Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2818/45-4422
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصولی طور پر تنہائی میں آہستہ آواز سے ذکر کرنا بہتر ہے۔ لیکن اجتماعی طور پر جہرا ذکرکرنا شرعا جائزہے۔ اوراس سلسلہ میں حدیث قدسی سے ثبوت ملتاہے۔
عن أبي ھریرہ رضى اللہ عنہ قال قال النبي ﷺ يقول الله تعالى أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه إذا ذکرنی فان ذکرنی في نفسه ذكرتہ فی نفسي وإن ذكرني في ملاء ذكرته في ملاء خير منهم (صحیح بخاری 9/121) (صحیح مسلم 4/2061)
اس لئے اگر کوئی متبع شریعت، شیخ کامل اپنے مریدوں کی اصلاح و تربیت کیلئے کسی ایسی جگہ ذکرکی مجلس منعقد کرے جہاں دوسرے عبادت کرنے والوں کی عبادت میں خلل نہ پڑے اور اسے لازم نہ سمجھا جائے تو اسکی اجازت ہے ۔ حضرت مولانا حکیم اخترصاحب نوراللہ مرقدہ یا ان کے خلفاء کی جانب سے ذکر کی مجالس کا انعقاد درست ہے۔ اور ان کے خلفاء سے اصلاحی تعلق قائم کرنا بھی درست ہے۔ صوفیاء کرام کا مقصد یہ ہے ذکر اللہ سے اللہ تبارک وتعالی کی یاد تازہ ہوتی ہے اور تعلق و محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
عن ابی ھر یرۃ قال قال النبي ﷺ يقول الله تعالى أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه إذا ذکرنی فان ذکرنی في نفسه ذكرتہ فی نفسي وإن ذكرني في ملاء ذكرته في ملاء خير منهم وإن تقرب إلى بشبر تقربت إليه ذراعا وإن تقرب إلى ذراعاً تقربت إليه باعا وإن أتاني يمشي أتيته هرولة – (متفق عليه) اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحید ، باب قول اللہ و يحذركم اللہ نفسہ 6/2694)
( قوله ورفع صوت بذكر ) أقول : اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك فتارة قال إنہ حرام وتارة قال إنه جائز و فى الفتاوى الخيرية من الكراهة والإستحسان جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحوه وإن ذكرنى فى ملاء ذكرته فى ملاء خير منهم - رواه الشيخان .... فقال بعض أهل العلم إن الجھر أفضل لأنه أكثر عملا ولتعدى فائدته إلى السامعين و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همه إلى الفکر وبصرف سمعہ إليه ويطرد النوم ويزيد النشاط . (الدر المختار مع رد المحتار 1/660)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 39/1051
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جان بوجھ کر کھانے، پینے، اور جماع کرنے سے روزۃ ٹوٹ جاتا ہے اورقضا و کفارہ دونوں لازم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر(۱) قصداً منہ بھر قے کرے، (۲) کلی کرتے ہوئے حلق میں پانی چلا جائے، (۳) عورت کو چھونے وغیرہ سے انزال ہوجائے، (۴) کوئی ایسی چیز نگل لے جو عادةً کھائی نہیں جاتی ، جیسے لکڑی، لوہا، کچا گیہوں کا دانہ وغیرہ، (۵) بیڑی، سگریٹ، حقہ پئے ، (۶) بھول کر کھانے کے بعد روزہ فاسد سمجھ کر قصداً کھالے یا پی لے، (۷) رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد سحری کھالے، (۸) دن باقی رہتے ہوئے آفتاب غروب سمجھ کر روزہ افطار کرلے، تو ان تمام صورتوں میں صرف قضا لازم ہے کفارہ نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fasting & Ramazan
Ref. No. 914/41-39
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If a woman fasted in the month of shawwal to makes up her missed fast days of Ramazan (obligatory fasts) with the intention of Qaza, she has fulfilled her religious obligation and also obtained the reward of fasting 6 days of shawwal. But the woman must intend only to make up what she has missed from Ramadan.
Nevertheless, if she is in a good health, it better to fast the 6 days of Shawwal (Voluntary fast) separately.
أَقُولُ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ صَامَ فِي يَوْمِ عَرَفَةَ مِثْلَ قَضَاءٍ أَوْ نَذْرٍ أَوْ كَفَّارَةٍ وَنَوَى مَعَهُ الصَّوْمَ عَنْ يَوْمِ عَرَفَةَ أَفْتَى بَعْضُهُمْ بِالصِّحَّةِ وَالْحُصُولِ عَنْهُمَا (انْتَهَى) (غمزعیون البصائر 1/150)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom waqf Deoband
نکاح و شادی
Ref. No. 1223/42-537
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر فلور ایک الگ مکان ہے، اور بیوی کو رہنے کے لئے وہ مکان کافی بھی ہے اور شوہر کے گھر والوں کی اس میں کوئی مداخلت بھی نہیں ہے ، تو ایسی صورت میں بیوی کا الگ سے ایک گھر کا مطالبہ شرعا جائز نہیں ہے۔ شریعت میں رہایش کا انتظام کرنے سے یہی مراد ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں ہے۔ اپنی ازدواجی زندگی کی حفاظت کے لئے بشرط استطاعت اور مصلحت ، الگ سے مکان دینے کی گنجائش ہے تاہم والدین کی خدمت اور حسن سلوک کو ہرگز ترک نہ کرے۔
"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك (الھندیہ / الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)
إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك". (شامی / مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد)
وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدين إحسانا (القرآن: 17/23) لا طاعة في معصية، إنما الطاعة في المعروف (صحیح البخاری 9/88 الرقم 7257)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1575/43-1111
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماں کے دودھ کی طرح بکری اور گائے کا دودھ بھی مفید ہوسکتاہے، اس سلسلہ میں ڈاکٹر سے بات کرلی جائے، تاہم اگر کوئی دوسری صورت نہ ہو تو بدرجہ مجبوری ماں کا دودھ بقدر ضرورت کچھ دنوں تک اس طرح پلایاجاسکتاہے۔
’’وتكره ألبان الأتان للمريض وغيره، وكذلك لحومها، وكذلك التداوي بكل حرام، كذا في فتاوى قاضي خان. ... يجوز للعليل شرب الدم والبول وأكل الميتة؛ للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن شفاءه فيه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه‘‘. (الھندیۃ 5/355)
"مطلب في التداوي بالمحرم: قوله: اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله: لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ.
أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لايحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل (قوله: وظاهر المذهب المنع) محمول على المظنون كما علمته (قوله: لكن نقل المصنف إلخ) مفعول نقل قوله: وقيل: يرخص إلخ والاستدراك على إطلاق المنع، وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك. ونص ما في الحاوي القدسي: إذا سال الدم من أنف إنسان ولاينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلا يرخص له فيه؛ وقيل: يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى. اهـ (قوله: ولم يعلم دواء آخر) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي، إلا أنه يفاد من قوله كما رخص إلخ؛ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط. قال: ونقل الحموي أن لحم الخنزير لا يجوز التداوي به وإن تعين، (شامی 1/210)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1644/43-1224
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معاملہ کرتے وقت جب اینٹ کی صفت وغیرہ بیان کردی گئی، اور جب اینٹیں تیار ہوگئیں تو چمنی کے مالک نے آپ کے حصہ کی اینٹیں الگ کردیں، تو آپ کی چیز متعین ہوگئی ، اور یہ تعیین ہی قبضہ کے قائم مقا م ہوگی، مبیع کو بیچنے سے پہلے دیکھنا ضروری نہیں ہے۔ پھر چمنے والے نے آپ کا وکیل بن کر اینٹیں بیچ دیں، اس لئےمذکورہ معاملہ درست ہے اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں۔ بظاہر اس پورے معاملہ کوئی بھی چیز مفضی الی النزاع بھی نہیں ہے۔
لأن القبض في المجلس لا يشترط إلا في الصرف وهو بيع الأثمان بعضها ببعض أما ما عداه فإنما يشترط فيه التعيين دون التقابض كما يأتي (شامی، مطلب فی الابراء عن الربوا 5/172)
نظر الوكيل بالقبض كنظر الرسول في أنه لا يسقط الخيار، قيد بالوكيل بالقبض؛ لأنه لو وكل رجلا بالرؤية لا تكون رؤيته كرؤية الموكل اتفاقا كذا في الخانية إلخ ما ذكره الشارح ابن ملك، والمسألة في المتون وأطال فيها في البحر فراجعه۔ وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)
قلت: لا يخفى أن الإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة فالبيع في الحقيقة من المشتري، ولذا قال في جامع الفصولين: شراه ولم يقبضه حتى باعه البائع من آخر بأكثر فأجازه المشتري لم يجز؛ لأنه بيع ما لم يقبض. اهـ. فاعتبره بيعا من جانب المشتري قبل قبضه فافهم، وظاهره أنه يبقى على ملك المشتري بالأول، ويأتي تمامه في فصل التصرف في المبيع.(شامی، مطلب فی بیع المرھون 5/111)
وصحة القبض بأحد الأمرين إما بالتخلية كما في المنقول وغيره أو بحقيقة القبض كما في المنقول وجه قول محمد عموم النهي وهو ما روي أنه «- عليه الصلاة والسلام - نهى عما لم يقبض» وهو بعمومه يشمل المنقول والعقار جميعا ولأن بيع المنقول قبل القبض لا يجوز فكذا غير المنقول؛ لأن عدم القبض موجود فيهما جميعا ولأن المقصود من البيع الربح وربح ما لم يضمن منهي شرعا والنهي يقتضي الفساد فيكون البيع فاسدا قبل القبض كما في المنقول؛ لأنه لم يدخل في ضمانه، ولهذا لا يجوز إجارته قبل القبض اهـ (قوله ولهما أنه لا يتوهم انفساخ العقد فيه) والأصل فيه أن ما لا ينفسخ العقد فيه بالهلاك فالتصرف فيه جائز قبل القبض (تبیین الحقائق فصل بیع العقار قبل القبض 4/79)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1951/44-1857
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کی موت کے بعد اسکی بیوی کو سرکار کی جانب سے بطور تبرع ملنے والی پینشن خاص بیوی کے لئے ہی ہوتی ہے، اس میں دیگر لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے، اس لئے آپ کی والدہ اس مال کی مکمل مالک ہیں، وہ جیسے چاہیں تصرف کریں، اور جس کو چاہیں جتنا دیدیں، یہ ان کا اپنا اختیار ہے۔ ان پر کسی طرح کا کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہئے۔
"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم." (بدائع الصنائع، (کتاب الحدود ، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود جلد ۷ ص : ۵۷ ط : دار الکتب العلمیة) "لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص."( فتاوی شامی، (کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد ۵ ص : ۵۱ ط : دارالفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ایسے کام کی منت مانی جائے جو بذات خود معصیت ہو تو وہ منت منعقد ولازم نہیں ہوتی اور مذکورہ فی السوال منت (چادر چڑھانا وغیرہ) بذات خود معصیت ہے؛ اس لئے یہ منت منعقد ولازم نہیںہوگی، بلکہ ایسا کرنا بدعت وباعث گناہ ہوگا اور یہ سمجھنا کہ اس منت کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے کوئی پریشانی آ رہی ہے غلط ہے۔ گناہوں کے کام چھوڑ کر نیک کام کرنے کی پابندی کی جائے تو ان شاء اللہ پریشانیاں دور ہوں گی کوئی خاص پریشانی ہو تو کسی قریبی بزرگ سے مل کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔(۱)
(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الد المختارمع الرد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
لا یلزم النذر إلا إذا کان طاعۃ ولیس بواجب وکان من جنسہ واجب علی التعیین فلا یصح النذر بالمعاصي ولا بالواجبات إلخ۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر: ج ۱، ص: ۱۴۴)
واعلم أنہم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثۃ کون المنذور لیس بمعصیۃ کونہ من جنسہ واجب۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: فصل في النذر‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۴)… منہا أن یکون قربۃ فلا یصح النذر بما لیس بقربۃ رأسا کالنذر بالمعاصي بأن یقول للّٰہ عز شأنہ علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلانا أو أضربہ أو أشتمہ ونحو ذلک لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا نذر في معصیۃ اللّٰہ تعالٰی وقولہ: من نذر أن یعصي اللّٰہ تعالیٰ فلا یعصہ ولأن حکم النذر وجوب المنذور بہ ووجوب فعل المعصیۃ محال وکذا النذر بالمباحات من الأکل والشرب والجماع ونحو ذلک لعدم وصف القربۃ لاستوائہما فعلاً وترکاً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل وأما شرائط الرکن فأنواع‘‘: ج ۵، ص: ۸۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص346
متفرقات
Ref. No. 2426/45-3673
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ناموں کے آخرمیں اس طرح کاا ضافہ درست ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ہر جگہ کا یک عرف ہے، اور نام رکھنے کا ایک طریقہ ہے جس سے بعض مرتبہ اس علاقہ کی شناخت ہوتی ہے، اس لئے اس طرح نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2475/45-3763
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کنایہ کے طور پر استعمال شدہ الفاظ سے اگر طلاق کی نیت کی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ الفاظ ایسے ہوں جن میں طلاق کے معنی کا احتمال ہو، لہذا اگر بولنے والے نے ایسے الفاظ بولے جن میں طلاق اور سب و شتم کا کوئی معنی نہ ہو تو محض نیت کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں 'تین بات' سے تین طلاقیں مراد نہیں لی جاسکتی ہیں، اس لئے محض نیت کرنے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح. (اللباب في شرح الكتاب 3 / 44، کتاب الطلاق، ط؛ المکتبۃ العلمیہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند