اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص کا اگر عقیدہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہیں مانتا تو وہ اسلام سے خارج ہوگیا اس کا تعاون کرنے والے بھی سخت گناہ گار ہوں گے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِص}(۱) پس اس شخص کے لئے تجدید ایمان اور تجدید نکاح ضروری ہے۔ لیکن اگر مراد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی آئیں تو بھی میں آپ لوگوں کا یہ فیصلہ نہیں مانوں گا، تو وہ خارج از اسلام نہیں ہے تاہم اس طرح کے جملوں سے احتراز اور توبہ استغفار لازم ہے۔(۲)

(۱) سورۃ المائدہ: ۲۔

(۲) {فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِيْٓ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ  وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ہ۶۵} (سورۃ النساء: آیۃ، ۶۵)

وإذا قال الرجل لغیرہ: حکم الشرع في ہذہ الحادثۃ کذا فقال الغیر: ’’من برسم کار می کنم نہ بشرع‘‘ یکفر عند بعض المشائخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1857/43-1733

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس جملہ سے کفر تو نہیں ہوا البتہ اس طرح کے جملوں سے احتراز کرنا چاہئے، اور احتیاطا تجدید ایمان کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تجدید نکاح ضروری نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ڈاڑھی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے۔

 ’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ، والسواک، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الابط، وحلق العانۃ، وانتقاص الماء، قال زکریا: قال مصعب ونسیت العاشرۃ إلا أن تکون المضمضۃ‘‘۔(۲) ’’عن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (جزوا الشوارب وارخوا اللحی خالفوا المجوس‘‘۔(۱

نیز نصوص سے ثابت شدہ ایک اہم سنت کے ساتھ استہزاء اور مذاق اڑانا در حقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استہزاء ہے؛ کیوں کہ سنت کسی بندے کی ایجاد نہیں ہوتی؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہوتی ہے اور نبی کے ساتھ استہزاء صریح کفر ہے۔

’’استخف بالقرآن أو بالمسجد أو بنحوہ مما یعظم في الشرع أو عاب شیأ من القرآن کفر‘‘(۲) ’’رجل کفر بلسانہ طائعا وقلبہ مطمئن بالإیمان یکون کافرا ولا یکون عند اللّٰہ مؤمنا، کذا في فتاوی‘‘(۳) {قُلْ أَبِا اللّٰہِ وَأٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ  تَسْتَھْزِئُ وْنَہ۶۵ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ إِیْمَانِکُمْط}(۴)

آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجئے کیا اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہی تمہاری ہنسی اور دل لگی ہوتی ہے، تم بہانے نہ بناؤ یقینا تم اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔ الغرض مذکورہ شخص نے جو کچھ کہا یا کیا وہ موجب کفر ہے، اس پر ضروری ہے کہ توبہ کرکے تجدید ایمان ونکاح بھی کرے۔

(۱) قد سبق تخریجہ، ’’باب خصال الفطرۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۲۲، رقم ۲۶۰۔

(۲) عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد، باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج۲، ص: ۵۰۷۔

(۳) أیضا۔

(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲،ص: ۲۹۳۔

(۵) سورۃ التوبۃ: ۶۵-۶۶۔

)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو لوگ صحابہؓ کی مذمت کرتے ہوں، گا لیاں دیتے ہوں، ’’عیاذا باللّٰہ‘‘ جب کہ اللہ تعالیٰ صحابہؓ کی تعریف فرماتے ہیں اور ان سے اپنے راضی ہونے کا اعلان فرماتے ہیں تو ایسے لوگ فاسق وفاجر اور کفر کے قریب ہیں۔(۱)

(۱) وسب أحد من الصحابۃ وبغضہ لا یکون کفرا، لکن یضلل إلخ۔ وذکر في فتح القدیر أن الخوارج الذین یستحلون دماء المسلمین وأموالہم، ویکفرون الصحابۃ، حکمہم عند جمہور الفقہاء وأہل الحدیث حکم البغاۃ۔ وذہب بعض أہل الحدیث إلی أنہم مرتدون۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب ہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۳۷۷)
عن أبی سعید الخدري -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذہبا ما بلغ مد أحدہم ولا نصیفہ، متفق علیہ۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب مناقب الصحابۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج1ص227

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:اولیاء اللہ اور اپنے بزرگوں احباب و اقارب کی قبروں پر جانا اور فاتحہ پڑھنا اور پڑھ کر صاحب قبر کو ثواب پہونچانا بلا شبہ جائز ہے (۱) لیکن عوام میں مروجہ فاتحہ وعرس کا طریقہ جس میں بدعت اور ناجائز امور بھی ہوتے ہیں اس کی نیت سے جانا درست نہیں ہے۔(۲)

(۱) عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور فزوروہا فإنہا تزہد في الدنیا وتذکر الآخرۃ۔ (مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الجنائز: باب زیارۃ القبور‘‘: ج ۴، ص: ۲۲۰، رقم: ۱۷۶۹)
وأما الأولیاء فإنہم متفاوتون في القرب من اللّٰہ تعالیٰ، ونفع الزائرین بحسب معارفہم وأسرارہم، قال ابن حجر في فتاویہ: ولا تترک لما یحصل عندہا من منکرات ومفاسد کاختلاط الرجال بالنساء وغیر ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص352

اسلامی عقائد

Ref. No. 2596/45-4095

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر کوئی قانونی دشواری نہ ہو تو مذکورہ طریقہ پر دعوت کا کام کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ غیروں کی کتابوں سے اقتباسات لے کر  اپنی بات  کو مؤثر انداز میں پیش کرنا اور انسانیت اور حسن معاشرت  کی دعوت دینا درست ہے۔ اس طرح لوگوں تک اپنی بات پہونچانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لہذا مذکورہ حضرات کا ایمان درست ہے ، اس میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ عورت نے جب کہ اسلام قبول کرلیا، تو وہ مسلمان ہوگئی مندر جانے کی وجہ سے وہ کافر نہیں ہوگی(۱) (اگر وہ مورتی کی پوجا نہیں کرتی) البتہ گناہگار ضرور ہے۔ ایسی مسلمان گناہگار عورت سے جو نکاح گواہوں کی موجودگی میں ہوا وہ صحیح ہوگیا اور اگر وہ پوجا کرتی ہے، تو مسلمان نہیں ہے اور اس سے کیا ہوا نکاح باقی نہیں رہا۔(۲)

(۱) {مَنْ  کَفَرَ  بِاللّٰہِ  مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ج وَلَھُمْ عَذَاب’‘ عَظِیْمٌ  ہ۱۰۶}(سورۃ النحل، آیۃ: ۱۰۶)

ومنہا أن لا تکون المرأۃ مشرکۃ إذا کان الرجل مسلماً فلا یجوز للمسلم أن ینکح المشرکۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب النکاح: فصل أن لا تکون المرأۃ مشرکۃ إذا کان الرجل مسلماً‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰)

(۲) قال: والکافر إذا صلی بجماعۃ أو أذّن في مسجد أو قال: أنا معتقد حقیقۃ الصلاۃ في جماعۃ یکون مسلما لأنہ أتی بما ہو من خاصیّۃ الإسلام کما أن الإتیان بخاصیَّۃ الکفر، یدل علی الکفر فإن من سجد لصنم أو تزیا بزنارٍ أو لبس قلنسوۃ المجوس یحکم بکفرہ۔ (عبد اللّٰہ ابن محمد، الاختیار لتعلیل المختار، ’’فصل فیما یصیر بہ الکافر مسلماً‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۰)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال غیر مسلم کے مرنے اور اس کی تیرھویں میں شریک ہونے سے مذکورہ شخص ایمان سے خارج نہیں ہوتا؛ البتہ گناہگار ہوتا ہے۔(۱

(۱) و إذا مات الکافر قال لوالدہ أو قریبہ في تعزیتہ أخلف اللّٰہ علیک خیرا منہ وأصلحک أي أصلحک بالإسلام ورزقک ولدا مسلما لأن الخیریۃ بہ تظہر، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس عشر في الکسب‘‘: ج ۵، ص: ۳۴۸)

جار یہودي أو مجوسي مات ابن لہ أو قریب ینبغي أن یعزبہ ویقول أخلف اللّٰہ علیک خیرا منہ وأصلحک وکان أصلحک اللّٰہ بالإسلام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۵۷)

ولا نکفر مسلما بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

)

نوٹ: ہاں کوئی مصلحت پیش نظر نہ ہو تو ان کی رسموں میں شرکت نہیں کرنی چاہئے؛ اس لئے کہ ان کی رسموں میں شرکت باعث گناہ ہے، اور ان کی رسوم وعقائد کو دل سے برا سمجھنا چاہئے؛ اس لئے کہ ان کے باطل عقائد کو صحیح سمجھنے اور ان کی غیر شرعی رسموں پر رضامندی سے ایمان ہی خطرہ میں پڑجاتا ہے۔

الجواب صحیح:

دار العلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعہ حضرات میں جو لوگ یا جماعتیں مذکورہ نظریات رکھتی ہیں وہ سب اسلام سے خارج ہیں۔(۱)

(۱) نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ - رضی اللہ تعالی عنہا - أو أنکر صحبۃ الصدیق، أو اعتقد الألوہیۃ في عليّ، أو أن جبریل غلط في الوحي، أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۳۷۸)
ویجب إکفار الروافض في قولہم: برجعۃ الأموات إلی الدنیا وبتناسخ الأرواح وبانتقال روح الإلہ إلی الأئمۃ وبقولہم: في خروج إمام باطن وبتعطیلہم الأمر والنہي إلی أن یخرج الإمام الباطن وبقولہم: إن جبریل -علیہ السلام- غلط في الوحي إلی محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- دون علي بن أبي طالب -رضي اللّٰہ عنہ- وہؤلاء القوم خارجون عن ملۃ الإسلام، وأحکامہم أحکام المرتدین، کذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: أحکام المرتدین، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص228

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:بیری کی لکڑی کا قبر کے اندر رکھنا ثابت نہیں اس کو ضروری سمجھنا بدعت ہے نیز یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ مردہ اس کے سہارے سے اٹھ کر بیٹھتا ہے یا یہ کہ مسواک کرتا ہے یہ من گھڑت باتیں ہیں، (۱) البتہ تدفین سے فارغ ہونے کے بعد قبر پر تھوڑی دیر میت کے لئے دعائے مغفرت کرنی چاہئے جو ثابت ہے۔ (۲)

(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا-، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحۃ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸؛ مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ص:۲۷، رقم: ۱۴۰)
من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (’’أیضاً‘‘)
(۲) عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل، رواہ أبو داود۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب إثبات عذاب القبر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶رقم: ۱۳۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص353