ہے، اور اپنے سسر کا مجازی بیٹا ہوتا ہے۔ اس لئے سسر کا مال کھانے میں جبکہ سسر کو اس سے خوشی ہو، کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح اگر سسر اپنی رضاورغبت سے مال دے تو اس کا لینا بھی جائز ہے۔ تاہم سسرال میں پڑے رہنے کو معاشرہ مین معیوب سمجھاجاتاہے اور لوگ ایسا کرنے والے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں اس لئے اگر لوگوں کے طعن سے بچنے کے لئے احتراز کرے تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1656/43-1272

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے قبل تکبیر کے بعد کوئی بھی دعا جو کلام الناس کے مشابہ نہ ہو پڑھی جاسکتی ہے،  دعاء قنوت  کی  جو مشہور دعا وتر میں پڑھی جاتی ہے (اللھم انا نستعینک ۔۔) وہ دعا  پڑھنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔ اس  لئے اس کی جگہ اگر کسی نے  کوئی سورہ پڑھ لی، یا کوئی دعا پڑھ لی، یا  سورہ فاتحہ پڑھ لی تو سجدہ  سہو واجب نہیں ہوگا اور نماز درست  ہوجائے گی، اس لئے آپ کی نماز درست ہوگئی۔

’’وليس في القنوت دعاء مؤقت، كذا في التبيين. و الأولي أن يقرأ : اللّهم إنا نستعينك و يقرأ بعده اللّهم اهدنا فيمن هديت. و من لم يحسن القنوت يقول: "ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة و قنا غذاب النار"، كذا في المحيط. أو يقول: اللّهم اغفرلنا، و يكرر ذلك ثلاثاً، وهو اختيار أبي الليث، كذا في السراجية  (الھندیۃ، الباب الثامن في صلاة الوتر، ١/ ١١١، ط: دار الفکر)

 (قولہ ویسن الدعاء المشہور) قد منافی بحث الواجبات التصریح بذلک عن النھر، وذکر فی البحر عن الکرخی انّ القنوت لیس فیہ دعاء مؤقت، لانہ روی عن الصحابۃ ادعیۃ مختلفۃ، لانّ المؤقت من الدعا یذھب برقۃ القلب… ومن لا یحسن القنوت یقول۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ ـ الآیۃ۔ وقال ابو لیث یقول: اللھم اغفرلی یکررھا ثلاثا، وقیل یقول یارب ثلاثا، ذکرہ فی الذخیرۃ۔ (شامی 2/7)

وقولہ ویسن الدعاء المشھور) وھو اللھم انا نستعینک ونستھدیک ونستغفرک ونتوب الیک ونومن بک…الخ ویجوز ان یقتصر فی دعا القنوت علی نحو قولہ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ او یقول یا رب ثلاثا او اللھم اغفرلی ثلاثا لانہ غیر مؤقت فی ظاھر الروایۃ مطلقا سواء کان یحسن الدعا اولا (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار (۲۸۰/۱)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2134/44-2200

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم کی کل جائداد کو چالیس حصوں میں تقسیم کریں گے، مرحوم کی بیوی کو  پانچ حصے، بیٹے کو چودہ حصے اور ہر ایک بیٹی کو سات سات حصے ملیں گے۔

تخریج حسب ذیل ہے:

مسئلہ 8/تصحیح 40                                              

        بیوی ---------------   بیٹا  -------  بیٹی  -------  بیٹی --------  بیٹی

         1                                                                      7

        5                           14                  7                 7                  7

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال زبردستی، بغیر رضامندی کے لینا حرام ہے ؛ لہٰذا اگر لڑکی والوں سے بغیر رضامندی کے دباؤ بنا کر جہیز کا سامان یا نقد روپیہ لیا جائے تو وہ ناجائز اور حرام ہے۔(۱)

(۱) {وَلَا تَأْکُلُوْٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ البقرہ: ۱۸۸)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص443

اسلامی عقائد

Ref. No. 2536/45-00000

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی شخص کے انتقال ہوجانے کے بعد اس کا تمام تر چھوڑا ہوا مال اس کے ورثہ کا ہوجاتاہے اور مرنے والے کی ملکیت اس پر سے ختم ہوجاتی ہےاب قرضوں کی ادائیگی اور وصیت کے نافذ کرنے کے بعد فوری طورپر ان کی جائداد کو تقسیم کرنا ضروری ہے اس میں کسی قسم کی تاخیر ناجائزاورحرام ہے۔خاص طورپر کسی وارث پر تمام جائداد پر قابض رہنا اور دیگر ورثہ کو محروم کرنا حرام ہے۔{وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ}.. [آل عمران : 133].قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ تعالی نے مغفرت کے اعمال کی طرف جلدی کرنے کا حکم دیا ہے ابن عاشور کہتے ہیں اس کا تعلق تمام اسباب مغفرت اور دخول جنت کے اسباب میں حقوق کی ادائیگی ہے خواہ حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد ہو اور حقوق الناس میں ترکہ کی تقسیم بھی ہے مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(ابن ماجہ)عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ قَطَعَ مِيرَاثًا فَرَضَهُ اللَّهُ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ (بیہقی)قال العلامة المُناوي: "أفاد أن حرمان الوارث حرام، بل قضية هذا الوعيد أنه كبيرة، وبه صَرَّح الذهبي وغيره"
حدیث میں ہے کہ جو کسی کے میراث کو کاٹے گا یا وراثت سے محروم کرنے کی کوشش کرے گااللہ تعالی جنت کے اس کے حصہ کو ختم کردے گا۔ یہ حدیث میراث نہ دینے وا لوں اور دوسروں ورثہ کو محروم کرنے کے سلسلے میں بہت سخت ہے علامہ مناوی نے لکھاہےکہ وارث کو محروم کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے ۔نیز میراث سے منع کرنایا اس میں بلا عذر کے تاخیر کرنا دوسروں کے حقو پر دست درازی اور تعدی کرنا اور دوسروں کے حقوق کو چٹ کرجاناہے اور یہ ظلم ہے اور ظلم گناہ کبیرہ ہے جس پر اللہ تعالی نے وعید کا تذکرہ کیاہے ۔عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)(مسلم شریف) وروى البخاري عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ».(بخاری )اسی طرح میراث نہ دینا یہ لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھانا ہے جس پر بھی قرآن میں وعید ہے {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ}.. [النساء: 29]عن أبي حميد الساعدي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه» وذلك لما حرم الله مال المسلم على المسلم(مسند احمد 39/18،حدیث نمبر:23605)لا یجوز لاحد أن یتصرف فی ملک غیرہ بلا اذنہ أو وکالتہ منہ أو ولایۃ علیہ وان فعل کان ضامنا(شرح المجلۃ،رستم1/61)
چوں کہ مورث کی جائداد پر قبضہ کرنا اور دوسرے وارثوں کو محروم کرنا یہ گناہ کبیرہ اور ظلم ہے ایسے لوگوں کی نماز یں اللہ تعالی کے یہاں قبول نہیں ہوتی ہیں اگرچہ فریضہ ساقط ہوجاتاہے،وہ ان جائدادوں سے کھارہے ہیں تو ظلما دوسروں کا مال کھارہے رہے ہیںجس پر سخت وعید ناززل ہوئی ہے اس لیے بخت بانو کو چاہیے کہ جلد سے جلد شوہر کے ترکہ کو تمام ورثہ کے درمیان شرعی طورپر تقسیم کردیں اور تاخیر کی تمام ورثہ سے معافی مانگیں لیکن اگر انہوں نے تقسیم نہیں کیا اور فوت گئیں تو اس صورت میں شوہر کی جو جائداد ہے پہلے ان کے ورثہ میں تقسیم ہوگی پھر بخت بانو کے حصے میں جو کچھ آیا ہے اس کو بخت بانو کے ورثہ میں تقسیم کیا جائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 2668/45-4130

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قرآن واحادیث میں ذکر کی بڑی اہمیت وفضیلت بیان کی گئی ہے (یا ایہا الذین آمنوا اذکر اللہ ذکرا کثیرا) الآیۃ، لا یزل لسانک رطبا من ذکر اللہ (الحدیث)

صبح وشام ذکر کی بڑی فضیلت ہے۔ (فسبحان اللہ حسن تمسون وحین تصبحون) الآیۃ، متعدد احادیث سے درود شریف استغفار اور تیسرا کلمہ سو مرتبہ پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔

عن الأغر المزنی وکانت لہ صحبۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال انہ لیغان علی قلبی وانی لاستغفر اللہ في الیوم مائۃ مرۃ‘‘ (صحیح مسلم: رقم ٢٧٠٢۔

عن أنس بن مالک أن رجلا جاء الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ انی رجل ذرب اللسان واکثر ذلک علی أہلی فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم این انت من الاستغفار انی استغفر اللہ فی الیوم واللیلۃ مائۃ مرۃ‘‘ (المعجم الأوسط للطبرانی: رقم: ٣١٧٣)

عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سبح اللہ مائۃ بالغداۃ ومائۃ بالعشی کان کمن حج مائۃ حجۃ ومن حمد اللہ مائۃ بالغداۃ ومائۃ بالعشی کان کمن حمل علی مائۃ فرس فی سبیلاللہ أو قال غزا مائۃ غزوۃ۔ ومن ہلل اللہ مائۃ بالغداۃ ومائۃ بالعشی کان کمن اعتق مائۃ رقبۃ من ولہ اسماعیل ومن کبر اللہ مائۃ بالغداۃ ومائۃ بالعشی لم یأت في ذلک الیوم أحد بأکثر مما أتی الا من قال مثل ما قال أو زاد علی ما قال۔ (سنن الترمذی: رقم: ٣٤٧١)

عن الحسن قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لأبي بکر ألا اولک علی صدقۃ تملأ ما بین السماء والأرض سبحان اللہ، والحمد اللہ، ولا الہ الا اللہ، واللہ اکبر، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ في یوم ثلاثین مرۃ‘‘ (المصنف لابن أبي شیبۃ: رقم: ٣١٧١١)

عن أنس بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی علی فی یوم ألف مرۃ لم یمت حتی یری متعدہ من الجنۃ‘‘ (الترغیب لابن شاہین: رقم ١٩)

عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صی علی في کل یوم مائۃ مرۃ قضی اللہ لہ مائۃ حاجۃ سبعین منہا لأخرتہ وثلاثین منہا لدنیاہ‘‘ (جلا الافهام لإبن القيم الجوزية: ص: 430)

عن جابر بن عبد الله قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من صلي علي مائة صلاة حين يصل الصبح قبل أن يتكلم قضي الله له مائة حاجة عجل له منها ثلاثين حاجة وأخر له سبعين وفي المغرب مثل ذلك‘‘ (جلاء الافهام لابن القيم: ص: 430، دار العروبه، الكويت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر تو یہ ہے کہ پانی اور ڈھیلا دونوں کو جمع کرلیا جائے دوسرے نمبر پر صرف پانی پر اکتفاء کیا جائے؛ لیکن اگر پانی نہ ہو، تو مجبوراً ڈھیلے پر اکتفا کیا جاسکتا ہے۔(۱)

(۱) ثم إعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل،  و یلیہ في الفضل، الاقتصار علی الماء، و یلیہ الاقتصار علی الحجر، و تحصل السنۃ بالکل و إن تفاوت الفضل۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۰)؛ والاستنجاء بالماء أفضل (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۶۱)؛ و الإستنجاء نوعان: أحدھما بالماء، والثاني بالحجر أو بالمدر أو ما یقوم مقامھما من الخشب أو التراب، والاستنجاء بالماء أفضل (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، نوع منہ في بیان سنن الوضوء و آدابہ،‘‘ ج ۱، ص:۲۱۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص87

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جوااور سٹہ کھیلنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے(۲) امام کو چاہئے کہ ایسے برے کاموں سے اجتناب کریں، لیکن اس کے باوجود مقتدیوں کی نمازیں کراہت ِ تحریمی کے ساتھ صحیح ہیں ان کا فریضہ ادا ہوجاتا ہے(۳) اور سنت و نوافل جو کچھ ادا کرے گا وہ بھی ادا ہوں گی۔

(۲) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَہ۹۰} (سورۃ المائدۃ: ۹۰)
(۳) ویکرہ تقدیم العبد … والفاسق لأنہ لایہتم لأمر دینہ وإن تقدموا جاز لقولہ علیہ السلام:صلوا خلف کل برو فاجر الخ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص177

Usury / Insurance

Ref. No. 2773/45-4325

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In the Holy Quran and hadiths, we are ordered with strict words to avoid usury and usury based transactions, even it is said that if those who take and give usury and do not repent, they should be ready to fight against Allah and His Messenger, so all kinds of usurious transaction is forbidden and Haram, thus the matter should not be taken for granted. Therefore, just as life insurance, medical insurance, etc. are prohibited, insurance of goods is also prohibited. You deposit extra money for a fixed period of time, during which you may not need to repair the equipment at all and lose the money. And maybe, so many repairs are needed that the insurers lose. So that is a form of gambling which is clearly prohibited in Islamic Shariah. If the service is given by the said company without an extra charge, it will be allowable and there should be no harm in it.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband