بدعات و منکرات

Ref. No. 1831/43-1622

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو عمل بدعت ہووہ گناہ کا باعث ہے، اس سے ثواب کیسے حاصل ہوسکتاہے۔  البتہ اس بدعت کے دوران جو اعمال صالحہ تلاوت و ذکر وغیرہ کیا جائے گا اس کا ثواب حاصل ہوگا، لیکن بدعت کا گناہ اس ثواب سے بڑھ کر ہوگا، اس لئے بدعت کا ترک کرنا ضروری ہے۔  فقہاء کے یہاں یہ قاعدہ مسلم ہے کہ جس چیز کے سنت اور بدعت ہونے میں تردد ہو اس کا ترک اولی ہے۔

مَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا

مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِ ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ (بخاری ومسلم)

عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنَ المَہْدِیِّیْن (ترمذی، ج:۲، ص: ۹۲، ابوداؤد، ج۲، ص: ۲۷۹)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 1102 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  گیارہویں منانا کہیں ثابت نہیں، یہ محض ایک رسم ہے، نیز بہت سے اعتقادی ، عملی واخلاقی مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے واجب الترک ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسی کوئی حدیث نظر سے نہیں گذری، ہاں جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق اس طرح کی کچھ احادیث ملتی ہیں۔ بعض اہل جماعت ان روایات کو مروجہ تبلیغ کی جانب منسوب کر لیتے ہیں یہ مناسب نہیں ہے، مگر اللہ تعالیٰ سے ثواب میں اضافے کی امید رکھنی چاہئے، لیکن مذکورہ تقابل جہالت ہے اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) عن سہل بن معاذ عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن الصلاۃ والصیام والذکر یضاعف علی النفقۃ في سبیل اللّٰہ بسبع مائۃ ضعف۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجہاد: باب تضعیف الذکر في سبیل اللّٰہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۸)
وعن علي وأبي الدرداء وأبي ہریرۃ وأبي أمامۃ وعبد اللّٰہ بن عمر وجابر بن عبد اللّٰہ وعمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہم أجمعین کلہم یحدث عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من أرسل نفقۃ في سبیل اللّٰہ وأقام في بیتہ، فلہ بکل درہم سبعمائۃ درہم ومن غزا بنفسہ في سبیل اللّٰہ وأنفق في وجہہ ذلک، فلہ بکل درہم سبعمائۃ ألف درہم۔ ثم تلا ہذہ الآیۃ: {واللَّہُ یُضاعفُ لمنْ یشائُ}۔ رواہ ابن ماجہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الجہاد: الفصل الثالث‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص297

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ ہجرت اپنی دعوت وتبلیغ کے ناکام ہونے کی وجہ سے نہیں کی تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے ہجرت فرمائی تھی؛ اس لئے مذکورہ واعظ کا یہ کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فیل ہو گئے تھے، یہ جہالت ہے۔ ایسا کہنا بالکل درست نہیں ہے؛ انہوں نے یہ جملہ دانستہ کہا ہو یا نادانستہ توبہ واستغفار لازم ہے۔(۱)

(۱) وعبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد، ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالماً، اتخذ الناس رؤساً جہالاً فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا: متفق علیہ۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳، رقم: ۲۰۶)
وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اتقوا الحدیث عني إلا ما علمتم، فمن کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ رواہ الترمذي۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۵، رقم: ۲۳۲)
وعن ابن سیرین رحمہ اللّٰہ قال: إن ہذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم، رواہ مسلم۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۱، ص: ۳۷، رقم: ۲۷۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص298

بدعات و منکرات

الجواب وباللہ التوفیق

صورت مسؤولہ میں بیٹے پر والدین کی فرمانبرداری لازم ہے ، والد کو حق ہے کہ بیٹے کو واپس بلالے اور بیٹے پر واپس آنا لازم ہے، والدین کی خدمت بہرحال مقدم ہے، مذکورہ صورت میں بچہ کے والد صاحب کو سمجھایاجائے کہ چلہ کے لئے گھر سے گیا تھا وہاں لوگوں کے ترغیب دلانے پر چار مہینے کا ارادہ کرلیا ہوگا اس پر اس قدر ناراض نہ ہوں ، نیز بیٹے کو واپس آکر والد صاحب کو راضی کرلینا چاہئے، سائلہ کو چاہئے کہ دونوں کے درمیان اتفاق کرانے کی صورتیں اختیار کریں اور جہاں اتفاق نہ ہوسکے تو شوہر کا ساتھ دیں تاکہ مسئلہ بسہولت حل ہوسکے۔

واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اعلاء کلمۃ اللہ اور دین کی خدمت کے متعدد طریقے ہیں۔ درس وتدریس بنیادی طریقہ ہے اور اس کے بھی متعدد درجات ہیں۔ تصنیف وتالیف، وعظ وتقریر اور دعوت وتبلیغ وغیرہ، پھر دعوت وتبلیغ کے بھی مختلف درجات ہیں، کسی ایک طریقہ میں ہی دین کو محدود سمجھنا غلطی ہے۔ تذکیر کا طریقہ سہل ہے درس وتدریس مشکل ہے اور فقہ وفتاویٰ انتہائی نازک ودشوار ہے، کسی ایک طریقہ کو اختیار کرنے کے بعد دوسرے طریقے کو اختیار کرنے والوں کو کمتر سمجھنا بھی غلطی ہے؛ اس لئے کسی کا یہ کہنا کہ دین کے لئے یہی صورت لازم ہے، یہ درست نہیں ہے۔ تبلیغ وغیرہ کا کام مسجد میں چلانے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ احترام کی خلاف ورزی نہ ہو، سات لاکھ نمازوں کے ثواب والی حدیث اور دلیل نظر سے نہیں گذری خود بیان کرنے والے سے معلوم کیا جائے مزید اطمینان کے لئے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’دعوت وتبلیغ‘‘ دیکھی جائے۔(۱)

(۱) وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کفیٰ بالمرء کذباً أن یحدث بکل ما سمع۔ رواہ مسلم۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ’’الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۸، رقم: ۱۵۶)
{وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَہ۱۰۴} (سورۃ آل عمران: ۱۰۴)
وعن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ  قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن الناس لکم تبع وإن رجالا یأتونکم من أقطار الأرض یتفقہون في الدین فإذا أتوکم فاستوصوا بہم خیرا۔(أخرجہ الترمذي، في سننہ، ج۱، ص:۳۸رقم: ۲۱۵)
وعن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من خرج في طلب العلم فہو في سبیل اللّٰہ حتی یرجع۔ رواہ الترمذي والدارمي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۴، رقم: ۲۲۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص299

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تبلیغ دین فرض علی الکفایہ ہے(۱) اور جہاں جس قدر ضرورت ہو وہاں پر اس کی اہمیت اسی قدر ہوگی، قرآن کریم میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم صراحتاً مذکور ہے(۲) سب سے بڑا معروف ایمان اور سب سے بڑا منکر کفر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام واحکام کی تبلیغ کا حکم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ ذمہ داری ہر زمانہ کے علماء وصلحاء کی ہے، لیکن تبلیغ کو کسی خاص مروجہ صورت کے ساتھ مقید کرنا درست نہیں ہے، بعض لوگ تبلیغ کی کوئی صورت متعین کرکے تمام احکام کو اس متعینہ صورت پر منطبق کردیتے ہیں یہ درست نہیں ہے۔(۳)

(۱) إعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین، وہو بقدر ما یحتاج إلیہ، وفرض کفایۃ، وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمۃ، مطلب في فرض الکفایۃ وفرض العین‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۵)
إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایات۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: ج ۴، ص: ۲۱)
(۲) {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط} (سورۃ آل عمران: ۱۱۰)
(۳) قال تعالیٰ: {یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیٰتِہ} یعني القرآن {ویزکیہم} أي یأمرہم بالمعروف وینہا ہم عن المنکر لتزکوا نفوسہم وتطہر من الدنس والخبث الذي کانوا متلبسین بہ في حال شرکہم وجاہلیتہم {ویعلہم الکتب والحکمۃ} یعني القرآن والسنۃ۔ (ابن کثیر: تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ آل عمران: ۱۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص300

بدعات و منکرات

Ref. No. 39 / 881

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جائز ہے، کوئی حرج نہیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 2205/44-2340

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عبرت اور تذکرہ آخرت کے لئے زیارت قبور ایک جائز امر ہے، لیکن عام طور پر عورتیں نرم دل ہوتی ہیں اور قبر وغیرہ دیکھ کر اپنے متعقلین کو یاد کرکے جزع فزع کرنے لگتی ہیں، نیز محارم سے اختلاط بھی بسا اوقات پایاجاتاہے۔ اس لئے عورتوں کو زیارت قبور سے منع کیاجاتاہے۔ تاہم  اگر قبرستان میں عورتوں کے آنے جانے کا الگ نظم ہو یا الگ  ایک وقت متعین ہو تو ان کو زیارت قبور کی اجازت ہوگی،  لیکن پھر بھی ان کا اپنے گھروں پر رہ کر میت کے لئے اور متعقلین کے لئے دعاکرنا زیادہ احوط ہے اور اسمیں کسی مفسدہ کا خدشہ بھی نہیں ہے۔ البتہ بہت بوڑھی عورتوں کے لئے کچھ سہولت دی جاتی ہے  بشرطیکہ وہ جزع فزع نہ کریں کیونکہ ان کے ساتھ کسی فتنہ کا اندیشہ  عام طور پرنہیں ہوتاہے۔

"عن ابن عباس، قال: ’’لعن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم زائرات القبور، والمتخذین علیها المساجد والسرج.‘‘ (سنن أبي داؤد، ۳/۲۱۸، أخرجه الترمذي، ۲/۳۶ (۳۲۰) وقال: حدیث حسن)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210):

"(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلاتجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد".

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 944 Alif

الجواب

الجواب وباللہ التوفیق

سوال میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ اللہ کے راستہ سے کیا مراد ہے؟ تاہم غزوہ خیبر میں ابتداءا حضرت علی نے عذر پیش کیا تھا ؛ اس لئے عذر پیش کرنے کو دین کی محنت کی مذاق سے تعبیر کرنا درست ہی نہیں ہے۔ کذا فی ابی داؤد۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

 

دارالعلوم وقف دیوبند