Frequently Asked Questions
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 3054/46-4882
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسجد کا نظام عمومی چندہ سے چلتاہے تو متولی کی ذمہ داری ہے کہ اہل محلہ کو حساب وکتاب سے مطلع کرے، تاکہ مسجد کا نظام صاف و شفاف طریقہ پر جاری رہ سکے، تاہم اگر اتفاق سے امام نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے نماز پڑھادی تو نماز ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3055/46-4883
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔دارالعلوم اور دارالعلوم وقف دونوں کے فتاوی میں کوئی تعارض نہیں ہے، دارالعلوم کے جس فتوی کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں حکم قضاء مذکورہے، جبکہ دارالعلوم وقف دیوبند کے فتوی میں جو حکم بیان کیاگیا ہے وہ دیانتا ہے، چنانچہ مذکورہ فتوی میں بھی یہ عبارت مذکور ہے، اما بینہ وبین اللہ تعالی ان کان کاذبا فیما امر لم تثبت الحرمۃ (ردالمحتار) دارالافتاء سے عموما دیانت پر ہی فتوی دیاجاتاہے، اگرچہ بعض حضرات طلاق جیسے مسائل میں قضاء پر بھی فتوی دیتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Masajid & Madaris
Ref. No. 3056/46-4877
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سرکاری زمین کو سرکار کی اجازت کے بغیر غصب کرکے اورناجائز قبضہ کرکے اس کو بیچنا جائز نہیں، اس کو جس نے خریدا وہ بھی مالک نہیں ہوا، پھر اس پر پر مکتب یا مدرسہ بنانا بھی جائز نہیں ہے۔ جب تک سرکار اجازت نہ دے اس کی زمین پر کسی کی ملکیت قائم نہیں ہوسکتی اور اس کو بیچا نہیں جاسکتاہے۔ جن لوگوں نے سرکاری زمین کو بیچا ان پر لازم ہے کہ خریدار کو پیسے واپس کریں، اور مدرسہ بنانے والوں کے لئے اس کو آگے بیچنا جائز نہیں ہے۔
"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين". (مشکاۃ المصابیح، باب الغصب والعارية، ج:1، ص:254، ط:قديمي)
"وذکر فی الواقعات: رجل بنی مسجدًا علی سور المدینة لا ینبغي أن یصلي فیه لأنه حق العامة فلم یخلص للہ تعالی کالمبني في أرض مغصوبة ولو فعله بإذن الإمام ینبغي أن یجوز فیما لا ضرر فیه یعني: في مسجد السور لأنه نائبهم." (غنیۃ المستملی، کتاب الوقف ،ص:615،ط: مکتبه اشرفیه)
"جعل شيء أي: جعل الباني شیئًا من الطریق مسجدًا لضیقه ولم یضر بالمارین جاز لأنهما للمسلمین۔۔ قولہ: ”لضیقہ ولم یضر بالمارین“ أفاد أن الجواز مقید بهذین الشرطین." (فتاوی شامی، كتاب الوقف،مطلب في الوقف إذا خرب ولم يمكن عمارته،ج:4،ص:377 ،ط:سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 3053/46-4878
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بغیر کسی عذر کے ٹیک لگاکر اٹھنا مکروہ ہے، اس لئے ایسا کرنے سے بچنا چاہئے، تاہم نماز ہوجائے گی۔ البتہ اگر کسی کو کوئی عذر ہے اور وہ بیڈ یا دیوار کے سہارے سے اٹھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، نماز بلا کراہت درست ہوگی۔
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: قوله: (بلا اعتماد إلخ): أي على الأرض. قال في الكفاية: أشار به إلى خلاف الشافعي في موضعين: أحدهما: يعتمد بيديه على ركبتيه عندنا وعنده على الأرض. والثاني: الجلسة الخفيفة. قال شمس الأئمة الحلواني: الخلاف في الأفضل حتى لو فعل، كما هو مذهبنا لا بأس به عند الشافعي، ولو فعل، كما هو مذهبه لا بأس به عندنا، كذا في المحيط. اهـ. قال في الحلية: والأشبه أنه سنة أو مستحب عند عدم العذر، فيكره فعله تنزيها لمن ليس به عذر. اهـ. وتبعه في البحر، وإليه يشير قولهم: لا بأس، فإنه يغلب فيما تركه أولى.(رد المحتار: 1/506)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: قوله: (وكبر للنهوض بلا اعتماد وقعود) لحديث أبي داود: "نهى النبي صلی اللہ علیہ وسلم أن يعتمد الرجل على يديه إذا نهض في الصلاة، وفي حديث وائل بن حجر في صفة صلاة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: "وإذا نهض نهض على ركبتيه واعتمد على فخذيه"، ولحديث الترمذي عن أبي هريرة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم: "كان ينهض في الصلاة على صدور قدميه". (البحر الرائق: 1/340)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 3042/46-4864
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب آپ نے توبہ کرتے ہوئے پچھلے تمام کفریہ کلمات سے توبہ کرلی تو ہر ایک کفریہ کلمہ کو دوہرانے اور اس سے توبہ کرنے کی ضرورت نہیں رہی، تمام کفریہ کلمات سے توبہ کرنے کے بعد تجدید ایمان و تجدید نکاح کرلینا تو یہ کافی ہوگیا۔ اگر کوئی کفریہ جملہ کہا اور وہ کفریہ جملہ یاد ہے تو اس کے مقابل ایمان والا جملہ کہہ کر توبہ کرلینا زیادہ بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3052/46-4920
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ کا حکم نیت کے اعتبار سے مختلف ہوگا۔ اگر مقصد عیب کو کھولنا اور کسی کو ذلیل کرنا ہے تو یہ عمل ناجائز اور حرام ہے، لیکن اگر مقصد کسی کی اصلاح و تربیت اور گناہ سے بچانا ہے تو یہ عمل جائز ہے۔ مذکورہ صورت میں کوشش کی جائے کہ براہ راست لڑکی کے گھروالوں کو ہی ثبوت فراہم کئے جائیں اور اگر یہ ممکن نہ ہوسوائے مذکورہ صورت کے توپھر اس کو بھی اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ بعد میں اس کو ڈیلیٹ کردیاجائے، اور حتی الامکان احتیاط سے کام لیاجائے ، حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ غیبت کا مقصد اگر اس کی اصلاح ہے تو اس پر غیبت کا اطلاق نہیں ہوگا۔الامور بمقاصدھا (الاشباہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Marriage (Nikah)
Ref. No. 3034/46-4928
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
As the husband uttered Kufriya words, he became infidel. Hence the marriage was annulled. However, with this annulment of the marriage, a divorce (Talaq e Bain) occurred on the woman, and Idah became obligatory on her. And if a divorce with clear words is given during her Iddah after the previous divorce (Talaq e Bain), the divorce will take place. Therefore, in the case mentioned in the question, if a clear divorce is given during the Iddah of annulment of the marriage, according to the Hanafi school, the divorce will take place as a punishment in an exceptional case.
وأما الفسخ: فهو نقض العقد من أصله، أو منع استمراره، ولا يحتسب من عدد الطلاق، ويكون غالبا في العقد الفاسد أو غير اللازم. وبه يتبين أن الفسخ يفترق عن الطلاق من ثلاثة أوجه: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الثالث: أثر كل منهما: الفسخ: لا ينقص عدد الطلقات التي يملكها الرجل، أما الطلاق فينقص به عدد الطلقات. وكذلك فرقة الفسخ لا يقع في عدتها طلاق، إلا إذا كانت بسبب الردة أو الإباء عن الإسلام، فيقع فيهما عند الحنفية طلاق زجرا وعقوبة. أما عدة الطلاق فيقع فيها طلاق آخر، ويستمر فيها كثير من أحكام الزواج. ثم إن الفسخ قبل الدخول لا يوجب للمرأة شيئا من المهر، أما الطلاق قبل الدخول فيوجب نصف المهر المسمى، فإن لم يكن المهر مسمى استحقت المتعة (تعويض بمثابة هدية۔ (الفقه الإسلامى و أدلته: (3153/4، ط: دار الفكر) ).الحیلة الناجزۃ: (ص: 119، ط: دار الاشاعت)
وارتداد أحدهما) أي الزوجين (فسخ) فلاينقص عددًا (عاجل) ... بلا قضاء ... وعليه نفقة العدة." قوله: بلاقضاء) أي بلا توقف على قضاء القاضي ...(قوله: و عليه نفقة العدة) أي لو مدخولًا بها إذ غيرها لا عدة عليها. وأفاد وجوب العدة سواء ارتد أو ارتدت بالحيض أو بالأشهر لو صغيرة أو آيسة أو بوضع الحمل، كما في البحر." (رد المحتار3/ 193ط:سعيد) (الحیلۃ الناجزہ، ص۲۰۸)
یقع طلاق زوج المرتدۃ وزوج المسلمۃ الآتی بعد التفریق علیھما مادامتا فی العدۃ، اما فی الاباء فلان الفرقۃ بالطلاق واما فی الردۃ فلان الحرمۃ بالردۃ غیر متابدۃ فانھا ترتفع بالاسلام فیقع طلاقہ علیھا فی العدۃ مستتبعا فائدتہ فی حرمتھا علیہ بعد الثلاث حرمۃ معیاۃ بوطئ زوج آخر۔ (فتح القدیر، باب نکاح اھل الشرک، ج3، ص 420)
و فی مسئلۃ الردۃ لوکان ھو المرتد ففی کونہ فسخا خلاف ابی یوسف، اما رتھا ففسخ اتفاقا ھذا ولکن سیاتی فی آخر کنایات الطلاق ان المرتد اذا لحق بدارالحرب وطلقھا فی العدۃ لم یقع طلاقہ لانقطاع العصمۃ فان عاد وھی فی العدۃ وقع الی آخر ما نقلہ عن البدائع الخ۔ (البحرالرائق، کتاب الطلاق، ج3 ص 255)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Fiqh
Ref. No. 3049/46-4860
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمیں اس ڈرنک کے بارے میں تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ کسی بھی ڈرنک میں اگر اس کے مشمولات پاک اور حلال ہوں تو ان کا استعمال جائز ہوتاہے، اگر آپ کو کسی ڈرنک میں ناپاکی یا حرام کایقین نہ ہو تو اس کو استعمال کرسکتے ہیں تاہم اگر شبہہ ہو تو احتراز کرنا بہتر ہے۔" اعلم أن الأصل في الأشياء كلها سوى الفروج الإباحة قال الله تعالى {هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا} [البقرة: ٢٩] وقال {كلوا مما في الأرض حلالا طيبا} [البقرة: ١٦٨] وإنما تثبت الحرمة بعارض نص مطلق أو خبر مروي فما لم يوجد شيء من الدلائل المحرمة فهي على الإباحة." (مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر كتاب الأشربة،ج:2،ص:568،ط: دار إحياء التراث العربي)
حكم الأطعمة:الأصل في جميع الأطعمة الحل إلا النجس، والضار، والخبيث، والمسكر، والمخدر، وملك الغير.فالنجس كله خبيث وضار، فهو محرم." (موسوعۃ الفقہ الاسلامی، الباب الثالث عشر كتاب الأطعمة والأشربة،باب الأطعمة،ج:4،ص:283،ط:بیت الافکار الدولیۃ)
"كل شيء كره أكله والانتفاع به على وجه من الوجوه فشراؤه وبيعه مكروه، وكل شيء لا بأس بالانتفاع به فلا بأس ببيعه". (الوجیز فی ایضاح القواعد الفقہیۃ الکلیۃ، المقدمة السابعة: نشأن القواعد الفقهية وتدوينها وتطورها،ج:1،ص:52،ط:مؤسسة الرسالة العالمية) واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Games and Entertainment
Ref. No. 3048/46-4884
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہیمسٹر کومبیٹ سے پیسہ کمانے کی جو تفصیل آپ نے لکھی ہے کہ اس میں پیسے لگانے نہیں پڑتے ہیں اور اسکرین پر نظر آنے والے دائرہ پر بٹن دباکر کمپنی کی طرف سے کچھ کوائن دئے جاتے ہیں پھر کچھ سوالوں کے جوابات وغیرہ امور کے بعد کوائن کو اپنے اکاونٹ میں بھی ٹرانسفر کیاجاسکتاہے۔ اس پورے معاملہ میں اصولی طور پر کوئی خرابی معلوم نہیں ہوتی ہے، بشرطیکہ کمپنی کا اکثر سرمایہ اور ذریعہ آمدنی حلال ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 3047/46-4862
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کپڑے ناپاک ہوں تو ان کی نجاست کو پہلے دھولیاجائے پھر مشین میں پاک کپڑوں کے ساتھ ڈالاجائے ، اور اگر پاک اور ناپاک کپڑے سب ایک ساتھ مشین میں دھوئے جائیں ، اور کھنگالتے وقت تمام کپڑوں کو تین بار پانی میں ڈال کر نچوڑ لیا جائے یا تمام کپڑوں کو واشنگ مشین میں اچھی طرح دھو لیا جائے، پھر اِسپینر مشین جس میں گھمانے سے کپڑے اچھی طرح نچوڑ جاتے ہیں اس میں کپڑوں کو ڈال دیا جائے، اور اِسپینر کے اوپر صاف پانی کا پائپ لگاکر اتنی دیر چلایا جائے کہ گندے پانی کی جگہ صاف پانی نیچے پائپ سے آنا شروع ہوجائے، تو یہ کپڑے پاک ہوجائیں گے، یہ عمل ایک مرتبہ کرنا بھی مفید طہارت ہوگا، مشین سے تین بار نچوڑنا یا اسی طرح اس کو ہاتھ سے نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔ اگر کپڑوں کو اس طرح دھوکر پہناگیا ہے تو اس میں نماز درست ہوگئی اور اگر ناپاک کپڑے صرف ایک یا دوبار مشین میں دھوکر بغیرپانی ڈالےنچوڑدئے گئے تو پاک شمار نہیں ہوں گے اور نمازیں لوٹانی ہوں گی۔
یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثاً إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتى جرى عليه الماء أو صب عليه ماءً كثيراً بحيث يخرج ما أصابه من الماء ويخلفه غيره ثلاثاً فقد طهر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار، والمعتبر فيه غلبة الظن، هو الصحيح، كما في السراج، ولا فرق في ذلك بين بساط وغيره، وقولهم يوضع البساط في الماء الجاري ليلةً إنما هو لقطع الوسوسة''۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 161)
"لَوْ غُسِلَ فِي غَدِيرٍ أَوْ صُبَّ عَلَيْهِ مَاءٌ كَثِيرٌ، أَوْ جَرَى عَلَيْهِ الْمَاءُ طَهُرَ مُطْلَقًا بِلَا شَرْطِ عَصْرٍ وَتَجْفِيفٍ وَتَكْرَارِ غَمْسٍ هُوَ الْمُخْتَارُ". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين: 1/333، باب الانجاس، ط؛ سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند