Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی آئے تو درود پڑھنا ضروری ہے۔ انگوٹھے چومنے کا کوئی ثبوت شریعت میں نہیں ہے، جو کوئی انگوٹھے چومتا ہو اور کوئی غلط عقیدہ رکھتا ہو اس پر اس طریقہ کا چھوڑنا اور توبہ کرنا لازم ہے پس صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کو کافر کہنا بالکل غلط ہے۔ (۱)
۱) یستحب أن یقال عند سماع الأولیٰ من الشہادۃ: صلی اللّٰہ علیک یا رسول اللّٰہ، وعند الثانیۃ منہا: قرت عیني بک یا رسول اللّٰہ، ثم یقول: اللّٰہم متعني بالسمع والبصرۃ بعد وضع ظفري الإبہامیی علی العینین ………… أیضاً: ثم قال: ولم یصح في المرفوع من کل ہذا شیئ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد، تتمۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فہو مردود‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷) وقال القاري في مرقاۃ المفاتیح: ہذا الحدیث عماد في التمسک بالعروۃ الوثقیٰ، وأصل في الاعتصام بحبل اللّٰہ الأعلی، ورد للمحدثات والبدع والہوی، وقد أنشد في ہذا المعنی۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ الفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۳۳۶)…
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 192
اسلامی عقائد
Ref. No. 1066/41-227
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ ان صاحب نے آپ کو غلط مسئلہ بتایا اور آپ کا عمل صحیح ہے ، عصر سے پہلے چار رکعت یا دورکعت پڑھنا سنت غیر موکدہ ہے ، فقہاء ا حناف نے اس کو مستحب نمازوں میں شامل کیا ہے اور احادیث سے اس کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں روایات کا تذکرہ کیا ہے ۔
أخرج أبو داود وأحمد وابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما والترمذي عن ابن عمر - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «رحم الله امرأ صلى قبل العصر أربعا» قال الترمذي: حسن غريب. وأخرج أبو داود عن عاصم بن ضمرة عن علي - رضي الله عنه - «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يصلي قبل العصر ركعتين» ورواه الترمذي وأحمد فقالا أربعا بدل ركعتين ( فتح القدیر باب النوافل ، 1/442)(قوله ويستحب أربع قبل العصر) لم يجعل للعصر سنة راتبة لأنه لم يذكر في حديث عائشة المار بحر قال في الإمداد وخير محمد بن الحسن والقدوري المصلي بين أن يصلي أربعا أو ركعتين قبل العصر لاختلاف الآثار ( رد المحتار ، باب الوتر و النوافل 2/13)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1517/43-1022
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فجر کی سنت گھر پر ہی پڑھ لیں تو زیادہ بہتر ہے، البتہ اگر مسجد میں ہیں تو صف سے ہٹ کر سنت پڑھیں اور اگر ایک ہی صف کی جگہ ہے، اس کے علاوہ کوئی جگہ نہیں ہے تو اسی صف میں ایک کنارہ لوگوں سے الگ ہٹ کر سنت پڑھ کرامام کے ساتھ فرض میں شامل ہوجائیں ، اس کی گنجائش ہے۔
''وكذا يكره تطوع عند إقامة صلاة مكتوبة) أي إقامة إمام مذهبه ؛ لحديث: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة» (إلا سنة فجر إن لم يخف فوت جماعتها) ولو بإدراك تشهدها، فإن خاف تركها أصلاً۔ (قوله: إلا سنة فجر)؛ لما روى الطحاوي وغيره عن ابن مسعود: أنه دخل المسجد وأقيمت الصلاة فصلى ركعتي الفجر في المسجد إلى أسطوانة، وذلك بمحضر حذيفة وأبي موسى، ومثله عن عمر وأبي الدرداء وابن عباس وابن عمر، كما أسنده الحافظ الطحاوي في شرح الآثار، ومثله عن الحسن ومسروق والشعبي شرح المنية. (شامی 1/377)
والحاصل أن السنة في سنة الفجر أن يأتي بها في بيته، وإلا فإن كان عند باب المسجد مكان صلاها فيه، وإلا صلاها في الشتوي أو الصيفي إن كان للمسجد موضعان، وإلا فخلف الصفوف عند سارية، لكن فيما إذا كان للمسجد موضعان والإمام في أحدهما، ذكر في المحيط أنه قيل لا يكره لعدم مخالفة القوم، وقيل يكره لأنهما كمكان واحد. قال: فإذا اختلف المشايخ فيه فالأفضل أن لا يفعل. قال في النهر: وفيه إفادة أنها تنزيهية اهـ. لكن في الحلية قلت: وعدم الكراهة أوجه للآثار التي ذكرناها اهـ ثم هذا كله إذا كان الإمام في الصلاة، أما قبل الشروع فيأتي بها في أي موضع شاء كما في شرح المنية. (شامی، باب ادراک الفریضۃ 2/57)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص پر توبہ لازم ہے، بظاہر جملۂ مذکورہ سے مسلکی تشدد معلوم ہوتا ہے، نہ کہ اہانت؛ اس لئے کفر عائد نہیں ہوا؛ البتہ غیر محتاط وغیر مہذب جملہ بولنے کی وجہ سے توبہ واستغفار لازم ہے۔ (۱)
(۱) إن ما یکون کفراً اتفاقاً یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ الخ۔اہـ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام یکون بالفعل کالصلوۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۲۳۰)
عن أبي ہریرۃ، رضي اللّٰہ عنہ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: إني لا أقول إلا حقا! قال بعض أصحابہ: فإنک تداعنا یا رسول اللّٰہ! -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- فقال: إني لا أقول إلا حقّاً۔ (أخرجہ أبو عبد اللّٰہ أحمد بن حنبل، في مسندہ: ج ۱۴، ص: ۱۸۵، رقم: ۸۴۸۱)
اسلامی عقائد
Ref. No. 1789/43-1530
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کارٹون کس طرح کے ہیں، اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ بہر حال ایسے جاندار کی تصویر سے اجتناب کرتے ہوئے جس میں آنکھ، ناک صاف طور پر معلوم و ظاہر ہوں کارٹون بنانے اور اس کو نشر کرنے میں اور اس سے پیسے کمانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور ایسے کارٹون جس میں واضح طور پر آنکھ ناک معلوم ہوں ان کو بنانا جائز نہیں اور کمائی بھی جائز نہیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن شریف کو گالی دینا کفر ہے۔ ’’العیاذ باللّٰہ‘‘ پس اس شخص سے جب وہ تو بہ بھی نہیں کرتا، مرتدین اور کفار جیسا معاملہ کیا جائے اور اس سے قطع تعلق کرلیا جائے۔(۱) ’’قال اللّٰہ تبارک وتعالی: {وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِي الْکِتٰبِ أَنْ إِذَاسَمِعْتُمْ أٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُبِھَا وَیُسْتَھْزَأُ بِھَا فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِيْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖٓ صلے ز إِنَّکُمْ إِذًا مِّثْلُھُمْط إِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْکٰفِرِیْنَ فِيْ جَھَنَّمَ جَمِیْعاًہلا۱۴۰}(۲)
(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن واستخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیأ من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷)
إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن، أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي ’’الخزانۃ‘‘: أو عاب کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)
(۲) سورۃ النساء: ۱۴۔
دار العلوم وقف دیوبند
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول 178)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’محسن انسانیت‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے؛ البتہ اگر کوئی آدمی کسی دوسرے کے لئے تاویلاً بول دے تو گنجائش ہے اس لئے مطعون نہ کیا جائے۔(۱)
۱) {إِنَّمَآ أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ} (سورہ کہف: ۱۱۰)
ألا أیہا الناس إنما أنا بشر۔ الحدیث، رواہ مسلم۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن، باب مناقب أہل بیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۸)
عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن اللّٰہ فضلني علی الأنبیاء۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب السیر: باب ما جاء في الغنیمۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۳، رقم: ۱۵۵۳)
وأفضل الأنبیاء -علیہم السلام- محمد علیہ السلام۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’أفضل الأنبیائؑ محمد -ﷺ-: ص: ۱۴۰)
لا یبلغ ولي درجۃ الأنبیاء علیہم۔(علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث لا یبلغ ولي درجۃ الأنبیائؑ‘‘: ص: ۱۶۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 193
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہماری نظر سے کوئی ایسی حدیث نہیں گزری جس میں کسی خاص نماز کے پڑھنے کا حکم دیا ہو صرف روزہ مشروع ہے۔(۱)
(۱) ومن البدع التي أحدثوہا في ہذا الشہر الکریم إن أول لیلۃ جمعۃ منہ یصلون في تلک اللیلۃ في الجوامع والمساجد وصلوٰۃ الرغائب إلخ۔ (أبو عبد اللّٰہ الشہیر بابن الحجاج، المدخل، ’’من البدع المحدثۃ في الجمعۃ الأولیٰ من رجب‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳)
یستحب صوم یوم عاشوراء ویستحب أن یصوم قبلہ یوماً وبعدہ یوماً۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصوم: باب صوم التطوع، الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۴۶۹۸، رقم: ۲۰۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص471
اسلامی عقائد
Ref. No. 1612/43-1165
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت بالا میں آیت "ولا نساء من نساء عسیٰ ان یکن خیر منھن" میں عسی کی جگہ حتی پڑھنے سے معنی میں کوئی بڑی خرابی پیدا نہیں ہوئی، اس لئے نماز درست ہوجائے گی۔ لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
(ومنها) ذكر كلمة مكان كلمة على وجه البدل إن كانت الكلمة التي قرأها مكان كلمة يقرب معناها وهي في القرآن لا تفسد صلاته نحو إن قرأ مكان العليم الحكيم وإن لم تكن تلك الكلمة في القرآن لكن يقرب معناها عن أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - لا تفسد وعن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - تفسد نحو إن قرأ التيابين مكان التوابين وإن لم تكن تلك الكلمة في القرآن ولا تتقاربان في المعنى تفسد صلاته بلا خلاف إذا لم تكن تلك الكلمة تسبيحا ولا تحميدا ولا ذكرا وإن كان في القرآن ولكن لا تتقاربان في المعنى نحو إن قرأ وعدا علينا إنا كنا غافلين مكان فاعلين ونحوه مما لو اعتقده يكفر تفسد عند عامة مشايخنا وهو الصحيح من مذهب أبي يوسف - رحمه الله تعالى -. هكذا في الخلاصة (الھندیۃ، الفصل الخامس فی زلۃ القاری 1/80)
فالأصل فيها عند الإمام ومحمد رحمهما الله تعالى تغير المعنى تغيرا فاحشا وعدمه للفسا وعدمه مطلقا سواء كان اللفظ موجودا في القرآن أو لم يكن وعندأبي يوسف رحمه الله إن كان اللفظ نظيره موجودا في القرآن لا تفسد مطلقا تغير المعنى تغيرا فاحشا أو لا وإن لم يكن موجودا في القرآن تفسد مطلقا (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، باب ما یفسد الصلوۃ 1/339)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس فعل کی وجہ سے وہ میاں، بیوی اور بت کی پوجاکی ترغیب دینے والا یہ تینوں دائرۂ اسلام سے خارج ہوگئے۔ ایمان ونکاح دونوںکی تجدید ان پر لازم ہے۔ (۱)
(۱) تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتي تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین، توبۃ الزندیق‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)
إن رجلا قال: یا رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- نسلِّم علیک کما یسلم بعضنا علی بعض أفلا نسجد لک قال: لا ولکن أکرموا نبیکم وأعرفوا الحق لأہلہ فإنہ لا ینبغي أن یسجد لأحد من دون اللّٰہ۔ (جلال الدین السیوطي، الدر المنثور: ج ۲، ص: ۲۵۰؛ سورۃ آل عمران: ۷۹)
من سجد للسلطان علی وجہ التحیۃ أو قبّل الأرض بین یدیہ لا یکفر ولکن یأثم لارتکابہ الکبیرۃ ہو المختار قال الفقیہ أبو جعفر رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: إن سجد للسلطان بنیۃ العبادۃِ أو لم تحضرہ النیۃُ فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب الثامن والعشرون في ملاقاۃ الملوک‘‘: ج ۵، ص: ۴۲۵)