اسلامی عقائد

Ref. No. 1665/43-1385

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمہور کا مسلک یہ کہ ہے  اگر کسی نے محرم  سے نکاح کیا اور صحبت کی جبکہ اس کو اس کے حرام ہونے کا علم تھا تو  اس پر حد زنا جاری ہوگی، اور بچہ اسی کی جانب منسوب ہوگا۔ البتہ امام ابوحنیفہ  رحمہ اللہ کے نزدیک اس کے لئے تعزیر ہےجو حاکم کی صوابدید پر ہے اور یہ تعزیری سزا شرعی حد سے بھی سخت ہوسکتی ہے۔  لیکن حدود وتعزیر وغیرہ احکام وہاں جاری ہوتے ہیں جہاں اسلامی حکومت ہو۔

من استحل ما حرمہ  اللہ علی وجہ الظن لایکفر وانما یکفر اذا اعتقد الحرام حلالا، لا اذا ظنہ حلالا، الاتری انھم قالوا فی نکاح المحرم لوظن الحل فان لا یحد بالاجماع و یعزر کمافی الظھیرۃ (البحرالرائق، زین الدین ابن نجیم الحنفی 5/17)۔ کتاب الفقہ اردو، محارم سے نکاح کا بیان 5/114 ادارہ تعلیمات اسلام دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’قال في رد المحتار: قال في الحلیۃ: ویکرہ أن یوضع تحت المیت في القبر مضربۃ أو مخدۃ أو حصیر أونحو ذلک۔ ولذا عبر بلا یجوز‘‘(۱) مذکورہ بالا عبارت سے یہ مسئلہ واضح ہوگیا کہ قبر میں میت کے ساتھ کسی چیز کا رکھنا ناجائز اور مکروہ تحریمی ہے۔ ان رسومات سے بچنا ہر مسلمان کے لئے لازم اور ضروری ہے۔(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:    باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۹۱۔
(۲) وکرہ أن یکون تحت رأس المیت في القبر مخدۃ ونحوہا، ہکذا ذکرہ ’’المرغیناني‘‘ وکرہ ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن یلقی تحت المیت شیء في قبرہ۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الجنائز: کیفیۃ الدفن‘‘: ج ۳، ص: ۲۹۵)
قال الترمذي: وقد روي ابن عباس أنہ کرہ أن یلقی تحت المیت في القبر شیء وإلی ہذا ذہب بعض أہل علم، قال الباني: صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجنائز: الثوب الواحد یلقی تحت المیت في القبر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳، رقم: ۱۰۴۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص364

اسلامی عقائد

Ref. No. 1107 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  تحقیق نہیں ہے۔

واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1483/42-946

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔1۔ آسمانی بجلی سے ہلاک ہونے والے شخص پر بھی شہید کا اطلاق ہوگا اور اخروی اعتبار سے اس کو شہید کہاجائے گا۔

لو مات حتف أنفه أو بترد أو حرق أو غرق أو هدم لم يكن شهيدا في حكم الدنيا، وإن كان شهيدا في الآخرة )شامی، باب الشھید 2/248)

فالحاصل أنه إذا وجب بقتله القصاص وإن سقط لعارض أو لم يجب بقتله شيء أصلا فهو شهيد كما علمته. أما إذا وجب به المال ابتداء فلا؛ وذلك بأن كان قتله شبه العمد كضرب بعصا، أو خطإ كرمي غرض فأصابه أو ما جرى مجراه كسقوط نائم عليه، وكذا إذا وجب به القسامة لوجوب المال بنفس القتل شرعا.( شامی، باب الشھید 2/249)

ومن قتل مدافعا عن نفسه أو ماله أو عن المسلمين أو أهل الذمة بأي آلة قتل بحديد أو حجر أو خشب فهو شهيد، كذا في محيط السرخسي. ولو كان المسلمون في سفينة فرماهم العدو بالنار فاحترقوا من ذلك وتعدى إلى سفينة أخرى فيها المسلمون فاحترقوا كلهم شهداء، كذا في الخلاصة (الھندیۃ الفصل السابع فی الشہید 1/168)

2۔یہ فطری خوف ہے یہ ایمان کے منافی نہیں ہے۔ مذکورہ وظائف کے علاوہ  "الذین آمنوا وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ ، الا بذکر اللہ تطمئن القلوب" اور  "یا قوی قونی و قلبی"  بھی کثرت سے سینے پر ہاتھ رکھ کر پڑھا کریں،یہ ہمارے بڑوں کا مجرب وظیفہ ہے، ان شاء اللہ اس سے گھبراہٹ میں افاقہ ہوگا اور  کمی آئے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تدفین سے فراغت کے بعد جب لوگ واپس ہوجاتے ہیں تو فوراً منکرنکیر آکر سوال و جواب کرتے ہیں(۱) البتہ رمضان المبارک اور یوم جمعہ(۲) میں انتقال کرنے والوں کا حساب و کتاب مؤخر کردیا جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد سوال وجواب ہوتے ہیں یا نہیں اس کی وضاحت نہیں ہے۔
سوال وجواب کے وقت ظاہر ہے کہ پوری روح جسم میں ڈال کر زندہ کردیا جاتا ہے کہ پوری سوجھ بوجھ اور سمجھداری کے ساتھ جواب دے سکے، اس کے بعد مومن کی روح اعلی علیین میں اور کافر کی روح سجیین میں پہونچادی جاتی ہے۔ مگر روح کا تعلق جسم کے ساتھ اس طرح رہتا ہے جس طرح آسمان سے سورج کی کرنیں دنیا کی چیزوں پر پڑتی ہیں اور ان میں اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں اسی اثر کی وجہ سے جسم کو عذاب کی تکلیف اور انعام کی راحت محسوس ہوتی ہے۔(۳)

۱) عن عثمان بن عفان -رضي اللّٰہ عنہ- کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلمإذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ، فقال: استغفروا لأخیکم واسألو اللّٰہ لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسئل۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الجنائز: باب الاستغفار عند القبر للمیت في وقت الانصراف‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۹، رقم: ۳۲۲۱)
(۲) ثم ذکر أن من لا یسأل ثمانیۃ! … ومنہم … والمیت یوم الجمعۃ أو لیلتہا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ثمانیۃ لا یسألون في قبورہم‘‘: ج ۳، ص: ۸۱)
عذاب القبر حق وسؤال منکر ونکیر وضغطۃ القبر حق، … ویرفع عنہ یوم الجمعۃ وشہر رمضان۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: ما اختص بہ یوم الجمۃ‘‘: ج ۳، ص: ۴۴)
(۳) وسؤال منکر ونکیر وہما ملکان یدخلان القبر فیسئلان العبد إلخ۔ (علامہ تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ ’’بحث عذاب القبر‘‘: ص: ۹۸)
وأعلم أن أہل الحق اتفقوا علی أن اللّٰہ تعالیٰ یخلق في المیت نوع حیاۃ في القبر قدر ما یتألم، أو یتلذذ … وکلامہ (أبي حنیفۃ) ہنا یدل علی إعادۃ الروح، إذ جواب الملکین فعل اختیاري فلا یتصور بدون الروح۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، بحث في أن عذاب القبر حق، وبیان أن الروح تعاد للمیت‘‘: ص: ۱۷۲)
إن عذاب القبر حق، سواء کان مؤمناً أو کافراً أو مطیعاً أو فاسقاً۔ (أیضاً:)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص237

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے نام پر دینا، کسی مزار یا کسی خاص مقام پر یا کسی خاص شخصیت کے نام پر نذر و نیاز کرنا، یا مرغ و بکرے وغیرہ چڑھانا یہ سب حرام ہے خواہ اس جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ ہی کیوں نہ پڑھ لی جائے؛ اس لیے کہ اس میں اللہ سے بڑھ کر دوسروں (مخلوق) کی تعظیم لازم آتی ہے شامی میں ہے ’’ذبح لقدوم الأمیر و نحوہ کواحد من العظماء یحرم لأنہ أہل بہ لغیر اللّٰہ تعالٰی‘‘(۱) قبر پر چادر وغیرہ چڑھانے کی حرمت بھی نص قطعی سے ثابت ہے نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’إن اللّٰہ لم یأمرنا أن نکسو الحجارۃ والطین‘‘(۲) نیز غیر اللہ سے مرادیں مانگنا بھی حرام ہے اور اگر کوئی غیر اللہ کو قادر مطلق سمجھ کر اس سے مانگے تو وہ کافر ہے۔(۳)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الذبائح‘‘: ج ۹، ص: ۴۴۹۔
ولو ذبح لأجل قدوم الأمیر أو قدوم واحد من العظماء وذکر إسم اللّٰہ یحرم أکلہ لأنہ ذبحہا لأجلہ تعظیما لہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’ما یقولہ عند الذبح‘‘: ج ۸، ص: ۱۹۲)…(۲) أخرجہ المسلم، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس: باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۰، رقم: ۲۱۰۷۔
(۳) {وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالَا یَنْفَعُکَ وَلَایَضُرُّکَج فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ ہ۱۰۶} (سورۃ یونس: ۱۰۶)
{وَإِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ  بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ  لَہٗٓ  إِلَّا ھُوَ} (سورۃ یونس: ۱۰۸)
وأعلم أن الأمۃ لو اجتمعت علی أن ینفعوک بشیء لم ینفعوک إلا بشيء قد کتبہ اللّٰہ لک۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الزہد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸، رقم: ۲۵۱۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص365

اسلامی عقائد

Ref. No. 2380/44-3605

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہمارے ملک ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، اور قانونی طور پر ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے۔ اس لئے اگر کسی کمپنی میں یا ادارہ میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے طور پر اپنے مذہبی امور انجام دیتے ہیں اور دوسروں کو مجبور نہیں کرتے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1032/41-258

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   شادی کے موقع پر اس طرح کا پروگرام، جس میں شادی کے فضائل ومسائل کا تذکرہ ہو، اور نکاح کے دوام و بقاء کی دعا کی جائے ،درست ہے۔ اس کے علاوہ اگر مزید کچھ امور انجام دئے جاتے ہوں تو اس  کی وضاحت کرکے مسئلہ معلوم کرلیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کلام کو احیاء موتیٰ کے مقصد کے لئے استعمال نہ کیا جائے، اس لئے کہ متکلم کا مقصد یہ نہیں ہوتا۔ مراد یہ ہے کہ جن لوگوں کے دل مر گئے بدعقیدگی میں مبتلا ہو کر ان کو راہِ راست پر لے آئے۔ یہ مقصد مستحن ہے اور متکلم کا منشاء بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اسی سے ملتا ہوا شعر ہے:
آناںکہ خاک رابنظر کیمیا کنند
آیا بود کہ گوشہ چشم بما کنند
اس کے جواب میں شاہ عبدالعزیز دباغ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ان کے بارے میں آپ کیاکہیں گے۔ پس کلام کے کہنے والے کی اصل منشاء اور مقصد معلوم ہونے کے بعد ہی کوئی حکم لگاناچاہئے اور توجیہ القول بمالا یرضی قائلہ کا مرتکب ہو کر گناہگار نہ ہونا چاہئے۔(۱)

۱) إذا کان في المسئلۃ وجوہ توجب الکفر، ووجہ واحد یمنع، فعلی المفتي: أن یمیل إلیٰ ذلک الوجہ، کذا في ’’الخاصۃ‘‘۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳)
إذا أنکر آیۃ من القرآن أواستخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع … کفر۔ (عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان، مجمع الأنھر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)
ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان ونسمیہ مؤمناً حقیقۃ۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص238
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب چڑھاوے وغیرہ کا سارا مال بالیقین حرام ہے، تو اس کو خود کھانا یا اپنی ذات پر یا مدرسہ یا مسجد میں استعمال کرنا بھی ناجائز و حرام ہی ہے؛ بلکہ اسے صدقہ کر دے۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ طیب لا یقبل إلا الطیب۔ (مشکوۃ شریف، ’’کتاب البیوع: باب الکسب وطلب الحلال‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱)
وحرام مطلقاً علی الورثۃ) أي سواء علموا أربابہ أولا، فإن علموا أربابہ ردوہ علیہم، ولا تصدقوا بہ کما قدمناہ آنفاً من الزیلعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۵۴)
(وقولہ: لو بمالہ الحلال) قال تاج الشریعۃ: أما لو انفق في ذلک ما لا خبیثاً ومالا سببہ الخبیث والطیّب فیکرہ لأن اللّٰہ تعالیٰ لا یقبل إلا الطیّب، فیکرہ تلویث بیتہ بمالا یقبلہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما لا یکرہ فیہا، مطلب کلمۃ لا بأس دلیل أن علی أن المستحب غیرہ‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۱
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص366