Frequently Asked Questions
بدعات و منکرات
Ref. No. 38 / 1128
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کس نے کس کو ہرایا اس کا علم ہم کو نہیں ، البتہ موقع بموقع علماء دیوبند نے تحریرا وتقریرا ً تمام فرق باطلہ کا رد کیا ہے اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے۔ کتابوں کی عبارتوں سے دوسرے حضرات نے گستاخی کا مفہوم نکالا ہے جبکہ صاحب کتاب کا منشاء ہرگز گستاخی اور بے ادبی نہیں ہے۔ عبارات اکابر پر تفصیلی کتابیں موجود ہیں جن میں ان عبارتوں کا صحیح مفہوم واضح انداز میں بیان کردیا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 39 / 973
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس کی گنجائش ہے، اورمؤثر حقیقی اللہ تعالی کو ہی سمجھنا لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حسب ضرورت دیگر دینی کتب تعلیم کے لئے پڑھ کر سنانا بلاشبہ درست ہے کسی ایک ہی کتاب پر اصرار کرنا درست نہیں ہے، علم حاصل کرنے کا جو مناسب طریقہ ہو اختیار کیا جانا چاہئے۔(۱)
(۱) عن أبي سعید رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقول الرب عز وجل: من شغلہ القرآن عن ذکري و مسألتي أعطیتہ أفضل ما أعطی السائلین، وفضل کلام اللّٰہ علی سائر الکلام کفضل اللّٰہ علی خلقہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن، باب‘‘: ج ۲، ص: ۱۱۷، رقم: ۲۹۲۶)
عن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا أبا ذر، لأن تغدو فتعلم آیۃ من کتاب اللّٰہ، خیرٌ لک من أن تصلی مائۃ رکعۃ ولأن تغدو فتعلم باباً من العلم، عمل بہ أو لم یعمل، خیرٌ لک من أن تصلی ألف رکعۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’المقدمۃ، باب فضل من تعلم القرآن وعملہ‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۲۱۹)
----------------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص343
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا سیکھنا فرض عین ہے، (۱)خواہ مدرسہ کے ذریعہ ہو یا خانقاہ کے ذریعہ یا جماعت کے ذریعہ؛ البتہ تبلیغ فرض کفایہ ہے جو عالم دین نے تبلیغ کو فرض کہا اس کی مراد یہی ہوگی کہ دین کا سیکھنا فرض ہے، جہاں تک ان کے دلائل ہیں، ان سے تبلیغ کی فرضیت ضرور ثابت ہوتی ہے، لیکن اس کا فرض عین ہونا نہیں ثابت ہوتا ہے، (۲) تبلیغ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ فرض کفایہ ہے اور اس کے لیے کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے؛ بلکہ جس طرح بھی یہ کام انجام دیا جائے درست ہے؛ اس لیے سوشل میڈیا کے ذریعہ یا واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعہ بھی کوئی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے، یہ جائز ہے؛ اس لیے کہ مقصد لوگوں کو بھلی بات بتانا اور برائی سے روکنا ہے۔
’’قال العلامہ الآلوسی في ہذہ الآیۃ ولتکن منکم أمۃ یدعون إلی الخیر ویأمرون المعروف وینہون عن المنکر؛ إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایۃ۔(۱) وأعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین وہو بقدر ما یحتاج إلیہ وفرض کفایۃ و ہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ(۲) قال العلامي في فصولہ: من فرائض الإسلام تعلمہ ما یحتاج إلیہ العبد في إقامۃ دینہ وإخلاص عملہ للّٰہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ تعلم علم الوضوء والغسل والصلاۃ والصوم، وعلم الزکاۃ لمن لہ نصاب، والحج لمن وجب علیہ‘‘۔(۳)
(۱) عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’المقدمۃ، باب فضل العلماء والحث‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۲۲۴)
(۲) {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط} (سورۃ آل عمران: ۱۱۰)
(۱) علامہ آلوسي، روح المعاني: ج ۴، ص: ۲۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۵)
(۳) ’’أیضاً‘‘۔
----------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص344
بدعات و منکرات
Ref. No. 1816/43-0000
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
میت کے لیے ایصال ثواب کا ثبوت احادیث اور سلف کے تعامل سے ثابت ہے اور جس طرح مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتاہے اسی طرح بدنی عبادت کا ثواب بھی میت کو پہنچتاہے ۔علامہ شامی نے اسے اہل السنت والجماعت کا مسلک قرار دیا ہے ۔
من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم يومئذ، وكان له بعدد من فيها حسنات بحر. وفي شرح اللباب ويقرأ من القرآن ما تيسر له من الفاتحة وأول البقرة إلى المفلحون وآية الكرسي - وآمن الرسول - وسورة يس وتبارك الملك وسورة التكاثر والإخلاص اثني عشر مرة أو إحدى عشر أو سبعا أو ثلاثا، ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلى فلان أو إليهم. اهـ. مطلب في القراءة للميت وإهداء ثوابها له [تنبيه]صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شي(رد المحتار،مطلب فی زیارۃ القبور ،2/243)۔
قرآن کریم کے ذریعہ میت کو ثواب پہنچانا بھی درست ہے او راس سے میت کو فائدہ پہنچتاہے اور یہ عمل بھی حدیث اور سلف کے تعا مل سے ثابت ہے۔
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ويس قلب القرآن لا يقرؤها رجل يريد الله والدار الآخرة إلا غفر له، اقرءوها على موتاكم(السنن الکبری للنسائی،حدیث نمبر:10847) وعن مجالد، عن الشعبي " كانت الأنصار إذا حضروا قرؤوا عند الميت البقرة ". مجالد ضعيف.(خلاصۃ الاحکام،باب مایقولہ من مات لہ میت ،حدیث نمبر:3279 )ملا علی قاری مرقات میں لکھتے ہیں : وأن المسلمين ما زالوا في كل مصر وعصر يجتمعون ويقرءون لموتاهم من غير نكير، فكان ذلك إجماعا، ذكر ذلك كله الحافظ شمس الدين بن عبد الواحد المقدسي الحنبلي في جزء ألفه في المسألة، ثم قال السيوطي: وأما القراءة على القبر فجاز بمشروعيتها أصحابنا وغيرهم.(مرقات المفاتیح،باب دفن المیت ، 3/1229)۔
تاہم یہاں چند باتیں پیش نظر رکھنی ضروری ہے ، اُسی عمل کا ثواب میت کو پہنچتاہے جو عمل انسان خالص اللہ کی رضا کے لیے کرے اوراس کا ثواب میت کو بخش دے ، جو عمل خالص رضائے ا لہی کے لیے نہ ہو اس کاثواب خود کرنے والے کونہیں ملتا تو دوسروں کو اس کا کیا فائدہ ملے گااسی وجہ سے حضرات علماء نے مروجہ قرآن خوانی پر سخت نکیر کی ہے اس لیے کہ اس میں بہت سے مفاسد جمع ہوجاتے ہیں ۔پڑھنےوالا اس نیت سے پڑھتاہے کہ اس پر کچھ ملے گا اور پڑھانے والوں کے بھی ذہن میں رہتا ہے کہ مدارس کے طلبہ کو بلایا تو اس کو کچھ ہدیہ کے نام پہ دینا ہوگا یا کھانا کھلانا ہوگا ظاہر ہے کہ اس عمل میں جانین سے اخلاص کا تحقق نہیں ہوتا۔اس لیے قرآن خوانی کی مروجہ صورت جس میں جس میں پڑھنے والوں کے لیے کھانے پینے کا نظم ہو یا شرطیہ یا بلاشرط کے بچوں کو کچھ دینے کا رواج ہو یا مدرسہ کے لیے رسید کٹانے کو ضروری قرار دیا جائے یہ سب ناجائز ہے ۔
قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ.(شامی ، مطلب فی الاستئجار علی المعاصی٦/٥٦)۔
مدرسہ کے بچوں کو جمع کرنے اور گھر بلانے میں تو اور بھی مفاسد ہیں بسااوقات ان کی تعلیم و تربیت کا نقصان ہوتا ہے بچوں کے ماں باپ اعزہ کی تکلیف کا موجب ہے بہت سے لوگ بھی بچوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے بعض لوگ حقارت کی بھی نظروں سے دیکھتے ہیں اس لئے مدرسہ کے ذمہ داران کو بچوں کے بھیجنے سے صاف معذرت کردینا چاہئے۔
اگر لوگ مدارس سے قرآن خوانی کے لیے رابطہ کریں تو اس کی منا سب صورت یہ ہےکہ ان کو بچوں کی تعلیم کو تربیت کا حوالہ دے کر منع کردیا جائے اور یہ کہا جائے کہ مدرسہ میں بچے ہر وقت قرآن پڑھتے ہیں آپ کسی وقت تشریف لے آئیں بچوں نے جو قرآن پڑھا ہے اس میں ایصال ثواب کی نیت کرکے مرحوم کےلیے دعا کردی جائے گی یا مرحوم کا نام لے لیا جائے اور حفظ کی درسگاہ میں سبق کے اختتام کے وقت مرحوم کے لیے دعا کرادیا جائے تو یہ بہتر متبادل ہوسکتاہے ا س کے علاوہ ان کو انفرادی طورپر قرآن پڑھنے اور میت کو اس کا ثواب پہنچانے کی ترغیب کی جائے ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 2604/45-4121
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مساجد عبادت اور ذکراللہ کے لئے خاص ہیں ، مسجد میں ایسا کوئی عمل جس سے عبادت و ذکراللہ میں خلل ہو اور نمازیوں کو دشواری ہو، جائز نہیں ہے۔ خیال رہے کہ مسافر اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا، پینا اور سونا مکروہ ہے؛ اس لئے کھانے وغیرہ کا نظم مساجد کی حدودسے باہر ہونا چاہئے، یا پھر مسجد شرعی کے باہری حصہ میں نظم ہو تو نمازوں کے اوقات کا خیال رکھ کر اس کی ترتیب بنائی جائے۔
’’ وأكل، ونوم إلا لمعتكف وغريب. (قوله: وأكل ونوم إلخ) وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف، فيدخل ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى، أو يصلي ثم يفعل ما شاء، فتاوى هندية.‘‘ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 1/ 661)
’’ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية (الفتاوى الهندية 5/ 321)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تقریر کے معنی کسی بات کو بیان کرنا ہے اور وعظ نصیحت آمیز باتوں کا بیان کرنا ہے مگر عرف عام میں دونوں کے ایک ہی معنی ہوتے ہیں کہ دین کی بات کا بیان کرنا۔ جو حضرات اتنی صلاحیت رکھتے ہوں کہ دین کی بات کو صحیح صحیح طریقہ پر بیان کردیں تو ان کا وعظ کہنا جائز ہے اگر ایسی صلاحیت اس میں نہیں ہے تو اس کا وعظ کہنا جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) وعن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالماً اتخذ الناس رؤوساً جہالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳، رقم: ۲۰۶)
وعن الأعمش قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: آفۃ العلم النسیان وإضاعتہ أن تحدث بہ غیر أہلہ، رواہ الدارمي مرسلاً۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۷، رقم: ۲۶۵)
وعن ابن سیرین قال: إن ہذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم، رواہ مسلم، المراد الأخذ من العدول والثقات۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۲۷۳)
--------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص345
بدعات و منکرات
Ref. No. 922/41-49
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شب براءت معافی اور عبادت کی رات ہے، اس لئے اگر کوئی اپنی غلطی کی معافی مانگ کر اللہ سے بھی معافی مانگے تو یہ نیک عمل ہے۔ بندہ سے معافی مانگنا خواہ براہِ راست ہو یا موبائل کے واسطہ سے ہو، درست ہے، تاہم محض رسم کے طور پر اپنے اور پرائے ہر کسی کو میسیج بھیج دینا یہ ایک لغو اور لایعنی عمل ہے، جس سے احتراز ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 2300/44-3449
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ولیمہ کے موقع پر مبارکباد دینا، اور زوجین کے درمیان محبت کے لئے دعا دینا درست ہے، لیکن معانقہ کرنا وغیرہ کہیں ثابت نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی اسے سنت یا شریعت کا حصہ یا ضروری سمجھ کر نہ کرے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سیاست مذہب سے جدا نہیں ہے، اعلاء کلمۃ اللہ اور تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے افعال حالات کے اعتبار سے سیاست پر بھی مبنی تھے مثلاً مدینہ منورہ پہونچ کر یہودی قبائل سے مصالحت کرنا وغیرہ ذلک۔ صحابہؓ، خلفاء اربعہؒ کی زندگی بھی سیاست اور تبلیغ دین سے معمور ہے سیاست کو مذہب سے الگ سمجھنا نادانی اور جہالت ہے تبلیغی جماعت کیوں ایسا کرتی ہے اس کی ذمہ داری اسی پر ہے ان سے پوچھنا چاہئے کہ ان کے پاس کیا دلائل ہیں۔(۱)
(۱) حدثنا محمد بن بشار رضي اللّٰہ عنہ، قال حدثنا شعبۃ عن فرات القزاز، سمعت أباہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، یحدث عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: کانت بنو إسرائیل تسوسہم الأنبیاء، کلما ہلک نبي خلفہ نبي وإنہ لا نبي بعدي وسیکون خلفاء، فیکثرون قالو، فما تأمرنا؟ قال فوا ببیعۃ الأول فالأول أعطوہم حقہم فإن اللّٰہ سائلہم عمن استرعاہم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء: باب ماذکر عن بني إسرائیل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۱، رقم: ۳۴۵۵)
وکانت شہرۃ عمر رضي اللّٰہ عنہ، بالسیاسۃ وکان فضلہ بالعلم باللّٰہ الذي مات تسعۃ أعشارہ بموتہ وبقصدہ التقرب إلی اللّٰہ عز وجل في ولایتہ وعدلہ وشفقتہ علی خلقہ …… والسلطان یتوسط بین الخلق للّٰہ فیکون مرضیاً عند اللّٰہ سبحانہ ومثابا۔ ( إمام غزاليؒ، إحیاء علوم الدین، ’’کتاب العلم: ج ۱، ص: ۴۴)
وقال تعالیٰ: {وَ أَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَأٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ ج لَاتَعْلَمُوْنَھُمْ ج أَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ ہ۶۰ وَإِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط إِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ہ۶۱} (سورۃ الأنفال: ۶۰، ۶۱)
------------------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص346