اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی شخص منع کرنے کے باوجود ایسا کرے تو گنا ہ کبیرہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہے اور اس پر مصر ہو تو توہین کلام اللہ کی وجہ سے کفر ہے۔عیاذ باللہ۔(۱)

(۱) ویکفر إذا أنکر آیۃ من القرآن أو سخر بآیۃ منہ، (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر:باب أحکام المرتدین: ج ۵، ص: ۲۰۵)

إذا صار المصحف خلقاً فینبغي أن یلف في خرقۃ طاہرۃ ویدفن في مکان طاہر۔ (سراج الدین أبو محمد، الفتاوی السراجیہ، ’’کتاب الکراہۃ والاستحسان: باب القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۸)

ویکفر إذا أنکر آیۃ من القرآن۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر:

باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۰۵)

ومن جحد القرآن أي کلہ أو سورۃ منہ، أو آیۃ قلت: وکذا کلمۃ أو قراء ۃ متواترۃ، أو زعم أنہا لیست من کلام اللّٰہ تعالیٰ کفر۔ (أبوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’فصل في القراء ۃ والصلاۃ‘‘: ص: ۲۷۸)

دار الافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنا سخت گناہ ہے مواخذہ ہوگا۔ اور اگر مقصد استہزاء ہو تو کفر عائد ہوجائے گا۔ (۱

(۱) وکذا قولہم بکفرہ: إذا قرأ القرآن في معرض الناس۔

کما إذا اجتمعوا فقرأ: {فَجَمَعْنَا ہُمْ جَمْعًا} وکذا إذا قرأ {وَکَأْساً دِہَاقاً} عند رؤیۃ کأس ولہ نظائر کثیرۃ في ألفاظ التکفیر کلہا ترجع إلی قصد الاستخفاف بہ۔ (شرح الحمودي علی الأشباہ والنظائر، ’’الفن الأول: القاعدۃ الثانیۃ الأمور بمقاصدہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۵)

)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

مفتی اعظم دار العلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ واقعہ شراب کی حرمت سے پہلے کا ہے (۱) اس کو مطلقاً بیان کرنا درست نہیں اگر کہیں بیان کریں تو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔ مولوی صاحب کو آئندہ ایسی باتوں سے پرہیز لازم ہے اگر کوئی صحیح روایت نہ ہو تو ان پر توبہ استغفار لازم ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار‘‘ (۲)

۱) وفي بعض الروایات أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم قدم المدینۃ وہم یشربون الخمر ویأکلون المیسر فسألوہ عن ذلک، فأنزل اللّٰہ تعالی ہذہ الآیۃ، فقال قوم: ما حرما علینا فکانوا یشربون الخمر إلی أن صنع عبد الرحمن بن عوف طعاما فدعا أناسا من الصحابۃ وأتاہم بخمر فشربوا وسکروا وحضرت صلاۃ المغرب فقدموا علیاً کرم اللّٰہ تعالی وجہہ فقرأ {قُلْ ٰٓیأَ یُّھَا الْکٰفِرُوْنَہلا ۱ } (الکافرون: ۱) … فانطلق سعد إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وشکا إلیہ الأنصار فقال: أللہم بین لنا رأیک في الخمر بیانا شافیا فانزل اللّٰہ تعالیٰ {إنما الخمر والمیسر} إلی قولہ تعالیٰ {فہل أنتم منتہون} و ذلک بعد غزوۃ الأحزاب بأیام، فقال عمر رضي اللّٰہ عنہ: انتہینا یا رب إلخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني،  ’’تحت قولہ تعالیٰ: {یسئلونک عن الخمر والمیسر} (سورۃ البقرۃ: ۲۱۹‘‘: ج ۲، ص:

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ض1ص230

اسلامی عقائد

Ref. No. 2476/45-3768

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی نے بے شمار مقامات پر قرآن کریم میں تصریح فرمادی ہے کہ اللہ تعالی بھلائی اور خیر کے کاموں کو پسند فرماتے ہیں اور برائی اور گناہ کے کاموں کو ناپسند کرتے ہیں اور اس سے ناراض ہوتے ہیں، اس لئے کسی برائی کے ارتکاب میں اللہ کی مرضی ممکن نہیں ہے، لہذا کسی برائی اور گناہ کے کام کو اللہ کی مشیت کی جانب منسوب کرنا جائز نہیں ہوگا، اس لئے کسی معصیت کے ارادہ پر ان شاء اللہ کہنا ہرگز جائز نہیں ہے، اور بعض صورتوں میں اس طرح ان شاء اللہ کہنا موجب کفر ہوسکتاہے، اس لئے اس سلسلہ  میں غایت احتیاط سے کام لیاجائے۔ البتہ گناہوں سے توبہ کرنا ایک نیک عمل ہے اس میں ان شاء اللہ کہنا مستحب ہے۔

 {وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا (23) إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا } [الكهف: 23، 24)

الشَّيْطانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا.

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(90)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں شاعر ’’محمد علوی‘‘ کا مقصد معلوم ہوئے بغیر ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا، اس لئے کہ شرعی ضابطہ ہے کہ اگر کسی شخص کے کلام میں ننانویں احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال نفیٔ کفر کا ہو تو بھی کفر کا فتویٰ وفیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔

’’إذا کان في المسئلۃ وجوہ توجب التکفیر، ووجد واحد یمنعہ فعلی المفتي أن یمیل إلی الوجہ الذي یمنع التکفیر تحسیناً للظن بالمسلم‘‘ (۱)

مذکورہ فی السوال اشعار میں کفریہ بات کہی گئی ہے؛ اس لئے کہ قرآن کریم کی آیت ’’ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین‘‘ سے یہ کلام (دو اشعار) معارض ہیں اور اس قسم کے کلام سے کفر یا گناہِ کبیرہ لازم آتا ہے؛ پس مقصد شاعر معلوم ہونے کے بعد ہی صریح بات کہی جا سکتی ہے؛ لہٰذا مقصد معلوم کر کے تحریر فرمائیں؛ نیز اس قسم کے محتمل کلام کی اشاعت اور اسے پڑھنا درست وجائز نہیں ہے۔(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد، باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸۔

(۲) إذا کان في المسألۃ وجوہ توجب الکفر ووجہ واحد یمنع، فعلی المفتي

أن یمیل إلیٰ ذلک الوجہ، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتوے میں شرعی مسئلہ کی وضاحت ہوتی ہے، اگر اس سے انکار کرنے والے کا منشاء اور غرض یہ ہے کہ فتوی کچھ بھی ہو یعنی شرعی مسئلہ کچھ ہو اس پر عمل نہیں کریں گے؛ بلکہ اپنی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں تو فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ایسی صورت میں منکر پر کفر عائد ہوجاتا ہے۔ ’’کما صرح بہ في العالمگیریۃ‘‘ (۱) اور اگر منشاء یہ ہو کہ سوال، واقعہ کے خلاف لکھ کر فتویٰ حاصل کیا گیا ہے، یا مسئلہ غلط لکھا گیا ہے، تو خلاف بولنے والے پر ضروری ہوتا ہے کہ واقعہ کی صحت کو واضح کرے یا فتوے کی غلطی کو کتاب وجزئیات سے ثابت کرے، بغیر ثبوت کے اگر کوئی انکار کرتا ہے، تو اس کی بات قابل توجہ نہیں؛ بلکہ وہ خاطی، اور گنہگار ہے ۔(۲

(۲) إذا جاء أحد الخصمین إلی صاحبہ بفتوی الأئمۃ، فقال صاحبہ: لیس کما أفتوہ أو قال: لا نعمل بہٰذا کان علیہ التعزیر، کذا في الذخیرہ۔ (أیضا:ص: ۲۸۴)

)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

 دار العلوم وقف دیوبند

 

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے وہ مسلمان ہے اور جو اللہ کے علاوہ کس کی پوجا کرے وہ دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہے(۱) اور سوال میں صراحت ہے کہ مذکورہ شخص اور اس کے اہل خانہ مندر میں غیراللہ کی پوجا کرتے ہیں؛ اس لئے بشرط صحتِ سوال مذکورہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہے۔(۲) اور سوال میں مذکور دیگر فسقیہ اعمال اس کے مؤید ہیں۔ اور اسلام میں فتاویٰ کی جن کتابوں کو معتبر و معتمد تسلیم کیا جاتا ہے ان میں اس بات کی صراحت ہے کہ جو شخص دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہو یا فسق و فجور میں مبتلا ہو وہ مسلمانوں کے اوقاف کا متولی وذمہ دار نہیں ہوسکتا (۳)؛ اس لئے بشرط صحتِ سوال مذکورہ شخص کو مسلمانوں کے اوقاف کا متولی یا ذمہ دار بنایا جانا شرعاً ناجائز وحرام ہے۔

(۱) {وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا ٓاِیَّاہُ} (سورہ بنی اسرائیل : ۲۳) …{فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًاہع۱۱۰} (سورۃ الکہف: ۱۱۰)

(۲) {وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا  لِیَعْبُدُو اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ۵لا} (سورۃ البینہ: ۵)

 قال: والکافر إذا صلی بجماعۃ أو أذّن في مسجد أو قال: أنا معتقد حقیقۃ الصلاۃ في جماعۃ یکون مسلما لأنہ أتی بما ہو من خاصیّۃ الإسلام کما أن الإتیان بخاصیَّۃ الکفر یدل علی الکفر، فإن من سجد لصنم أو تزیا بزنارٍ أو لبس قلنسوۃ المجوس یحکم بکفرہ۔ (عبد اللّٰہ بن محمد، الاختیار لتعلیل المختار، ’’فصل فیما یصیر بہ الکافر مسلماً‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۰)

(۳)وینزع وجوباً بزازیۃ لو الواقف درر فغیرہ أولی غیر مأمون أو عاجزا أو ظہر بہ فسق إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب: یأثم بتولیۃ الخائن‘‘: ج۶، ص: ۵۷۸)

وإن کا غیر مأمون أخرجہا من یدہ وجعلہا في ید من یثق بدینہ إلخ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۰)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایصال ثواب کے لیے شرعاً نہ کوئی تاریخ مقرر ہے، اور نہ ہی کوئی دن متعین ہے؛ بلکہ ہمہ وقت ایصال ثواب جائز اور درست ہے، پس مذکورہ بالا تمام رسوم غیرشرعی رسوم ہیں، ان رسوم کو ایصال ثواب کے لئے مقرر کرنا اور ان میں مذکورہ کھانوں کو ایصالِ ثواب کے لئے مقرر کرنا شرعاً درست نہیںہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے؛ اس لیے اس کو بدعت ہی کہا جائے گا، جس سے پرہیز کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
{إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط} (سورۃ الإسراء: ۲۷)
وقال مجاہد لو انفق انسان ما لہ کلہ في الحق لم یکن مبذراً ولو انفق مدا في غیر حق کان مبذراً۔ (تفسیر ابن کثیر، وقال مجاہد لو انفق انسان ما لہ کلہ في الحق لم یکن مبذراً ولو انفق مدا في غیر حق کان مبذراً۔ (تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الإسراء: ۲۷‘‘: ج ۲، ص: ۶۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص489

اسلامی عقائد

Ref. No. 1585/43-1117

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شادی کی تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد شادی سے ایک دودن پہلے کچھ ضروری چیزیں بھیج دی جاتی ہیں تاکہ دلہن کا کمرہ سیٹ کرنے میں آسانی ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس کو رشوت کہنا درست نہیں ہے۔

ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لا يجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، وعلى الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنا شرعيا لائقا بهما. وإذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها (الموسوعة الفقهية الكويتية ، 16/166، دار السلاسل)

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه»(" إلا بطيب نفس") أي: بأمر أو رضا منه (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، 5/1974، دار الفكر) "والمعتمد البناء على العرف كما علمت (شامی باب المھر 3/157)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت وغیرہ کے مواقع پر بدعات سے اجتناب لازم ہے اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھنے کے لیے کوشش جاری رکھنی چاہئے اس کے لیے لٹریچر وغیرہ لکھنا بھی مفید ہے، لوگوں سے فرداً فرداً کبھی ملاقات کرکے ان کو صحیح طور سے آگاہ کرنا بھی مفید ہے، محنت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعاء بھی کی جائے، ہدایت تو اللہ کا کام ہے بندہ کوشش کرسکتا ہے۔(۱)

(۱) من تعبد للّٰہ تعالیٰ بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ فی غیر أزمانہا فقد تعبد ببدعۃ حقیقیۃ لا إضافیۃ فلا جہۃ لہا إلی المشروع بل غلبت علیہا جہۃ الابتداع فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل البدع الإضافیۃ ہل یعتد بہا عبادات‘‘: ج ۲، ص: ۲۶)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص490