اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہماری نظر سے کوئی ایسی حدیث نہیں گزری جس میں کسی خاص نماز کے پڑھنے کا حکم دیا ہو صرف روزہ مشروع ہے۔(۱)

(۱) ومن البدع التي أحدثوہا في ہذا الشہر الکریم إن أول لیلۃ جمعۃ منہ یصلون في تلک اللیلۃ في الجوامع والمساجد وصلوٰۃ الرغائب إلخ۔ (أبو عبد اللّٰہ الشہیر بابن الحجاج، المدخل، ’’من البدع المحدثۃ في الجمعۃ الأولیٰ من رجب‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳)
یستحب صوم یوم عاشوراء ویستحب أن یصوم قبلہ یوماً وبعدہ یوماً۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصوم: باب صوم التطوع، الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۴۶۹۸، رقم: ۲۰۴۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص471

اسلامی عقائد

Ref. No. 1612/43-1165

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت بالا میں آیت "ولا نساء من نساء عسیٰ ان یکن خیر منھن" میں  عسی کی جگہ حتی پڑھنے سے معنی میں کوئی بڑی خرابی پیدا نہیں ہوئی، اس لئے نماز  درست ہوجائے گی۔    لوٹانے کی ضرورت نہیں۔

 (ومنها) ذكر كلمة مكان كلمة على وجه البدل إن كانت الكلمة التي قرأها مكان كلمة يقرب معناها وهي في القرآن لا تفسد صلاته نحو إن قرأ مكان العليم الحكيم وإن لم تكن تلك الكلمة في القرآن لكن يقرب معناها عن أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - لا تفسد وعن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - تفسد نحو إن قرأ التيابين مكان التوابين وإن لم تكن تلك الكلمة في القرآن ولا تتقاربان في المعنى تفسد صلاته بلا خلاف إذا لم تكن تلك الكلمة تسبيحا ولا تحميدا ولا ذكرا وإن كان في القرآن ولكن لا تتقاربان في المعنى نحو إن قرأ وعدا علينا إنا كنا غافلين مكان فاعلين ونحوه مما لو اعتقده يكفر تفسد عند عامة مشايخنا وهو الصحيح من مذهب أبي يوسف - رحمه الله تعالى -. هكذا في الخلاصة (الھندیۃ، الفصل الخامس فی زلۃ القاری 1/80)

فالأصل فيها عند الإمام ومحمد رحمهما الله تعالى تغير المعنى تغيرا فاحشا وعدمه للفسا وعدمه مطلقا سواء كان اللفظ موجودا في القرآن أو لم يكن وعندأبي يوسف رحمه الله إن كان اللفظ نظيره موجودا في القرآن لا تفسد مطلقا تغير المعنى تغيرا فاحشا أو لا وإن لم يكن موجودا في القرآن تفسد مطلقا (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، باب ما یفسد الصلوۃ 1/339)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس فعل کی وجہ سے وہ میاں، بیوی اور بت کی پوجاکی ترغیب دینے والا یہ تینوں دائرۂ اسلام سے خارج ہوگئے۔ ایمان ونکاح دونوںکی تجدید ان پر لازم ہے۔ (۱)

(۱) تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتي تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین، توبۃ الزندیق‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)

إن رجلا قال: یا رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- نسلِّم علیک کما یسلم بعضنا علی بعض أفلا نسجد لک قال: لا ولکن أکرموا نبیکم وأعرفوا الحق لأہلہ فإنہ لا ینبغي أن یسجد لأحد من دون اللّٰہ۔ (جلال الدین السیوطي، الدر المنثور: ج ۲، ص: ۲۵۰؛ سورۃ آل عمران: ۷۹)

من سجد للسلطان علی وجہ التحیۃ أو قبّل الأرض بین یدیہ لا یکفر ولکن یأثم لارتکابہ الکبیرۃ ہو المختار قال الفقیہ أبو جعفر رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: إن سجد للسلطان بنیۃ العبادۃِ أو لم تحضرہ النیۃُ فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب الثامن والعشرون في ملاقاۃ الملوک‘‘: ج ۵، ص: ۴۲۵)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امی کے معنیٰ انپڑھ کے نہیں ہیں؛ بلکہ امی اس کو کہتے ہیں جس نے کسی شخص سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود علم عطاء فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امی کہنا درست ہے۔ (۱) البتہ اگر کسی جگہ پر لوگ اس کا مفہوم نہ جانتے ہوں اور اس کے معنی ان پڑھ اور جاہل کے سمجھتے ہوں یا یہ کلمہ استحفاف کے طور پر بولا جاتا ہو تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

(۱) {اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِيْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِي التَّوْرٰئۃِ وَالْإِنْجِیْلِز یَأْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰئہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ إِصْرَھُمْ  وَالْأَغْلٰلَ الَّتِيْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط} (سورۃ الأعراف: ۱۵۷)
الأمي یعني محمدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم منسوب إلی الأم یعني ہو علی ما ولدتہ أمہ لم یکتب ولم یقرأ۔ (محمد ثناء اللّٰہ، تفسیر مظہري’’سورۃ الأعراف: ۱۵۷‘‘: ج ۳، ص: ۴۴۲)
أیضاً: رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أعلم الخلق قاطبۃ بالعلوم ……… ما لم یصل إلی سرادقات ساحتہ أحد من الخلائق لا ملک مقرب ولا نبي مرسل ولقد أعطي علم الأولین والآخرین الخ۔ (خلیل أحمد سہارنفور، المہند علی المفند: ص: ۶۶)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 194

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دسویں محرم (عاشوراء) کے دن اعلان کے ساتھ مسجد میں نوافل پڑھنے کا اہتمام و التزام (جس طرح سوال میں مذکور ہے) آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور فرمان سے یا حضرات صحابہؓ یا تابعین و تبع تابعین و ائمہ دین ؒ سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے یہ طریقہ ممنوع اور بدعت ہوگا اور قابل ترک ہوگا کہ یہ سب کچھ خلاف سنت اور ناجائز ہے۔(۱) سنت صرف روزہ رکھنا ہے(۲) باقی سب کچھ بے اصل ہے۔ باقی رہی نفل نماز ان مذکورہ حضرات کے ایصال ثواب کے لئے وہ کبھی بھی اور کسی وقت بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔

(۱) ومن البدع التي أحدثو ہا في ہذا الشہر الکریم إن أول لیلۃ جمعۃ منہ یصلون في تلک اللیلۃ في الجوامع والمساجد وصلوٰۃ الرغائب ویجتمعون في بعض جوامع الأمصار إلخ۔ (أبو عبد اللّٰہ الشہیر بابن الحجاج، المدخل، ’’المواسم التي ینبونہا إلی شرع ولیست منہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳)
(۲) یستحب صوم یوم عاشوراء ویستحب أن یصوم قبلہ یوماً وبعدہ یوماً۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصوم: باب صوم التطوع، الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۴۶۹، رقم: ۲۰۴۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص472

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں زید نے اگر اعتقاداً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ کہا تھا تو وہ مرتد ہوگیا اور اس کی بیو ی نکاح سے خارج ہوگئی تھی(۱) لیکن چونکہ اب وہ اپنے قول کا منکر ہے۔ اور یہ انکار توبہ اور اپنے قول سے رجوع ہے۔ اس لئے اس سے کچھ تعرض نہ کیا جائے اور حسب ضرورت اس کو سمجھایا جائے اگر اس کے ذہن میں کوئی خلجان ہو تو تسلی بخش جواب دیا جائے البتہ تجدید نکاح ضروری ہے۔

۱) شہدوا علی مسلم بالردۃ وہو منکر لا یتعرض لہ، لا لتکذیب الشہود العدول بل لأن إنکارہ توبۃ ورجوع یعني فیمتنع القتل فقط، وتثبت بقیۃ أحکام المرتد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: جملۃ من لا یقتل إذا ارتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۹۰)
وفي البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لا عبا کفر عند الکل ولا اعتبار باعتقادہ … ومن تکلم بہا عالما عامداً کفر عند الکل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 195

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:انسان اپنے عمل میں مختار ہے اس کو حق حاصل ہے کہ اگر چاہے تو اپنے عمل کا ثواب صاحب ایمان بزرگوں کی ارواحِ مبارکہ کو پہونچائے مگر اس کے لیے دن اور وقت اور مہینہ مقرر کرنے کو ضروری سمجھنا بدعت ہے اور ہر وہ چیز جس پر صاحب شریعت کی طرف سے ترغیب یا وقت مقرر نہ ہو بیکار فعل ہے اور مخالف سنت ہے اور سنت کے مخالف کرنا ناجائز ہے اس لئے ہرگز جائز نہیں ہے۔(۱) اس میں میت کا صریح نقصان ہے اور مخالف سنت امور میں کوئی خیر نہیں ہوتی۔(۲)

(۱) ومنہا التزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعیین۔ (الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل في تعریف البدع‘‘: ج ۱، ص: ۲۶)
وقال الإمام اللکنوي: ’’مقرر کردن روز سوم وغیرہ بالتخصیص و اورا ضروری انگاشتن در شریعت محمدیہ ثابت نیست‘‘۔ (مجموعۃ الفتاویٰ: ج ۱، ص: ۱۹۵)
(۲) مجموعہ فتاویٰ عزیزي: ج۱، ص: ۹۸،۹۹۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص473

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2722/45-4466

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وہ اسباب جن کی بناء پر شریعت کسی چیز کو حرام قرار دیتی ہے، وہ پانچ ہیں، ضرر، سکر، خبث، کرامت، نجاست۔

خبث سے مراد یہ ہے کہ ایک سلیم الفطرت انسان اس کو طبعی طور پر ناپسند کرے، اور اس کا مزاج اس سے گھن کھائے اور طبیعت نفرت کرے، اگر کوئی شیئ مضرت یا خبث کی وجہ سے حرام ہو، مگر مجموعہ میں جاکر اس کا خبث دور ہو جائے اور مضرت نہ رہے اور گھن محسوس نہ ہو تو اس کا استعمال جائز ہوگا۔آپ نے جس شیلاک  کا ذکر کیا ہے یہ لیک نامی کیڑے سےنکالا جاتا ہے، اس شیلاک میں اگر کوئی خبث نہیں ہے تواس کا استعمال جائز ہوگا ، اس کو اگر کسی کھانے کی چیز میں ملایا جائے تو عدم استقذا شرط ہے اور اگر خارجی استعمال ہو تواس کے لئے عدم استقذاء شرط نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں اس ضعیف کے لیے ضروری ہے کہ صف میں مل کر کھڑے ہوں(۲) طاقت ہو تو کھڑے ہوکر نماز پڑھیں اسی طرح دیوار کے سہارے سے کھڑے ہوکر پڑھنے کی بھی گنجائش ہے۔(۳)

(۲) قال الشمني، وینبغي أن یأمرہم بأن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسوّوا …مناکبہم ویقف وسطاً، قال في المعراج: الأفضل أن یقف في الصف الآخر إذا خاف إیذا أحد، قال علیہ السلام: من ترک الصف الأوّل مخافۃ أن یؤذی مسلماً أضعف لہ أجر الصف الأول۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰)
(۳) ولو قدر علی القیام متکئاً الصحیح أنہ یصلي قائماً متکئاً ولا یجزیہ غیر ذلک وکذلک لو قدر علی أن یعتمد علی عصا أو علی خادم لہ فإنہ یقوم ویتکيء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الرابع عشر في صلاۃ المریض‘‘: ج۱، ص: ۱۹۶، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص418

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 173/43-1564

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The reward of charity first goes to the donor then to others alive or dead. And as an Islamic principle, a non-Muslim does not deserve a reward unless he converts to Islam, so there is no point in giving charity in the name of a non-Muslim. A non-Muslim is not eligible to send or receive reward being a kafir. 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband