اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعہ حضرات میں جو لوگ یا جماعتیں مذکورہ نظریات رکھتی ہیں وہ سب اسلام سے خارج ہیں۔(۱)

(۱) نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ - رضی اللہ تعالی عنہا - أو أنکر صحبۃ الصدیق، أو اعتقد الألوہیۃ في عليّ، أو أن جبریل غلط في الوحي، أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۳۷۸)
ویجب إکفار الروافض في قولہم: برجعۃ الأموات إلی الدنیا وبتناسخ الأرواح وبانتقال روح الإلہ إلی الأئمۃ وبقولہم: في خروج إمام باطن وبتعطیلہم الأمر والنہي إلی أن یخرج الإمام الباطن وبقولہم: إن جبریل -علیہ السلام- غلط في الوحي إلی محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- دون علي بن أبي طالب -رضي اللّٰہ عنہ- وہؤلاء القوم خارجون عن ملۃ الإسلام، وأحکامہم أحکام المرتدین، کذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: أحکام المرتدین، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص228

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:بیری کی لکڑی کا قبر کے اندر رکھنا ثابت نہیں اس کو ضروری سمجھنا بدعت ہے نیز یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ مردہ اس کے سہارے سے اٹھ کر بیٹھتا ہے یا یہ کہ مسواک کرتا ہے یہ من گھڑت باتیں ہیں، (۱) البتہ تدفین سے فارغ ہونے کے بعد قبر پر تھوڑی دیر میت کے لئے دعائے مغفرت کرنی چاہئے جو ثابت ہے۔ (۲)

(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا-، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحۃ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸؛ مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ص:۲۷، رقم: ۱۴۰)
من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (’’أیضاً‘‘)
(۲) عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل، رواہ أبو داود۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب إثبات عذاب القبر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶رقم: ۱۳۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص353

اسلامی عقائد

Ref. No. 2428/45-3692

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، بعض مرتبہ بہت چھوٹی چیز کو لوگ اپنی انا کا مسئلہ بنالیتے ہیں، اس کی وجہ سے طلاق تک نوبت پہونچ جاتی ہے، اس سلسلہ میں دونوں کو ہی خیال  کرنا چاہئے، زید چونکہ اس گھر کا داماد ہے ، اور داماد کا درجہ بیٹے جیسا ہوتاہے، اس لئے اگر ساس و سسر انہیں  اسی مکان میں بُلائیں تو وہاں جاکر بیوی کو لے آنا چاہئے ۔ ہاں اگر زید کسی معقول بنیاد پر اس گھر میں نہ جانا چاہتاہو تو سسرال والوں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہئے ، ضد کوئی اچھی چیز نہیں ہے، اس میں دونوں فریق کا نقصان ہوتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2549/45-3888

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ خود اپنے حساب سے ایک اندازہ لگائیں اور اس کے مطابق وقتا فوقتا سجدہ کرتے رہیں جب غالب گمان ہوجائے کہ جتنے سجدہ ذمہ میں تھے اس سے زیادہ ادا کرلیے تو پھر سجدہ  کرنا بند کردیں، لیکن اس کا اندازہ آپ کو ہی لگانا ہوگا۔ آپ اپنے معمول کے مطابق قرآن کی تلاوت وغیرہ کا حساب  کرکے جو  تعداد متعین کرلیں وہی معتبر ہوگا۔

وتجب ... (على من كان) متعلق بيجب (أهلاً لوجوب الصلاة)؛ لأنها من أجزائها (أداء) كالأصم إذا تلا، (أو قضاءً) كالجنب والسكران والنائم، (فلا تجب على كافر وصبي ومجنون وحائض ونفساء قرءوا أو سمعوا)؛ لأنهم ليسوا أهلاً لها، (وتجب بتلاوتهم) يعني المذكورين (خلا المجنون المطبق) فلا تجب بتلاوته؛ لعدم أهليته.

قوله: وتجب بتلاوتهم) أي وتجب على من سمعهم بسبب تلاوتهم ح. (قوله: يعني المذكورين) أي الأصم والنفساء وما بينهما (قوله: خلا المجنون) هذا ما مشى عليه في البحر عن البدائع. قال في الفتح: لكن ذكر شيخ الإسلام أنه لايجب بالسماع من مجنون أو نائم أو طير؛ لأن السبب سماع تلاوة صحيحة، وصحتها بالتمييز ولم يوجد، وهذا التعليل يفيد التفصيل في الصبي، فليكن هو المعتبر إن كان مميزاً وجب بالسماع منه وإلا فلا اھ  ـ واستحسنه في الحلية". (شامی، 2/107)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 39/1084

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایسا کہنا یا عقیدہ رکھنا حرام ہے، ایسا شخص ایمان سے خارج ہوجاتاہے، اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی،  ایسے شخص پر توبہ اور تجدید ایمان لازم ہے۔ اللہ تعالی کے حکم کے خلاف کرنے کی  ان کے اندرقطعا استطاعت نہیں ہے۔  اور اگر عقیدہ درست ہو پھر زبان سے یوں ہی کہدیا تو بھی گناہ ہے لیکن ایمان سے خارج نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر غصہ جنون کے درجہ تک تھا تو کہنے والا کافر نہیں ہوگا اوراگر جنون کے درجہ میں نہیں تھا تو کافر ہوجائے گا۔(۱) تاہم وہ کلمات کفر کیا ہیں ان کی وضاحت بھی ضروری ہے بلا تحقیق کسی کو کافر نہیں کہنا چاہئے۔ (۲)

(۱) وشرائط صحتہا، العقل، فلا تصح ردۃ المجنون ولا الصبي الذي لا یعقل، أما من جنونہ ینقطع فإن ارتد حال الجنون لم تصح، وإن ارتد حال إفاقتہ صحت۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین‘‘: ج ۲،ص: ۲۶۶)

(۲) في الفتاویٰ الصغریٰ: الکفر شيء عظیم فلا أجعل المؤمن کافراً متی وجدت روایۃ أنہ لا یکفر إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’ کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶،ص: ۳۵۸)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس صورت میں وہ اسلام سے خارج نہیں ہوا، اگر اسلامی ناموں کو برا اور غیروں کے ناموں کو اچھا سمجھ کر ایسا کرتا ہے تو اندیشہ کفر ہے اور اگرایسا مصلحت کی وجہ سے کیا ہے تو گنجائش ہے مگر ناموں کے معنی اچھے ہونے چاہئے تا ہم اس سے گریز ہی کریں اس میں تشبیہ بالغیر معلوم ہو رہا ہے، بعض علماء تو کفر ہی کے قائل ہیں۔ (۱)

(۱) ثم إن کانت نیۃ القائل الوجہ الذي یمنع التکفیر فہو مسلم، وإن کانت نیتہ الوجہ الذي یوجب التکفیر لا تنفعہ فتوی المفتي و یؤمر بالتوبۃ والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین إمرأتہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب إن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا إلا نزیل عنہ إسم الإیمان۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

 

الجواب صحیح:

 دار العلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:خلفاء راشدین واہل بیت کی فضیلت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، ان کی فضیلت کے بیان کے لئے حدیث کی کتابوں میں مستقل ابواب ہیں؛ اس لئے خطبہ میں ان کا تذکرہ افضل و مستحب ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی فضیلت بیان فرمائی ہے تو امت بھی اس کا اظہار کرے اور ان کے لئے دعا کرے۔(۱)

۱) وذکر الخلفاء الراشدین رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم أجمعین مستحسن بذلک جری التوارث، کذا في التنجیس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰت: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ ومن الستحب‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸)
عن سعد بن أبي وقاص رضي اللّٰہ عنہ، قال: لما نزلت ہذہ الآیۃ {ندع أبنائنا وأبنائکم} دعا رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- علیاً وفاطمۃ وحسناً وحسیناً فقال: أللہم ہٰولاء أہل بیتي، رواہ مسلم۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب مناقب أہل بیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۸، رقم: ۶۱۳۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص229

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسلمانوں کے لئے وہی عمل باعث خیر و برکت اور باعث نجات ہوگا جو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے اربعہ یا ان صحابۂ کرامؓ سے ثابت ہو جنہوں نے قرآن اور حدیث اور فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اسوہ بنایا اور عمل کیا اور اسی کے مطابق اسلاف و اکابر نے عمل کیا۔(۱) جن امور کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کسی ایک طریقہ کو ان حضرات نے اختیار نہیں کیا یہ سب بہت بعد کی ایجادات ہیں اور ان پر عمل بلاشبہ بدعت ہے(۲) اور بدعت کو ضلالت سے تعبیر کیا گیا ہے اس لئے ترک ضروری ہے۔(۳)

(۱) لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ، پاني پتي، تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
(۲) أنکر الخطابي ومن تبعہ وضع الجرید الیابس، وکذلک ما یفعلہ أکثر الناس من وضع ما فیہ رطوبۃ من الریاحین والبقول ونحوہما علی القبور لیس بشیء۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب ما جاء في غسل البول‘‘: ج ۳، ص: ۱۲۱)
ومن المنکرات الکثیرۃ کإیقاد الشموع والقنادیل التي توجد في الأفراح، وکدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرۃ علی الذکر وقراء ۃ القرآن، وغیر ذلک۔ (ابن عابدین، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۹)
(۳) وشر الأمور محدثاتہا وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’باب اجتناب البدع والجدل‘‘: ج ۱، ص: ۱۸؛ مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص353

اسلامی عقائد

Ref. No. 1115

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خریدوفروخت کی مذکورہ صورت درست ہے، کیونکہ دو ملکوں کی کرنسی  کوکمی بیشی کے ساتھ خریدوفروخت کرنا جائز ہے۔ یہاں پر پیسوں کے عوض ڈالر کی بیع ہورہی ہے اس لئے بیع کی یہ صورت درست ہے۔ چیک بھی پیسوں کے حکم میں ہے اسی وجہ سے چیک کے ذریعہ سونا چاندی کی خریدوفروخت درست ہے، اس لئے مجلس میں چیک پر قبضہ کرنا احد البدلین پر قبضہ مانا جائے گا۔

وقد یقع تسلیم النقود عن طریق الشیکات، والشیکات جمع شیک وھو ورق یصدرہ  من لہ حساب فی بنک، فیرید ان یسحب بہ مبلغا من رصیدۃ عند البنک اما لیاخذ ذلک المبلغ بنفسہ او لیاخذ منہ شخص آخر مکتوب علیہ اسمہ او لیاخذہ من ذلک الحساب  من یعرضہ علی البنک بدون تسمیۃ فی ھذہ الحالۃ الاخیرۃ یسمی البنک الشیک لحاملہ (cheque-bearer)، واجمع جمع من المعاصرین ینبغی ان یعتبر تسلیم الشیک قبضا لمبلغہ اما احتمال فشل الشیک فلایلتفت الیہ لان القانون یفرض عقوبات شدیدۃ علی من اصدر شیکا بدون رصیدۃ (فقہ البیوع1/442)۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند