Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال ہر وہ شخص جس کے یہ نظریات وعقائد اور اعمال ہیں دائرۂ ایمان سے خارج اور مرتد ہے۔(۱)
(۱) {إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْإِسْلَامُ قف} (سورۃ آل عمران: ۱۹) وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُج وَھُوَ فِي الْأٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَہ۸۵} (سورۃ آل عمران: ۸۵)
قال أبو حفص -رحمہ اللّٰہ- من نسب اللّٰہ تعالیٰ إلی الجور فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، منہا: ما یتعلق بذات اللّٰہ تعالیٰ وصفاتہ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۹)
فما یکون کفرا بالاتفاق یوجب احباط العمل کما في المرتد۔ (عبدالرحمن، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، الصبي العاقل إذا ارتد‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۱)
الحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلاً أو لاعباً کفر عندالکل۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کھانے میں شرکت میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ کسی غیر شرعی امر کا ارتکاب لازم نہ آئے۔(۱)
(۱) وقال أنس رضي اللّٰہ عنہ: إذا دخلت علی مسلم لا یتہم، فکل من طعامہ واشرب من شرابہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب من انتظر حتی تدفن‘‘: ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۴۶۰)
عن أبي الزبیر، عن جابر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا دعي أحدکم إلی طعام، فلیجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترک۔ (أخرجہ مسلم: في صحیحہ، ’’کتاب النکاح: باب الأمر بإجابۃ الداعي إلی دعوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲، رقم: ۱۴۳۰)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: الضیافۃ ثلاثۃ أیام فما سوی ذلک فہو صدقۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الأطعمۃ: باب ما جاء في الضیافۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۶، رقم: ۳۷۴۹)
لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص440
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دولہا کا نکاح کے بعد سلامی کے لیے عورتوں میں جانا ایک رسم اور بدعت ہے، نیز غیر محرم عورتوں سے اختلاط ہوتا ہے، جو جائز نہیں؛ تاہم مذکورہ رسم ورواج کے تحت اگر پیسہ لیا گیا تو کوئی حرمت نہیں آئے گی۔ اس لیے اس کا استعمال جائز اور درست ہوگا، اگر ایسے موقع پر ہدیہ یا تحفہ کی نیت سے کچھ دیں تو گناہ نہ ہوگا۔(۱)
(۱) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص441
اسلامی عقائد
Ref. No. 1129/42-416
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ ﷺ کی ساری سنتیں اہم ہیں۔ بڑی اور سب سے بڑی کی کوئی اصطلاح کتابوں میں نہیں ملتی ہے۔ ہاں سنت مؤکدہ اور غیرمؤکدہ کی تعبیر استعمال ہوتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1578/43-1110
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن وحدیث اجماع وقیاس سے ثابت شدہ مسائل کی تعداد لاکھوں میں ہے جن پر پورے دین کا اطلاق ہوگا۔ البتہ دعوت و تبلیغ کے جو چھ نمبرات ہیں وہ دین کے اہم ترین اعمال و احکام ہیں، ان پر چلنے سے اور ان صفات کو اختیار کرنے سے پورے دین پر چلنا آسان ہوجاتاہے، یہی بات مرکزکے اکابر سے منقول ہے۔ توحید و رسالت کا اقرار و یقین، نماز کا اہتمام، دین کا علم، اللہ تعالیٰ کا ذکر و استحضار، اخلاق نبویہ،اخلاص نیت اور دعوت دین وغیرہ اموردین کے اہم ترین اعمال و احکام کہلاتے ہیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال چوںکہ مذکورہ شخص نے کفریہ و شرکیہ افعال سے توبہ کرلی ہے؛ اس لئے مذکورہ شخص مسلمان ہے۔ قرآن کریم میں ہے {إِلَّاالَّذِیْنَ تَابُوْا وَأَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰہِ وَأَخْلَصُوْا دِیْنَھُمْ لِلّٰہِ فَأُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُوْمِنِیْنَط} (۳)
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہٗ‘‘(۱) لہٰذا سچی توبہ، آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم اور تجدید ایمان اور تجدید نکاح سب کچھ ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو اس کے ساتھ ایک مسلم جیسا برتائو لازم ہے اور چوںکہ یہ کفریہ اعمال برسر عام ہوئے تھے، تو اب ان کو لازم ہے کہ توبہ کا اعلان بھی برسر عام کرے۔(۲
-----
(۳) سورۃ النساء: ۱۴۶۔
(۱) عن أبي عبیدۃ بن عبد اللّٰہ عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ (أخرجہ، ابن ماجہ في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ذکر التوبۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۲) {وَہُوَ الَّذِيْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُوْ عَنِ السَّیِّئَاتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَہ۲۵} (سورۃالشوریٰ: ۲۵)
)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قیامت کا علم اللہ کے لیے مخصوص ہے، یہ علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں دیا گیا۔(۱)
(۱) {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِج وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَج وَیَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًاط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ م بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوْتُط إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌہع۳۴} (سورۃ اللقمان: ۳۴)
فتاوی دارالعلوموقف دیوبند ج1ص226
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں نہ کوئی نذر ہوئی اور نہ ہی وہاں جانا ضروری ہے۔ بلکہ ایسا کرنا گناہ ہے۔ (۱)
(۱) إن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقرباً إلیہم فہو بالإجماع باطل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
فہذا النذر باطل بالاجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: فصل في العوارض‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
منہا: أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز؛ لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق … یا اللّٰہ إني نذرت لک إن شفیت مریضي أورددت غائبي أو قضیت حاجتي أن أطعم الفقراء الذین بباب السیدۃ نفیسۃ الخ۔ (أیضاً:)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص350
اسلامی عقائد
Ref. No. 39/1067
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے، اس کا چھپانا لازم ہے،ستر پورے طور پر چھپاہوا ہے تو پھر بچوں کے ساتھ نہانے میں حرج نہیں ہے، البتہ احتیاط بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند