اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان مجمل کے الفاظ میں حقیقتِ نسبت کو بیان کیا ہے، اور قرآن پاک میں نسبت ادب کو بیان کیا ہے کہ شر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا بے ادبی ہے۔ (۱)

۱) قولہ تعالی: {مَآ أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِز وَمَا أَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ  فَمِنْ نَّفْسِکَط} (النساء: ۷۹) وہذا الاختلاف منہي، أي علی ہذا الوجہ، وإنما الطریق في مثل تلک الآیات أن یؤخذ ما علیہ إجماع المسلمین، ویئوّل الایۃ الأخری کما نقول: العقد الإجماع علی أنّ الکلّ بتقدیر اللّٰہ تعالی، وأمّا قولہ تعالی: {مَا أَصَابَک} (النساء:۷۹) إِلَخْ۔ فذہب المفسرون إلی أنّہ متّصل بما قبلہ، والمعني {فَمَالِ  ھٰٓؤُلَآئِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًا ہ۷۸} (النساء:۷۸) یعني: أنّ المنافقین لا یعلمون ما ہو الصّواب، {وَیَقُوْلُوْنَ ماَ أَصَابَکَ إِلَخ} وقیل: الآیۃ مستأنفۃ أي: ما أصابک یا محمّد أو یا إنسان من حسنۃ، أي: فتح وغنیمۃ وراحۃ وغیرہا، فمن فضل اللّٰہ، {وَمَا أَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ} أي: من ہزیمۃ وتلف مال ومرض فہو جزاء ما عملت من الذّنوب کما قال تعالی: {وَمَآ أَصَابَکُمْ  مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍہط۳۰} (الشوری:۳۰) (ملا علي القاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،’’کتاب العلم‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۹، رقم: ۲۳۷)

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنات فرشتے نہیں ہیں؛ اس لئے کہ فرشتے نور سے پیدا ہوئے ہیں اور جنات کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَالْجَآنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِہ۲۷} (۱) اور جنات کو ہم نے آگ سے پیدا کیا ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں ہروقت اطاعت میں لگے رہتے ہیں؛ جبکہ جنات میں فرماں بردار اور نافرمان دونوں ہوتے ہیںجنات کے بارے میںاللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَّأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَط فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولٰٓئِکَ تَحَرَّوْا رَشَدًاہ۱۴ وَأَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَکَانُوْا لِجَھَنَّمَ حَطَبًاہلا ۱۵}(۲) ہم میں بعض مسلمان ہوگیے ہیں اور ہم میں سے اب بھی کچھ ظالم ہیں، چنانچہ جو اسلام لا چکے ہیں انہوں نے ہدایت ڈھونڈ لی ہے اور رہے وہ لوگ جو ظالم ہیں تو وہ جہنم کا ایندھن ہیں۔ فرشتے کھاتے پیتے نہیں ہیں ؛جبکہ جنات کھاتے پیتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ جنات کا وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تھا تو آپ نے ان سے فرمایا جس ہڈی پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو اس پر پہلے سے زیادہ گوشت تم پاؤگے جو تمہاری غذا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنات فرشتے نہیں ہیں، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ بیان کیا ہے کہ تمام فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، تو یہاں ابلیس کا استثناء اس لئے نہیں تھا کہ ابلیس فرشتوں میں سے ہے؛بلکہ اس لیے تھا کہ اس وقت ابلیس فرشتوں کے ساتھ تھا۔ سورہ کہف میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَ إِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِأٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا إِلَّآ إِبْلِیْسَطکَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہٖط} (۳) اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ جنات میں سے تھا پس اس نے اپنے پروردگارکے امر سے نافرمانی کی۔ اللہ تعالی نے ابلیس کی نافرمانی کی وجہ اس کا جنات میں سے ہونا بیان کیا ہے،اگر وہ فرشتوں میں سے ہوتا تو اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتا اس لئے ابلیس اور جنات یہ فرشتوں میں سے نہیں ہیں۔ (۱) سورۃ الحجر: ۲۷۔ (۲) سورۃ الجن: ۱۴- ۱۵۔ (۳) سورۃ الکہف: ۵۰۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص269

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ کا جذبہ اور فکر قابل ستائش اور صد تعریف ہے۔ اتباع شریعت کا عزم کاش جملہ سجادہ نشینوں کے قلوب میں جاںگزیں ہوجائے اور یہ خانقاہیں سابق کی طرح اصلاح اور اشاعت دین اورمعاشرہ میں سدھار کی خدمات انجام دیں۔
مندرجہ ذیل صندل کا شریعت میں کوئی وجود نہیں ہے، نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا کیا اور نہ تابعین و تبع تابعین نے، نہ اسلاف عظام و بزرگان دین نے ایسا کیا، یہ بدعت ہے اور بدعت کو ضلالت وگمراہی کہا گیا ہے۔(۱) جمعہ کے خطبہ میں خطیب بھی یہی بتلاتا ہے۔ سرہند شریف میں بھی درگاہ ہے، وہاں سالانہ عرس کے موقع پر قرآن خوانی، نعت گوئی اور وعظ کے سواء اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہزاروں افراد اس موقع پر جمع ہوتے ہیں اور ان کا وظیفہ بھی ہوتا ہے، نہ صندل، نہ قوالی، نہ گانا بجانا، یہ سب کے لئے ایک نمونہ ہے۔

۱) وأما أہل السنۃ والجماعۃ فیقولون في کل فعل وقول لم یثبت عن الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم ہو بدعۃ لأنہ لو کان خیراً لسبقونا إلیہ، لأنہم لم یترکوا خصلۃ من خصال الخیر إلا وقد بادروا إلیہا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأحقاف: ۱۰-۱۴‘‘ : ج ۷، ص: ۲۵۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص379

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:لغت میں کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے اور اسلام اطاعت وفرمانبرداری کا نام ہے، ایمان کا محل قلب ہے اور اسلام کا محل قلب اور سب اعضاء و جوارح لیکن شرعا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول کی محض دل میں تصدیق کرلینا شرعا اس وقت تک معتبر نہیں جب تک زبان سے اس تصدیق کا اظہار اور اطاعت وفرماں برداری نہ کرے، اسی طرح زبان سے تصدیق کا اظہار یا فرماں برداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث میں اسی لغوی مفہوم کی بناء پر ایمان اور اسلام میں فرق کا ذکر بھی ہے، مگر شرعا ایمان بدون اسلام کے اور اسلام بدون ایمان کے معتبر نہیں (خلاصہ معارف القرآن) عرب کے محقق عالم دین شیخ عثیمن نے لکھتے ہیں کہ جب ایمان اور اسلام کا لفظ اکٹھے ہوں تو پھر اسلام سے ظاہر ی اعمال مراد لیے جاتے ہیں، جس میں زبان سے ادا ہونے والے کلمات اور اعضاء سے ہونے والے اعمال شامل ہیں اور یہ کلمات اور اعمال کامل ایمان والامومن یا کمزور ایمان والامومن بھی کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے {قَالَتِ الْأَعْرَابُ أٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیْمَانُ فِيْ قُلُوْبِکُمْط}(۱) اسی طرح منافق شخص کو ظاہر ی طور پر تو مسلمان کہا جاتا ہے، لیکن وہ باطنی طور پر کافر ہے اور ایمان سے مراد باطنی یا قلبی امور لیے جاتے ہیں اوریہ کام صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو حقیقی مومن ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ إِذَاذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ أٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ إِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ہجصلے ۲  الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ہط ۳ أُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاط}(۲) اس اعتبار سے ایمان کا درجہ اعلی ہوگا لہٰذا ہر مومن مسلمان ہے، لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہے بہر حال اس طرح کی مختلف تعبیریں حضرات علماء سے منقول ہیں، لیکن اتنی بات طے ہے کہ ایمان کے لیے اسلام ضروری ہے اور اسلام کے لیے ایمان ضروری ہے، انسان کو اپنے ظاہر ی اعمال کے ساتھ باطنی اعمال اور قلبی یقین کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔(۳)

(۱) سورۃ الحجرات: ۱۴۔  

وذہب جمہور المحققین إلی أن الإیمان ہو التصدیق بالقلب، وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا۔ (أبو حنیفہ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الإیمان ہو التصدیق والإقرار‘‘: ص: ۱۴۳)

 والإسلام ہو التسلیم والإنقیاد لأوامر اللّٰہ تعالیٰ فمن طریق اللغۃ فرق بین الإسلام والإیمان ولکن لا یکون إیمان بلا إسلام ولا یوجد إسلام بلا إیمان وہما کا لظہر مع البطن والدین اسم واقع علی الإیمان والإسلام والشرائع کلہا۔ (’’أیضاً‘‘: بحث في بیان معنی الإسلام ونسبتہ إلی الإیمان‘‘: ص: ۱۴۹)

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سلسلے میں مفتی کفایت اللہ صاحب کی تحریر بہت کافی وشافی ہے، وہ لکھتے ہیں:

چندن کا قشقہ لگانا اگر چہ ہندؤں کا قومی اور مذہبی شعار ہے لیکن اس میں شبہ ضرور ہے کہ آیا یہ فعل ان کا ایسا مذہبی شعار ہے جو مستلزم کفر ہو یا نہیں جولوگ اسے شعار کفر قرار دیں وہ ان لوگوں کی تکفیر کریں گے، لیکن مجھے تامل ہے میرے خیال میں یہ شعار کفر نہیں اگر چہ کافروں کا شعار ہے، اس کی مثال ڈاڑھی منڈانا،الٹی طرف گریبان بنانا ہے یاانگریزی ٹوپی پہن لیناہے کہ یہ قوم کفار کے قومی شعار ہیں، لیکن شعار کفر نہیں ہے، اسی طرح چندن کو بھی خیال کرتا ہوں ورنہ کم از کم اس میں شبہ ضرور ہے اور شبہ کی حالت میں تکفیر کی جرأت نہیں کرسکتا۔ (۱)

ماتھے پر چندن کا قشقہ لگانا غیر مسلموں کی تہذیب ہے اور یہ ان کا قومی شعار ہے، اس لئے مسلمانوں کے لئے چندن کا قشقہ لگانا درست نہیں ہے، حدیث میں غیر کی مشابہت اختیار کرنے اور غیرکی جماعت کو بڑھانے سے منع کیا گیا ہے ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘(۲) اس لئے اس عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے، مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ اتحاد ویگانکت پیدا کرنے کی اجازت ہے، لیکن ایسا اتحاد کہ اسلام مغلوب ومظلوم ہوجائے اور اسلامی تہذیب کی خلاف ورزی کرکے غیروں کے قومی شعار کو اپنایا جائے درست نہیں ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص ماتھے پر چندن کا قشقہ لگائے تو اس کی تکفیر کی جائے گی یا نہیں؟ اس سلسلے میں مفتی صاحب کا بیان بہت واضح ہے، میرے خیال سے اگر وہ بغیر دباؤ کے لگانے کو غلط سمجھے، لیکن اپنی سیاسی مجبوری سمجھ کر لگالے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، لیکن اگر اسے اپنی رضا اور خوشی سے لگائے اور بجائے اپنے عمل پر نادم ہونے کے اس پر خوش ہو اور اس کے جواز کے حیلے بیان کررہا ہو تو ایسے شخص کو اپنے ایمان کی خیر منانی ہوگی، اس لئے کہ رضا بالکفر بھی کفر ہے اورمعصیت کو حلال سمجھنا بھی کفر ہے۔(۱)

 

(۱) مفتی کفایت اللّٰہ، کفایت المفتي: ج ۱۳، ص: ۱۸۰)

(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشھرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱۔

(۱) من اعتقد الحرام حلالاً أو علی القلب یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالحلال والحرام‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 173)

 

 

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: آدمی کے مرنے کے بعددو فرشتے اس کی قبر میں آتے ہیں اور چند سوالات کرتے ہیں یہ منکر نکیر ہیں، ان کو منکر نکیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہنسنے، مسکرانے سے اور انسانوں پر ترس کھانے سے انکار کر دیا ہے ۔حدیث میں کہ جب کسی بندۂ مؤمن کاانتقال ہوتا ہے اور اس کے رشتہ دار اس کو قبر میں دفن کرکے چلے جاتے ہیں، تو اس کے پاس دو سیاہ نیلی فام فرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے اور اس سے سوال کرتے ہیں کہ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو بندہ مومن کہے گا کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ منکرنکیراس کی تصدیق کریں گے تم نے صحیح جواب دیا پھر اس کی قبر ہر طرف سے ستر ہاتھ کشادہ کر دی جاتی ہے اور قیامت تک کے لئے ہر طرح کی راحتوں اور روشنیوں سے قبر کو بھر دیا جاتاہے وہ شخص کہتا ہے مجھے اپنے رشتہ داروں میں جانے دو تاکہ میں اپنی سر گزشت سنا سکوں تو وہ فرشتے کہتے ہیں اس طرح سو جا جس طرح ایک دلہن سو جاتی ہے اس کو اس کے محبوب شوہر کے علاوہ کوئی بیدار نہیں کرتا ہے اسی طرح تمہیں بھی کوئی بیدار نہیں کرے گا اور اگر کافریا منافق بندہ ہوتا ہے تو ہر سوال کے جواب میں ہائے ہائے کرتا ہے اور کہتا ہے میں تو اس طرح زندگی گزاررہا تھا جس طرح میں نے لوگوں کو زندگی گزارتے دیکھا مجھے کچھ بھی نہیں معلوم پس قبر اس کے لئے اتنی تنگ ہوجائے گی کہ ایک پسلی دوسری پسلی میں گھس جائے گی۔ ’’والمنکر مفعول من أنکر بمعنی نکر إذا لم یعرف أحدا ، النکیرفعیل بمعنی مفعول من نکر بالکسر إذا لم یعرفہ أحد کلاہما ضد المعروف، سمیا بہما لأن المیت لم یعرفہماو لم یر صورۃ مثل صورتہما‘‘(۱) (۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۰، رقم: ۱۳۰۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص270

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس سلسلے میں کفایت المفتی میں درج ہے: گرنتھ صاحب کو سجدہ کرنا یا پھول چڑھانا مسلمانوں کے لئے حرام ہے، اسلام نے دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کی توہین کرنے اور ان کو برا کہنے سے منع کیا ہے، ان کی تعظیم کا حکم نہیں دیا ہے، خصوصا ایسی تعظیم جو عبادت کے درجے تک پہونچی ہو کسی طرح جائز اور مباح نہیں ہوسکتی ہے۔(۲)

اسلام میں مجسموں کی حیثیت بت کی ہے اور بت کی تعظیم کفر ہے، یہ ایک متفقہ مسئلہ ہے، اب یہاں دیکھنا ہے مجسموں پر ہار ڈالنا کیا کوئی قانونی مجبوری ہے یا باہمی رواداری ہے، اگر کوئی قانونی یا سیاسی مجبوری ہو، تو ناجائز اور غلط سمجھتے ہوئے ہار ڈالا جاسکتا ہے، جب کہ اس پر توبہ واستغفار بھی کرنا چاہئے اور اگر یہ کوئی قانونی مجبوری نہیں ہے تو محض اپنے آپ کو سیکولر دکھانے کے لئے حرام کاموں پر جرأت نہیں کرنی چاہئے او راگر کوئی شخص مجسموں پر ہار ڈالتا ہے اسے غلط سمجھتے ہوئے تو اس کا یہ عمل غلط ہوگا، لیکن اس کی بنا پر اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی اور اگر اس کا یہ عمل مجسموں کی تعظیم کے پیش نظر ہو تو بت کی تعظیم کی وجہ اس کا یہ عمل دائرہ کفر میں آئے گا، جب کہ غالب گمان یہ ہے کہ سیاسی لیڈران اپنے سیکولر کردار کو ظاہر کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں، مجسموں کی تعظیم کے پیش نظر ایسا نہیں کرتے ہیں۔ (۱

(۲) مفتی کفایت اللّٰہ، کفایت المفتی: ج ۱۳، ص: ۱۷۱۔

(۱) إذا سجد واحد لہؤلاء الجبابرۃ فہو کبیرۃ من الکبائر وہل یکفر؟ قال بعضہم: یکفر مطلقا، وقال أکثرہم: ہذا علی وجوہ إن إراد بہ العبادۃ یکفر وأن أراد التحیۃ لم یکفر، ویرحم علیہ ذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۲)

 

 

دار العلوم وقف دیوبند

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 174)

 

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورتوں کے مزارات پر جانے کی، ان کی نوحہ و گریہ کرنے کی وجہ سے پہلے ممانعت تھی، بعد میںاجازت دیدی گئی تھی۔ بخاری شریف میں حدیث موجود ہے، لیکن محرم کے ساتھ ہو، بے پردگی نہ ہو، مردوں سے اختلاط نہ ہو، ان شرائط کی پابندی ضروری ہے۔(۱) مزارات کا طواف قطعا ناجائز ہے اسی طرح سجدہ کرنا قطعاً جائز نہیں ہے کہ اس سے تو اندیشہ کفر ہے اور الٹے پاؤں واپس لوٹنا بھی بے اصل وبیجا احترام ہے۔(۲)

(۱) (قولہ وقیل تحرم علی النساء إلخ) قال الرملي أما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب علی ما جرت بہ عادتہن فلا تجوز لہن الزیارۃ، وعلیہ حمل الحدیث، لعن اللّٰہ زائرات القبور، وإن کان للاعتبار والترحم والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین فلا بأس إذا کن عجائز ویکرہ إذا کن شواب کحضور الجماعۃ في المساجد۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الجنائز: فصل السلطان أحق بصلاتہ، الصلاۃ علی المیت في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۲)
وقیل تحرم علی النساء والأصح أن الرخصۃ ثابتۃ۔ (أیضاً:)
عن أنس بن مالک -رضي اللّٰہ عنہ-، قال: مر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم  بامرأۃ تبکي عند قبر، فقال: اتقی اللّٰہ واصبري، قالت: إلیک عني فإنک لم تصب بمصیبتي ولم تعرفہ، فقیل: لہا إنہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأتت باب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم تجد عندہ بوّابین، فقالت: لم أعرفک، فقال: إنما الصبر عند الصدمۃ الأولی۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: باب زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص:۱۷۱، رقم: ۱۲۸۳)
أما علی الأصح من مذہبنا وہو قول الکرخي وغیرہ من أن الرخصۃ في زیارۃ القبور ثابتۃ للرجال والنساء جمیعا فلا إشکال۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’حرم المدینۃ ومکۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۹)
وفي السراج وأما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب کما جرت بہ عادتہن فلا تجوز لہن الزیارۃ، وعلیہ یحمل الحدیث الصحیح ’’لعن اللّٰہ زائرات القبور‘‘ وإن کان للاعتبار والترحم والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین من غیر ما یخالف الشرع ’’فلا بأس بہ إذا کن عجائز‘‘ وکرہ ذلک للشابات کحضورہن في المساجد للجماعات اہـ۔ ’’العیني في شرح البخاري‘‘۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح: ج ۱، ص: ۶۲۰)
(۲)ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص380

اسلامی عقائد

Ref. No. 1064/41-230

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔   اللہ تعالی کے نام دو قسم کے ہیں : ایک قسم ان اسمائے مبارکہ کی ہے جن کا استعمال دوسرے کے لئے ہو ہی نہیں سکتا ہے جیسے اللہ، رحمن، خالق، رازق وغیرہ۔ ان کا غیراللہ کے لئے استعمال کرنا  قطعی حرام ہے جیسے عبدالرحمن کو رحمن کہنا غلط  ہے۔ عبدالخالق کو خالق کہنا درست نہیں ہے۔

دوسری قسم ان ناموں کی ہے جن کا استعمال غیراللہ کے لئے بھی آیاہے،  جیسے قرآن مجید میں آپ ﷺ کے لئے رؤوف رحیم فرمایاگیا ہے۔ ایسے ناموں کو دوسروں  کے لئے بولنے کی گنجائش ہے۔ لہذا عزیز نام رکھنا یا رشید نام رکھنا اور اس نام سے پکارنا درست ہے۔

التسمیۃ باسم یوجد فی کتاب اللہ کالعلی والکبیر والرشید والبدیع جائزۃ وظاھرہ الجواز ولو معرفا بال (شامی کتاب الحظر والاباحۃ 9/598)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1887/43-1781

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  "اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں" یہ ایک اردو محاورہ ہے،  جس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ اللہ کے یہاں انصاف ہے، اگر آج کسی کو اس کا حق نہیں ملا، اس کے کئے کی سزا نہیں ملی، تو کل کو ضرور ملے گی، اس کا حق ضائع نہیں ہوگا، اور اس کی دعا رائیگاں نہیں جائے گی، اس کا یہ مطلب کہ فوری سزا نہیں ملی، اسی کو بندوں کے اعتبار سے دیر ہونے تعبیرکیاگیاہے، اس جملہ سے کوئی کفر لازم نہیں آتاہے۔

ولو بعد حین: قال فی الحاشیۃ 13 الحین یستعمل لمطلق الوقت ولستۃ اشھر ولاربعین سنۃ واللہ اعلم بالمراد والمعنی لااضیع حقک ولا ارد دعائک ولو مضی زمان طویل (مشکوۃ، قبیل الباب الثالث، باب الدعوات 1/195 مکتبہ یاسرندیم دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند