Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:لغت میں کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے اور اسلام اطاعت وفرمانبرداری کا نام ہے، ایمان کا محل قلب ہے اور اسلام کا محل قلب اور سب اعضاء و جوارح لیکن شرعا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول کی محض دل میں تصدیق کرلینا شرعا اس وقت تک معتبر نہیں جب تک زبان سے اس تصدیق کا اظہار اور اطاعت وفرماں برداری نہ کرے، اسی طرح زبان سے تصدیق کا اظہار یا فرماں برداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث میں اسی لغوی مفہوم کی بناء پر ایمان اور اسلام میں فرق کا ذکر بھی ہے، مگر شرعا ایمان بدون اسلام کے اور اسلام بدون ایمان کے معتبر نہیں (خلاصہ معارف القرآن) عرب کے محقق عالم دین شیخ عثیمن نے لکھتے ہیں کہ جب ایمان اور اسلام کا لفظ اکٹھے ہوں تو پھر اسلام سے ظاہر ی اعمال مراد لیے جاتے ہیں، جس میں زبان سے ادا ہونے والے کلمات اور اعضاء سے ہونے والے اعمال شامل ہیں اور یہ کلمات اور اعمال کامل ایمان والامومن یا کمزور ایمان والامومن بھی کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے {قَالَتِ الْأَعْرَابُ أٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیْمَانُ فِيْ قُلُوْبِکُمْط}(۱) اسی طرح منافق شخص کو ظاہر ی طور پر تو مسلمان کہا جاتا ہے، لیکن وہ باطنی طور پر کافر ہے اور ایمان سے مراد باطنی یا قلبی امور لیے جاتے ہیں اوریہ کام صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو حقیقی مومن ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ إِذَاذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ أٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ إِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ہجصلے ۲ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ہط ۳ أُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاط}(۲) اس اعتبار سے ایمان کا درجہ اعلی ہوگا لہٰذا ہر مومن مسلمان ہے، لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہے بہر حال اس طرح کی مختلف تعبیریں حضرات علماء سے منقول ہیں، لیکن اتنی بات طے ہے کہ ایمان کے لیے اسلام ضروری ہے اور اسلام کے لیے ایمان ضروری ہے، انسان کو اپنے ظاہر ی اعمال کے ساتھ باطنی اعمال اور قلبی یقین کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔(۳)
(۱) سورۃ الحجرات: ۱۴۔
وذہب جمہور المحققین إلی أن الإیمان ہو التصدیق بالقلب، وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا۔ (أبو حنیفہ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الإیمان ہو التصدیق والإقرار‘‘: ص: ۱۴۳)
والإسلام ہو التسلیم والإنقیاد لأوامر اللّٰہ تعالیٰ فمن طریق اللغۃ فرق بین الإسلام والإیمان ولکن لا یکون إیمان بلا إسلام ولا یوجد إسلام بلا إیمان وہما کا لظہر مع البطن والدین اسم واقع علی الإیمان والإسلام والشرائع کلہا۔ (’’أیضاً‘‘: بحث في بیان معنی الإسلام ونسبتہ إلی الإیمان‘‘: ص: ۱۴۹)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سلسلے میں مفتی کفایت اللہ صاحب کی تحریر بہت کافی وشافی ہے، وہ لکھتے ہیں:
چندن کا قشقہ لگانا اگر چہ ہندؤں کا قومی اور مذہبی شعار ہے لیکن اس میں شبہ ضرور ہے کہ آیا یہ فعل ان کا ایسا مذہبی شعار ہے جو مستلزم کفر ہو یا نہیں جولوگ اسے شعار کفر قرار دیں وہ ان لوگوں کی تکفیر کریں گے، لیکن مجھے تامل ہے میرے خیال میں یہ شعار کفر نہیں اگر چہ کافروں کا شعار ہے، اس کی مثال ڈاڑھی منڈانا،الٹی طرف گریبان بنانا ہے یاانگریزی ٹوپی پہن لیناہے کہ یہ قوم کفار کے قومی شعار ہیں، لیکن شعار کفر نہیں ہے، اسی طرح چندن کو بھی خیال کرتا ہوں ورنہ کم از کم اس میں شبہ ضرور ہے اور شبہ کی حالت میں تکفیر کی جرأت نہیں کرسکتا۔ (۱)
ماتھے پر چندن کا قشقہ لگانا غیر مسلموں کی تہذیب ہے اور یہ ان کا قومی شعار ہے، اس لئے مسلمانوں کے لئے چندن کا قشقہ لگانا درست نہیں ہے، حدیث میں غیر کی مشابہت اختیار کرنے اور غیرکی جماعت کو بڑھانے سے منع کیا گیا ہے ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘(۲) اس لئے اس عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے، مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ اتحاد ویگانکت پیدا کرنے کی اجازت ہے، لیکن ایسا اتحاد کہ اسلام مغلوب ومظلوم ہوجائے اور اسلامی تہذیب کی خلاف ورزی کرکے غیروں کے قومی شعار کو اپنایا جائے درست نہیں ہے۔
البتہ اگر کوئی شخص ماتھے پر چندن کا قشقہ لگائے تو اس کی تکفیر کی جائے گی یا نہیں؟ اس سلسلے میں مفتی صاحب کا بیان بہت واضح ہے، میرے خیال سے اگر وہ بغیر دباؤ کے لگانے کو غلط سمجھے، لیکن اپنی سیاسی مجبوری سمجھ کر لگالے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، لیکن اگر اسے اپنی رضا اور خوشی سے لگائے اور بجائے اپنے عمل پر نادم ہونے کے اس پر خوش ہو اور اس کے جواز کے حیلے بیان کررہا ہو تو ایسے شخص کو اپنے ایمان کی خیر منانی ہوگی، اس لئے کہ رضا بالکفر بھی کفر ہے اورمعصیت کو حلال سمجھنا بھی کفر ہے۔(۱)
(۱) مفتی کفایت اللّٰہ، کفایت المفتي: ج ۱۳، ص: ۱۸۰)
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشھرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱۔
(۱) من اعتقد الحرام حلالاً أو علی القلب یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالحلال والحرام‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴)
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 173)
اسلامی عقائد
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس سلسلے میں کفایت المفتی میں درج ہے: گرنتھ صاحب کو سجدہ کرنا یا پھول چڑھانا مسلمانوں کے لئے حرام ہے، اسلام نے دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کی توہین کرنے اور ان کو برا کہنے سے منع کیا ہے، ان کی تعظیم کا حکم نہیں دیا ہے، خصوصا ایسی تعظیم جو عبادت کے درجے تک پہونچی ہو کسی طرح جائز اور مباح نہیں ہوسکتی ہے۔(۲)
اسلام میں مجسموں کی حیثیت بت کی ہے اور بت کی تعظیم کفر ہے، یہ ایک متفقہ مسئلہ ہے، اب یہاں دیکھنا ہے مجسموں پر ہار ڈالنا کیا کوئی قانونی مجبوری ہے یا باہمی رواداری ہے، اگر کوئی قانونی یا سیاسی مجبوری ہو، تو ناجائز اور غلط سمجھتے ہوئے ہار ڈالا جاسکتا ہے، جب کہ اس پر توبہ واستغفار بھی کرنا چاہئے اور اگر یہ کوئی قانونی مجبوری نہیں ہے تو محض اپنے آپ کو سیکولر دکھانے کے لئے حرام کاموں پر جرأت نہیں کرنی چاہئے او راگر کوئی شخص مجسموں پر ہار ڈالتا ہے اسے غلط سمجھتے ہوئے تو اس کا یہ عمل غلط ہوگا، لیکن اس کی بنا پر اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی اور اگر اس کا یہ عمل مجسموں کی تعظیم کے پیش نظر ہو تو بت کی تعظیم کی وجہ اس کا یہ عمل دائرہ کفر میں آئے گا، جب کہ غالب گمان یہ ہے کہ سیاسی لیڈران اپنے سیکولر کردار کو ظاہر کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں، مجسموں کی تعظیم کے پیش نظر ایسا نہیں کرتے ہیں۔ (۱
(۲) مفتی کفایت اللّٰہ، کفایت المفتی: ج ۱۳، ص: ۱۷۱۔
(۱) إذا سجد واحد لہؤلاء الجبابرۃ فہو کبیرۃ من الکبائر وہل یکفر؟ قال بعضہم: یکفر مطلقا، وقال أکثرہم: ہذا علی وجوہ إن إراد بہ العبادۃ یکفر وأن أراد التحیۃ لم یکفر، ویرحم علیہ ذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۲)
دار العلوم وقف دیوبند
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 174)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورتوں کے مزارات پر جانے کی، ان کی نوحہ و گریہ کرنے کی وجہ سے پہلے ممانعت تھی، بعد میںاجازت دیدی گئی تھی۔ بخاری شریف میں حدیث موجود ہے، لیکن محرم کے ساتھ ہو، بے پردگی نہ ہو، مردوں سے اختلاط نہ ہو، ان شرائط کی پابندی ضروری ہے۔(۱) مزارات کا طواف قطعا ناجائز ہے اسی طرح سجدہ کرنا قطعاً جائز نہیں ہے کہ اس سے تو اندیشہ کفر ہے اور الٹے پاؤں واپس لوٹنا بھی بے اصل وبیجا احترام ہے۔(۲)
(۱) (قولہ وقیل تحرم علی النساء إلخ) قال الرملي أما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب علی ما جرت بہ عادتہن فلا تجوز لہن الزیارۃ، وعلیہ حمل الحدیث، لعن اللّٰہ زائرات القبور، وإن کان للاعتبار والترحم والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین فلا بأس إذا کن عجائز ویکرہ إذا کن شواب کحضور الجماعۃ في المساجد۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الجنائز: فصل السلطان أحق بصلاتہ، الصلاۃ علی المیت في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۲)
وقیل تحرم علی النساء والأصح أن الرخصۃ ثابتۃ۔ (أیضاً:)
عن أنس بن مالک -رضي اللّٰہ عنہ-، قال: مر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بامرأۃ تبکي عند قبر، فقال: اتقی اللّٰہ واصبري، قالت: إلیک عني فإنک لم تصب بمصیبتي ولم تعرفہ، فقیل: لہا إنہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأتت باب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم تجد عندہ بوّابین، فقالت: لم أعرفک، فقال: إنما الصبر عند الصدمۃ الأولی۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: باب زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص:۱۷۱، رقم: ۱۲۸۳)
أما علی الأصح من مذہبنا وہو قول الکرخي وغیرہ من أن الرخصۃ في زیارۃ القبور ثابتۃ للرجال والنساء جمیعا فلا إشکال۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’حرم المدینۃ ومکۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۹)
وفي السراج وأما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب کما جرت بہ عادتہن فلا تجوز لہن الزیارۃ، وعلیہ یحمل الحدیث الصحیح ’’لعن اللّٰہ زائرات القبور‘‘ وإن کان للاعتبار والترحم والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین من غیر ما یخالف الشرع ’’فلا بأس بہ إذا کن عجائز‘‘ وکرہ ذلک للشابات کحضورہن في المساجد للجماعات اہـ۔ ’’العیني في شرح البخاري‘‘۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح: ج ۱، ص: ۶۲۰)
(۲)ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص380
اسلامی عقائد
Ref. No. 1064/41-230
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ اللہ تعالی کے نام دو قسم کے ہیں : ایک قسم ان اسمائے مبارکہ کی ہے جن کا استعمال دوسرے کے لئے ہو ہی نہیں سکتا ہے جیسے اللہ، رحمن، خالق، رازق وغیرہ۔ ان کا غیراللہ کے لئے استعمال کرنا قطعی حرام ہے جیسے عبدالرحمن کو رحمن کہنا غلط ہے۔ عبدالخالق کو خالق کہنا درست نہیں ہے۔
دوسری قسم ان ناموں کی ہے جن کا استعمال غیراللہ کے لئے بھی آیاہے، جیسے قرآن مجید میں آپ ﷺ کے لئے رؤوف رحیم فرمایاگیا ہے۔ ایسے ناموں کو دوسروں کے لئے بولنے کی گنجائش ہے۔ لہذا عزیز نام رکھنا یا رشید نام رکھنا اور اس نام سے پکارنا درست ہے۔
التسمیۃ باسم یوجد فی کتاب اللہ کالعلی والکبیر والرشید والبدیع جائزۃ وظاھرہ الجواز ولو معرفا بال (شامی کتاب الحظر والاباحۃ 9/598)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1887/43-1781
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں" یہ ایک اردو محاورہ ہے، جس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ اللہ کے یہاں انصاف ہے، اگر آج کسی کو اس کا حق نہیں ملا، اس کے کئے کی سزا نہیں ملی، تو کل کو ضرور ملے گی، اس کا حق ضائع نہیں ہوگا، اور اس کی دعا رائیگاں نہیں جائے گی، اس کا یہ مطلب کہ فوری سزا نہیں ملی، اسی کو بندوں کے اعتبار سے دیر ہونے تعبیرکیاگیاہے، اس جملہ سے کوئی کفر لازم نہیں آتاہے۔
ولو بعد حین: قال فی الحاشیۃ 13 الحین یستعمل لمطلق الوقت ولستۃ اشھر ولاربعین سنۃ واللہ اعلم بالمراد والمعنی لااضیع حقک ولا ارد دعائک ولو مضی زمان طویل (مشکوۃ، قبیل الباب الثالث، باب الدعوات 1/195 مکتبہ یاسرندیم دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص کے لئے جائز نہیں کہ مندر میں جاکر مورتیوں کے سامنے ہاتھ جوڑے خواہ سیاست میں کیوں نہ ہو؛ اس لئے کہ یہ بظاہر غیر اللہ کی پوجا اور عبادت ہے اور جیسے کہ حقیقتاً غیر اللہ کی پوجا جائز نہیں ظاہراً بھی جائز نہیں نیز یہ کہ کس کس کے سامنے یہ شخص اس عمل کے سیاسی ہونے کی تشریح کرے گا، لوگ تو ظاہر حال کے دیکھنے کے مکلف ہیں ہر طرف سے یہ شخص متہم ہوگا اور چونکہ یہ شخص شرعاً کافر نہیں ہوا اس لئے تجدید نکاح لازم نہیں ہے۔ (۱)
(۱) الکفر شيء عظیم فلا أجعل المؤمن کافراً حتی وجدت روایۃ أنہ لا یکفر … إلی قولہ … لا یفتي بکفر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل حسن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)
إذا کانت في المسألۃ وجوہٌ توجب الکفر، ووجہ واحدٌ یمنع، فعلی المفتي أن یمیل إلی ذلک الوجہ: کذا في الخلاصۃ۔ … ثم إن کان کانت نیۃ القائل الوجہ الذي یمنع التکفیر فہو مسلم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)
دار العلوم وقف دیوبند
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 176)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس قسم کے وظائف کہ جن میں غیر اللہ سے مدد طلب کی جائے حرام ہیں ان سے بچنا چاہئے ایسا کرنے والے سخت گنہگار ہیں۔ (۲)
(۲) {وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِط} (سورہ یونس: ۱۸)
{وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ م مَا نَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰیط} (سورہ الزمر: ۳)
؟عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: کان المشرکون یقولون: لبیک لا شریک لک، قال: فیقول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (ویلکم قد قد) فیقولون: إلا شریکاً ہو لک،
… تملکہ وماملک۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب التلبیۃ وصفتہا ووقتہا‘‘: ج ۲، ص: ۸۴۱، رقم: ۱۱۸۵)؟
ویکفر بقولہ أرواح المشایخ حاضرۃ تعلم۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد، ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۵)
وأعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر غلطی اور انجانے سے کوئی کفریہ کلمہ زبان سے نکل جائے تو اس کفریہ کلمہ کی وجہ سے وہ شخص کافر نہیں ہوگا، مسلمان ہی ہے جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: ’’وماکان
خطأ من الألفاظ لا یوجب الکفر فقائلہ مومن علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح‘‘ (۱) اور اس شخص پر مذکورہ صورت میں تجدید نکاح بھی لازم نہیں ہے؛ لیکن ایسے الفاظ جو کفریہ ہوں ان کا استعمال کرنا بہت غلط ہے آئندہ احتیاط کرنی ضروری ہے اور اس شخص پر توبہ اور استغفار لازم ہے۔ ’’ولکن یؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلک‘‘(۲) ’’ومن تکلم بہا مخطئاً أو مکرہا لا یکفر عند الکل‘‘۔ (۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳
…(۲) أیضاً:
(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج۶، ص: ۳۵۸۔
دار العلوم وقف دیوبند
(فتاوی دار العلوم وقف دیوبند جلد اول ص 176)