Frequently Asked Questions
Business & employment
Ref. No. 1106 Alif
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Since re-selling tickets in this way (black) is against the law of the country too, it is not allowed to do so. Involving greatly in games and other useless things is avoidable.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 38 / 930
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: خاموش رہنا بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال واضح نہیں ہے، اس لئے دوبارہ صحیح صورت حال لکھ کر مسئلہ معلوم کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/889
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قادیانیوں کے عقائد کفریہ کی بناء پر ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اگر پڑھ لی تو اعادہ لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1378/42-800
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follow:
Such confusions are due to poor understanding of meaning of the hadith. In some narrations the word ‘al-sareer’ is mentioned instead of ‘al-Arsh’. And al-sreer’ means ‘the bed’. So the hadith means that it was the bed of Hazrat Saad's funeral which began to shake.
The second meaning is that the meaning ofاھتز or ‘shook’ is not ‘to move’; rather it means ‘it became happy’. Such symbolic meanings are found in Arabic terms. Now the meaning of the hadith is that on the death of Hazrat Saad ibn Mu'az, the Throne of the Rahman rejoiced.
In the same way, the happiness of the Throne here means the happiness of the angels who carry the Throne of Rahman. So the hadith means: on the death of Hazrat Saad bin Mu'adh, the angels—who carry the Throne of Allah—rejoiced. Now there is no objection on the hadith.
The rejoicing of Rahman can also be meant, because Allah, the Exalted rejoices the meeting with a pious believer, and it is through the death that a man can meet Allah.
قوله: (اهتز (1) العرش لموت سعد)، وفي بعض الروايات: لفظ السرير، وبينهما فرق، فإن الاهتزاز على الثاني، اهتزاز سريره الذي كان نعشه عليه. وعلى الأول، فهو إما للفرحة والمسرة لقدومه إلى حضرة الربوبية، أو لمساءة موته. (فیض الباری، باب مناقب سعد بن معاذ 4/503) الاهتزاز: الاستبشار والسرور، يقال: "إن فلانا ليهتز للمعروف" أي يستبشر ويسر. "إن فلانا لتأخذه للثناء هزة"، أي ارتياح وطلاقة. ومنه قيل في المثل: "إن فلانا إذا دعي اهتز، وإذا سئل، ارتز"1. والكلام لأبي الأسود الدؤلي، يريد: أنه إذا دعي إلى طعام يأكله اهتز، أي: ارتاح وسر. وإذا سئل الحاجة، ارتز: أي ثبت على حاله ولم يطلق. فهذا معنى الاهتزاز، في هذا الحديث. وأما العرش، فعرش الرحمن، جل وعز، على ما جاء في الحديث. وإنما أراد باهتزازه، استبشار الملائكة الذين يحملونه ويحفون حوله، بروح سعد بن معاذ. (تاویل مختلف الحدیث، قال احکام قد اجمع علیھا 1/387)
الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب-(الحدیث)۔ یا ایتھا النفس المطمئنۃ الرجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی (سورۃ الفجر20)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Usury / Insurance
Ref. No. 1498/42-000
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Medical insurance has been declared illegal by the jurists even in the present age. The entire amount deposited in the insurance company is usually lost, it is not refunded. However, the company cooperates in certain conditions when needed. Any dealing that ensures either profit or loss for the parties is gambling in Shari'ah terms. Since it is like usury and gambling which are strictly forbidden by the Shari'ah, it is not permissible.
Also, all the taxes paid by the father in his lifetime has already gone to the government. The son had no right over it before, nor does he have too. Hence, it is not permissible for the son to take insurance in its name. The insurance which is mandatory and legally required by the government and the person has no choice but to opt for it, it is permissible; while we do not know any such law on medical insurance.
وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة (معالم التنزیل ۲: ۵۰) ، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص (شامی، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء، فصل في البیع ۹: ۵۷۷، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)۔
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:صور نور کا بنا ہوا ایک سینگ ہے، جس میں پھونک ماری جائے گی۔ ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت فرمایا ’’ما الصور‘‘ صور کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’قرنِ ینفخ فیہ‘‘ ایک سینگ ہے کہ جس میں پھونک ماری جائے گی۔(۱) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک معنی نر سنگھا ہے۔(۲)
(۱) فقد أخرجہ الترمذي عن عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص -رضي اللّٰہ عنہما- قال: جاء أعرابي إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: ما الصور؟ قال قرن ینفخ فیہ۔في سننہ، ’’أبواب الزہد عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في الصور‘‘: ج ۲، ص: ۶۹، رقم: ۲۴۳۰)
(۲) عن عبد اللّٰہ بن عمرو -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال أعرابي: یا رسول اللّٰہ ما الصور؟ قال: قرن ینفخ فیہ۔ (أحمد بن حنبل، في مسندہ، عبد اللّٰہ بن عمرو - رضي اللّٰہ عنہ-: ج ۱۱، ص: ۵۳،رقم: ۶۵۰۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص245
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ رسم ورواج خلاف شریعت ہے، اس کی کوئی اصل حضور صلی اللہ علیہ سلم اور حضرات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں نہیں ملتی، چوںکہ لوگ ہندوستانی قوم کے ہیںاور بعد میں ایمان لائے، ان کے اندر کفریہ رسمیں موجود ہیں، جن کو ترک کرنا ضروری ہے، ایسی ہی رسوم کی پابندیوں نے ہمارے سماج کو بگاڑ دیا ہے، اس لئے زید کا قول درست ہے، اس پر عمل کرنا چاہئے۔ (۱)
ہندوستان میں اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا اور نہ ہی کوئی بادشاہ اس مقصد سے ہندوستان آیا اور جن کی سالہا سال حکومت رہی، انہوںنے بھی اس طرف توجہ نہیں دی؛ بلکہ بزرگوں اور صوفیوں کے ذریعہ یہاں اسلام پھیلا، ان حضرات نے اسلام لانے والوں کو فرائض، واجبات، سنن واذکار واشغال کی تعلیم تو دی؛ لیکن ان قوموں میں جو غیر اسلامی برادری کی رسمیں تھیں وہ بھی ان میں جاری رہیں، سماج کی اصلاح کی سعی کی طرف سے غفلت رہی، یہی وجہ ہے کہ اب بھی برادری اور خاندانی غیرشرعی رسمیں بعض قوموں اور برادریوں میں رائج ہیں۔ مذکورۃ السوال رسوم بھی انہی میں سے ہیں۔ جن کا بند کرنا اور سماج کی اصلاح ضروری ہے اور ایسا کرنا باعث اجر وثواب بھی ہے۔ (۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
(۱) فکم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص بغیر مخصص مکروہا۔ (سیاحۃ الفکر: ج ۳، ص: ۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص453
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پندرہویں شعبان کی رات میں انفرادی طور پر دعاء، تلاوت، نماز وغیرہ عبادات میں مشغول ہونے اور دن میں روزہ رکھنے کی فضیلت روایات سے ثابت ہے۔
’’عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا فإن اللّٰہ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر، رواہ ابن ماجہ‘‘(۱)
اس وجہ سے دیگر راتوں کے مقابلہ میں اس رات کی نوافل کا ثواب زیادہ ہے۔اس کے علاوہ دیگر خرافات اور بدعات جو آج کل شروع ہوگئی ہیں، مثلاً: حلوہ پکانا، چراغاں کرنا، رات بھر جاگ کرمسجد اور قبرستان میں شور شرابہ کرنا یہ سب خلاف شریعت امور ہیں۔(۲) قبرستان جانا بھی حدیث سے ثابت ہے؛ اس لیے اگر کبھی چلاجائے، تو حرج نہیں تاہم اس کو رسم نہ بنایا جائے اور قبرستان کے تقدس کی پامالی اور شور وغل سے اجتناب کیا جائے، قبرستان جانے کا مقصد تذکیر آخرت اور اہل قبور کے احوال سے عبرت حاصل کرنا ہی ہو۔(۳)
(۱) مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۲) السراج الکثیر الزائد عن الحاجۃ لیلۃ البراء ۃ ہل یجوز؟ … ہو بدعۃ۔ (نفع المفتي والسائل: ص: ۱۳۸)
من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من قام لیلۃ النصف من شعبان ولیلتی العیدین لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب‘‘ ومعنی القیام أن یکون مشتغلا معظم اللیل بطاعۃ وقیل بساعۃ منہ یقرأ أو یسمع القرآن أو الحدیث أو یسبح أو یصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ بصلاۃ العشاء جماعۃ والعزم علی صلاۃ الصبح جماعۃ کما في إحیاء لیلتی العیدین، وقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ لیہ وسلم: من صلی العشاء في جماعۃ فکأنما قام نصف اللیل، …بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ: پر…
ومن صلی الصبح في جماعۃ فکأنما قام اللیل کلہ (رواہ مسلم) ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي المتقدم ذکرہا في المساجد وغیرہا لأنہ لم یفعلہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا الصحابۃ، فأنکرہ أکثر العلماء من أہل الحجاز: منہم عطاء وابن أبي ملیکۃ وفقہاء أہل المدینۃ وأصحاب مالک وغیرہم وقالوا: ذلک کلہ بدعۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد، وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۲)
(۳) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم- کلما کان لیلتہا من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخرج من آخر اللیل إلی البقیع۔ فیقول: السلام علیکم دار قوم مؤمنین، وأتاکم ما توعدون غدا، مؤجلون، وإنا إن شاء اللّٰہ بکم لاحقون، اللّٰہم اغفر لأہل بقیع الغرقد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في التسلیم علی أہل القبور والدعاء والاستغفار لہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۳، رقم: ۹۷۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص500
اسلامی عقائد
Ref. No. 2563/45-3962
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مساجد میں اہل سنت والجماعت کے باشرع اور متدین علماء کو مدعو کرنا چاہئے، جن کے افکار علماء دیوبند سے قریب تر ہوں زیادہ بہتر ہے ۔ ایسے لوگوں کو بلانا جن کے افکار میں انحراف و اعتزال ہو درست نہیں ہے۔ اس میں عوام الناس فکری انتشار وانحراف میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ علماء دیوبند داڑھی کے سلسلہ میں متشدد ہیں وہ غلطی پر ہیں ، داڑھی تو تمام انبیاء کرام کی مشترکہ سنت ہے، اور داڑھی کا کاٹنا ائمہ اربعہ کے مطابق ناجائز ہے، اس میں علماء دیوبند کی تخصیص کیا ہے۔؟
عن عائشۃ قالت: قال رسول اللہ ﷺ عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ (صحیح مسلم 1/223) کان حلق اللحیۃ محرما عند ائمۃ المسلمین المجتھدین ابی حنیفۃ ومالک والشافعی واحمد وغیرھم (المنھل العذب المورود 1/186)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند