اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی اور رسول کی مشہور تعریف یہ ہے کہ: رسول خاص ہےاور نبی عام ہے، ہر رسول نبی ہوتا ہے، ہر نبی کا رسول ہونا ضروری نہیں ہے،(۱) اس کے علاوہ کلام پاک کے بہت سے مواقع میں بہت سے انبیاء کرام کو رسول کے خطاب سے منسوب کیا ہے، جس نے امت بنائی اور امت سازی سے کام لیا وہ رسول کی فہرست میں ہیں ان سب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں۔ (۲)

(۱) الرسول إنسان بعثہ اللّٰہ تعالیٰ إلی الخلق تبلیغ الأحکام وقد یشترط فیہ الکتاب بخلاف النبي فإنہ أعم۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’النوع الثاني: خبر الرسول المؤید بالمعجزۃ‘‘: ص: ۱۶)
(۲) {أَلَمْ یَأْتِھِمْ نَبَأُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ قَوْمِ نَوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ ۵لا وَقَوْمِ إِبْرٰھِیْمَ وَأَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَالْمُؤْتَفِکٰتِط أَتَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِج فَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا أَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ ہ۷۰} (سورۃ التوبۃ: ۷۰)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 195

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ضروری نہیں ہے۔(۱)

(۱) والفتوی علی بطلان الوصیۃ بغسلہ والصلاۃ علیہ … وکذا تبطل لو أوصي بأن یکفن في ثوب کذا أو یدفن في موضع کذا کما عزاہ إلی المحیط۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع در المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص381

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تعزیہ بدعت ہے اور اس پر تعاون وغیرہ بھی جائز نہیں لیکن اس کا مرتکب گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے(۱) خارج از اسلام نہیں ہے؛ اس لئے اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے۔(۲)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص:۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۲) وشرطہا إسلام المیت وطہارتہ إلخ وقال: من قتل نفسہ عمداً یصلي علیہ عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس: في الصلاۃ علی المیت‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص473

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ عقیدہ درست نہیں ہے؛ البتہ تدفین کے بعد تھوڑی دیر ٹھہر کر قرآن کریم پڑھنا اور دعاء کرنا ثابت ہے۔(۲)

(۲) عن عثمان بن عفان قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، إذا فرغ    من دفن المیت وقف علیہ، فقال: (استغفروا لأخیکم، وسلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل)۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الجنائز: باب الاستغفار عند القبر للمیت في وقت الانصراف‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۹، رقم: ۳۲۲۱)
عن عبد اللّٰہ بن عمر قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: (إذا مات أحد کم فلا تحبسوہ، واسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ فاتحۃ البقرۃ وعند رجلیہ بخاتمۃ البقرۃ)۔ رواہ البیہقي في شعب الإیمان۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الجنائز: باب دفن المیت، الفصل الثالث‘‘: ج ۴، ص: ۱۷۲، رقم: ۱۷۱۷)
ویستحب …… وجلوس ساعۃ بعد دفنہ لدعائٍ وقراء ۃٍ بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۳
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص382

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:محرم الحرام میں یکم تاریخ سے عاشورہ تک دھوم دھام سے ڈھول بجانا اور سرخ کپڑے کا جھنڈا بنانا یا لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ کھلاڑیوں کے جذبات کو اکسانا، تعزیہ بنانا اور اس میں امداد کرنا، عورتوں کا مردوں سے اختلاط جس سے فتنہ کا قوی اندیشہ ہو یہ رسومات غیر شرعی اور بدعت ہیں(۳) اور جو لوگ ان رسومات میں مدد اور امداد کرتے ہیں وہ گنہگار ہیں {وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ}(۱)
اور مقامی علماء کے لئے یہ ضروری ہے کہ عوام کو ان بدعات ورسومات وغیر شرعی امور سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔

(۳) ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)   …إن البدعۃ المذمومۃ ہو الحدث فی الدین من أن لا یکون في عہد الصحابۃ والتابعین ولا دل علیہ دلیل شرعي۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح المقاصد، ’’في علم الکلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۱)
وفي البحر: الأمانۃ علی المعاصي والحث علیہا کبیرۃ۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الشہادات‘‘: ج ۳، ص: ۲۷۷)
مع قطع النظر عما یحصل عند ذلک غالبا من المنکرات الکثیرۃ کإیقاد الشموع والقنادیل التی توجد فی الأفراح، وکذا الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرۃ علی الذکر وقرائۃ القرآن، وغیر ذلک مما ہو مشاہد فی ہذہ الأزمان، وما کان کذلک فلا شک فی حرمتہ وبطلان الوصیۃ بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل البیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۹)
(۱) سورۃ المائدۃ: ۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص474

اسلامی عقائد

Ref. No. 1193 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قلم سے مروجہ طریقہ پر لکھنا اگر باعث برکت ہے تو مہر کے ذریعہ لکھ دینا بھی باعث برکت ہے؛ اصل مقصود تو لکھاجانا ہے، جائز طریقہ پر علاج کے لئے اس طرح لکھنا بھی شرعاً درست ہے،۱۰،۱۲ سال کا بچہ ممیز ہوتا ہے، اس سے مذکورہ تعاون لینا بھی درست ہے، غیر شرعی طریقہ سے احتراز لازم ہے۔ ماخوذ من امداد الفتاوی۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1272/42-637

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بلا کسی شرعی وجہ  کے  لوگوں کو اپنا نام چھپاکر دھوکہ دینا جائز نہیں ، البتہ اگر لڑکے نے گواہوں کے سامنے اپنا دوسرا کوئی غیرمعروف نام بتاکر نکاح  کیا  تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔  یہ اس صورت میں ہے جبکہ لڑکا مجلس نکاح میں موجود ہو، اور اس کی جانب اشارہ کیا جائے۔ لیکن اگر لڑکا مجلس نکاح میں موجود نہیں ہے تو تفصیل ہے؛ اگر گواہ اس نام سے اس کو جانتے ہیں تو نکاح درست ہوجائے گا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کا جب استعمال ہو تو کہنے والے کے لیے لفظ اللہ کے ساتھ تعظیمی الفاظ استعمال کرنا مستحب ہے؛ اس لیے اللہ تعالی، اللہ رب العزت، اللہ جل شانہ، اللہ جل جلالہ اس طرح استعمال کرنا مستحب ہے۔(۱)

۱) {قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَط أَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہٗ الْأَسْمَآئُ الْحُسْنٰی ج وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَا تِکَ وَلَا  تُخَافِتْ بِھَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ  سَبِیْلًا ہ۱۱۰} (سورۃ الإسراء، آیۃ: ۱۱۰)

قال الفخر في تفسیرہ: الصفات الإضافیۃ کل صفۃ لہ تعالیٰ لیست زائدۃ علی الذات ککونہ معلوماً ومذکوراً مسبحا ممجداً۔ (تقریرات الرافعي، علی رد المحتار: ج ۱، ص: ۶)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر بیٹھنا بے ادبی ہے اور قبر پر نماز مکروہ ہے بشرطیکہ قبر سطح زمین سے ابھری ہوئی ہو اگر سطح زمین کے برابر ہے، تو اس پر نماز مکروہ نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) ویکرہ أن یبنی علی القبر أو یقعد أو ینام علیہ أو یوطأ علیہ أو تقضی حاجۃ الإنسان من بول أو غائط أو یعلم بعلامۃ من کتابۃ ونحوہ۔ کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الفصل السادس في القبر والدفن‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۷)
ویکرہ أن یبنی علی القبر مسجد أو غیرہ، کذا في السراج الوہاج۔ (’’أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸)
ولو بلی المیت وصار تراباً جاز، دفن غیرہ في قبرہ وزرعہ والبناء علیہ کذا في التیین۔ (’’أیضاً:‘‘)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص383

اسلامی عقائد

Ref. No. 1271/42-632

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   پہلے سے طے کرلیا جائے تو بطور سروس چارج اس رقم کا لینا جائز ہے، فی صد متعین کرلیا جائے یا ہر ٹرانزیکشن پر رقم متعین کرلی جائے دونوں صورتیں درست ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند