Frequently Asked Questions
بدعات و منکرات
Ref. No. 39/1077
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حج پر جانے سے قبل اپنے حج پر جانے کی اطلاع دینے اور دعاء کی درخواست کرنے میں حرج نہیں ہے تاہم اگر مقصود نام و نمود اور شہرت ہو تو یقینا بڑی خرابی کی بات ہے، اس سے احتراز لازم ہے ، اور اپنی نیت درست کرنا ضروری ہے، اللہ تعالی ہمیں اخلاص کی دولت نصیب کرے۔ آمین
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 2561/45-3924
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اکابر علماء دیوبند کے یہاں ذکر کے دو طریقہ رائج ہیں یا تو انفرادی ذکر کرنا یا شیخ کے ساتھ ان کے مریدین بھی ذکر کرنے بیٹھ جائیں جس سے ایک اجتماعی شکل بن جاتی ہے، لیکن ہر شخص علاحدہ علاحدہ ذکر کرتا ہے کوئی سرا اور کوئی جہر خفی کے ساتھ اس کے علاوہ آپ نے سوال کا جس ذکر بالجہر کا تذکرہ کیا ہے اس کی صورت کی وضاحت نہیں ہے، مطلقاً ذکر جہری بدعت نہیں ہے، بلکہ دونوں طرح ذکر کرنا محقق علماء کے نزدیک جائز ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد بلند آواز سے ’’لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیئ قدیر‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ (مسلم شریف: حدیث نمبر: ٥٩٤)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری، ہوسکتا ہے کسی بزرگ کا قول ہو اور انھوں نے کسی خاص پس منظر میں کہا ہو؛ البتہ کار ثواب ہے، دین کی فکر میں لگے رہنا محبوب عمل ہے ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ اس پر ثواب مرتب ہوگا۔(۱)
(۱) ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’لیس بحدیث إنما ہو کلام السری السقطی‘‘۔ (المصنوع في أحادیث الموضوع: ص: ۸۲)
رواہ أبو الشیخ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ مرفوعاً، وفي إسنادہ عثمان بن عبد اللّٰہ القرشي وإسحاق بن نجیع المطلي کذّابان والمتہم بہ أحدہما، وقد رواہ الدیلمي من حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ من وجہ آخر: (الفوائد المجموعۃ: ص: ۲۴۲، عمدۃ الأقاویل في تحقیق الأباطیل: ص: ۲۴۷؍ ۲۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص310
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سب سے افضل ومقدس کتاب قرآنِ کریم ہے، اس کے بعد حدیث کی معروف کتاب بخاری اور مسلم شریف ہے۔ (۱) فضائل اعمال ہو یا دیگر کوئی کتاب ہو کسی کے بارے میں غلو درست نہیں، اگر سائل کی مراد یہ ہے کہ ہندوستان وغیرہ بعض ممالک میں قرآن کریم کے بعد زیادہ پڑھی جانے والی کتاب فضائل اعمال ہے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
(۱) أول من صنف الصحیح البخاري أبو عبد اللّٰہ محمد بن إسمعیل، وتلا أبو الحسین مسلم بن الحجاج القشیري ومسلم مع أنہ أخذ عن البخاري واستفاد منہ یشارکہ في أکثر شیوخہ، وکتاباہما أصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ العزیز۔ (مقدمۃ ابن الصلاح ’’النوع الأول من أنواع علوم‘‘: ص: ۸۴)
وہما أصح الکتب بعد القرآن، والبخاري أصحہما واکثر ہما فوائد۔ (تدریب الراوي في شرح تقریب النووي تفضیل صحیح البخاري علی مسلم: ج ۱، ص: ۹۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص310
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کو توکل سے تعبیر کرنا بھی بڑی غلطی ہے، حقوق اللہ تو اللہ تعالیٰ معاف کردے گا اگر کوئی دین میں کوتاہی کرے گا، لیکن حقوق العباد جو ذمہ میں رہ جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو معاف نہیں کرے گا، اگر صاحب حق معاف نہ کرے، تو آخرت میں مواخذہ ہوگا، حقوق واجبہ کو ترک کرکے جانے کی شرعاً ہر گز اجازت نہیں ہوگی، حقوق واجبہ میں کوتاہی کرنے اور جان بوجھ کر نقصان برداشت کرنے والا گنہگار ہوتا ہے۔ (۱)
(۱) عن معاذ رضي اللّٰہ عنہ، قال: أو صاني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعشر کلمات قال: لا تشرک باللّٰہ شیئاً وإن قتلت وحرقت، ولا تعقّنّ والدیک وإن أمراک أن تخرج من أہلک ومالک الخ: رواہ أحمد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۸)
وعن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الزہادۃ في الدنیا لیست بتحریم الحلال ولا إضاعۃ، ولکن الزہادۃ في الدنیا أن لا تکون بما في یدیک أو ثق بما في یدي اللّٰہ وأن یکون في ثواب المصیبۃ إذا أنت أصبت بہا أرغب فیہا لو أنہا أبقیت لک۔ رواہ الترمذي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الرقاق: باب التوکل والصبر‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۳)
…
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص311
بدعات و منکرات
الجواب:بیعت اس لیے کی جاتی ہے کہ مرشد کی رہنمائی اوراس کی ہدایت پر عمل کرنے سے راہ سنت پر چلنا اور احکام خداوندی کے مطابق زندگی گزارنا آسان ہوجاتا ہے، بیعت ہونا سنت ہے، فرض یا واجب نہیں، اور اصلاح نفس کی جس طرح مرد کو ضرورت ہوتی ہے اسی طرح عورت کو بھی ضرورت ہے تاہم عورت کی بیعت کے لیے شوہر کا بیعت ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں بیعت کے لیے شوہر کی اجازت ضروری ہے۔
’’إعلم أن البیعۃ سنۃ لیست بواجبۃ و لم یدل دلیل علی تاثیم تارکہا و لم ینکر أحد علی تارکہا‘‘(۱) ’’قال الشیخ ظفر أحمد العثماني: وبالجملۃ فالتصوف عبارۃ عن عمارۃ الظاہر والباطن أما عمارۃ الظاہر فالأعمال الصالحۃ وأما عمارۃ الباطن فذکر اللّٰہ وترک الرکون إلی ماسواہ وکان یتیسر ذلک للسلف بمجرد الصحبۃ الخ،(۲) قال عروۃ: فأخبرتني عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یمتحنہن بہذہ الآیۃ:
{ٰٓیاَ یُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِذَا جَآئَکُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُھٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْھُنَّط اَللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِھِنَّج فَإِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِط لَا ھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّط وَأٰ تُوْھُمْ مَّآ أَنْفَقُوْاط وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ أَنْ تَنْکِحُوْ ھُنَّ إِذَآ أٰ تَیْتُمُوْھُنَّ أُجُوْرَھُنَّط وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَسْئَلُوْا مَآ أَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْئَلُوْا مَآ أَنْفَقُوْاط ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِط یَحْکُمُ بَیْنَکُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌہ۱۰ وَإِنْ فَاتَکُمْ شَیْئٌ مِّنْ أَزْوَاجِکُمْ إِلَی الْکُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَأٰ تُوا الَّذِیْنَ ذَھَبَتْ أَزْوَاجُھُمْ مِّثْلَ مَآ أَنْفَقُوْاط وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِيْٓ أَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَہ۱۱ ٰٓیأَیُّھَا النَّبِيُّ إِذَا جَآئَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی أَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَأْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ أَیْدِیْھِنَّ وَأَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھُنَّ اللّٰہَط إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌہ۱۲} (۳)
قال عروۃ: قالت عائشۃ: فمن أقر بہذا الشرط منہن، قال لہا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: قد بایعتک کلاما یکلمہا بہ، واللّٰہ ما مست یدہ ید امرأۃ قط في المبایعۃ، وما بایعہن إلا بقولہ‘‘۔ (۱)
اسی طرح شادی سے پہلے جب کہ لڑکی اپنے والد کی تربیت میں ہوتی ہے بہتر ہے کہ والد کی اجازت سے کسی مصلح سے بیعت ہوجائے۔ اصلاح کے لیے بہتر ہے کہ عورت اپنے شوہر کو ہی واسطہ بنائے اور انہی کے ذریعہ اپنے مرشد سے رہنمائی حاصل کرے؛ لیکن اگر عورت کسی وجہ سے ایسا نہیں کرنا چاہتی ہے، تو شیخ کے گھر کی کسی خاتون سے مدد لے سکتی ہے۔(۲)
(۱) الشاہ ولي اللّٰہ الدھلويؒ، القول الجمیل، الفصل الثاني:ص: ۱۲۔
(۲) ظفر أحمد العثمانيؒ، إعلاء السنن، کتاب الأدب والتصوف والإحسان: ج ۱۸، ص: ۴۴۹۔
(۳) الممتحنۃ: ۱۰ تا ۱۲) (البقرۃ: ۱۷۳۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیہ، ’’کتاب الشروط: باب ما یجوز من الشروط في الإسلام والأحکام والمبایعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۶، رقم: ۲۷۱۱۔
(۲) قولہا واللّٰہ ما مست ید رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ید امرأۃ قط غیر أنہ یبایعہن بالکلام فیہ أن بیعۃ النساء بالکلام من غیر أخذ کف وفیہ أن بیعۃ الرجال بأخذ الکف مع الکلام الخ۔ (النووي، شرح مسلم، ’’کتاب الإمارۃ: باب کیف بیعۃ النساء‘‘: ج ۲،ص: ۱۳۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص404
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا کام کرنے کے متعدد طریقے ہیں نیز ایک ہی جماعت ہر ہر شعبہ میں کام کرے ایسا ہونا بھی مشکل ہے، کوئی کسی شعبہ میں کام کرتا ہے تو کوئی دوسرے شعبہ میں کام کرتا ہے حتی الوسع اخلاص کے ساتھ دین کا کام کرتے رہنا چاہئے باقی تفصیلات کے لئے کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۲)
(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: الإیمان بضع وسبعون شعبۃ فأفضلہا: قول لا إلہ إلا اللّٰہ وأدناہا إماطۃ الأذی عن الطریق والحیاۃ شعبۃ من الإیمان: متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۵)
وذلک الإیمان باللّٰہ، وصفاتہ، وحدوث ما دونہ، وبملائکتہ، وکتبہ، ورسلہ، والقدر، وبالیوم الآخر، والحبّ في اللّٰہ، والبغض فیہ، ومحبّۃ النبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلم واعتقاد تعظیمہ، وفیہ الصّلاۃ علیہ، واتّباع سنّتہ، والإخلاص وفیہ ترک الریاء، والنّفاق، والتوبۃ، والخوف، والرجاء، والشکر، والوفاء، والصبر، والرضا بالقضاء، والحیاء، والتوکّل، والرحمۃ، والتواضع، وفیہ توقیر الکبیر، ورحمۃ الصغیر، وترک الکبر، والعجب، وترک الحسد والحقد، وترک الغضب، والنطق بالتوحید، وتلاوۃ القرآن، وتعلم العلم وتعلیمہ، والدعاء، والذکرالخ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۷۰؍ ۷۱، رقم: ۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص313
بدعات و منکرات
الجواب:بقدر ضرورت شرعی علم سیکھنا ضروری ہے یعنی فرض، واجب، عقائد وعبادات سے مطلع ہونا ضروری ہے اور ایسے ہی حلال وحرام کا ضروری علم بھی ہونا چاہئے تاکہ اس کے مطابق عمل کیا جا سکے۔ (۱)
(۱) تزکیۃ الأخلاق من أہم الأمور عند القوم …… ولا یتیسر ذلک إلا بالمجاہدۃ علی ید شیخ کامل قد جاہد نفسہ وخالف ہواہ …… إلی …… ومن ظن من نفسہ أنہ یظفر بذلک بمجرد العلم ودرس الکتب فقد ضل ضلالاً بعیداً فکما أن العلم بالتعلم من العلماء کذلک الخلق بالتخلق علی ید العرفاء فالخلق الحسن صفۃ سید المرسلین الخ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب والتصوف‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۵۳، ۳۵۴؛ ’’کتاب الأدب والتصوف‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۴۲)
وإذا عرفت ذلک فاعلم أن التصوف شعبۃ من الفقۃ لکون الفقہ عبارۃ عن معرفۃ النفس ما لہا وما علیہا کما حکی عن أبي حنفیفۃ رحمہ اللّٰہ ولا یخفی أن معرفۃ طریق القرب إلی اللّٰہ علماً وعملاً داخل في ذلک بل ہو الفقہ في الحقیقۃ والفقیہ ہو المتقرب إلی اللّٰہ بعلمہ وعملہ لا العالم بالأحکام والدلائل فقط۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب والتصوف‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۴۸ - ۴۴۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص405
بدعات و منکرات
Ref. No. 975 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند