اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح کے جملہ کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مانگنے کی ترغیب ہو، اور توجہ اللہ کی طرف ہو، اس لئے اس جملہ میں کوئی حرج نہیں اور نہ ایمان کو کوئی خطرہ۔ تاہم اگر قائل یہ عقیدہ رکھے کہ بغیر مانگے اللہ تعالیٰ کچھ نہیں دیتے تو ایسے جملوں سے پرہیز ضروری ہے۔ (۱)

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ  یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍہ۳۷} (سورۃ آل عمران: ۳۷)

{وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاہلا ۲ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُط وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗط إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖط قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًاہ ۳} (سورۃ الطلاق: ۲۔۳)

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر اس نے استخفاف اور استہزا کے طور قرآن کو پھینکا ہے، تو اس کا یہ امر موجب کفر وارتداد ہے۔(۱)

(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیأ من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷)

تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتی تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)

(فتاوی دار العلوم وقف دیوبند جلد اول ص 179)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے دعاء مانگنا حدیث اور اجماع سے ثابت ہے: ’’ویستفاد من قصۃ العباس رضي اللّٰہ عنہ: استحباب الاستشفاع بأہل الخیر والصلاح وأہل بیت النبوۃ‘‘(۱) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے استسقاء کے لئے دعاء مانگی تھی کہ ’’اے اللہ ہم تیرے پیغمبر علیہ السلام کے وسیلہ سے دعاء مانگا کرتے تھے، تو بارش عطا فرماتا تھا اب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعاء مانگتے ہیں ہماری دعاء قبول فرما اور بارش عطاء فرما؛ چنانچہ دعاء کے بعد بارش ہوئی، جیسا کہ امام بخاری نے نقل کیا ہے، ’’عن أنس بن مالک، أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ، کان إذا قحطوا استسقیٰ بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللّٰہم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتسقینا وإنا نتوسل إلیک بعم بنبینا فأسقنا، قال: فیسقون‘‘(۲) مذکورہ حدیث پاک سے واضح ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے اور غیر نبی جو اللہ کے محبوب ومقبول بندے ہوں ان کے توسل اور وسیلہ سے دعاء مانگنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ مستحسن اور اجابت دعاء میں مؤثر ہے۔ ’’ومن آداب الدعاء تقدیم الثناء علی اللّٰہ والتوسل بنبي اللّٰہ، لیستجاب الدعاء‘‘(۱)

(۱) ابن حجر، فتح الباري، ’’کتاب الاستسقاء: باب سوال الناس الإمام الاستسقاء‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ،  ’’کتاب الاستسقاء: باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، رقم: ۱۰۱۰۔
(۱) الشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ’’الأمور التي لا بد منہا في الصلوٰۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص275

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سیاسی وسماجی طور پر ایسی راہ اختیار کی جاسکتی ہے۔ (۱) عقیدہ کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔ (۲)

۱) {قُلْ ٰٓیأَ یُّھَا الْکٰفِرُوْنَہلا ۱  لَآ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَہلا۲  وَلَآ أَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ أَعْبُدْہج ۳ وَلَآ أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْہلا ۴ وَلَآ أَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ أَعْبُدُہط ۵  لَکُمْ دِیْنُکُمْ  وَلِيَ دِیْنِ ہع  ۶} (سورۃ الکافرون)

(۲) وللإمام الرازي أو جہ في تفسیر ہا لا یخلو بعضہا عن نظر، وذکر علیہ الرحمۃ أنہ جرت العبادۃ بأن الناس یتمثلون بہذہ الآیۃ عند المتارکۃ، وذلک لا یجوز لأن القرآن ما أنزل لیتمثل بہ بل لیہتدي بہ، وفیہ میل إلی سرّ باب الاقتباس، والصحیح جوازہ الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الکافرون، تفسیر الآیات: ۱-۶‘‘: ج ۱۶، ص: ۴۵۷)

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسے افراد کے بارے میں فقہاء نے تصریح کی ہے کہ وہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔ کفر ان پر لازم آجاتا ہے۔(۱)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیأ من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷)

إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن، أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي ’’الخزانۃ‘‘: أو عاب کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)

 

مفتی دار العلوم وقف دبوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ وسیلہ جائز اور درست ہے، اگرچہ اس میں علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اختلاف کیا ہے جن پر فقہ کا غلبہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ابن قیم بہت سے مسائل میں اہل سنت والجماعۃ کہ خلاف چلے گئے ہیں؛  اس لئے ابن قیم اور ان کی نسبت کا اختلاف حجت نہیں ہوگا جمہور علماء جواز کے قائل ہیں پس جمہور کا قول معتبر ہوگا۔ جیسا کہ روح المعانی اور فتح الباری کی عبارت میں اس کی تصریح موجود ہے۔
’’ففیہ جعل الدعاء وسیلۃ وہو جائز بل مندوب۔ ویحسن التوسل والاستغاثہ بالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی ربہ ولم یکن أحد من السلف والخلف حتی جاء ابن تیمیہ فانکر ذلک وعدل الصراط المستقیم وابتدع مالم یقلہ وصار بین الأنام مثلہ انتہی۔ في صحیح البخاري عن أنس -رضي اللّٰہ عنہ- أن عمر بن الخطاب -رضي اللّٰہ عنہ- کان إذا قحطوا استسقٰی باالعباس فقال اللہم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتسقینا وأنا نتوسل إلیک بعم نبینا فأسقنا الخ، أما الأول: فلقول عمر -رضي اللّٰہ عنہ- فیہ کنا نتوسل بنبیک، وأما الثاني: فلقولہ أنا نتوسل بعم بنبیک لما قیل: أن ہذ التوسل لیس من باب الأقسام بل ہو من جنس الاستشفاع وہو أن یطلب من الشخص الدعاء والشفاعۃ ویطلب من اللّٰہ تعالیٰ أن یقبل دعائہ وشفاعتہ ویؤید ذلک أن العباس -رضي اللّٰہ عنہ- کان یدعوا وہم یومنون لدعائہ حتی سقوا الخ‘‘۔
پس جمہور کے قول پر عمل کرتے ہوئے جواز توسل ہی راجح ہے۔(۱)
(۱) علامہ محمود آلوسي، روح المعاني: ج ۶، ص: ۱۲۶-۱۲۷۔
عن أنس بن مالک أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ: کان إذا قحطوا استسقیٰ بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللّٰہم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا فتسقینا وأنا نتوسل إلیک بعم نبینا فأسقنا، قال: فیسقون۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاستسقاء: باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، رقم: ۱۰۱۰)
ومن أٓداب الدعاء تقدیم الثناء علی اللّٰہ والتوسل بنبي اللّٰہ، یستجاب الدعاء۔ (الشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ’’الأمور التي لا بد منہا في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴)
إن التوسل بالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم جائز في کل حال قبل خلقہ وبعد خلقہ في مدۃ حیاتہ في الدنیا وبعد موتہ فی مدۃ البرزخ۔ (السبکي، شفاء السقام: ص: ۳۵۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص276

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کے لئے سفر کرنے میں شرعی قباحت نہیں ہے۔(۱) البتہ بزرگان دین کے جن مزارات پر اہل بدعت کا تسلط ہے اور وہاں بدعات وخرافات انجام دی جاتی ہوں وہاں زیارت کے لئے نہ جانا چاہئے، بلکہ اپنے مقام پر رہ کر ہی ایصال ثواب پر اکتفا کرنا چاہئے۔(۲)

(۱) ذہب بعض العلماء إلی الاستدلال بہ علی المنع من الرحلۃ لزیارۃ المشاہد وقبور العلماء والصالحین، وما تبین في أن الأمر کذلک، بل الزیارۃ مأمور بہا لخبر: (کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور ألا فزوروہا)۔ والحدیث إنما ورد نہیا عن الشد لغیر الثلاثۃ من المساجد لتماثلہا، بل لا بلد إلا وفیہا مسجد، فلا معنی للرحلۃ إلی مسجد آخر، وأما المشاہد فلا تساوي بل برکۃ زیارتہا علی قدر درجاتہم عند اللّٰہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب المساجد ومواضع الصلوٰۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۹، رقم: ۶۹۳)
عن أبی ہریرۃ، قال: زار النبي صلی النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم قبر أمہ فبکی وأبکی من حولہ فقال استأذنت ربي في أن أستغفر لہا فلم یؤذن لي واستأذنتہ في أن أزور قبرہا فأذن لي فزوروا القبور فإنہا تذکر الموت۔ (أخرجہ المسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل جواز زیارۃ قبور المشرکین ومنہ الاستغفار لہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۹۷۶)
(۲) وأما أہل السنۃ والجماعۃ فیقولون في کل فعل وقول لم یثبت عن الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم ہو بدعۃ لأنہ لو کان خیراً لسبقونا إلیہ، لأنہم لم یترکوا خصلۃ من خصال الخیر إلا وقد بادروا إلیہا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأحقاف: ۱۰-۱۴‘‘: ج ۷، ص: ۲۵۶)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص385

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:محرم الحرام کے چاند میں نئی دلہن کو چھپانا بالکل غلط عقیدہ ہے، ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقومٍ فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
قولہ ومبتغ في الإسلام سنۃ الجاہلیۃ أي یکون لہ الحق عند شخص فیطلبہ من غیرہ ممن لا یکون لہ فیہ مشارکۃ کوالدہ أو ولدہ أو قریبہ وقیل المراد من یرید بقاء سیرۃ الجاہلیۃ أو إشاعتہا أو تنفیذہا۔ (ابن حجر، فتح الباري، ’’قولہ باب العفو في الخطأ بعد الموت‘‘: ج ۱۲، ص: ۲۲۱، رقم: ۶۸۸۲)
{قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِکَ وَبِمَنْ مَّعَکَط قَالَ ٰٓطئِرُکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَہ۴۷} (سورۃ النمل: ۴۷)
{فَإِذَا جَآئَ تْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہٖ ج وَإِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗط أَ لَآ إِنَّمَا ٰطٓئِرُھُمْ عِنْدَ اللّٰہِ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَہ۱۳۱} (سورۃ الأعراف: ۱۳۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص475

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ مسئلہ استواء علی العرش کا ہے، اہل حق کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا برحق ہے؛ البتہ اس کی کیفیت کا ہم کو علم نہیں ہے اور عرش پر ہونا دنیاوی بادشاہوں کے تخت پر بیٹھنے سے بالکل مختلف ہے۔ مذکورہ فی السوال عقیدہ فرقۂ مرجیہ کا ہے جو اہل سنت

والجماعت سے خارج گمراہ فرقہ ہے؛ لہٰذا مذکورہ شخص ایمان سے خارج نہیں ہے۔ (۱)

(۱) ففي صحیح البخاري قال مجاہد: استوی علی العرش علا علی العرش وقال أبو العالیۃ: استوی علی العرش ارتفع۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ طہ: الآیات:۱، إلی ۱۶‘‘: ج ۸، ص: ۴۷۵)

ومن طریق ربیعۃ بن أبی عبد الرحمن أنہ سئل کیف استوی علی العرش فقال الاستواء غیر مجہول والکیف غیر معقول وعلی اللہ الرسالۃ وعلی رسولہ البلاغ وعلینا التسلیم۔ (ابن حجر، فتح الباري، ’’قولہ باب وکان عرشہ علی الماء وہو رب‘‘: ج ۱۳، ص: ۴۰۶)

 

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کی مقدس ذات کے علاوہ سب کے لئے فنا ہے اور سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں رزاق بھی صرف اسی کی ذات ہے، اپنی زندگی میں جو لین دین کرتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں ہوتا، تو انتقال کے بعد کوئی کسی کو اور کس طرح دے سکتا ہے۔ قرآن کریم میں واضح طور پر ہے کہ {إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہط ۴ }(۱) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں ’’أدعوني أستجب لکم‘‘(۲) مجھ سے مانگو میںتمہاری دعائیں قبول کرتا ہوں {ہُوَ الرَّزَّاقٌ}(۳) وہ ہی ہے جو رزق دیتا ہے، اس کے باوجود غیر اللہ سے مانگنا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کو مددگار حقیقی یقین کرنا، اللہ تعالیٰ سے نہ مانگنے اور اس کے نہ دینے کا عقیدہ رکھنا کفریہ عقیدہ ہے اور ایسا شخص خارج از ایمان ہے(۴) البتہ اگر رزاق حقیقی اللہ تعالیٰ کو مانا جائے اور کسی ولی یا برزگ کا وسیلہ اختیار کیا جائے تو یہ درست ہے۔(۵)

(۱) (الفاتحہ: ۴) قال ابن عباس -رضي اللّٰہ عنہ-: معناہ نعبدک ولا نعبد غیرک وإیاک نستعین أي نعبدک مستعین بک۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر مظہري: ج ۱، ص: ۸)

(۲) قال ابن جزیر: إن اللّٰہ واسع بإحاطۃ تورہ ووجودہ الأشیاء کلہا منہا مشارق الأرض ومغاربہا إحاطۃ غیر متکفیۃ ولا مدرکاً۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي-رحمہ اللّٰہ-، تفسیر مظہري: ج ۱، ص: ۱۱۷)

(۳) {إِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقٌ ذُوْ الْقُوَّۃِ الْمَتِیْن} (سورۃ الزاریات: ۶۰) قال صاحب مظہري: إن اللّٰہ ہو الرزاق لجمیع خلقہ مستغن عنہ۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي-رحمہ اللّٰہ-، تفسیر مظہري:  ج ۹، ص: ۹۲)

(۴) (قولہ باطل وحرام) لوجوہ: منہا أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق۔ ومنہا أن المنذور لہ میت والمیت لا یملک۔ ومنہ أنہ إن ظن أن المیت یتصرف في الأمور دون اللّٰہ تعالیٰ واعتقادہ ذلک کفر۔ وأیضاً: والنذر الذي یقع

من أکثر العوام بأن یأتي إلی قبر بعض الصلحاء ویرفع سترہ قائلاً یا سیدي فلان إن قضیت حاجتي فلک مني من الذہب مثلاً کذا باطل إجماعاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یسفد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)

(۵) عن أنس بن مالک أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ: کان إذا قحطوا استسقیٰ بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللّٰہم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا فتسقینا، وأنا نتوسل إلیک بعم نبینا فأسقنا، قال: فیسقون۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاستسقاء: باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، رقم: ۱۰۱۰)

ویستفاد من قصۃ العباس استحباب الاستشفاع بأہل الخیر والصلاح وأہل بیت النبوۃ۔ (أحمد بن علي بن حجر، فتح الباري شرح صحیح البخاري، ’’قولہ باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)

ومن أداب الدعاء تقدیم الثناء علی اللّٰہ والتوسل بنبي اللّٰہ، لیستجاب الدعاء۔ (الشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ’’الأمور التي لا بد منہا في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴)

أن التوسل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم جائز في کل حال قبل خلقہ وبعد خلقہ في مدت حیاتہ في الدنیا وبعد موتہ فی مدۃ البرزخ۔ (السبکي، شفاء السقام: ص: ۳۵۸)

لأن المیت لا یسمع بنفسہ۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’مسألۃ في أن الدعاء للمیت ینفع‘‘: ص: ۲۲۶)

{إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗط} (سورۃ الحج: ۷۳)

{قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ج لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ  فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَھُمْ فِیْھِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَا لَہٗ مِنْھُمْ مِّنْ ظَھِیْرٍہ۲۲} (سورۃ السباء: ۲۲)

{قُلْ أَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ھَلْ ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖٓ أَوْ أَرَادَنِيْ بِرَحْمَۃٍ ھَلْ ھُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہٖط قُلْ حَسْبِيَ اللّٰہُ ط عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ہ۳۸} (سورۃ الزمر: ۳۸)  أي: لا تستطیع شیئاً من الأمر۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر: ج ۷، ص: ۱۰۰)

 

(فتاوی دار العلوم وقف دیوبند جلد اول ص 181)