حدیث و سنت

Ref. No. 1376/42-789

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  1۔عورتوں کے لئے لمبے بال رکھنا باعث زینت ہے، اور بلا ضرورت ان کو کاٹنا سخت منع ہے۔ تاہم اگر بال اس قدر لمبے ہوں کہ کمر سے نیچے  جارہے ہوں  اور بھدے معلوم ہوں ، تو کمر سے نیچے کے بالوں کو بقدر ضرورت  عورت کاٹ سکتی  ہے۔ 2۔  رات کو دھونا ضروری نہیں بلکہ صبح بھی دھوسکتے ہیں۔  3۔ ضرورت کس درجہ کی ہے، اس کی وضاحت ضروری ہے۔ اگر ضرورت زندگی کی بقاء سے متعلق ہے تو اس کی گنجائش ہوگی۔ 4۔ ایسی کوئی حدیث میری نظر سے نہیں گذری تاہم فتاوی کی کتابوں میں یہی مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ مسجد کے درختوں پر جو پھل آئیں  اس کو بیچ کر مسجد میں لگانا چاہئے۔

قال في الدر المختار نقلاً عن المجتي قطعت شعر رأسہا أثمت زاد في البزازیة وإن یأذن الزوج لأنہ لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق (الدر مع الرد: 5/288) غرس الاشجار في لا بأس بہ إذا کان فیہ نفع للمسجد، وإذا غرس شجراً في المسجد فالشجر للمسجد (الھندیۃ 2/477)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1497/42-968

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سب حصہ داروں کو ریٹ بتاکر بیچنا درست ہے۔ اور اس میں فائدہ  حاصل کرنا بھی درست ہے۔ خریدنے کے بعد جانور اس کی ملکیت ہے وہ نفع حاصل کرسکتا ہے، خریدنے والوں کو یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ وہ کتنا نفع لے رہا ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں جھوٹ بولنے سے گریز کرے، اور یہ نہ کہے کہ میں نے اتنے میں خریدا ہے بلکہ کہے کہ اتنے میں بیچ رہاہوں ۔

الثمن المسي ھو الثمن الذي یسمیہ و یعنیہ العاقدان وقت البیع بالتراضي سواء کان مطابقاً لقیمتہ الحقیقیة أو ناقصاً عنہا أو زائداً علیہا (شرح المجلة رستم، ط: اتحاد ۱/۷۳) المرابحة بیع بمثل الثمن الأول وزیادة ربح  - - -  والکل جائز  - - -  ولو باع شيئا مرابحة إن كان الثمن مثليا كالمكيل والموزون جاز البيع إذا كان الربح معلوما سواء كان الربح من جنس الثمن الأول أم لم يكن  - - - ومن اشترى شيئا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إذا زاد زيادة لا يتغابن الناس فيها فإني لا أحب أن يبيعه مرابحة حتى يبين.- - -  ويجوز أن يضم إلى رأس المال أجر القصار والصبغ والطراز والفتل والحمل وسوق الغنم والأصل أن عرف التجار معتبر في بيع المرابحة (ھندیة، الباب الرابع عشر فی المرابحۃ والتولیۃ 3/161)

ورجح في البحر الإطلاق وضابطه كل ما يزيد في المبيع أو في قيمته يضم درر واعتمد العيني وغيره عادة التجار بالضم (ويقول قام علي بكذا ولا يقول اشتريته) لأنه كذب (شامی، باب المرابحۃ والتولیۃ 5/136) إذ القيمة تختلف باختلاف المكان (ويقول قام علي بكذا ولم يقل اشتريته بكذا) كي لا يكون كاذبا (فتح القدیر، باب المرابحۃ والتولیۃ 6/498)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1761/43-1493

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جنت  کے معنی ٹھیک ہیں ، اس لئے نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم کسی صحابی اور کسی بزرگ نے اپنی بیٹی کا نام اس طرح نہیں  رکھا، حدیث میں اس کی نظیر بھی نہیں ملتی ہے، اس لئے  بہتر ہے کہ کسی صحابیہ کے نام پر بیٹیوں کا نام رکھاجائے۔   جنت کے معنی باغ کے ہیں اور آخرت میں ایمان والوں کا جو مسکن ہے اس کو جنت کہتے ہیں۔  

الجنۃ: الحدیقۃ ذات النخل والشجر ، الجنۃ: البستان، الجنۃ: دارالنعیم فی الاخرۃ، والجمع جنان (معجم الوسیط)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1971/44-1913

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ابالنے کے لئے رکھا ہوا پانی قلیل ہے، اس لئے اس میں نجس انڈا ڈالنے سے پانی ناپاک ہوجائے گا، البتہ انڈا پاک رہے گا اور اس کا چھلکا اتارنے کے بعد اس کو کھایا جاسکتاہے۔ نجاست کے اثرات انڈے  تک منتقل نہیں ہوتے ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 318):

"(و بول غير مأكول و لو من صغير لم يطعم) إلا بول الخفاش و خرأه ... (و خرء) كل طير لايذرق في الهواء كبط أهلي (و دجاج) أما ما يذرق فيه، فإن مأكولًا فطاهر و إلا فمخفف (و روث وخثي) أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور. و قالا: مخففة. و في الشرنبلالية قولهما أظهر.

(قوله: أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان) أراد بالنجاسة المغلظة؛ لأن الكلام فيها و لانصراف الإطلاق إليها كما يأتي، و لقوله و قالا: مخففة، وأراد بالحيوان ما له روث أو خثي: أي: سواء كان مأكولا كالفرس والبقر، أو لا كالحمام وإلا فخرء الآدمي وسباع البهائم متفق على تغليظه كما في الفتح والبحر وغيرهما فافهم. (قوله: وفي الشرنبلالية إلخ) عزاه فيها إلى [مواهب الرحمن] لكن في النكت للعلامة قاسم أن قول الإمام بالتغليظ رجحه في المبسوط وغيره اهـ ولذا جرى عليه أصحاب المتون".

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2145/44-2204

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی ناجائز کام میں براہِ راست استعمال کے لئے اپنا مکان یا زمین دینا گناہ کے کام میں تعاون کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔ اس لئے فلم بنانے کے لئے اور  شوٹنگ  کے لئے کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے، البتہ  فلم والوں کی رہائش کے لئے یا کھانا بنانے کے لئے کرایہ پر دینے کی گنجائش ہے۔

تَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ. الْمَآئِدَة، 5: 2

وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤَاجِرَ الْمُسْلِمُ دَارًا مِنْ الذِّمِّيِّ لِيَسْكُنَهَا فَإِنْ شَرِبَ فِيهَا الْخَمْرَ، أَوْ عَبَدَ فِيهَا الصَّلِيبَ، أَوْ أَدْخَلَ فِيهَا الْخَنَازِيرَ لَمْ يَلْحَقْ الْمُسْلِمَ إثْمٌ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُؤَاجِرْهَا لِذَلِكَ وَالْمَعْصِيَةُ فِي فِعْلِ الْمُسْتَأْجِرِ وَفِعْلُهُ دُونَ قَصْدِ رَبِّ الدَّارِ فَلَا إثْمَ عَلَى رَبِّ الدَّارِ فِي ذَلِكَ. (سرخسى، المبسوط، 16: 39، بيروت: دارالمعرفة) (الشيخ نظام و جماعة من علماء الهنديه، الفتاویٰ الهنديه، 4: 450، بيروت: دارالفکر)

وَمَنْ أَجَّرَ بَيْتًا لِيُتَّخَذَ فِيهِ بَيْتُ نَارٍ أَوْ كَنِيسَةٌ أَوْ بِيعَةٌ أَوْ يُبَاعُ فِيهِ الْخَمْرُ بِالسَّوَادِ فَلَا بَأْسَ بِهِ.(مرغيناني، الهداية، 4: 94، المکتبة الاسلاميه)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2270/44-2430

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ختنہ ہوا ہو تو عضو تناسل کے ظاہری حصہ کا دھونا فرض ہے، اس کے اندرونی حصہ میں پانی پہنچانا فرض نہیں ہے۔  اور اگر ختنہ نہیں ہوا ہے تو چمڑے کو اوپر چڑھاکر سپاری کو دھونا ضروری ہے لیکن پیشاب کے راستہ میں  پانی داخل کرنا ضروری نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مرنے کے بعد آدمیوں کی جگہ علین ہے یا سجین ہے، نیک لوگوں کی روحیں علین میں رہتی ہیں اور بدکاروں کی روحیں سجین میں رہتی ہیں (۱) ان مقررہ جگہوں سے روحوں کی دنیا میں واپسی نہیں ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شہید فی سبیل اللہ شہادت کے قیام و مرتبہ کو دیکھنے کے بعد دوبارہ دنیا میں لوٹنے کی تمنا کرتا ہے کہ پھر لڑکر اور شہید ہوکر دوبارہ شہادت کا مرتبہ حاصل کروں؛ لیکن شہید کو بھی دنیا میں دوبارہ واپسی کی اجازت نہیں ملتی، یہ جو گاہے بگاہے کچھ لوگوں کے حالات اور واقعات سننے میں آتے ہیں ان کو اگر جسمانی مرض اور بیماری کی کوئی قسم نہ مان لی جائے، تو ان کا حاصل یہ ہے کہ شیطان جس کو انسان کے بدن میں خون کی طرح دوڑنے تک کی قدت دی گئی ہے وہ بسا اوقات لوگوں کو گمراہ کرنے اور بدعقیدگی میں مبتلا کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے کہ کسی میں سرایت کرگیا اور کسی مشہور بزرگ کے حوالے دینے لگایا کسی پر سوار ہوگیا، اور برے آدمی کا حوالہ دینے لگا، اور پیشین گوئی کرنے لگا، جس سے سادہ لوحوں کو دھوکہ ہوجاتا ہے اور ذہنی خلفشار یا بدعقیدگی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ عبد الوہاب صاحب بھی ایسی ہی کوئی بات سن کر یا کوئی چیز دیکھ کر غلط فہمی میں مبتلاء معلوم ہوتے ہیں، ان کو مذکورہ صورت حال اگر بتلائی جائے تو وہ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ اپنی سوچ کی اصلاح کریں گے۔ ایسا سمجھنے والے کے لئے عقیدہ کی تعبیر صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ عقیدہ تو شرعی بنیاد پر ہوتا ہے، جب کہ اس کے لئے کوئی مذہبی اور شرعی بنیاد ہی نہیں؛ بلکہ یہ تو محض سنی سنائی بات ہے جس کو سن کر یا دیکھ کر متعین کرنا چاہئے۔(۱) (۱) {اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْأَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِہَا ج فَیُمْسِکُ الَّتِيْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْأُخْرٰی إِلٰٓی أَجَلٍ مُّسَمًّی ط إِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَأٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ہ۴۲} (سورۃ الزمر: ۴۲) قال: أما علیون فالسماء السابعۃ فیہا أرواح المؤمنین، وأما سجین فالأرض السابعۃ السفلیٰ وأرواح الکفار تحت جسد إبلیس۔ (ابن قیم الجوزي، ’’کتاب الروح، المسألۃ الخامسۃ عشرۃ، فصل: أرواح المؤمنین عند اللّٰہ تعالیٰ‘‘: ص: ۱۱۹) عن مسروق قال: سألنا عبد اللّٰہ عن أرواح الشہداء؟، ولولا عبد اللّٰہ لم یحدثنا أحد، قال: أرواح الشہداء عند اللّٰہ یوم القیامۃ في حواصل طیر خضر، لہا قنادیل معلقۃ بالعرش، تسرح في الجنۃ شاء ت، ثم ترجع إلی قنادیلہا فیشرف علیہم ربہم فیقول: ألکم حاجۃ؟ تریدون شیئا؟ فیقولون: لا، إلا أن نرجع إلی الدنیا فنقتل مرۃ أخری۔ (عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن: سنن دارمي، ’’کتاب الجہاد: باب أرواح الشہداء‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۲۴۵۴) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص246

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اوڑھنا اور لباس جوڑا وغیرہ کی یہ رسم ہندوانی رسم ہے، جو قابل ترک ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
فکم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص بغیر مخصص مکروہا۔ (سیاحۃ الفکر: ج ۳، ص
: ۳۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص454

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس رات قبرستان میں لائٹیں لگوانے اور کھانا تقسیم کرنے وغیرہ امور کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے؛(۱) تاہم یہ رات فضائل والی رات ہے، اس وجہ سے اپنے گھر پر نفل عبادات میں مشغول رہنا مستحب ہے؛ جب تک بشاشت ہو گھر میں عبادت کریں(۲) ورنہ سوجائیں، خرافات میں وقت ضائع نہ کریں۔

(۱) وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مستد لہا في الکتاب والسنۃ … ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب التشدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
(۲) عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ص : ۱۱۵، رقم: ۱۳۰۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص502

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزمل اس شخص کو کہتے ہیں جو بڑے کپڑے کو اپنے اوپر لپیٹ لے اور مدثر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو آدمی عام لباس کے اوپر سردی وغیرہ سے بچنے کے لئے لپیٹ لیتا ہے۔(۱) حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ میں کیا خوب فرق ہے۔
{یآ أیہا المزمل} اے کپڑے میں لپٹنے والے، {یا أیہا المدثر} اے لحاف میں لپٹنے والے۔

(۱) {یا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ} یعني الذي ضم علیہ ثیابہ، یعني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وذلک أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من البیت وقد لیس ثیابہ، فناداہ جبریل علیہ السلام: {یا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ} الذي قد تزمل بالثیاب وقد ضمہا علیہ۔ (أبو الحسن مقاتل بن سلمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ’’سورۃ مزمل:۱‘‘ ج ۴، ص: ۴۷۵)
والتزمیل: اللف في الثوب، ومنہ حدیث قتلی أحد: زملوہم بثیابہم، أي لفوہم فیہا، وفي حدیث السقیفۃ: فإذا رجل مزمل بین ظہرانیہم، أي مغطي مدثر، یعني سعد بن عبادۃ، وقال إمرؤ القیس: کبیر أناس في بجاد مزمل وتزملأ: تلفف بالثوب، وتدثر بہ، کازمل، علی أفعل، ومنہ قولہ تعالی: یا أیہا المزمل، قال أبو إسحاق: أصلہ المتزمل، والتاء تدغم في الزای لقربہا منہا، یقال: تزمل فلان،…  إذا تلفف بثیابہ۔ (محمد بن محمد، تاج العروس: ج ۲۹، ص: ۱۳۸)
وقال الفراء: في قولہ تعالی {یأیہا المدثر} یعني المتدثر بثیابہ إذا نام۔ وفي الحدیث: (کان إذا نزل علیہ الوحي یقول: دثروني دثرون) أي غطوني بما أدفأ بہ۔ وفي حدث الأنصار: (أنتم الشعار والناس الدثار) یعني أنتم الخاصۃ والناس العامۃ (ودثر الشجر) دثورا۔ (أورق) وتشعبت خطرتہ۔
(و) دثر (الرسم) وغیرہ۔ (درس) وعفا بہبوب الریاح علیہ، (کتداثر)، یقال: فلان جدہ عاثر، ورسمہ داثر۔
(و) عن ابن شمیل: دثر (الثوب) دثورا: (اتسخ۔ و) دثر (السیف)، إذا (صدیء، فہو داثر)، وہو البعید العہد بالصقال، وہو مجاز۔ (محمد بن محمد، تاج العروس: ج ۱، ص: ۲۸۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص53