اسلامی عقائد

Ref. No. 39/1084

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایسا کہنا یا عقیدہ رکھنا حرام ہے، ایسا شخص ایمان سے خارج ہوجاتاہے، اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی،  ایسے شخص پر توبہ اور تجدید ایمان لازم ہے۔ اللہ تعالی کے حکم کے خلاف کرنے کی  ان کے اندرقطعا استطاعت نہیں ہے۔  اور اگر عقیدہ درست ہو پھر زبان سے یوں ہی کہدیا تو بھی گناہ ہے لیکن ایمان سے خارج نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر غصہ جنون کے درجہ تک تھا تو کہنے والا کافر نہیں ہوگا اوراگر جنون کے درجہ میں نہیں تھا تو کافر ہوجائے گا۔(۱) تاہم وہ کلمات کفر کیا ہیں ان کی وضاحت بھی ضروری ہے بلا تحقیق کسی کو کافر نہیں کہنا چاہئے۔ (۲)

(۱) وشرائط صحتہا، العقل، فلا تصح ردۃ المجنون ولا الصبي الذي لا یعقل، أما من جنونہ ینقطع فإن ارتد حال الجنون لم تصح، وإن ارتد حال إفاقتہ صحت۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین‘‘: ج ۲،ص: ۲۶۶)

(۲) في الفتاویٰ الصغریٰ: الکفر شيء عظیم فلا أجعل المؤمن کافراً متی وجدت روایۃ أنہ لا یکفر إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’ کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶،ص: ۳۵۸)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس صورت میں وہ اسلام سے خارج نہیں ہوا، اگر اسلامی ناموں کو برا اور غیروں کے ناموں کو اچھا سمجھ کر ایسا کرتا ہے تو اندیشہ کفر ہے اور اگرایسا مصلحت کی وجہ سے کیا ہے تو گنجائش ہے مگر ناموں کے معنی اچھے ہونے چاہئے تا ہم اس سے گریز ہی کریں اس میں تشبیہ بالغیر معلوم ہو رہا ہے، بعض علماء تو کفر ہی کے قائل ہیں۔ (۱)

(۱) ثم إن کانت نیۃ القائل الوجہ الذي یمنع التکفیر فہو مسلم، وإن کانت نیتہ الوجہ الذي یوجب التکفیر لا تنفعہ فتوی المفتي و یؤمر بالتوبۃ والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین إمرأتہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب إن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا إلا نزیل عنہ إسم الإیمان۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

 

الجواب صحیح:

 دار العلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:خلفاء راشدین واہل بیت کی فضیلت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، ان کی فضیلت کے بیان کے لئے حدیث کی کتابوں میں مستقل ابواب ہیں؛ اس لئے خطبہ میں ان کا تذکرہ افضل و مستحب ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی فضیلت بیان فرمائی ہے تو امت بھی اس کا اظہار کرے اور ان کے لئے دعا کرے۔(۱)

۱) وذکر الخلفاء الراشدین رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم أجمعین مستحسن بذلک جری التوارث، کذا في التنجیس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰت: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ ومن الستحب‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸)
عن سعد بن أبي وقاص رضي اللّٰہ عنہ، قال: لما نزلت ہذہ الآیۃ {ندع أبنائنا وأبنائکم} دعا رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- علیاً وفاطمۃ وحسناً وحسیناً فقال: أللہم ہٰولاء أہل بیتي، رواہ مسلم۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب مناقب أہل بیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۸، رقم: ۶۱۳۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص229

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسلمانوں کے لئے وہی عمل باعث خیر و برکت اور باعث نجات ہوگا جو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے اربعہ یا ان صحابۂ کرامؓ سے ثابت ہو جنہوں نے قرآن اور حدیث اور فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اسوہ بنایا اور عمل کیا اور اسی کے مطابق اسلاف و اکابر نے عمل کیا۔(۱) جن امور کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کسی ایک طریقہ کو ان حضرات نے اختیار نہیں کیا یہ سب بہت بعد کی ایجادات ہیں اور ان پر عمل بلاشبہ بدعت ہے(۲) اور بدعت کو ضلالت سے تعبیر کیا گیا ہے اس لئے ترک ضروری ہے۔(۳)

(۱) لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ، پاني پتي، تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
(۲) أنکر الخطابي ومن تبعہ وضع الجرید الیابس، وکذلک ما یفعلہ أکثر الناس من وضع ما فیہ رطوبۃ من الریاحین والبقول ونحوہما علی القبور لیس بشیء۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب ما جاء في غسل البول‘‘: ج ۳، ص: ۱۲۱)
ومن المنکرات الکثیرۃ کإیقاد الشموع والقنادیل التي توجد في الأفراح، وکدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرۃ علی الذکر وقراء ۃ القرآن، وغیر ذلک۔ (ابن عابدین، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۹)
(۳) وشر الأمور محدثاتہا وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’باب اجتناب البدع والجدل‘‘: ج ۱، ص: ۱۸؛ مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص353

اسلامی عقائد

Ref. No. 1115

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خریدوفروخت کی مذکورہ صورت درست ہے، کیونکہ دو ملکوں کی کرنسی  کوکمی بیشی کے ساتھ خریدوفروخت کرنا جائز ہے۔ یہاں پر پیسوں کے عوض ڈالر کی بیع ہورہی ہے اس لئے بیع کی یہ صورت درست ہے۔ چیک بھی پیسوں کے حکم میں ہے اسی وجہ سے چیک کے ذریعہ سونا چاندی کی خریدوفروخت درست ہے، اس لئے مجلس میں چیک پر قبضہ کرنا احد البدلین پر قبضہ مانا جائے گا۔

وقد یقع تسلیم النقود عن طریق الشیکات، والشیکات جمع شیک وھو ورق یصدرہ  من لہ حساب فی بنک، فیرید ان یسحب بہ مبلغا من رصیدۃ عند البنک اما لیاخذ ذلک المبلغ بنفسہ او لیاخذ منہ شخص آخر مکتوب علیہ اسمہ او لیاخذہ من ذلک الحساب  من یعرضہ علی البنک بدون تسمیۃ فی ھذہ الحالۃ الاخیرۃ یسمی البنک الشیک لحاملہ (cheque-bearer)، واجمع جمع من المعاصرین ینبغی ان یعتبر تسلیم الشیک قبضا لمبلغہ اما احتمال فشل الشیک فلایلتفت الیہ لان القانون یفرض عقوبات شدیدۃ علی من اصدر شیکا بدون رصیدۃ (فقہ البیوع1/442)۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی شخص منع کرنے کے باوجود ایسا کرے تو گنا ہ کبیرہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہے اور اس پر مصر ہو تو توہین کلام اللہ کی وجہ سے کفر ہے۔عیاذ باللہ۔(۱)

(۱) ویکفر إذا أنکر آیۃ من القرآن أو سخر بآیۃ منہ، (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر:باب أحکام المرتدین: ج ۵، ص: ۲۰۵)

إذا صار المصحف خلقاً فینبغي أن یلف في خرقۃ طاہرۃ ویدفن في مکان طاہر۔ (سراج الدین أبو محمد، الفتاوی السراجیہ، ’’کتاب الکراہۃ والاستحسان: باب القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۸)

ویکفر إذا أنکر آیۃ من القرآن۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر:

باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۰۵)

ومن جحد القرآن أي کلہ أو سورۃ منہ، أو آیۃ قلت: وکذا کلمۃ أو قراء ۃ متواترۃ، أو زعم أنہا لیست من کلام اللّٰہ تعالیٰ کفر۔ (أبوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’فصل في القراء ۃ والصلاۃ‘‘: ص: ۲۷۸)

دار الافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنا سخت گناہ ہے مواخذہ ہوگا۔ اور اگر مقصد استہزاء ہو تو کفر عائد ہوجائے گا۔ (۱

(۱) وکذا قولہم بکفرہ: إذا قرأ القرآن في معرض الناس۔

کما إذا اجتمعوا فقرأ: {فَجَمَعْنَا ہُمْ جَمْعًا} وکذا إذا قرأ {وَکَأْساً دِہَاقاً} عند رؤیۃ کأس ولہ نظائر کثیرۃ في ألفاظ التکفیر کلہا ترجع إلی قصد الاستخفاف بہ۔ (شرح الحمودي علی الأشباہ والنظائر، ’’الفن الأول: القاعدۃ الثانیۃ الأمور بمقاصدہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۵)

)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

مفتی اعظم دار العلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ واقعہ شراب کی حرمت سے پہلے کا ہے (۱) اس کو مطلقاً بیان کرنا درست نہیں اگر کہیں بیان کریں تو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔ مولوی صاحب کو آئندہ ایسی باتوں سے پرہیز لازم ہے اگر کوئی صحیح روایت نہ ہو تو ان پر توبہ استغفار لازم ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار‘‘ (۲)

۱) وفي بعض الروایات أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم قدم المدینۃ وہم یشربون الخمر ویأکلون المیسر فسألوہ عن ذلک، فأنزل اللّٰہ تعالی ہذہ الآیۃ، فقال قوم: ما حرما علینا فکانوا یشربون الخمر إلی أن صنع عبد الرحمن بن عوف طعاما فدعا أناسا من الصحابۃ وأتاہم بخمر فشربوا وسکروا وحضرت صلاۃ المغرب فقدموا علیاً کرم اللّٰہ تعالی وجہہ فقرأ {قُلْ ٰٓیأَ یُّھَا الْکٰفِرُوْنَہلا ۱ } (الکافرون: ۱) … فانطلق سعد إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وشکا إلیہ الأنصار فقال: أللہم بین لنا رأیک في الخمر بیانا شافیا فانزل اللّٰہ تعالیٰ {إنما الخمر والمیسر} إلی قولہ تعالیٰ {فہل أنتم منتہون} و ذلک بعد غزوۃ الأحزاب بأیام، فقال عمر رضي اللّٰہ عنہ: انتہینا یا رب إلخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني،  ’’تحت قولہ تعالیٰ: {یسئلونک عن الخمر والمیسر} (سورۃ البقرۃ: ۲۱۹‘‘: ج ۲، ص:

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ض1ص230

اسلامی عقائد

Ref. No. 2476/45-3768

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی نے بے شمار مقامات پر قرآن کریم میں تصریح فرمادی ہے کہ اللہ تعالی بھلائی اور خیر کے کاموں کو پسند فرماتے ہیں اور برائی اور گناہ کے کاموں کو ناپسند کرتے ہیں اور اس سے ناراض ہوتے ہیں، اس لئے کسی برائی کے ارتکاب میں اللہ کی مرضی ممکن نہیں ہے، لہذا کسی برائی اور گناہ کے کام کو اللہ کی مشیت کی جانب منسوب کرنا جائز نہیں ہوگا، اس لئے کسی معصیت کے ارادہ پر ان شاء اللہ کہنا ہرگز جائز نہیں ہے، اور بعض صورتوں میں اس طرح ان شاء اللہ کہنا موجب کفر ہوسکتاہے، اس لئے اس سلسلہ  میں غایت احتیاط سے کام لیاجائے۔ البتہ گناہوں سے توبہ کرنا ایک نیک عمل ہے اس میں ان شاء اللہ کہنا مستحب ہے۔

 {وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا (23) إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا } [الكهف: 23، 24)

الشَّيْطانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا.

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(90)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند