Frequently Asked Questions
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 933/41-63 B
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Hurmate Musaharat takes place by a twelve year old boy too as he is a Murahiq (close to mature and able to feel sexual desire).
کذا تشترط الشھوۃ فی الذکر فلوجامع غیرمراہق زوجۃ ابیہ لم تحرم۔ (در مختار1/188)
For detail click here: https://dud.edu.in/darulifta/?qa=1832/daughter-travelling-travelling-sometimes-feelings-daughter
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 1005/41-175
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خاتون کو حتی الامکان شوہر کی اطاعت کرنی چاہئے، اور بلا کسی عذر کے منع نہیں کرنا چاہئے، اگر کوئی واقعی عذر ہے تو علاج کے ذریعہ اس کو حل کرنا چاہئے۔ آپ بھی اپنی بیوی پر اس کی طاقت سے زیادہ کا دباؤ نہ بنائیں۔ اور بیوی کی صحت کا خیال کرتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو تو روزہ رکھ کر اپنی خواہش پر کنٹرول کریں۔ محض اس بنیاد پر طلاق دینا مناسب نہیں ہے۔
ولو تضررت من کثرۃ جماعہ لم تجز الزیادۃ علی قدر طاقتھا۔ (الدرالمختار مع رد المحتار 3/203)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 1131/42-359
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کالے جادو سے علاج کرانا درست نہیں ہے۔ حرام کے انسداد کے لئے حرام اور ظلم کے ازالہ کے لئے ظلم کرنا جائز نہیں ہے۔ آپ کسی پابند شرع عامل سے رجوع کریں ، اور خود بھی معوذتین ، سورہ بقرہ اور منزل پڑھنے کا اہتمام کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
اسلامی عقائد
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:خلفاء راشدین کو سب و شتم کرنے والوں کو بعض علماء نے کافر کہا ہے بہرحال ایسا شخص فاسق وفاجر ضرور ہے،(۲) بالخصوص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والا بالاتفاق کافر ہے؛ کیوںکہ اس سے نص قطعی کا انکار لازم آتا ہے۔(۱)
(۲) {لَوْلَآ إِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِأَنْفُسِھِمْ خَیْرًالا وَّقَالُوْا ھٰذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌہ۱۲} (سورۃ النور: ۱۲)
(۱) عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذہبا ما بلغ مد أحدہم ولا نصیفہ، متفق علیہ۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب مناقب الصحابۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۳، رقم: ۶۰۰۷)
وذکر الخلفاء الراشدین رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم أجمعین مستحسن بذلک جری التوارث، کذا في التنجیس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰت: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ، ومن المستحب‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸)
وسب أحد من الصحابۃ وبغضہ لا یکون کفراً، لکن یضلل الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۳۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص232
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر عمر نے بکرا خرید کر اللہ کے نام پر ذبح کیا تو اس کا کھانا بلا شبہ درست ہے،(۱) لیکن یہ کہنا کہ یہ رقم وہاں چڑھا دینا جائز نہیں، فروخت کرنے والا اس رقم کا مالک ہے جو چاہے کرے۔(۲)
(۱) وأعلم أن المدار علی القصد عند إبتداء الذبح فلا یلزم أنہ لو قدم للضیف غیرہا أن لا تحل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الذبائح‘‘: ج ۹، ص: ۴۴۹)
(ذبح لقدوم الأمیر) ونحوہ کواحد من العظماء (یحرم) لأنہ أہل بہ لغیر اللّٰہ (ولو) وصلیۃ (ذکر اسم اللّٰہ تعالی)۔ (’’أیضاً‘‘)
(ولو) ذبح (للضیف) (لا) یحرم لأنہ سنۃ الخلیل وإکرام الضیف إکرام اللہ تعالیٰ۔ والفارق أنہ إن قدّمہا لیأکل منہا کان الذبح للّٰہ والمنفعۃ للضیف أو للولیمۃ أو للربح، وإن لم یقدّمہا لیأکل منہا بل یدفعہا لغیرہ کان لتعظیم غیر اللّٰہ فتحرم۔ (’’أیضاً‘‘)
(۲) والنذر للمخلوق لا یجوز لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون للمخلوق، أیضاً: فما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت وغیرہا وینقل إلی ضرائح الأولیاء تقربا إلیہم فحرام بإجماع المسلمین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۱)
عن ثابت عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا عَقْر في الإسلام۔ قلت کان أہل الجاہلیۃ یعقرون الإبل علی قبر الرجل الجواد یقولون نجازیہ علی فعلہ لأنہ کان یعقرہا في حیاتہ فیطعمہا الأضیاف فنحن نعقرہا عند قبرہ لتأکلہا السباع والطیر فیکون مطعما بعد مماتہ کما کان مطعما في حیاتہ۔ (أبو سلیمان، معالم السنن، ’’ومن باب کراہیۃ الذبح عند المیت‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص356
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال صورت خیر القرون میں ثابت نہیں اس لیے بدعت اور واجب الترک ہے فرداً فرداً اگر کوئی قبرستان جاتے ہوئے تکبیر یا دیگر دعاء پڑھے یا اتفاقاً جمع ہوجائیں تو شرعاً مضائقہ نہیں؛ لیکن اس پر استمرار یا اس کے ترک کو برا سمجھنا درست نہیں اور جو اس طریقہ کو لازم سمجھے وہ گناہ گار ہے اس کو متنبہ کیا جائے۔ (۲)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ص: ۴۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص493
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تفسیر کے پڑھنے سے منع نہیں کیا جاتا؛ بلکہ اس کتاب کے پڑھنے سے منع کیا جاتا ہے، جس میں ذاتی رائے کو ترجیح دی گئی ہو اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیات کے جو معنی ومطالب بیان کیے وہ ہی تفسیر کی کتابوں میں آنے چاہئیں۔ مودودی صاحب بعض عقائد میں اہل سنت والجماعت کے خلاف اور اعتزال وخوارج سے مطابقت رکھتے ہیں اور تفسیر میں جہاں جہاں اپنے خیالات کے مطابق اپنی رائے کو استعمال کیا ہے وہیں ان سے مسائل اور روایات میں غلطی ہوئی ہے؛ اس لیے وہ کتاب قابل اعتماد نہیں رہی، جن کو پڑھ کر عوام کھوٹے اور کھرے میں امتیاز نہیں کر سکتی ہے اور ان کے عقائد پر بھی غلط اثر ہوتا ہے؛ اس لیے اس کے مطالعہ یا اس کے سننے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، بنابریں اگر تفسیر سننے کا شوق ہے، تو ’’بیان القرآن‘‘ یا ’’تفسیر حقانی‘‘ وغیرہ معتمد تفاسیر سنا کریں۔(۱)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من النار، ہذا حدیثٌ حسنٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب التفسیر، باب ما جاء في الذي یفسر القرآن برأیہ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۲۹۵۰)
من تکلم (في القرآن) أي: في معناہ أو قراء تہ (برأیہ) أي: من تلقاء نفسہ من غیر تتبع أقوال الأئمۃ من أہل اللغۃ والعربیۃ المطابقۃ للقواعد الشرعیۃ، بل بحسب ما یقتضیہ عقلہ، وہو مما یتوقف علی النقل بأنہ لا مجال للعقل فیہ کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ وما یتعلق بالقصص والأحکام، أو بحسب ما یقتضیہ ظاہر النقل، وہو مما یتوقف علی العقل کالمتشابہات التی أخذ المجسمۃ بظواہرہا، وأعرضوا عن استحالۃ ذلک في العقول، أو بحسب ما یقتضیہ بعض العلوم الإلہیۃ مع عدم معرفتہ ببقیتہا وبالعلوم الشرعیۃ فیما یحتاج لذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵، رقم: ۲۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص45
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعہ حضرات میں متعدد فرقے ہیں کچھ وہ ہیں جو اصول و نصوص کے صراحۃً منکر ہیں مثلاً اس کے قائل ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے رسالت کو پہونچانے میں غلطی ہوئی ہے یاقرآن کریم میں تحریف کے قائل ہیں یا حضرت عائشہؓ پر لگائی گئی تہمت کو سچ مانتے ہیں وغیرہ۔ ایسے لوگ ایمان سے خارج ہیں ان کا ذبیحہ مردار ہے اس کو کھانا جائز نہیں ہے باقی جن حضرات پر کفر عائد نہیں ہوتا اور وہ شرعی طریقہ پر ذبح کریں تو ان کا ذبیحہ حلال ہے۔(۱)
(۱)اور جو لوگ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خلفائے ثلاثہ پر صرف افضل مانتے ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ جائز ہے۔ (کفایت المفتی، ’’باب الفرق‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۵)
وإن کان یفضل علیاً کرم اللّٰہ وجہہ علي أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ لا یکون کافراً إلا أنہ مبتدع۔ (جماعۃ من علماء الہند: الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أو أنکر صحبۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أو اعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرئیل علیہ السلام غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہا: باب المرتد، مطلب فہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۴، ص: ۱۳۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص281
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2651/45-4008
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اعمل برائک کہنے کی صورت میں مضارب کے لئے دوسرے کے ساتھ مضاربت اور شرکت کا معاملہ کرنا جائز ہوگا اگر مضارب کو اس میں نفع کی امید ہو۔ رب المال نے مضارب کو بااختیار بنایاہے تاکہ نفع زیادہ حاصل ہو، اور نفع حاصل کرنے کا ایک طریقہ مضاربت پر دینے یا شرکت پر دینے کا بھی ہے۔ اس لئے مضارب رب المال کے مال کو اس کی اجازت سے دوسرے کو مضاربت پر دے سکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند