Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں قراء ۃ کے ختم ہونے پر ہاتھ چھوڑ کر رکوع کی تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں جانا چاہئے پس مولوی صاحب کا قول درست ہے۔(۱)
(۱) (ثم) کما فرغ (یکبر) مع الانحطاط (للرکوع) (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘، ج۲، ص: ۱۹۶)
أفاد أن السنۃ کون ابتداء التکبیر عند الخرور وانتہائہ عند استواء الظہر وقیل إنہ یکبر قائماً والأول ہو الصحیح کما في المضمرات وتمامہ في القہستاني۔ (أیضًا:)
ویکبر مع الانحطاط، کذا في الہدایۃ قال الطحطاوي: وہو الصحیح کذا في معراج الدرایۃ، فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلوۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۱، ط: دارالکتب العلمیۃ ،بیروت)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 410
اسلامی عقائد
Ref. No. 1087 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔دیگر مسالک کے لوگوں کا بھی احترام لازم ہے۔ اچھے اخلاق سے پیش آنا ایمان کی علامت ہے، اسے بہرحال ملحوظ رکھنا چاہئے۔ دوسروں کا مذاق بنانے اور نازیبا حرکت کرنے سے کسی خیرکی توقع نہیں کیجاسکتی۔ ان کو اچھے اور مشفقانہ لہجے میں سمجھانا چاہئے۔ ان سےاچھے تعلقات اگر رکھیں گے تو وہ آپ کی بات سنیں گے اور حق کو قبول کریں گے۔ ان کے دل میں صحابی کی عظمت پیداکرنے کے لئے صحابہ کے واقعات سنائے جائیں ، اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جبکہ وہ صحابہ کی شان اپنے اندر پیداکریں ۔ اس لئے اہل حق کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے، وجادلھم بالتی ھی احسن۔ ﴿القرآن﴾۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
طلاق و تفریق
Ref. No. 39 / 826
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں کسی قریبی شرعی دارالقضاء سے رابطہ کرلیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 39/1058
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
If you marry your daughter to a boy who holds barelvi aqaaid, the nikah would be valid, but you should avoid it, you should marry your daughter to a Sahih ul Aqeedah person.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 1473/42-920
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بطور تاکید اور بعض مرتبہ بطور فرض اور تقدیر اس طرح کے الفاظ کا اضافہ کردیا جاتاہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرآن میں ہے کہ " لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وماتاخر"(سورۃ الفتح) واللہ غفور رحیم (سورۃ التحریم) جبکہ آپ ﷺ معصوم ہیں۔
وقوله - عَزَّ وَجَلَّ -: (وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ). أي: غفور لما تقدم من ذنبك وما تأخر لو كان. أو يكون رحيما؛ حيث لم يعاقبك بما اجترأت من الإقدام على اليمين؛ لا بإذن سبق من اللَّه تعالى لك فيه. (تفسیر الماتریدی، تاویلات اھل السنۃ2، 10/77)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1571/43-1099
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس لڑکے سے آپ کا نکاح ہوا ہے اگر وہ اپنے ساتھ آپ کو رکھنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اس سے کسی طرح طلاق حاصل کریں، اگرخلع کا معاملہ کرتے ہوئے کچھ پیسے دینے پڑیں تو دے کر اس سے طلاق حاصل کریں، اس سے طلاق لئے بغیر آپ کا نکاح دوسری جگہ نہیں ہوسکتاہے۔ اور اگرکسی بھی طرح شوہر طلاق نہیں دیتا ہے تو کسی قریبی شرعی دارالقضاء سے رجوع کریں۔ قاضی صاحب نوٹس جاری کریں گے، اور شوہر کی سرکشی متحقق ہوجانے پر آپ کا نکاح ان سے فسخ کردیں گے۔ اس کے بعد آپ کسی دوسرے لڑکے سے نکاح کرسکیں گی۔البتہ عدالت سے بھی طلاق کی قانونی کارروائی مکمل کرالیں تاکہ بعد میں وہ لڑکا آپ کو پریشان نہ کرسکے۔(ماخوذ از حیلۃ ناجزۃ، ص؛73،74/ ط؛ دارالاشاعت)
قوله تعالى: ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا (البقرة231) فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان الی قولہ: فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اﷲِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِه. (البقرۃ 229)
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول".بدائع 3/145)
لا يجوز الخلع إلا إذا كرهته المرأة وخافت أن لا توفيه حقه أو لا يوفيها حقها ومنعوا إذا كرهها الزوج لما تلونا وجوابه ما ذكرناه، وذكر القدوري في مختصره إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به أخرجه مخرج العادة أو الأولوية لا مخرج الشرط وأراد بالخوف العلم والتيقن به (تبیین الحقائق باب الخلع 2/268)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1838/43-1669
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استقرار حمل کے بعد اگر کوئی خاص وجہ نہ ہو تو ایک مہینہ کے حمل کو بھی ضائع کرناجائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی معقول وجہ ہو جیسے کہ حمل سے عورت کی جان کو خطرہ ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہویا حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس سے پہلے بچہ کو نقصان ہوتو ایسی مجبوری کی صورتوں میں ابھی ابتدائی مرحلہ میں اسقاط حمل کی گنجائش ہے۔
"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج. (قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم! يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح. وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح۔ (شامی، مطلب فی اسقاط الحمل، باب نکاح الرقیق، 3/176ط؛ سعید)
"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل." (الموسوعة الفقهیة الکویتیة 30/285)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ عقائد قرآن وحدیث کے صریح خلاف ہیں اور اگر مذکورہ شخص واقعۃً ایسے عقائد رکھتا ہے تو وہ خارج از اسلام ہے اس پر تجدید ایمان ضروری ہے۔(۱)
(۱) وإنَّ محمدعبدہ ورسولہ وأمینہ علی وحیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم …… وإن الجنۃ حق وإن النار حق وإن میزان حق وإن الحساب حق وإن الصراط حقٌّ وإن الساعۃ آتیۃ لاریب فہا وإن اللّٰہ یبعث من في القبور۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الشروط: الفصل العشرون في الوصیۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۶)
وفي البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعبا کفر عند الکلِّ ولا اعتبار باعتقادہ …… ومن تکلم بہا عالما عامداً کفر عند الکلِّ۔ (ابن عابدین، رد المختار علی الدر المختار، کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)
رجل کفر بلسانہ طائعا وقلبہ مطمئنٌ بالإیمان یکون کافراً ولا یکون عند اللّٰہ مؤمناً کذا في فتاوی قاضي خان، (جماعۃ من علماء الھند، الفتاوی الھندیۃ ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳) وکذا الرجل إذا ابتلی بمصیبات متنوِّعۃ فقال أخذت مالی وأخذت ولدي وأخذت کذا وکذا فما ذا نفعل و ما ذا بقی لم تفعلہ و ما أشبہ ہذا من الألفاظ فقد کفر، کذا في المحیط۔ (أیضا:، ’’ومنہا ما یتعلق بالحلال والحرام‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)
دار الافتاء
دار العلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2343/44-3527
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں بھائی کوچاہئے کہ اپنی بہن سے وقتی طور پر قطع تعلق کرلے تاکہ وہ اپنے گناہ سے باز آجائے اور اس کی اصلاح ہوسکے۔ البتہ اگر قطع تعلق سے اس کے مزید بگڑنے کااندیشہ ہو تو اس سے قطع تعلق نہ کیا جائے، بلکہ وقتًا فوقتًا اس کو حکمت سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔
" أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر و هو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها."
(فتح الباری شرح صحیح البخاری،قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، 10/497،ط:دارالمعرفۃ بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند