Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول عام ہے جس میں نبی بھی آتے ہیں ویسے جن نبیوں کا قتل ہوا، ان میں کوئی مشہور رسول نہیں ہیں۔(۱)
(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗط وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط إِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ہ۶۷} (سورۃ المائدہ: ۶۷)
{وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط} ولعل الحق أن قصد حفظ النفس معہ لاینافي مقامہم۔ وفي الکشاف أنہ علیہ السلام
فرق أن یقتل قبل أداء الرسالۃ وظاہرہ أنہ وإن کان نبیاً غیر عالم بأنہ یبقی حتی یؤدي الرسالۃ وإلیہ ذہب بعضہم لاحتمال أنہ إنما أمر بذلک بشرط التمکین مع أن لہ تعالیٰ نسخ ذلک قبلہ۔ (علامہ الآلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الشعراء: ۱ تا ۲۲‘‘: ج ۸، ص: ۶۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 200
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور شہداء کرام کے علاوہ کا قبروں میں زندہ رہنا ثابت نہیں(۱)؛ لہٰذا ان کے وہاں زندہ رہنے کا عقیدہ درست نہیں، ایصال ثواب یا بزرگانِ دین کے وسیلہ سے دعاء جائز ہے؛ (۲) لیکن ان سے مانگنا یا یہ درخواست کہ تم ہمارے لئے دعاء مانگو اس کی گنجائش نہیں، وہ تو خود ہی مرے ہوئے ہیں ان کو خطاب سے کوئی فائدہ نہیں۔(۳)
(۳) لأن المیت لا یسمع بنفسہ۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’مسألۃ في أن الدعاء للمیت ینفع‘‘: ص: ۲۲۶)
{إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗط} (سورۃ الحج: ۷۳)
{قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ج لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَھُمْ فِیْھِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَا لَہٗ مِنْھُمْ مِّنْ ظَھِیْرٍہ۲۲} (سورۃ السباء: ۲۲)
{قُلْ أَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ھَلْ ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖٓ أَوْ أَرَادَنِيْ بِرَحْمَۃٍ ھَلْ ھُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہٖط قُلْ حَسْبِيَ اللّٰہُ ط عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ہ۳۸} (سورۃ الزمر: ۳۸) أي: لا تستطیع شیئاً من الأمر۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر: ج ۷، ص: ۱۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص272
اسلامی عقائد
Ref. No. 1409/42-448
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ روایت صحیح ہے۔ پوری حدیث اس طرح ہے کہ حضرات صحابہ نے آپ ﷺ سے سوال کیا یا رسول اللہ آپ کے نزدیک سب سے تعجب خیز ایمان کن کا ہے؟ فرشتوں کا! تو آپ نے فرمایا وہ کیسے ایمان نہ لائیں جبکہ وہ اللہ کے حضور ہوتے ہیں، پھر صحابہ نے فرمایا تو انبیاء کرام کا! تو آپ نے فرمایا وہ کیسے ایمان نہ لائیں جبکہ ان پر وحی آتی ہے ۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ پھر ہمارا ایمان عجیب تر ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا کیا تم اب بھی ایمان نہ لاؤگے جبکہ تمہارے سامنے ہروقت میرا سراپا رہتاہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا میرے نزدیک ساری کائنات میں عجیب تر ایمان ان لوگوں کا ہوگا جو تمہارے بعد ہوں گے وہ صرف اوراق پر لکھی کتاب دیکھیں گے اور اس پر ایمان لائیں گے۔ (شرح مشکل الآثار، باب بیان مشکل احکام من کان بعد 6/269 الرقم 2472)
اس حدیث میں بعد والوں کے ایمان کو عجیب قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ صحابہ کرام کا ایمان بھی اگرچہ ایمان بالغیب ہے لیکن ان کو بعض مومن بہ کا مشاہدہ تھا جبکہ تابعین کا ایمان بالکلیہ ایمان بالغیب ہے۔ پھر بعد کے لوگوں کے ایمان کو تعجب خیز کہاگیا اس سے بعد کے لوگوں کا افضل ترین ہونا لازم نہیں آتاہے۔
وحيث ورد الكلام في الأعجبية والأغربية، فلا استدلال بالحديث في الأفضلية بوجه من وجوه المزية ۔۔۔۔۔۔ ولا يخفى أن الصحابة أيضا كانوا مؤمنين بالغيب، لكن باعتبار بعض المؤمن به مع مشاهدة بعضه بخلاف التابعين، فإن إيمانهم بالغيب كله، فمن هذه الحيثية بأنهم أعجب وأفضل والله أعلم.( مرقاۃ المفاتیح 9/4050)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن شریف کو گالی دینا کفر ہے۔ ’’العیاذ باللّٰہ‘‘ پس اس شخص سے جب وہ تو بہ بھی نہیں کرتا، مرتدین اور کفار جیسا معاملہ کیا جائے اور اس سے قطع تعلق کرلیا جائے۔(۱) ’’قال اللّٰہ تبارک وتعالی: {وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِي الْکِتٰبِ أَنْ إِذَاسَمِعْتُمْ أٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُبِھَا وَیُسْتَھْزَأُ بِھَا فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِيْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖٓ صلے ز إِنَّکُمْ إِذًا مِّثْلُھُمْط إِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْکٰفِرِیْنَ فِيْ جَھَنَّمَ جَمِیْعاًہلا۱۴۰}(۲)
(۲) سورۃ النساء: ۱۴۔
دار العلوم وقف دیوبند
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 178)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرات انبیاء علیہم السلام بشمول سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرما گئے، لیکن وہ حضرات اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں جیسے شہداء اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ {وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتٌط بَلْ أَحْیَآئٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَہ۱۵۴} سورۃ البقرۃ: ۱۵۴۔ حدیث پاک میں سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
’’أکثروا الصلوٰۃ عليّ یوم الجمعۃ فإنہ مشہود تشہدہ الملائکۃ، وإن أحدا لن یصلي علي إلا عرضت علي صلاتہ حتی یفرغ منہا، قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: وبعد الموت إن اللّٰہ حرم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء فنبي اللّٰہ حي یرزق‘‘۔(۱)
مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ اس دن فرشتے جمع ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے، تو اس درود کو مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ موت کے بعد بھی؟فرمایا: ہاں! موت کے بعد بھی؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کے جسم مبارک کو کھانا حرام کر دیا ہے۔
’’إنہ (النبي -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-) اجتمع مع الأنبیاء وأن الأنبیاء أحیاء في قبورہم یصلون‘‘(۲) انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں باحیات ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور ان سے منکر نکیر سوال بھی نہیں کرتے ہیں یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بھی ہے۔
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب ما جاء في الجنائز: باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸، رقم: ۱۶۳۷۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان، باب الإیمان بالقدر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۲، رقم: ۸۱)
وصح خبر ’’الأنبیاء أحیاء في قبورہم یصلون۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، الفصل الثالث‘‘: ج ۳، ص: ۴۱۵، رقم: ۱۳۶۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 201
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر اللہ کو مختار سمجھ کر اس سے سوال کرنا اور بلا واسطہ اس کے لئے استغاثہ و استعانت وغیرہ کے الفاظ استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، ہاں! توسل شرعاً جائز ہے کہ استغاثہ واستعانت اللہ تعالیٰ سے ہی ہے اور کسی اللہ کے نیک بندے یا کسی نیک عمل کو وسیلہ بنا لیا جائے اگر کسی کو صرف وسیلہ بنایا جائے، تو جائز ہے؛ لیکن پختہ عقیدے کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کو رزاق وغیرہ مانا جائے، اور اسی کو مدد گار مانا جائے۔ (۱)
(۱) {قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِج لاَ یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَھُمْ فِیْھِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَا لَہٗ مِنْھُمْ مِّنْ ظَھِیْرٍہ۲۲ } (سورۃ السباء: ۲۲)
{إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗط} (سورۃ الحج: ۷۳)
{قُلْ أَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ھَلْ ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖٓ أَوْ أَرَادَنِيْ بِرَحْمَۃٍ ھَلْ ھُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہٖط قُلْ حَسْبِيَ اللّٰہُ ط عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ہ۳۸} (سورۃ الزمر: ۳۸) ۔ أي: لا تستطیع شیئاً من الأمر۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر: ج ۷، ص: ۱۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص274
اسلامی عقائد
Ref. No. 40/0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اریکہ یا ایریکا ہندی کا لفظ ہے، اور یہ نام غیرمسلموں میں زیادہ مستعمل ہے، اس لئے اس سے احتراز کرنا چاہئے اور کوئی اسلامی نام اریبہ ، عفیفہ عقیلہ وغیرہ رکھنا چاہئے۔
۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح کے جملہ کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مانگنے کی ترغیب ہو، اور توجہ اللہ کی طرف ہو، اس لئے اس جملہ میں کوئی حرج نہیں اور نہ ایمان کو کوئی خطرہ۔ تاہم اگر قائل یہ عقیدہ رکھے کہ بغیر مانگے اللہ تعالیٰ کچھ نہیں دیتے تو ایسے جملوں سے پرہیز ضروری ہے۔ (۱)
(۱) {إِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍہ۳۷} (سورۃ آل عمران: ۳۷)
{وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاہلا ۲ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُط وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗط إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖط قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًاہ ۳} (سورۃ الطلاق: ۲۔۳)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر اس نے استخفاف اور استہزا کے طور قرآن کو پھینکا ہے، تو اس کا یہ امر موجب کفر وارتداد ہے۔(۱)
(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیأ من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷)
تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتی تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)
(فتاوی دار العلوم وقف دیوبند جلد اول ص 179)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے دعاء مانگنا حدیث اور اجماع سے ثابت ہے: ’’ویستفاد من قصۃ العباس رضي اللّٰہ عنہ: استحباب الاستشفاع بأہل الخیر والصلاح وأہل بیت النبوۃ‘‘(۱) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے استسقاء کے لئے دعاء مانگی تھی کہ ’’اے اللہ ہم تیرے پیغمبر علیہ السلام کے وسیلہ سے دعاء مانگا کرتے تھے، تو بارش عطا فرماتا تھا اب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعاء مانگتے ہیں ہماری دعاء قبول فرما اور بارش عطاء فرما؛ چنانچہ دعاء کے بعد بارش ہوئی، جیسا کہ امام بخاری نے نقل کیا ہے، ’’عن أنس بن مالک، أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ، کان إذا قحطوا استسقیٰ بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللّٰہم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتسقینا وإنا نتوسل إلیک بعم بنبینا فأسقنا، قال: فیسقون‘‘(۲) مذکورہ حدیث پاک سے واضح ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے اور غیر نبی جو اللہ کے محبوب ومقبول بندے ہوں ان کے توسل اور وسیلہ سے دعاء مانگنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ مستحسن اور اجابت دعاء میں مؤثر ہے۔ ’’ومن آداب الدعاء تقدیم الثناء علی اللّٰہ والتوسل بنبي اللّٰہ، لیستجاب الدعاء‘‘(۱)
(۱) ابن حجر، فتح الباري، ’’کتاب الاستسقاء: باب سوال الناس الإمام الاستسقاء‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاستسقاء: باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، رقم: ۱۰۱۰۔
(۱) الشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ’’الأمور التي لا بد منہا في الصلوٰۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص275