اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم و دیگر انبیاء ؑ و صحابہؓ و دیگر علماء و صلحاء کو (ان کی زندگی میں یا بعد وفات) وسیلہ بناکر ان کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا شرعاً جائز اور باعث قبولیت ہے۔
ایک روایت میں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو اپنے وسیلہ سے دعاء کرنے کی تلقین فرمائی اور کتب حدیث بخاری وغیرہ کی روایات سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو استسقاء کے لئے وسیلہ بنانا بھی ثابت ہے؛ لیکن اس سے یہ بات ہرگز لازم نہیں آتی کہ بعد وفات انبیاء یا صلحاء کو وسیلہ بنانا جائز نہیں، احناف وجمہور علماء محدثین کا یہی مسلک ہے۔ معارف القرآن، امداد الفتاویٰ، شرح فقہ اکبر وغیرہ اور حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے مشکلات القرآن میں طبرانی وبیہقی کے حوالہ سے روایات نقل کی ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے عرش الٰہی پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا ہوا دیکھا، تو آپ کے وسیلہ سے دعاء کی، تو اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت متوجہ ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت آدم علیہ السلام کو یہ کلمات (ربنا ظلمنا أنفسنا الخ) عطا فرمائے۔ مشکلات القرآن۔(۱)
(۱) ’’عن عثمان بن حنیف، أن رجلا ضریر البصر أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: أدع اللّٰہ أن یعافیني قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فہو خیر لک۔ قال: فادعہ، قال: فأمرہ أن یتوضأ فیحسن وضوئہ ویدعو بہذا الدعاء: اللہم إني أسألک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمۃ، إني توجہت بک إلی ربي في حاجتي ہذہ لتقضی لی، اللہم فشفعہ في: (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في جامع الدعوات باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸)
بینما ثلاثۃ نفر یتماشون أخذہم المطر فأوؤا إلی غار في الجبل فقال بعضہم لبعض أنظروا أعمالا عملتموہا صالحۃ للّٰہ فادعوا للّٰہ بہا لعلہ یفرجہا عنکم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الحرث والمزارعۃ، باب إذا زرع بمال قوم بغیر إذنہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۳)؛ کذا في فتح القدیر،’’کتاب الحج‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص278

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عینی ج۴ ص ۷۶، فتح الملہم ص ۸۱۱ و بذل الجہود ج۲ ص ۲۱۴ میں ہے کہ ابن حزم نے زیارت القبور کو زندگی میں ایک مرتبہ واجب کہا ہے؛ کیونکہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں صیغہ امر ہے جو وجوب کے لئے ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: نہیتکم عن زیارۃ القبور ألافزوروہا‘‘(۱) محی السنہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ عبدربہ رحمۃ اللہ علیہ اور مازنی رحمۃ اللہ علیہ نے مردوں کے لیے زیارت قبور کے لیے جواز پر تمام اہل علم اور ائمہ دین کا اتفاق نقل کیا ہے لیکن امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابن سیرین، امام نخعی اور امام شیبہ رحمہم اللہ سے مردوں کے لئے زیارت قبور کی کراہت نقل کی ہے۔ ان کی دلیل بھی مسلم کی روایت ہے جس میں ’’نہیتکم‘‘ فرماکر منع کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جن محدثین اور اہل علم کے یہاں مردوں کے لئے زیارت قبور کی اجازت ہے ان کے پاس دلیل میں بہت سی حدیثیں ہیں۔ مثلاً اوپر والی حدیث ہی ہے کہ ابتدائے اسلام میں منع فرمایا گیا، پھر اجازت دیدی گئی ہے۔ ایسے ہی مسلم میں روایت ہے ’’قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعلمہم إذا خرجوا إلی المقابر السلام علی الدیار‘‘ (۲) اور ابن ماجہ میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رخص في زیارۃ القبور‘‘(۳) اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں جن سے جواز ثابت ہے۔
ابن حزم نے جو واجب کہہ دیا تو وہ صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اصول میں یہ بات طے شدہ ہے کہ حکم نہی ممانعت کے بعد واجب کو ثابت نہیں کرسکتا صرف اباحت اور جواز ہی ثابت ہوسکتا ہے ۔ امام نخعیؒ اور شعبیؒ نے جومکروہ فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو وہ تمام حدیثیں نہیں پہونچی جن سے ممانعت کے بعد جواز ثابت ہوتا ہے جیسا کہ علامہ عینی اور صاحب فتح الباری اور صاحب بذل نے فرمایا ہے۔ علامہ عینی کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ بت پرستی چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے اور وہ قبروں کا غیر ضروری احترام کرتے تھے؛ اس لیے ابتدائے اسلام میں زیارت قبور سے منع فرمایا گیا ہے جب اسلام کی محبت راسخ ہوگئی اور بت پرستی سے نفرت ہوگئی تو وہ حکم منسوخ ہوگیا۔(۴)

حاصل یہ ہے کہ گاہے بگاہے عبرت اور موت کو یاد کرنے کے لئے قبرستان جانا جائز ہے، عورتوں کی زیارت قبور سے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے: بعض اہل علم کے یہاں عورت کا قبرستان جانا مکروہ ہے۔ ان کی دلیل حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہے کہ آپ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زوارات القبور‘‘(۱) لیکن اکثر اہل علم نے کہا ہے کہ اگر فتنہ دین ودنیا نہ ہو تو عورتوں کو اجازت ہے۔ مسلم میں روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’کیف أقول یا رسول اللّٰہ إذا زرت القبور؟ قال علیہ السلام: قولي السلام علی أہل الدیار من المؤمنین والمسلمین‘‘(۲) ایسے ہی مسند حاکم میں روایت ہے کہ حضرت فاطمہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں۔(۳)
امام قرطبی نے کہا ہے کہ جن روایات میں ممانعت آئی ہے وہاں صیغہ مبالغہ کا ہے ’’زوارات القبور‘‘ یعنی جو بکثرت زیارت کرتی ہوں تو کثرت سے عورتوں کا جانا ممنوع ومکروہ ہے ورنہ اجازت ہے۔ یا عورتوں میں جزع وفزع کا معاملہ زیادہ ہے صبر کم ہے، حقوق زوجیت بھی متاثر ہوتے ہیں(۴) اگر دینی اور دنیاوی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، تو شرعی حدود میں رہ کر زیارت قبور کی جاسکتی ہے؛ لیکن فی زمانہ عورتیں قبرستان میں جاکر بدعت کرتی ہیں، اور ایسی خرافات اور واہیات حرکتیں کرتی ہیں جن سے دین کو نقصان پہونچتا ہے، بے پردگی اور بے آبروئی کے اندیشے اپنی جگہ الگ ہیں؛ اس لئے انتظام اور احتیاط کی بات یہ ہی ہے کہ عورتوں کو قبرستان نہ جانے دیا جائے۔(۵)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في جواز زیارۃ قبور المشرکین‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۹۷۷)
(۲) قد سبق تخریجہ۔
(۳) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الجنائز: باب ما جاء في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲، رقم: ۱۵۷۰۔
(۴) إن زیارۃ القبور إنما کان في أول الإسلام عند قربہم بعبادۃ الأوثان واتخاذ القبور مساجد، فلما استحکم الإسلام وقوی في قلوب الناس وآمنت عبادۃ القبور والصلوٰۃ إلیہا نسخ النہي عن زیارتہا الخ۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۸، ص: ۷۰)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الجنائز، باب ما جاء في النہي عن زیارۃ النساء القبور‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳، رقم: ۱۵۷۴۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل فی جواز زیارۃ قبور المشرکین‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۹۷۴۔
(۳) أن الرخصۃ ثابتۃ للرجال والنساء لأن السیدۃ فاطمۃ رضي اللّٰہ عنہا کانت تزور قبر حمزۃ کل جمعۃ وکانت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا تزور قبر أخیہا عبد الرحمٰن بمکۃ کذا ذکرہ البدر العیني في شرح البخاري۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص:۶۲۰)
(۴) الزیارۃ لقلۃ صبرہن وجرعہن۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’باب زیارۃالقبور‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۴)
(۵) وأما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک التجدید الحزن والبکاء والندب کما جرت بہ عادتہن لا تجوز لہن الزیارۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج۱: ۶۲۰)



فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص386

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ رسم مالیدہ وغیرہ کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے؛ اس لیے اس کو ثواب کی نیت سے کرنا بدعت ہے جو واجب الترک ہے۔(۲)

(۲) {حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ أُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ} (سورۃ المائدہ: ۳)
وقد عاکس الرافضۃ والشیعۃ یوم عاشوراء النواصب من أہل الشام فکانوا … …إلی یوم عاشوراء یطبخون الحبوب ویغتسلون ویتطیبون ویلبسون أفخر ثیابہم ویتخذون ذلک الیوم عیدا یصنعون فیہ أنواع الأطعمۃ ویظہرون السرور والفرح یریدون بذلک عناد الروافض ومعاکستہم۔ (أبو الفداء إسماعیل، البدایۃ والنہایۃ، ’’فصل وکان مقتل الحسین -رضي اللّٰہ عنہ-‘‘: ج ۸، ص: ۲۰۳)
ویظہر الناس الحزن والبکاء وکثیر منہم لا یشرب الماء لیلتئذ موافقۃ للحسین لأنہ قتل عطشانا ثم تخرج النساء حاسرات عن وجوہہن ینحن ویلطمن وجوہہن وصدورہن حافیات في الأسواق إلی غیر ذلک من البدع الشنیعۃ والأہواء الفظیعۃ۔ (’
’أیضاً‘‘: ص: ۲۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص476

اسلامی عقائد

Ref. No. 2767/45-4312

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ برے ساتھ سے احتراز رکھیں اپنا بھی احتساب کریں آپ کسی گناہ میں مبتلی تو نہیں ہیں اگر ایسا محسوس ہو تو فوراً توبہ کریں، کسی عالم سے اگر کچھ بد گمانی ہو تو ترک کردیں اور توبہ کریں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:{بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، أَنَّیٰ یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُن لَّہُ صَاحِبَۃٌ، وَخَلَقَ کُلَّ شَيْئٍ، وَہُوَ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِیمٌ} (سورۃ الأنعام: ۱۰۱) اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے اولاد اور بیوی کی واضح نفی کی گئی ہے۔ (۲)

(۲) یکفر إذا وصف اللّٰہ تعالیٰ بما لا یلیق بہ أو سخر بإسم من أسمائہ، أو بأمر من أوامرہ أو أنکر وعدہ وعیدہ، أو جعل لہ شریکاً أو ولداً أو زوجۃ، أو نسبہ إلی الجہل أو العجز أو النقص۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بذات اللّٰہ تعالیٰ‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۱)

{قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌہج ۱  أَللّٰہُ الصَّمَدُ ہج ۲  لَمْ  یَلِدْ ۵لا  وَلَمْ  یُوْلَدْ ہلا ۳  وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌہع ۴ } (سورۃ إخلاص)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس وقت میں ہاتھ اٹھاکر دعاء کرنا مکروہ ہے اس سے احتراز لازم ہے، اگر ہاتھ اٹھائے جائیں تو اس انداز پر کھڑے ہوں کہ قبر سامنے نہ پڑے اور کسی طرح کا تشبہ غیروں کے ساتھ نہ ہو۔(۱)

(۱) وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص389

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ماہ محرم میں دسویں تاریخ میں یوم عاشوراء کے روزے کا سنت ہونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور قول سے ثابت ہے، نویں تاریخ کے روزے کا بھی ثبوت ہے، آج کل یہودی عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتے، پرانے یہودی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے؛ اس لیے فرمایا گیا کہ ایک دن پہلے یا بعد کا بھی روزہ رکھو تا کہ ان کی مشابہت نہ ہو؛ لہٰذا عاشوراء میں دسویں کے ساتھ نویں یا گیارھویں کا روزہ بھی رکھا جائے جب کہ اس پر اکابر امت کا عمل چلا آرہا ہے؛ لیکن اگر صرف دس محرم کا روزہ رکھا، تو بھی درست ہے اس لیے کہ اب عمداً یہود سے مشابہت نہیں ہوتی۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بصوم عاشوراء یوم عاشر واختلفوا أہل العلم في یوم عاشوراء، فقال بعضہم: یوم التاسع، فقال بعضہم: یوم العاشر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصوم: باب ما جاء في عاشوراء:… … أي یوم ہو؟‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸، رقم: ۷۵۵)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أنہ قال: صوموا التاسع والعاشر وخالفوا الیہود۔ (’’أیضاً:‘‘)
قال الکشمیري: حاصل الشریعۃ أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم یوم قبلہ وبعدہ، ثم الأدون منہ صوم عاشوراء مع صوم یوم قبلہ أو بعدہ، ثم الأدون صوم یوم عاشوراء فقط. والثلاثۃ عبادات عظمی، وأما ما فی الدر المختار من کراہۃ صوم عاشوراء منفرداً تنزیہاً فلا بد من التأویل فیہ أی أنہا عبادۃ مفضولۃ من القسمین الباقیین، ولا یحکم بکراہۃ فإنہ علیہ الصلاۃ والسلام صام مدۃ عمرہ صوم عاشوراء منفرداً وتمنی أن لو بقی إلی المستقبل صام یوماً معہ۔ (علامہ، أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’باب ما جاء فی الحث علی صوم یوم عاشوراء‘‘: ج ۲، ص: ۷۱۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص477

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:پرانی یا نئی کوئی بھی قبر ہو اس کو پختہ کرنا اور مزار کی شکلیں بنانا شریعت اسلامیہ میں ناجائز اور ممنوع ہے، امام ترمذی نے رحمۃ اللہ علیہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے: ’’قال: نہی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن تجصص القبور وأن یکتب علیہا وأن یبنی علیہا وأن توطأ‘‘(۱) اس کی اصل نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے دور میں ملتی ہے اس سے اگلی نسل میں بدعات وخرافات ظاہر ہونے کا قوی اندیشہ ہے؛ اس لئے اس طرح کی بدعت سے بچنا لازم ہے۔ ’’ولم یکن من ہدیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تعلیۃ القبور ولا بناؤہا بآجر ولا بحجر ولبن ولا تشییدہا، ولا تطیینہا ولا بناء القباب علیہا فکل ہذا بدعۃ مکروہۃ مخالفۃ لہدیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الخ‘‘(۲) اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہود ونصاری پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے اپنے پیغمبروں اور صالحین کی قبروں کو مسجدبنا لیا، ’’لعن اللّٰہ الیہود اتخدوا قبور أنبیائہم مساجد‘‘ (۳)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجنائز، باب ما جاء في کراہیۃ تجصیص القبور والکتابۃ علیہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳، رقم: ۱۰۵۲۔   (۲) ابن قیم، زاد المعاد، ’’فصل في تعلیۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۰۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ:، باب ہل ینبش قبور مشرکي الجاہلیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص390

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں جو باتیں آپ نے ذکر کی ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، افسوس ہے کہ ناجائز اور حرام کاموں کو مذہبی شعار سمجھ کر انجام دیا جار ہا ہے، یہ سب بدعات اور خرافات ہیں مسلمانوں کو ان کاموں سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے، ڈھول، میوزک اور پیانو شریعت میں حرام ہے اس سے دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے اور جس طرح یہ چیزیں بجانا حرام ہے اسی طرح اس کا سننا بھی حرام ہے، زور وطاقت سے چندہ وصول کرنا حرام ہے اگر چہ ان پیسوں کو کسی بھی خیر کے کام میں لگایا جائے، دسویں محرم کو کربلا جانا یہ روافض کے کام ہیں مسلمانوں کو ان سے بچنا چا ہیے ’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد(۱) و کرہ کل لہو و استماعہ کالرقص، و السخریۃ، و التصفیق، وضرب الأوتار من الطنبور، و البربط، و الرباب، و القانون، و المزمار، و الصنج، و البوق فإنہا کلہا مکروہۃ لأنہا زی الکفار، واستماع ضرب الدف، والمزمار، وغیر ذلک حرام،(۲) قال ابن مسعود صوت اللہو، والغنا ینبت النفاق في القلب کما ینبت الماء النبات قلت وفي البزازیۃ استماع صوت الملاھی کضرب قصب ونحوہ حرام‘‘ (۳)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۶۶۵۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع الدر المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۹، ص: ۲۰۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص478

اسلامی عقائد

Ref. No. 1525/43-1031

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ وتابعین اور سلف صالحین کا طریقہ ہمیشہ سر ڈھانپ کر نماز پڑھنے کا رہا ہے، اور یہی طریقہ متوارث ہے، اس طریقہ کو ترک کرنا بلاکسی عذر شرعی کے مکروہ ہے، اس لئے بغیر ٹوپی یا عمامہ کے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ البتہ اگر کبھی غایت تواضع میں اظہار عاجزی ونیازمندی کے لئے تنہائی میں ایسا کرے تو فقہاء کی عبارات سے  اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ نماز افضل ترین عبادت ہے جس کے لئے قرآن نے  زینت اختیار کرنے کو پسند کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےاحرام کی حالت کے سوا بغیر ٹوپی کے نماز ادا کرنا ثابت نہیں، اس لیےکاہلی، سستی اور لاپرواہی کی بنا پر ٹوپی کے بغیر ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ِ تنزیہی ہے، کبھی اگر اتفاقا ٹوپی میسر نہ ہوتوبغیر ٹوپی کے  نماز پڑھنا بلاکراہت درست ہوگا۔

یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد} الاعراف: 31) "(وصلاته حاسراً) أي كاشفاً (رأسه للتكاسل)، ولا بأس به للتذلل، وأما للإهانة بها فكفر (قوله: للتكاسل) أي لأجل الكسل، بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمراً مهماً في الصلاة فتركها لذلك، وهذا معنى قولهم تهاوناً بالصلاة وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار؛ لأنه كفر شرح المنية. قال في الحلية: وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة، فلو لعدم القدرة فهو العجز" (شامی 1/641)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند