Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:خیر القرون میں نکاح کے وقت کلمہ پڑھوانا ثابت نہیں ہے، کلمہ تو ہر وقت پڑھنے کی چیز ہے، نکاح خواں کو چاہیے کہ لڑکے سے قبول کروائے، ایسے طریقہ پر کہ قریب بیٹھنے والے سن لیں تاکہ بوقت ضرورت نکاح کے لیے ان کی شہادت معتبر ہو سکے۔(۱)
(۱) حدثنا محمد بن بشار …… عن رجل من بني سلیم قال خطبت إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إمامۃ بنت عبد المطلب فانکحوني من غیر أن یتشہد۔ (خلیل أحمد سہارنپور، بذل المجہود، کتاب النکاح، باب: في خطبۃ النکاح: ج ۳، ص: ۲۴۶)
فکم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصص مکروہاً۔ (مجموعہ رسائل اللکھنوي سباحۃ الکفر في الجہر بالذکر: ج ۳، ص: ۳۴؛ امدادیہ: ج ۱، ص: ۴۹۸)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص432
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2469/45-3743
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عمل کثیر کی تشریح میں متعدد اقوال ہیں، البتہ ان میں مفتی بہ قول یہ ہے کہ دور سے دیکھنے والے کو یہ غالب گمان ہو کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے۔عمل کثیر مفسد صلوۃ ہے، ایسی صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہوتا ہے۔
صورت مسئولہ میں سجدے میں جاتے وقت دونوں ہاتھوں سے شلوارکو ہلکا سا اوپر کی طرف کھینچتے ہوئے سجدہ میں جانا عمل قلیل ہے، اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن بلاضرورت عمل قلیل کی عادت بنا لینا بھی مکروہ ہے، اس لئے اس سے احتراز کرنا چاہئے اور پائچے کو نماز شروع کرنے سے پہلےہی درست کرلینا چاہئے۔
ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا۔ وفیہ خمسة أقوال: أصحہا مالا یشک بسببہ الناظر من بعید فی فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل (شامی: ۲/۳۸۵، ط: زکریا دیوبند)۔ وکرہ عبثہ بثوبہ (شامی: ۲/۴۰۶۔ مکروہات الصلوة، ط: زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
خوردونوش
Ref. No. 2545/45-3949
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہم نے جو کچھ اس کے بارے میں جانا و ہ یہ ہے کہ میگنیشیم اسٹئریٹ کا کام یہ ہوتاہے کہ پیراسیٹامال دوا کو معدہ میں تحلیل کرنے میں مدد کرتاہے۔ لیکن یہ کس چیز سے بنتاہے اس کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں ہے۔ اگر آپ کو اس کے اصل مادہ جس سے بنتاہے کے بارے میں کچھ معلوم ہو تو دوبارہ اس کی وضاحت کے ساتھ سوال کریں تاکہ اس کے مطابق اس کا حکم لکھاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2584/45-3944
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is follows:
Your cousin sister is not mahram for you; you must maintain proper Parda from her. Because of the lack of proper Parda it has happened. It is a forbidden and heinous crime and sinful act that should not have been occurred. Now, repent to Allah and seek forgiveness for your sins, and keep away from the same in the future. However, due to this shameful act, the Musaharat will take place.
عن معقل بن يسار رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لأن يُطعن في رأس أحدكم بمخيط من حديد خير له من أن يمسّ امرأة لاتحلّ له." رواه الطبراني". (صحيح الجامع 5045)
"وفي رواية : أَنَّهُ يُبَايِعُهُنَّ بِالْكَلامِ .. وَمَا مَسَّتْ كَفُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَّ امْرَأَةٍ قَطُّ". (صحيح مسلم 3470)
It is said in the hadith that if an iron needle is thrust into a man's head, it is better for him than touching a non-mahram woman, who is not permissible for him.
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اہل حدیث وغیر مقلد ایک ہی فرقہ ہے اور یہ مسلمان ہیں؛ لیکن تقلید کے منکر ہیں، حالاں کہ تقلید ائمہ کے بغیر پورے طور پر راہِ راست پر رہنا مشکل ہے، اس سلسلے میں (فتاویٰ رحیمیہ: ص: ۲۳۴، ج۱) کا مطالعہ مفید ہوگا۔(۳)
(۳) وترک الأشعري: مذہبہ واشتغل ہو ومن تبعہ بإبطال رأی المعتزلۃ وإثبات ما ورد بہ السنۃ أي الحدیث ومضی علیہ الجماعۃ أي: السلف أو الصحابۃ خاصۃ بقرینۃ ما مر والمآل واحد فسموا بأہل السنۃ والجماعۃ أي: أہل الحدیث وإتباع الصحابۃ: (محمد عبدالعزیز، النبراس، شرح العقائد: ص: ۳۱)
قال في خزانۃ الروات: العالم الذي یعرف معنی النصوص والأخبار وہو من أہل الدرایۃ یجوز لہ أن یعمل علیہا وإن کان مخالفاً لمذہبہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مطلب لا تقبل الشہادۃ بلفظ اعلم أو أتیقن‘‘: ج ۷، ص: ۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص256
حدیث و سنت
Ref. No. 2639/45-4013
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) حضور ﷺ کا اپنے سر مبارک پر تیل استعمال کرنا تو ثابت ہے البتہ کونسا تیل استعمال کرتے تھے اس کی صراحت کسی حدیث کی کتاب میں ہمیں نہیں ملی۔ تاہم زیتون کے تیل کوکھانے اور مالش میں استعمال کے متعلق حدیث موجود ہے۔ (2) احادیث میں مطلق سرکہ کا استعمال مفید بتایاگیا ہے، اور اس کی ترغیب دی گئی ہے اور نبی ﷺ نے استعمال فرمایا ہے، مگر سرکہ کس چیز کا بناہوا تھا اس کی صراحت سے تذکرہ کسی کتاب میں ہمیں نہیں ملا۔ (3) ریحان کا ذکر قرآن میں سورہ رحمن میں ہے، یہ جنت کی خوشبو سے ہے۔ ریحان کوئی خاص قسم کی خوشبو ہے یا عام خوشبو اس سے مراد ہے اس میں اختلاف ہے، تاہم 'اسلام اور جدید میڈیکل سائنس ص533' میں لکھاہے کہ ریحان 'تلسی ' کو کہاجاتاہے، نیز حضرت الامام شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ نے ریحان کا ترجمہ 'نازبو' سے کیا ہے جس کو اردو میں تلسی کہتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:احناف کے نزدیک پورے سرکا مسح فرض نہیں ہے؛ بلکہ چوتھائی سر کا مسح فرض ہے اور پورے سر کا مسح سنت ہے؛ اس لیے وضو کرنے والے کو چاہئے کہ پورے سر کا مسح کرے تاکہ فرض وسنت دونوں پر عمل ہو جائے۔
’’ومفروض في مسح الرأس مقدار الناصیۃ وہو ربع الرأس عندنا‘‘(۱)
’’ومسح ربع الرأس مرۃ‘‘(۲)
’’ومسح کل رأسہ مرۃ مستوعبۃ … قولہ (مستوعبۃ) ہذا سنۃ أیضاً کما جزم بہ في الفتح‘‘(۳)
’’واستیعاب جمیع الرأس في المسح … بماء واحد‘‘(۴)
(۱) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیر، ’’کتاب الطہارۃ: فرائض الوضوء‘‘: ص: ۱۶۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في معنی الاشتقاق وتقسیمہ إلی ثلاثۃ أقسام‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تصریف قولہم معزیا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۳۔
(۴) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیر: ص: ۲۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص182
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں آپ کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ تین دن تین رات خفین پر مسح کرتے رہیں، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
’’أما إذا سافر قبل أن یستکمل یوماً ولیلۃ فلہ أن یصلی بذلک المسح حتی یستکمل ثلاثۃ أیام ولیالیہا من الساعۃ التي أحدث فیہا وہو مقیم‘‘(۱)
(۱) الإمام محمد بن الحسن الشیباني، الأصل، ’’کتاب الصلاۃ: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۷۶۔ (دارابن حزم، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص280
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض ونفاس والی عورت سے وطی بالکل حرام ہے(۱) غسل میں نیت ضروری نہیں؛ بلکہ ناک میں پانی داخل کرنا، حلق میں پانی داخل کرنا اور پورے بدن پر پانی بہانا ضروری ہے(۲) متعدد وطی سے ایک ہی غسل کافی ہے، علیحدہ علیحدہ غسل کی ضرورت نہیں ہے۔
(۱)ویسألونک عن المحیض قل ھو أذ ی فاعتزلوا النساء في المحیض ولا تقربوھن حتی یطھرن فإذا تطھرن فأتوھن من حیث أمرکم اللّٰہ إن اللّٰہ یحب التوابین و یحب المتطھرین۔ (سورۃ البقرہ: الآیہ:۲۲۲) ؛ وعن أبي ھریرۃ عن النبی ﷺ قال: من أتی حائضاً أو إمرأۃً في دبرھا أو کاھناً فقد کفر بما أنزل علی محمد۔ (أخرجہ الترمذی فی سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب ما جاء في کراھیۃ إتیان الحائض‘‘ج۱، ص:۳۵، رقم :۱۲۵؛ و عن ابن عباس عن النبي ﷺ في الذي یأتي امرأتہ وھي حائضٌ قال: یتصدق بدینار، أو بنصف دینار (أخرجہ ابو دائود، فی سننہ، ’’کتاب النکاح، باب في کفارۃ من أتی حائضاً‘‘ ج۱، ص:۲۹۴ (مکتبہ نعیمیہ دیوبند)؛و وطؤھا في الفرج عالما بالحرمۃ عامداً مختاراً کبیرۃ لا جاھلا ولا ناسیا ولا مکرھاً فلیس علیہ إلا التوبۃ والاستغفار (زین الدین إبن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض‘‘ج۱، ص:۳۴۲)
(۲) و فرض الغسل غسل فمہ و أنفہ و بدنہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۸۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص378
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوکان، مکان میں محلہ کی مسجد کی اذان کا فی ہے، جنگل میں جہاں اذان کی اواز نہیں پہونچتی با جماعت نماز پڑھتے وقت اذان مسنون ہے۔
’’بخلاف مصل ولو بجماعۃ في بیتہ بمصر، أو قریۃ لہا مسجد فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحي یکفیہ … قولہ لہا مسجد أي فیہ أذان وإقامۃ … قولہ إذا أذان الحي یکفیہ لأن أذان المحلۃ وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ لأن المؤذن نائب أہل المصر کلہم‘‘(۲)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب‘‘: ج ۲، ص: ۶۳، زکریا دیوبند۔…ولو صلی في بیتہ في قریۃ إن کان في القریۃ مسجد فیہ أذان وإقامۃ فحکمہ حکم من صلی في بیتہ في المصر وإن لم یکن فیہا مسجد فحکمہ حکم المسافر … وإن کان في کرم أو ضیعۃ یکتفي بأذان القریۃ أو البلدۃ إن کان قریباً و إلا فلا۔ وحد القریب أن یبلغ الأذان إلیہ منہا۔ وإن أذنوا کان أولیٰ … وإن صلوا بجماعۃ في المفازۃ وترکوا الأذان لا یکرہ، وإن ترکوا الإقامۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني: في الأذان‘‘: الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن: ج ۱، ص: ۱۱۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص146