Frequently Asked Questions
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سب سے افضل ومقدس کتاب قرآنِ کریم ہے، اس کے بعد حدیث کی معروف کتاب بخاری اور مسلم شریف ہے۔ (۱) فضائل اعمال ہو یا دیگر کوئی کتاب ہو کسی کے بارے میں غلو درست نہیں، اگر سائل کی مراد یہ ہے کہ ہندوستان وغیرہ بعض ممالک میں قرآن کریم کے بعد زیادہ پڑھی جانے والی کتاب فضائل اعمال ہے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
(۱) أول من صنف الصحیح البخاري أبو عبد اللّٰہ محمد بن إسمعیل، وتلا أبو الحسین مسلم بن الحجاج القشیري ومسلم مع أنہ أخذ عن البخاري واستفاد منہ یشارکہ في أکثر شیوخہ، وکتاباہما أصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ العزیز۔ (مقدمۃ ابن الصلاح ’’النوع الأول من أنواع علوم‘‘: ص: ۸۴)
وہما أصح الکتب بعد القرآن، والبخاري أصحہما واکثر ہما فوائد۔ (تدریب الراوي في شرح تقریب النووي تفضیل صحیح البخاري علی مسلم: ج ۱، ص: ۹۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص310
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کو توکل سے تعبیر کرنا بھی بڑی غلطی ہے، حقوق اللہ تو اللہ تعالیٰ معاف کردے گا اگر کوئی دین میں کوتاہی کرے گا، لیکن حقوق العباد جو ذمہ میں رہ جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو معاف نہیں کرے گا، اگر صاحب حق معاف نہ کرے، تو آخرت میں مواخذہ ہوگا، حقوق واجبہ کو ترک کرکے جانے کی شرعاً ہر گز اجازت نہیں ہوگی، حقوق واجبہ میں کوتاہی کرنے اور جان بوجھ کر نقصان برداشت کرنے والا گنہگار ہوتا ہے۔ (۱)
(۱) عن معاذ رضي اللّٰہ عنہ، قال: أو صاني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعشر کلمات قال: لا تشرک باللّٰہ شیئاً وإن قتلت وحرقت، ولا تعقّنّ والدیک وإن أمراک أن تخرج من أہلک ومالک الخ: رواہ أحمد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۸)
وعن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الزہادۃ في الدنیا لیست بتحریم الحلال ولا إضاعۃ، ولکن الزہادۃ في الدنیا أن لا تکون بما في یدیک أو ثق بما في یدي اللّٰہ وأن یکون في ثواب المصیبۃ إذا أنت أصبت بہا أرغب فیہا لو أنہا أبقیت لک۔ رواہ الترمذي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الرقاق: باب التوکل والصبر‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۳)
…
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص311
بدعات و منکرات
الجواب:بیعت اس لیے کی جاتی ہے کہ مرشد کی رہنمائی اوراس کی ہدایت پر عمل کرنے سے راہ سنت پر چلنا اور احکام خداوندی کے مطابق زندگی گزارنا آسان ہوجاتا ہے، بیعت ہونا سنت ہے، فرض یا واجب نہیں، اور اصلاح نفس کی جس طرح مرد کو ضرورت ہوتی ہے اسی طرح عورت کو بھی ضرورت ہے تاہم عورت کی بیعت کے لیے شوہر کا بیعت ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں بیعت کے لیے شوہر کی اجازت ضروری ہے۔
’’إعلم أن البیعۃ سنۃ لیست بواجبۃ و لم یدل دلیل علی تاثیم تارکہا و لم ینکر أحد علی تارکہا‘‘(۱) ’’قال الشیخ ظفر أحمد العثماني: وبالجملۃ فالتصوف عبارۃ عن عمارۃ الظاہر والباطن أما عمارۃ الظاہر فالأعمال الصالحۃ وأما عمارۃ الباطن فذکر اللّٰہ وترک الرکون إلی ماسواہ وکان یتیسر ذلک للسلف بمجرد الصحبۃ الخ،(۲) قال عروۃ: فأخبرتني عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یمتحنہن بہذہ الآیۃ:
{ٰٓیاَ یُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِذَا جَآئَکُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُھٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْھُنَّط اَللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِھِنَّج فَإِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِط لَا ھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّط وَأٰ تُوْھُمْ مَّآ أَنْفَقُوْاط وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ أَنْ تَنْکِحُوْ ھُنَّ إِذَآ أٰ تَیْتُمُوْھُنَّ أُجُوْرَھُنَّط وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَسْئَلُوْا مَآ أَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْئَلُوْا مَآ أَنْفَقُوْاط ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِط یَحْکُمُ بَیْنَکُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌہ۱۰ وَإِنْ فَاتَکُمْ شَیْئٌ مِّنْ أَزْوَاجِکُمْ إِلَی الْکُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَأٰ تُوا الَّذِیْنَ ذَھَبَتْ أَزْوَاجُھُمْ مِّثْلَ مَآ أَنْفَقُوْاط وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِيْٓ أَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَہ۱۱ ٰٓیأَیُّھَا النَّبِيُّ إِذَا جَآئَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی أَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَأْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ أَیْدِیْھِنَّ وَأَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھُنَّ اللّٰہَط إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌہ۱۲} (۳)
قال عروۃ: قالت عائشۃ: فمن أقر بہذا الشرط منہن، قال لہا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: قد بایعتک کلاما یکلمہا بہ، واللّٰہ ما مست یدہ ید امرأۃ قط في المبایعۃ، وما بایعہن إلا بقولہ‘‘۔ (۱)
اسی طرح شادی سے پہلے جب کہ لڑکی اپنے والد کی تربیت میں ہوتی ہے بہتر ہے کہ والد کی اجازت سے کسی مصلح سے بیعت ہوجائے۔ اصلاح کے لیے بہتر ہے کہ عورت اپنے شوہر کو ہی واسطہ بنائے اور انہی کے ذریعہ اپنے مرشد سے رہنمائی حاصل کرے؛ لیکن اگر عورت کسی وجہ سے ایسا نہیں کرنا چاہتی ہے، تو شیخ کے گھر کی کسی خاتون سے مدد لے سکتی ہے۔(۲)
(۱) الشاہ ولي اللّٰہ الدھلويؒ، القول الجمیل، الفصل الثاني:ص: ۱۲۔
(۲) ظفر أحمد العثمانيؒ، إعلاء السنن، کتاب الأدب والتصوف والإحسان: ج ۱۸، ص: ۴۴۹۔
(۳) الممتحنۃ: ۱۰ تا ۱۲) (البقرۃ: ۱۷۳۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیہ، ’’کتاب الشروط: باب ما یجوز من الشروط في الإسلام والأحکام والمبایعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۶، رقم: ۲۷۱۱۔
(۲) قولہا واللّٰہ ما مست ید رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ید امرأۃ قط غیر أنہ یبایعہن بالکلام فیہ أن بیعۃ النساء بالکلام من غیر أخذ کف وفیہ أن بیعۃ الرجال بأخذ الکف مع الکلام الخ۔ (النووي، شرح مسلم، ’’کتاب الإمارۃ: باب کیف بیعۃ النساء‘‘: ج ۲،ص: ۱۳۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص404
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا کام کرنے کے متعدد طریقے ہیں نیز ایک ہی جماعت ہر ہر شعبہ میں کام کرے ایسا ہونا بھی مشکل ہے، کوئی کسی شعبہ میں کام کرتا ہے تو کوئی دوسرے شعبہ میں کام کرتا ہے حتی الوسع اخلاص کے ساتھ دین کا کام کرتے رہنا چاہئے باقی تفصیلات کے لئے کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۲)
(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: الإیمان بضع وسبعون شعبۃ فأفضلہا: قول لا إلہ إلا اللّٰہ وأدناہا إماطۃ الأذی عن الطریق والحیاۃ شعبۃ من الإیمان: متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۵)
وذلک الإیمان باللّٰہ، وصفاتہ، وحدوث ما دونہ، وبملائکتہ، وکتبہ، ورسلہ، والقدر، وبالیوم الآخر، والحبّ في اللّٰہ، والبغض فیہ، ومحبّۃ النبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلم واعتقاد تعظیمہ، وفیہ الصّلاۃ علیہ، واتّباع سنّتہ، والإخلاص وفیہ ترک الریاء، والنّفاق، والتوبۃ، والخوف، والرجاء، والشکر، والوفاء، والصبر، والرضا بالقضاء، والحیاء، والتوکّل، والرحمۃ، والتواضع، وفیہ توقیر الکبیر، ورحمۃ الصغیر، وترک الکبر، والعجب، وترک الحسد والحقد، وترک الغضب، والنطق بالتوحید، وتلاوۃ القرآن، وتعلم العلم وتعلیمہ، والدعاء، والذکرالخ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۷۰؍ ۷۱، رقم: ۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص313
بدعات و منکرات
الجواب:بقدر ضرورت شرعی علم سیکھنا ضروری ہے یعنی فرض، واجب، عقائد وعبادات سے مطلع ہونا ضروری ہے اور ایسے ہی حلال وحرام کا ضروری علم بھی ہونا چاہئے تاکہ اس کے مطابق عمل کیا جا سکے۔ (۱)
(۱) تزکیۃ الأخلاق من أہم الأمور عند القوم …… ولا یتیسر ذلک إلا بالمجاہدۃ علی ید شیخ کامل قد جاہد نفسہ وخالف ہواہ …… إلی …… ومن ظن من نفسہ أنہ یظفر بذلک بمجرد العلم ودرس الکتب فقد ضل ضلالاً بعیداً فکما أن العلم بالتعلم من العلماء کذلک الخلق بالتخلق علی ید العرفاء فالخلق الحسن صفۃ سید المرسلین الخ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب والتصوف‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۵۳، ۳۵۴؛ ’’کتاب الأدب والتصوف‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۴۲)
وإذا عرفت ذلک فاعلم أن التصوف شعبۃ من الفقۃ لکون الفقہ عبارۃ عن معرفۃ النفس ما لہا وما علیہا کما حکی عن أبي حنفیفۃ رحمہ اللّٰہ ولا یخفی أن معرفۃ طریق القرب إلی اللّٰہ علماً وعملاً داخل في ذلک بل ہو الفقہ في الحقیقۃ والفقیہ ہو المتقرب إلی اللّٰہ بعلمہ وعملہ لا العالم بالأحکام والدلائل فقط۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب والتصوف‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۴۸ - ۴۴۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص405
بدعات و منکرات
Ref. No. 975 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کون سی جماعت دین کا کتنا اور کس اہمیت کا کام انجام دے رہی ہے اس سلسلہ میں رجحانات مختلف ہیں، مدارس میں قرآن کریم کی تفسیر، قرآن، حدیث، اصول، فقہ، فتاویٰ اور ان کے مبادیات، ان کے لئے موقوف علیہ نحو و صرف میں تبحر کی تعلیم دی جاتی ہے جس پر دین کی بنیاد قائم ہے اور پھر اس کی تبلیغ و اشاعت کا کام ہوتا ہے ہر زمانے میں اس کام کے کرنے والے موجود رہے ہیں، پس عوام کو مدارس کی تنقیص اور عیوب نکالنا نیز اس طرح کے مسائل میں پڑکر وقت ضائع کرنا درست نہیں ہے اس سے تخریبی ذہن تیار ہوتا ہے جو مذموم اور باعث فساد ہے۔(۱)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین۔ (أخرجہ الترمذي، فی صحیحہ، ’’أبواب العلم، باب إذا أراد اللّٰہ شر بعبد خیراً فقہہ في الدین‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۵)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من خرج في طلب العلم فہو في سبیل اللّٰہ حتی یرجع۔ ہذا حدیثٌ حسنٌ غریبٌ۔ (’’أیضاً‘‘: باب فضل طلب العلم‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۱۰)
وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: الإیمان بضع وسبعون شعبۃ فأفضلہا قول لا إلہ إلا اللّٰہ وأدناہا إماطۃ الأذی عن الطریق والحیاء شعبۃ من الإیمان: متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص314
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہرکام میں اعتدال مطلوب ہے، کسی نیک کام اور عبادت میں جو اعتدال سے تجاوز ہو وہ درست نہیں۔ درس و تدریس وغیرہ امور بھی دین کی اہم اور بنیادی ضروریات ہیں؛ بلکہ عام مروجہ تبلیغ کا سرچشمہ ہیں(۱) اور مروجہ تبلیغ کی افادیت بھی مسلم ہے۔(۲) اور ضرورت ہر طبقہ و ہر درجہ کی ہے۔ اس لئے کہ دین اسلام پوری زندگی پر محیط ہے۔ اور اس کے متعدد شعبہ جات ہیں۔ ہر شعبہ میں کام کی ضرورت ہے اور جو شخص ایک شعبہ میں کام کر رہا ہے اور دوسرے شعبہ کا شخص اس کی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا تو اس کو اپنے شعبہ کے فرائض کی انجام دہی کو مقدم رکھنا چاہئے ’’لکل مقام مقال ولکل عمل رجال‘‘۔
تبلیغ جماعت میں چند افراد ایسے ہیں جن میں ضرورت سے زیادہ شدت ہے اور وہ مدارس کی ضرورت تک کا بھی انکار کردیتے ہیں، ایسے افراد کی باتوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنے فریضہ کو انجام دیا جائے کہ ہر جماعت کا ہر فرد اعتدال پسند اور معتدل مزاج نہیں ہوتا، حسب موقع درس وتدریس تقریر وتحریر اور مروجہ تبلیغ وغیرہ کے ذریعہ دین کی خدمات کو انجام دیتے رہنا چاہئے، عام حالات میں صرف مستحبات پر عمل کرنے کیلئے والدین کی رضا کے خلاف چلنا بھی اچھا نہیں ہے، مدرسین علماء واہل علم ان امور کی ضرورت کو اچھی طرح سمجھتے رہیں۔
(۱) الأمر بالمعروف یحتاج إلی خمسۃ أشیاء: ألأول العلم لأن الجاہل لا یحسن الأمر بالمعروف۔ (جماعۃ من العلماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ج ۵، ص: ۳۵۳)
(۲) من دل علی خیر فلہ مثل أجر فاعلہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإمارۃ: باب فضل إعانۃ الغازي في سبیل اللّٰہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص314
بدعات و منکرات
Ref. No. 1609/43-1315
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
الجواب وباللہ التوفیق:۔ بزرگان دین،و اولیائے کرام اور دیگر نیک وپرہیزگار بندوں کے وسیلہ سے اللہ تعالی سے دعا کرنے کی گنجائش ہے ۔ مثلاً یوں کہے: اے اللہ! اپنے اولیا کے طفیل یا فلاں بزرگ کے طفیل میری دعا قبول فرما، اس طرح وسیلہ سے دعا کی جاسکتی ہے، البتہ کسی خاص نام کے ساتھ دعا میں وسیلہ اسی کو بنایاجائے جس کے بارے میں عنداللہ مقبولیت کا یقین ہو۔ عنداللہ مقبولیت کسی کے سلسلہ میں معلوم نہیں ، اس لئے مطلقا دعا کی جائے کہ یا اللہ اپنے بزرگ اور پرہیزگار بندوں کے طفیل میری فلاں ضرورت پوری فرما وغیرہ۔ بہرحال صورت مسئولہ میں اس طرح نام کے ساتھ وسیلہ اختیار کرنا درست نہیں؛اس سے احتراز کیا جائے۔ کسی کی عقیدت میں غلو کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ جاری رکھاگیا تو اندیشہ ہے کہ آئندہ چل کر وسیلہ درمیان سے ساقط ہوجائے اور براہ راست اسی بزرگ سے دعا کی جانے لگے اور اسی کو مشکل کشا سمجھاجانے لگے جیسا کہ بیشتر مزارات کی تاریخ بہت افسوس ناک ہے۔
وبعد هذا كله أنا لا أرى بأسا في التوسل إلى الله تعالى بجاه النبي صلّى الله عليه وسلّم عند الله تعالى حيا وميتا - - - - إلهي أتوسل بجاه نبيك صلّى الله عليه وسلّم أن تقضي لي حاجتي، إلهي اجعل محبتك له وسيلة في قضاء حاجتي، ولا فرق بين هذا وقولك: إلهي أتوسل برحمتك أن تفعل كذا إذ معناه أيضا إلهي اجعل رحمتك وسيلة في فعل كذا، ۔ ۔ ۔ أن التوسل بجاه غير النبي صلّى الله عليه وسلّم لا بأس به أيضا إن كان المتوسل بجاهه مما علم أن له جاها عند الله تعالى كالمقطوع بصلاحه وولايته، وأما من لا قطع في حقه بذلك فلا يتوسل بجاهه لما فيه من الحكم الضمني على الله تعالى بما لم يعلم تحققه منه عز شأنه،(تفسیر الآلوسی – روح المعانی سورۃ المائدۃ 27 3/297)
وأما التوسل بالصالحین فمنہ ما ثبت فی الصحیح أن الصحابة استسقوا بالعباس رضي اللہ عنہ․ وقال عمر رضی اللہ عنہ: اللہم إنا نتوسل إلیْک بعم نبینا (فتاوی رشیدیہ 142)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دعوت و تبلیغ کے متعدد و مختلف طریقے ہیں جو زمانہ اور احوال سے مختلف ہوتے رہتے ہیں دعوت و تبلیغ کے ہر گوشہ میں کام ہونا مطلوب ہے۔ وہ مختلف طریقے یہ ہیں کہ کوئی درس و تدریس میں مصروف ہے کوئی وعظ و تقریر میں کوئی نصیحت میں اور کوئی دین کی معمولی باتوں کی سمجھ رکھتا ہے اسی اعتبار سے اپنے کسی بھائی کو سمجھاتا اور نماز روزہ سکھاتا ہے یا اس کی ترغیب دیتا ہے ۔ اس اعتبار سے تمام علماء دعوت و تبلیغ کے کام میں مشغول ہیں اور مدارس سے یہ کام اعلیٰ پیمانہ پر ہو رہا ہے تبلیغ ہر شخص پر لازم ہے اس کو تبلیغی جماعت کے مروجہ طریقے میں محدود کردینا صحیح نہیں ہے۔ اور نہ ہی علماء اور مدارس پر اعتراض درست ہے۔ (۱)
(۱) فالفرض ہو العلم بالعقائد الصحیحۃ ومن الفروع ما یحتاج۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري: ج ۴، ص: ۳۴۳)
بلغوا عني ولو آیۃ۔ (أخرجہ البخاری، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء: باب ما ذکر عن بني إسرائل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۰، رقم: ۱۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص316