اسلامی عقائد

Ref. No. 2767/45-4312

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ برے ساتھ سے احتراز رکھیں اپنا بھی احتساب کریں آپ کسی گناہ میں مبتلی تو نہیں ہیں اگر ایسا محسوس ہو تو فوراً توبہ کریں، کسی عالم سے اگر کچھ بد گمانی ہو تو ترک کردیں اور توبہ کریں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:{بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، أَنَّیٰ یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُن لَّہُ صَاحِبَۃٌ، وَخَلَقَ کُلَّ شَيْئٍ، وَہُوَ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِیمٌ} (سورۃ الأنعام: ۱۰۱) اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے اولاد اور بیوی کی واضح نفی کی گئی ہے۔ (۲)

(۲) یکفر إذا وصف اللّٰہ تعالیٰ بما لا یلیق بہ أو سخر بإسم من أسمائہ، أو بأمر من أوامرہ أو أنکر وعدہ وعیدہ، أو جعل لہ شریکاً أو ولداً أو زوجۃ، أو نسبہ إلی الجہل أو العجز أو النقص۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بذات اللّٰہ تعالیٰ‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۱)

{قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌہج ۱  أَللّٰہُ الصَّمَدُ ہج ۲  لَمْ  یَلِدْ ۵لا  وَلَمْ  یُوْلَدْ ہلا ۳  وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌہع ۴ } (سورۃ إخلاص)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس وقت میں ہاتھ اٹھاکر دعاء کرنا مکروہ ہے اس سے احتراز لازم ہے، اگر ہاتھ اٹھائے جائیں تو اس انداز پر کھڑے ہوں کہ قبر سامنے نہ پڑے اور کسی طرح کا تشبہ غیروں کے ساتھ نہ ہو۔(۱)

(۱) وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص389

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ماہ محرم میں دسویں تاریخ میں یوم عاشوراء کے روزے کا سنت ہونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور قول سے ثابت ہے، نویں تاریخ کے روزے کا بھی ثبوت ہے، آج کل یہودی عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتے، پرانے یہودی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے؛ اس لیے فرمایا گیا کہ ایک دن پہلے یا بعد کا بھی روزہ رکھو تا کہ ان کی مشابہت نہ ہو؛ لہٰذا عاشوراء میں دسویں کے ساتھ نویں یا گیارھویں کا روزہ بھی رکھا جائے جب کہ اس پر اکابر امت کا عمل چلا آرہا ہے؛ لیکن اگر صرف دس محرم کا روزہ رکھا، تو بھی درست ہے اس لیے کہ اب عمداً یہود سے مشابہت نہیں ہوتی۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بصوم عاشوراء یوم عاشر واختلفوا أہل العلم في یوم عاشوراء، فقال بعضہم: یوم التاسع، فقال بعضہم: یوم العاشر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصوم: باب ما جاء في عاشوراء:… … أي یوم ہو؟‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸، رقم: ۷۵۵)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أنہ قال: صوموا التاسع والعاشر وخالفوا الیہود۔ (’’أیضاً:‘‘)
قال الکشمیري: حاصل الشریعۃ أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم یوم قبلہ وبعدہ، ثم الأدون منہ صوم عاشوراء مع صوم یوم قبلہ أو بعدہ، ثم الأدون صوم یوم عاشوراء فقط. والثلاثۃ عبادات عظمی، وأما ما فی الدر المختار من کراہۃ صوم عاشوراء منفرداً تنزیہاً فلا بد من التأویل فیہ أی أنہا عبادۃ مفضولۃ من القسمین الباقیین، ولا یحکم بکراہۃ فإنہ علیہ الصلاۃ والسلام صام مدۃ عمرہ صوم عاشوراء منفرداً وتمنی أن لو بقی إلی المستقبل صام یوماً معہ۔ (علامہ، أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’باب ما جاء فی الحث علی صوم یوم عاشوراء‘‘: ج ۲، ص: ۷۱۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص477

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:پرانی یا نئی کوئی بھی قبر ہو اس کو پختہ کرنا اور مزار کی شکلیں بنانا شریعت اسلامیہ میں ناجائز اور ممنوع ہے، امام ترمذی نے رحمۃ اللہ علیہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے: ’’قال: نہی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن تجصص القبور وأن یکتب علیہا وأن یبنی علیہا وأن توطأ‘‘(۱) اس کی اصل نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے دور میں ملتی ہے اس سے اگلی نسل میں بدعات وخرافات ظاہر ہونے کا قوی اندیشہ ہے؛ اس لئے اس طرح کی بدعت سے بچنا لازم ہے۔ ’’ولم یکن من ہدیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تعلیۃ القبور ولا بناؤہا بآجر ولا بحجر ولبن ولا تشییدہا، ولا تطیینہا ولا بناء القباب علیہا فکل ہذا بدعۃ مکروہۃ مخالفۃ لہدیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الخ‘‘(۲) اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہود ونصاری پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے اپنے پیغمبروں اور صالحین کی قبروں کو مسجدبنا لیا، ’’لعن اللّٰہ الیہود اتخدوا قبور أنبیائہم مساجد‘‘ (۳)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجنائز، باب ما جاء في کراہیۃ تجصیص القبور والکتابۃ علیہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳، رقم: ۱۰۵۲۔   (۲) ابن قیم، زاد المعاد، ’’فصل في تعلیۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۰۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ:، باب ہل ینبش قبور مشرکي الجاہلیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص390

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں جو باتیں آپ نے ذکر کی ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، افسوس ہے کہ ناجائز اور حرام کاموں کو مذہبی شعار سمجھ کر انجام دیا جار ہا ہے، یہ سب بدعات اور خرافات ہیں مسلمانوں کو ان کاموں سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے، ڈھول، میوزک اور پیانو شریعت میں حرام ہے اس سے دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے اور جس طرح یہ چیزیں بجانا حرام ہے اسی طرح اس کا سننا بھی حرام ہے، زور وطاقت سے چندہ وصول کرنا حرام ہے اگر چہ ان پیسوں کو کسی بھی خیر کے کام میں لگایا جائے، دسویں محرم کو کربلا جانا یہ روافض کے کام ہیں مسلمانوں کو ان سے بچنا چا ہیے ’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد(۱) و کرہ کل لہو و استماعہ کالرقص، و السخریۃ، و التصفیق، وضرب الأوتار من الطنبور، و البربط، و الرباب، و القانون، و المزمار، و الصنج، و البوق فإنہا کلہا مکروہۃ لأنہا زی الکفار، واستماع ضرب الدف، والمزمار، وغیر ذلک حرام،(۲) قال ابن مسعود صوت اللہو، والغنا ینبت النفاق في القلب کما ینبت الماء النبات قلت وفي البزازیۃ استماع صوت الملاھی کضرب قصب ونحوہ حرام‘‘ (۳)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۶۶۵۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع الدر المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۹، ص: ۲۰۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص478

اسلامی عقائد

Ref. No. 1525/43-1031

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ وتابعین اور سلف صالحین کا طریقہ ہمیشہ سر ڈھانپ کر نماز پڑھنے کا رہا ہے، اور یہی طریقہ متوارث ہے، اس طریقہ کو ترک کرنا بلاکسی عذر شرعی کے مکروہ ہے، اس لئے بغیر ٹوپی یا عمامہ کے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ البتہ اگر کبھی غایت تواضع میں اظہار عاجزی ونیازمندی کے لئے تنہائی میں ایسا کرے تو فقہاء کی عبارات سے  اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ نماز افضل ترین عبادت ہے جس کے لئے قرآن نے  زینت اختیار کرنے کو پسند کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےاحرام کی حالت کے سوا بغیر ٹوپی کے نماز ادا کرنا ثابت نہیں، اس لیےکاہلی، سستی اور لاپرواہی کی بنا پر ٹوپی کے بغیر ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ِ تنزیہی ہے، کبھی اگر اتفاقا ٹوپی میسر نہ ہوتوبغیر ٹوپی کے  نماز پڑھنا بلاکراہت درست ہوگا۔

یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد} الاعراف: 31) "(وصلاته حاسراً) أي كاشفاً (رأسه للتكاسل)، ولا بأس به للتذلل، وأما للإهانة بها فكفر (قوله: للتكاسل) أي لأجل الكسل، بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمراً مهماً في الصلاة فتركها لذلك، وهذا معنى قولهم تهاوناً بالصلاة وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار؛ لأنه كفر شرح المنية. قال في الحلية: وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة، فلو لعدم القدرة فهو العجز" (شامی 1/641)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اصولِ شریعت کی کتابوں میں جن مقامات اور صورتوں میں اذان کی اجازت دی گئی ہے، ان میں قبر پر اذان کے متعلق نہ جواز منقول ہے اور نہ استحباب منقول ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرامؓ وتابعین عظامؒ نے کبھی قبر پر اذان نہیں دی، اگر اس عمل (قبر پر اذان) میں ذرا سی بھی کوئی نیکی یا بھلائی ہوتی، تو وہ حضرات ضرور بالضرور اس عمل کو انجام دیتے، پس یہ عمل اور اس کا التزام بدعت ہی کہلائے گا،(۱) اور اس کا ترک کرنا ہرمسلمان پر لازم اور ضروری ہوجائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرامؓ کے خلاف کوئی راستہ اختیار کرنا کھلی ہوئی بدعت اور گمراہی ہے۔(۲)
بقول شیخ سعدی علیہ الرحمہ:
خلاف پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہر گز بمنزل نخواہد رسید

(۱) لا یسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ کما ہو المعتاد الأٰن وقد صرح ابن حجر في فتاویہ بأنہ بدعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱)
(۲) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا-، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص391

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام میں کسی دن، تاریخ میں نحوست نہیں ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا بھی گناہ ہے؛ البتہ بعض ایام کی فضیلت ضروری ہے جیسے پیر، بدھ، جمعرات، جمعہ کا دن اور ایسے ہی مہینہ کی طاق تاریخیں کہ اللہ تعالیٰ خود طاق ہیں اور طاق رات کو پسند فرماتے ہیں۔ پس نکاح شادی وغیرہ کے لیے تمام ایام درست ہیں۔(۱) (۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا عدوی ولا طیرۃ ولا ہامۃ ولا صفر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الطب: باب لا ہامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۸۵۷، رقم: ۵۷۰۷) عن إبن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألشوم في المرأۃ والدار والفرس۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب النکاح: الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۷، رقم: ۳۰۸۷) لأن الأیام کلہا للّٰہ تعالیٰ لا تنفع ولا تضر بذاتہا۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: ج ۱۵، ص: ۱۳۱) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص480

اسلامی عقائد

Ref. No. 1405/42-837

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نفل نماز کی باضابطہ جماعت مردوں کے لئے بھی ناجائز اورمکروہ تحریمی ہے، تو عورتوں کے لئے بدرجہ اولی  مکروہ وناجائز ہوگی۔ اس لئے یہ طریقہ درست نہیں ہے، اس سلسلہ کو فوری طور پر بند کردینا چاہئے۔

التطوع بالجماعة إذا كان على سبيل التداعي يكره وفي الأصل للصدر الشهيد أما إذا صلوا بجماعة بغير أذان وإقامة في ناحية المسجد لا يكره، وقال شمس الأئمة الحلواني: إن كان سوى الإمام ثلاثة لا يكره بالاتفاق وفي الأربع اختلف المشايخ والأصح أنه يكره. هكذا في الخلاصة. (الفتاوی الھندیۃ الفصل الثانی فی بیان من ھو احق بالامامۃ 1/83) (و) يكره تحريما (جماعة النساء) ولو التراويح في غير صلاة جنازة (لأنها لم تشرع مكررة) ، فلو انفردن تفوتهن بفراغ إحداهن (شامی، باب الامامۃ 1/565) ولا ينبغي أن يتكلف لالتزام ما لم يكن في الصدر الأول كل هذا التكلف لإقامة أمر مكروه وهو أداء النفل بالجماعة على سبيل التداعي، فلو ترك أمثال هذه الصلوات تارك ليعلم الناس أنه ليس من الشعار فحسن.  شامی، باب الوتر والنوافل 2/49) وصلاة النفل بالجماعة مكروه ما خلا قيام رمضان وصلاة الكسوف؛ لأنه لم يفعلها الصحابة. اهـ.(تبیین الحقائق ، باب ادراک الفریضۃ 1/180)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند