اسلامی عقائد

Ref. No. 1885/43-1764

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جب اس نے صدقہ فطر سعودی میں نکال دیا تو اس کا صدقہ فطر ادا ہوگیا، انڈیا آنے کے بعد دوبارہ صدقہ فطر نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح اگر انڈیا میں اس کے گھر والوں نے اس کے کہنے پر اس کی طرف سے  فطرہ نکال دیا، تو اس طرح بھی ادائیگی درست ہوجائے گی اور دوبارہ نکالنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔   تاہم سعودیہ میں رہائش کی وجہ سے آپ پر سعودیہ عرب کے نرخ کے حساب سے دینا لازم ہوگا۔

قال فی الدر المنتقی فتجب علی مسافر ۔ ۔ ۔ ویعتبر مکانہ الخ وعلیہ الفتوی 1/226

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ عام لوگوں میں مشہور ہے، شریعت میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (۱)

(۱) قال الکشمیري: ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ، الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص:۵۶۸)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: …من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص517

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان عربی لفظ ہے، امن سے مشتق ہے امن کسی خوف سے محفوظ ہوجانے، دل کے مطمئن ہوجانے اور انسان کے خیر و عافیت سے ہمکنار ہونے کو کہا جاتا ہے(۲) اور کسی پر ایمان لانے سے مراد دل سے اس کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا ہے عقیدہ، عقد سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں گرہ باندھنا۔ عقیدہ سے مراد کسی شیٔ کو حق اور سچ جان کر ایسی تصدیق کرنا کہ جس میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو، عقیدہ کو ایمان کے مفہوم میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اس وقت معنی ہوں گے ان حقائق کی بلا شک و شبہ تصدیق کرنا ہے جن کی تعلیم اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ نیز کسی چیز پر ایمان لانا وہی عقیدہ ہے۔

’’وہو التصدیق الذي معہ أمن وطمانینۃ لغۃ، وفي الشرع تصدیق القلب بما جاء من عند الرب فکأن المؤمن یجعل بہ نفسہ آمنۃ من العذاب في الدارین، أو من التکذیب والمخالفۃ وہو إفعال من الأمن یقال آمنت وآمنت غیري، ثم یقال: آمنہ إذا صدقہ۔(۱) العقیدۃ: بفتح العین جمع عقائد ما عقد علیہ القلب واطمأن إلیہ‘‘ أرکان العقیدۃ: الإیمان باللّٰہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر والقضاء والقدر‘‘۔(۲)

(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۵۔

(۲) محمد رواس، حامدصادق، معجم لغۃ الفقہاء، ’’حرف العین‘‘: ج۱، ص: ۳۱۸۔

(۳) سورۃ النساء: ۷۹

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مشہور چار فرشتے یہ ہیں حضرت جبرئیل، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل، حضرت عزرائیل، ہمیں ان فرشتوں کے تمام کاموں کا تو علم نہیں البتہ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کی صراحت قرآن وحدیث میں کی ہے اس کا مختصر تذکرہ یہاں کیا جاتاہے۔ حضرت جبرئیل: آپ کو روح القدس اور روح الامین بھی کہا جاتاہے، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے متعدد مقامات پر حضرت جبرئیل کی تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے: {إِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍہلا۱۹ ذِيْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍہلا ۲۰ مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِیْنٍہط۲۱}(۱) بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے ،قوت والا ہے اور عرش والے کے پاس بڑے مرتبے والا ہے ،وہاں وہ سردار اور امانت دار ہے۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نبی اور رسول تک اللہ تعالی کا پیغام پہچاتے ہیں ،یہ بندوں اور رب کے درمیان واسطہ بنتے ہیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَإِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَہط۱۹۲ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْأَمِیْنُہلا ۱۹۳عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَہلا ۱۹۴بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِیْنٍ ہط۱۹۵}(۲) اور بے شک یہ قرآن پروردگار کا نازل کیا ہوا ہے ، اس کو تمہارے دل پر روح الامین نے صاف عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم ڈرانے والوں میں سے ہو جاؤ۔ واقعہ معراج جس کی تفصیل مشہور ہے اس سفر کا آغاز مسجد حرام سے اور اختتام ملأ اعلی میں سدرۃ المنتہی پر ہوا تھا اس سفر میں آپ کے رفیق حضرت جبرئیل ہی تھے انہی کی معیت میں سفر کا زیادہ حصہ طے ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل کو دو مرتبہ اصلی صورت میں دیکھا تھا ایک مرتبہ بعثت کے ابتدائی دور میں اور دوسری مرتبہ معراج کی رات سدرۃ المنتہی کے پاس۔ حضرت میکائیل: حضرت میکائیل کے ذمہ بارش اور روزی پہچانے کا کام ہے ان کا شمار بھی مقرب فرشتوں میں ہوتا ہے، ان کے ساتھ بہت سے مدد گار فرشتے ہیں جو بارش اور ہواؤں کو اللہ تعالی کے حکم سے مختلف سمتوں میں لے جاتے ہیں علامہ ابن کثیر نے حضرت میکائیل کے متعلق لکھا ہے: اور میکائیل علیہ السلام بارش اور اگنے والی چیزوں پر مقرر ہیں جن دونوں سے رزق پیدا ہوتا ہے اور حضرت میکائیل کے مددگار ہیں جو اللہ کے حکم سے حضرت میکائیل کی رہنمائی میں کام کرتے ہیں مثلا ہواؤں کا رخ بدلتے ہیں ، اسی طرح بادلوں کا بھی رخ بدلتے ہیں اپنے رب کی مرضی کے مطابق اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آسمان سے بارش کا کوئی قطرہ نہیں گرتا ہے مگر اس کے ساتھ ایک فرشتہ ہوتا ہے جو زمین میں مقررہ جگہ تک اس کو پہچادیتا ہے۔(۱) حضرت اسرافیل: حضرت اسرافیل کی ذمہ داری صور پھونکناہے ، یہ ایک بار قیامت کے قریب اللہ کے حکم سے صور پھونکیں گے تو سب لوگ ہلاک ہو جائیں گے، پھر دوبارہ پھپونکیں گے تو سب لوگ زند ہ ہو جائیں گے اور میدان حشر کی طرف دوڑیں گے جہاں ان کے اعمال کا حساب ہوگا۔قرآن کریم میں نفخ صور (صور پھونکنے) کا تذکرہ ہے البتہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کا نام کہیں نہیں آیا ہے ہاں حدیث میں ان کے نام کی صراحت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت اسرافیل علیہ السلام جب سے صور پھونکنے پر مقرر ہوئے ہیں تب سے تیار ہیں، عرش کے ارد گرد اس خوف سے نظر کر رہے ہیں کہ نظر جھپکنے سے پہلے حکم نہ دے دیا جائے اس کی دونوں آنکھیں گویا چمکدار ستارے ہیں(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی فرشتہ کے بارے میں فرماتے تھے میں کیسے خوش رہ سکتا ہوں جبکہ سینگ والا اپنا صور منہ میں رکھے ہوئے ہیں اوراپنی پیشانی جھکائے ہوئے ہیں اور منتظر ہیں کہ کب حکم ملے کہ صور پھونک دوں صحابہؓ نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا کہنا چاہئے آپ نے فرمایا یوں کہو ’’حسبنا اللہ و نعم الوکیل علی اللہ توکلنا‘‘(۱) حضرت عزرائیل: موت یعنی روح قبض کرنے کا کام ان کے سپرد ہے ، قرآن کریم میں ملک الموت ذکر کیا گیا ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {قُلْ یَتَوَفّٰئکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ إِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَہع۱۱}(۲) ان سے کہو موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پورا کا پورا اپنے قبضہ میں لے لے گا پھر تم لوگ اپنے پر وردگار کی طرف لوٹادئے جاؤگے۔ حضرت عزرائیل کے دو فرشتے معاون ہیں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {حَتّیٰٓ إِذَا جَآئَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَھُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَہ۶۱}(۳) یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کی جان ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کرلیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں موت کے ان فرشتوں کو النازعات اور الناشطات کہا گیا ہے ۔النازعات سے مراد وہ فرشتے ہیں جو کافروں کی روح انتہائی سختی اور عذاب دے کر کھینچتے ہیں اور الناشطات سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اہل ایمان اور متقی حضرات کی روح انتہائی نرمی اور محبت سے کھینچتے ہیں۔ (۱) سورۃ التکویر: ۱۹-۲۱۔ (۲) سورۃ الشعراء: ۱۹۲-۱۹۵۔ (۱) ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ’’باب ذکر خلق الملائکۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۔ (۲) أخرجہ الحاکم، فی مستدرکہ، ج۳، ص۱۱۴ (۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الزہد، باب ما جاء في شأن الصور‘‘: ج ۲،ص: ۶۹، رقم: ۲۴۳۱) (۲) سورۃ السجدہ: ۱۱۔ (۳) سورۃ الأنعام: ۶۱۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص267

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یکم سے دس عاشورہ محرم میں اولاد کی نیت سے زوجہ سے ہم بستری نہ کرنا اس کی کوئی اصل اور اس کا کوئی شرعی ثبوت نہیں بلکہ بے اصل و بے بنیاد بات ہے ایسا عقیدہ رکھنا غلط ہے۔(۲)

(۲) ویظہر الناس الحزن والبکاء، وکثیر منہم لا یشرب الماء لیلتئذ موافقۃ للحسین لأنہ قتل عطشانا … إلی غیر ذلک من البدع الشنیعۃ۔ (أبو الفداء إسماعیل، البدایۃ والنہایۃ، ’’فصل: وکان مقتل حسین رضي اللّٰہ عنہ یوم الجمعۃ‘‘: ج ۸، ص: ۲۴۸)
قال الکشمیري: ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ، الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص:۵۶۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص517

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کسی فتنہ کا خطرہ نہ ہو اور پردہ وغیرہ تمام شرائط کا لحاظ رکھا جائے، تو تبلیغ کے لئے دوسرے کے گھر جاکر سمجھانا درست ہے۔(۱)

(۱) یباح لہا الخروج إلی ما دون السفر بغیر محرم وإذا وجدت محرما لم یکن للزوج منعہا۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الحج‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۳)
المؤمنون والمؤمنات بعضہم أولیاء بعض، یوید بعضہم بعضا في طاعۃ اللّٰہ واعلاء دینہ یأ مرون بالمعروف بالإیمان والطاعۃ وینہون عن المنکر عن الشرک والنفاق ومعصیۃ الرسول واتباع الشہوات۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري، ’’سورۃ التوبہ: ۷۱‘‘ : ج ۴، ص: ۲۴۲)


---------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص324

اسلامی عقائد

Ref. o. 41/923

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر حالت زیادہ نازک ہے تو دن میں کسی وقت عیادت کے لئے جانے کی گنجائش ہے، البتہ جلد واپس آجائے اورعدت والے گھر میں ہی رات گزارے۔ وتعتدان أي معتدۃ طلاق وموت في بیت وجبت فیہ، ولا یخرجان منہ إلا أن تخرج أو ینہدم المنزل أو تخاف إنہدامہ أو تلف مالہا أو لا تجد کراء البیت ونحو ذٰلک من الضرورات، فتخرج لأقرب موضع إلیہ۔ (الہدایۃ ۲؍۴۲۸)

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان مجمل کے الفاظ میں حقیقتِ نسبت کو بیان کیا ہے، اور قرآن پاک میں نسبت ادب کو بیان کیا ہے کہ شر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا بے ادبی ہے۔ (۱)

۱) قولہ تعالی: {مَآ أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِز وَمَا أَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ  فَمِنْ نَّفْسِکَط} (النساء: ۷۹) وہذا الاختلاف منہي، أي علی ہذا الوجہ، وإنما الطریق في مثل تلک الآیات أن یؤخذ ما علیہ إجماع المسلمین، ویئوّل الایۃ الأخری کما نقول: العقد الإجماع علی أنّ الکلّ بتقدیر اللّٰہ تعالی، وأمّا قولہ تعالی: {مَا أَصَابَک} (النساء:۷۹) إِلَخْ۔ فذہب المفسرون إلی أنّہ متّصل بما قبلہ، والمعني {فَمَالِ  ھٰٓؤُلَآئِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًا ہ۷۸} (النساء:۷۸) یعني: أنّ المنافقین لا یعلمون ما ہو الصّواب، {وَیَقُوْلُوْنَ ماَ أَصَابَکَ إِلَخ} وقیل: الآیۃ مستأنفۃ أي: ما أصابک یا محمّد أو یا إنسان من حسنۃ، أي: فتح وغنیمۃ وراحۃ وغیرہا، فمن فضل اللّٰہ، {وَمَا أَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ} أي: من ہزیمۃ وتلف مال ومرض فہو جزاء ما عملت من الذّنوب کما قال تعالی: {وَمَآ أَصَابَکُمْ  مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍہط۳۰} (الشوری:۳۰) (ملا علي القاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،’’کتاب العلم‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۹، رقم: ۲۳۷)

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنات فرشتے نہیں ہیں؛ اس لئے کہ فرشتے نور سے پیدا ہوئے ہیں اور جنات کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَالْجَآنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِہ۲۷} (۱) اور جنات کو ہم نے آگ سے پیدا کیا ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں ہروقت اطاعت میں لگے رہتے ہیں؛ جبکہ جنات میں فرماں بردار اور نافرمان دونوں ہوتے ہیںجنات کے بارے میںاللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَّأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَط فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولٰٓئِکَ تَحَرَّوْا رَشَدًاہ۱۴ وَأَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَکَانُوْا لِجَھَنَّمَ حَطَبًاہلا ۱۵}(۲) ہم میں بعض مسلمان ہوگیے ہیں اور ہم میں سے اب بھی کچھ ظالم ہیں، چنانچہ جو اسلام لا چکے ہیں انہوں نے ہدایت ڈھونڈ لی ہے اور رہے وہ لوگ جو ظالم ہیں تو وہ جہنم کا ایندھن ہیں۔ فرشتے کھاتے پیتے نہیں ہیں ؛جبکہ جنات کھاتے پیتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ جنات کا وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تھا تو آپ نے ان سے فرمایا جس ہڈی پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو اس پر پہلے سے زیادہ گوشت تم پاؤگے جو تمہاری غذا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنات فرشتے نہیں ہیں، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ بیان کیا ہے کہ تمام فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، تو یہاں ابلیس کا استثناء اس لئے نہیں تھا کہ ابلیس فرشتوں میں سے ہے؛بلکہ اس لیے تھا کہ اس وقت ابلیس فرشتوں کے ساتھ تھا۔ سورہ کہف میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَ إِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِأٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا إِلَّآ إِبْلِیْسَطکَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہٖط} (۳) اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ جنات میں سے تھا پس اس نے اپنے پروردگارکے امر سے نافرمانی کی۔ اللہ تعالی نے ابلیس کی نافرمانی کی وجہ اس کا جنات میں سے ہونا بیان کیا ہے،اگر وہ فرشتوں میں سے ہوتا تو اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتا اس لئے ابلیس اور جنات یہ فرشتوں میں سے نہیں ہیں۔ (۱) سورۃ الحجر: ۲۷۔ (۲) سورۃ الجن: ۱۴- ۱۵۔ (۳) سورۃ الکہف: ۵۰۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص269

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ کا جذبہ اور فکر قابل ستائش اور صد تعریف ہے۔ اتباع شریعت کا عزم کاش جملہ سجادہ نشینوں کے قلوب میں جاںگزیں ہوجائے اور یہ خانقاہیں سابق کی طرح اصلاح اور اشاعت دین اورمعاشرہ میں سدھار کی خدمات انجام دیں۔
مندرجہ ذیل صندل کا شریعت میں کوئی وجود نہیں ہے، نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا کیا اور نہ تابعین و تبع تابعین نے، نہ اسلاف عظام و بزرگان دین نے ایسا کیا، یہ بدعت ہے اور بدعت کو ضلالت وگمراہی کہا گیا ہے۔(۱) جمعہ کے خطبہ میں خطیب بھی یہی بتلاتا ہے۔ سرہند شریف میں بھی درگاہ ہے، وہاں سالانہ عرس کے موقع پر قرآن خوانی، نعت گوئی اور وعظ کے سواء اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہزاروں افراد اس موقع پر جمع ہوتے ہیں اور ان کا وظیفہ بھی ہوتا ہے، نہ صندل، نہ قوالی، نہ گانا بجانا، یہ سب کے لئے ایک نمونہ ہے۔

۱) وأما أہل السنۃ والجماعۃ فیقولون في کل فعل وقول لم یثبت عن الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم ہو بدعۃ لأنہ لو کان خیراً لسبقونا إلیہ، لأنہم لم یترکوا خصلۃ من خصال الخیر إلا وقد بادروا إلیہا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأحقاف: ۱۰-۱۴‘‘ : ج ۷، ص: ۲۵۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص379