بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام کی صحیح ترجمانی اور اس کی اشاعت کی ذمہ داری انبیاء علیہم السلام کے رخصت ہوجانے کے بعد علماء پر عائد ہوتی ہے، اس ذمہ داری کو انبیاء نے بدرجۂ اتم پورا فرمایا: علم کے ذریعہ بھی، عمل کے ذریعہ بھی، اقوال سے بھی، افعال سے بھی، پوری حکمت ودانشمندی کے ساتھ اس فرض کو پورا فرمایا(۱) اور اب یہ ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے کہ اسلام کو اپنے صحیح مفہوم کے ساتھ پیش کریں اس ذمہ داری کی سبکدوشی کے مختلف طریقے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ تبلیغی جماعت کا بھی ہے، جس کا ایک مخصوص طریقہ ہے، مسلمانوں کو نماز، روزے سے قریب کرنے میں اس طریقہ نے بڑا اچھا اثر دکھایا، یہ اشاعت اسلام انبیاء علیہم السلام نے بھی اور ان کے بعد والے علماء نے بھی بیان، اجتماعات، ومدارس دینیہ، وغیرہ کے ذریعہ پروان چڑھائی، نیز احادیث میں بہت سی چیزیں اور اعمال ایسے ملتے ہیں جن پر ایمان پر خاتمہ کی خوش خبری ملتی ہے، نیز گشت مختلف طریقوں میں سے ایک ہے، جو اس کو چاہے اپنالے اور جو اس کے علاوہ دوسرا طریقہ دعوت، حکمت، موعظت کے ساتھ اپنالے اس کو بھی مطعون نہیں کیا جاسکتا (۱) اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ جن صاحب نے مذکورہ فی السوال تقریر فرمائی انہیں سے اس کی وضاحت طلب کی جائے، سیاق و سباق کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ مفہوم کچھ اور ہو یا کوئی لفظ ادھر ادھر ہوگیا ہو اگر کوئی کوتاہی ہوجائے اور جس سے کوتاہی ہو وہ مومن اور نیک ہو تو اس کوباعث نزاع بنانے سے بہتر وضاحت طلب کرنا ہے ورنہ درگذر کرنا ہے۔

(۱) التذکیر علی المنابر للوعظ والاتعاظ سنۃ الأنبیاء والمرسلین۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فروع یکرہ إعطاء سائل المسجد‘‘: ج ۶، ص: ۴۲۱)
(۱) {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُط} (سورۃ النحل: ۱۲۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص301

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱،۲) قرآن کریم کی تلاوت بڑا عمل ہے اور جماعت والوں کا اعتراض کرنا غلط ہے آپ اپنے معمولات اور جماعت والے اپنے معمولات جاری رکھیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم اگر آپ ایسی ترتیب بنالیں کہ ان کے ساتھ تعلیم میں شرکت کرنے کے بعد اپنے معمولات میں لگیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آنا ضروری ہے کسی معاملہ کو سنگین بنادینا کسی بھی صورت میں ہرگز جائز نہیں ہے۔(۱)

۱) عن محمد بن کعب القرطبي قال: سمعت عبد اللّٰہ ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قرأ حرفاً من کتاب اللّٰہ فلہ بہ حسنۃ، والحسنۃ بعشرۃ أمثالہا، أما أني لا أقول: {الم} (البقرۃ: ۱) حرفٌ، ولکن ألفٌ حرفٌ، ولام حرفٌ، ومیمٌ حرفٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن، باب من قرأ حرفاً من القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۱۱۹، رقم: ۲۹۱۰)
عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قرأ القرآن وعمل بما فیہ، ومات في الجماعۃ بعثہ اللّٰہ یوم القیامۃ مع السفرۃ والبررۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان: ج ۳، ص: ۳۷۶، رقم: ۱۸۳۷)
عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب خیرکم من تعلم القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۷۵۲، رقم: ۵۰۲۷)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أفضلکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (’’أیضاً‘‘: رقم: ۵۰۲۸)
عن عثمان بن عفان رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ، قال أبو عبد الرحمن: فذاک للذي أقعدني مقعدي ہذا، وعلم القرآن في زمن عثمان حتی بلغ الحجاج بن یوسف۔ ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن، باب ما جاء في تعلیم القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸، رقم: ۲۹۰۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص303

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جہاد کے متعلق احادیث سے مروجہ گشت مراد لینا درست نہیں۔ (۱)

(۱) عن ابن أبي الہذیل رضي اللّٰہ عنہ قال: قال أبو الدرداء رضي اللّٰہ عنہ: من رأی الغدوَّ والروّاح إلی العلم لیس بجہاد فقد نقص علقہ روایۃ۔ (أبو عمر یوسف، جامع بیان القرآن: ج ۱، ص: ۱۵۲، رقم: ۱۵۹)
عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (الغدو والرواح إلی المساجد من الجہاد في سبیل اللّٰہ۔ (سلیمان بن أحمد، المعجم الکبیر، ’’القاسم بن عبد الرحمن بن یزید‘‘: ج ۸، ص: ۱۷۷، رقم: ۷۷۳۹)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ: عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من جاء مسجدنا ہذا یتعلم خیراً أو یعلمہ فہو کالمجاہد في سبیل اللّٰہ، ومن جاء بغیر ہذا کان کالرجل یری الشيء یعجبہ ولیس لہ۔ (أبو عبد اللّٰہ الحاکم، المستدرک للحاکم، ’’فأما حدیث عبد اللّٰہ بن نمیر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸، رقم: ۳۰۹)
عن سہل بن سعد الساعدي رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من دخل مسجدي ہذا لیتعلم خیراً أو لیعلمہ کان بمنزلۃ المجاہد، في سبیل اللّٰہ ومن دخلہ لغیر ذلک من أحادیث الناس، کان بمنزلۃ من یری ما یعجبہ وہي شيء غیرہ۔ (سلیمان بن أحمد، المعجم الکبیر، ’’عبد العزیز بن أبي حازم‘‘: ج ۶، ص: ۱۷۵، رقم: ۵۹۱۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص304

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ اللہ کے راستہ سے کیا مراد ہے؟ تاہم غزوہ خیبر میں ابتداًء حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا تھا؛ اس لئے عذر کرنے کو دین کی محنت کے مذاق سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: کان أبو لیلی یسمر مع علي فکان یلبس ثیاب الصیف في الشتاء وثیاب الشتاء في الصیف، فقلنا: لو سألتہ، فقال: إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعث إلي وأنا أرمد العین یوم خیبر، قلت یا رسول اللّٰہ إني أرمد العین فتفل في عیني، ثم قال: اللہم إذہب عنہ الحر والبرد، قال: فما وجدت حراً ولا برداً بعد یومئذ وقال: لأبعثن رجلاً یحب اللّٰہ ورسولہ، ویحبہ اللّٰہ ورسولہ لیسً بفرار) فتشرف لہ الناس فبعث إلي علي فأعطاہا إیاہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’المقدمۃ، باب في فضائل أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فضل علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۱۱۷)
عن زید بن ثابت رضي اللّٰہ عنہ، قال: کنت إلی جنب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فغشیتہ السکینۃ فوقعت فخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی فخذی، فما وجدت ثقل شيء أثقل من فخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثم سری عنہ، فقال: (اکتب) فکتبت في کتفٍ {لایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۃ النساء: ۹۵) {وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} (سورۃ النساء: ۹۵) إلی آخر الآیۃ، فقام ابن أم مکتوم، وکان رجلا أعمی لما سمع فضیلۃ المجاہدین، فقال یا رسول اللّٰہ، فکیف بمن لا یستطیع الجہاد من المؤمنین فلما قضی کلامہ غشیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم السکینۃ فوقعت فخذہ علی فخذی ووجدت من ثقلہا في المرۃ الثانیۃ، کما وجدت في المرۃ الأولی ثم سری عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: (اقرأ یا زید) فقرأت {لایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۃ النساء: ۹۵)، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ} (سورۃ النساء: ۹۵)، الآیۃ کلہا، قال زیدٌ: فأنزلہا اللّٰہ وحدہا، فألحقتہا، والذي نفسي بیدہ کأني أنظر إلی ملحقہا عند صدع في کتف۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجہاد: باب في الرخصۃ في العقود من العذر‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۹، رقم: ۲۵۰۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص305

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر ایک مسلمان پر اتنا قرآن پڑھنا فرض ہے جس سے نمازیں درست ہوں اور مکمل قرآن پڑھنا بھی مطلوب ومسنون ہے، تعلیم کو بالکلیہ چھوڑ کر تبلیغ میں نکلنا یا بچوں کو نکالنا نادانی ہے اور تبلیغ بھی مطلوب ہے، لیکن تعلیم اہم ہے۔(۱)

(۱) {لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ أٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} (سورۃ آل عمران: ۱۶۴)
قال تعالیٰ: {یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ أٰیٰتِہٖ} یعني: القرآن {وَ یُزَکِّیْہِمْ} أي یأمرہم بالمعروف وینہاہم عن المنکر لتزکو نفوسہم وتطہر لمن الدنس والخبث الذي کانوا متلبسین بہ في حال شرکہم وجاہلیتہم {وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} یعني: القرآن والسنۃ۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر ’’سورۃ آل عمران: ۱۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۸)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین وفي الباب عن عمر رضي اللّٰہ عنہ، وأبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، ومعاویۃ رضي اللّٰہ عنہ، ہذا حدیثٌ حسنٌ صحیحٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم: باب إذا أراد اللّٰہ بعبد خیرا فقہہ في الدین‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۵)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من خرج في طلب العلم فہو في سبیل اللّٰہ حتی یرجع۔ ہذا حدیثٌ حسنٌ غریبٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب فضل طلب العلم‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، ص: ۲۶۴۷)
عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قرأ القرآن وعمل بما فیہ ومات في الجماعۃ بعثہ اللّٰہ یوم القیامۃ مع السفرۃ والبررۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان: ج ۳، ص: ۳۷۶، رقم: ۱۸۳۷)عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب خیرکم من تعلم القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۷۵۲،رقم: ۵۰۲۷)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أفضلکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (’’أیضاً‘‘: رقم: ۵۰۲۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص306

بدعات و منکرات

Ref. No. 1122 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ تمام بریلوی مشرک نہیں ہیں، بلکہ جو لوگ قبروں پر سجدہ کرتے ہیں  اور صاحب قبر کو مشکل کشا وحاجت روا اور مختار سمجھتے ہیں وہ مشرک ہیں ؛ غیرمسلم اور مشرک دونوں کا درجہ ایک ہی ہے۔ غیر مسلم کو اسلام کے بنیادی عقائد کو سمجھادیا جائے کہ اسلام میں اصل شرک و بت پرستی سے روکنا اور تمام امور میں اللہ تعالی کو ہی مشکل کشا وحاجت روا ہونے کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔ اور جو اس کے خلاف کرے وہ اسلام سے خارج ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 39/1077

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   حج پر جانے سے قبل اپنے حج پر جانے کی اطلاع دینے اور دعاء کی درخواست کرنے میں حرج نہیں ہے تاہم اگر مقصود نام و نمود اور شہرت ہو تو یقینا بڑی خرابی کی بات ہے، اس سے احتراز لازم ہے ، اور اپنی نیت درست کرنا ضروری ہے، اللہ تعالی ہمیں اخلاص کی دولت نصیب کرے۔  آمین

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 2561/45-3924

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اکابر علماء دیوبند کے یہاں ذکر کے دو طریقہ رائج ہیں یا تو انفرادی ذکر کرنا یا شیخ کے ساتھ ان کے مریدین بھی ذکر کرنے بیٹھ جائیں جس سے ایک اجتماعی شکل بن جاتی ہے، لیکن ہر شخص علاحدہ علاحدہ ذکر کرتا ہے کوئی سرا اور کوئی جہر خفی کے ساتھ اس کے علاوہ آپ نے سوال کا جس ذکر بالجہر کا تذکرہ کیا ہے اس کی صورت کی وضاحت نہیں ہے، مطلقاً ذکر جہری بدعت نہیں ہے، بلکہ دونوں طرح ذکر کرنا محقق علماء کے نزدیک جائز ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد بلند آواز سے ’’لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیئ قدیر‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ (مسلم شریف: حدیث نمبر: ٥٩٤)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) تبلیغ کے لغوی معنی ہیں، ’’کسی چیز یا بات کو دوسرے تک پہونچانا‘‘ اور معنی شرعی ہیں، ’’دین کی بات کو دوسروں تک پہونچانا‘‘ یہ لفظ قرآن وحدیث میں اسی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے {ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط}(۱) ’’اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! دوسروں تک پہونچا دیجئے وہ سب کچھ جو اتارا گیا ہے آپ پر آپ کے رب کی طرف سے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’بلغوا عني ولو آیۃ‘‘(۲) میری بات دوسروں تک پہونچا دو اگرچہ وہ ایک ہی بات (حکم شرعی) ہو۔ مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث میں حکم عام ہے جس میں اصل ایمان اور احکام اسلام دونوں کی تبلیغ داخل ہے،حضرت مولانا الیاس صاحب معتبر ومعتمد تھے انہوں نے دین کی بات دوسروں تک پہونچانے کے لئے دعوت کے قرآنی اصول {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ} (۱) پر عمل کرتے ہوئے اس دور کے حالات کے پیش نظر چند اصول کی روشنی میں بعض احکام شرعیہ کی تبلیغ کو اہم اور ضروری سمجھا اور اس کے بعد جماعت کے ذمہ دار حضرات علماء اس کی اتباع کرتے ہوئے کام کر رہے ہیں اس لئے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس جماعت کو تبلیغی جماعت کہنا بلا شک وشبہ صحیح ہے اور جماعت کی موافقت روز اول سے آج تک مسلک دیوبند کے ترجمان تمام مستند علماء نے کی ہے؛ بلکہ بعض اکابر نے حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس کام کی غیر معمولی تحسین وتعریف بھی کی ہے۔ (۲) سوال اول کے جواب میں جو آیت کریمہ بیان کی گئی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرض منصبی اور کام تبلیغ کو قرار دیا گیا ہے اور آپ نے اس حکم کی مکمل تعمیل فرمائی حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے مفصل خطبہ دیا جس میں مختلف شعبہائے زندگی سے متعلق ضروری احکام بیان فرمائے اور آخر میں حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا ’’ألا ہل بلغت‘‘ بتاؤ کہ میں نے تبلیغ کردی یا نہیں یعنی جو میرا فرض منصبی اور کام تھا وہ میں نے پورا کر دیا یا نہیں؟ حاضرین نے جب تصدیق کردی ’’قالوا: نعم‘‘ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہم أشہد‘‘ اے اللہ آپ گواہ رہنا آپ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ کار نبوت ہے جس کو آپ نے بذات خود انجام دیا اور بعد میں آنے والے لوگوں کو یہ ذمہ داری سپرد کرنے کے لئے فرمایا: ’’فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘(۲) چونکہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ جماعت، تبلیغی جماعت ہے تو جماعت کا وہ کام جو مولانا مرحوم کے طے کردہ اصول کے مطابق ہوگا وہ بلا شک وشبہ کار نبوت کہلائے گا یعنی تبلیغ کا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے انجام دیا اور اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لئے اپنے ارشاد کے ذریعہ اپنے اس سلسلہ کو جاری رکھنے کی ہدایت فرمائی تبلیغی جماعت کا کام بھی اسی سلسلہ سے وابستہ ہے۔ (۳) حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دعوت کے قرآنی اصول کے پیش نظر اس دور کی ضرورت اور حالات کو پیش نظر رکھ کر تبلیغ کے لئے جو چند احکام شرعیہ کا انتخاب فرمایا اور تبلیغ کے لئے چند اصول وضع فرمائے، اور طریقہ کار تجویز فرمایا اس طریقہ وتبلیغ کے وہ بانی ہیں ان کو بانی کہنے میں کسی قسم کا شرعی یا عقلی اختلاف واشکال نہیں ہے، مسلک دیوبند کے ترجمان تمام مستند علماء اس جماعت کے کام کے مفید ونافع ہونے کے نہ صرف یہ کہ قائل ہیں بلکہ مدارس دینیہ کے ذمہ دارحضرات مرکز نظام الدین دہلی سے رابطہ کر کے مؤقر شخصیات کو طلبہ میں وعظ ونصیحت کرنے کے لئے مدعو کرتے ہیں؛ چنانچہ دار العلوم وقف بھی ہر سال اس کا اہتمام کرتا ہے جس کے نتیجہ میں دار العلوم وقف کے طلبہ اپنا معتد بہ وقت لگاتے ہیں شہر اور قرب وجوار میں جمعرات وجمعہ کو کام ہوتا ہے اور تعطیل کلاں میں زیادہ وقت لگاتے ہیں بلکہ چند سالوں سے یہ سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے کہ بعض طلبہ فراغت کے بعد پورا سال لگاتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرات علماء صرف قولاً ہی نہیں بلکہ عملاً جماعت کے موافق اور اس کام کو دین کی اہم ضرورت وخدمت اور عامۃ المسلمین کے لئے مفید ونافع سمجھتے ہیں اور مسلک دیوبند کے ترجمان تمام علماء اس پر متفق ہیں اور اگر کوئی شخص اس کے بر خلاف اس جماعت کو تبلیغی جماعت کہنے اور اس کے کام کو کار نبوت کہنے اور حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کو بانیٔ جماعت کہنے کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو غلط کہتا ہے تو ہمارے نزدیک وہ شخص غلط فہمی میں مبتلا ہے اور خطا کار ہے۔ فقط: ’’واللّٰہ أعلم بالصواب وہو یہدي إلی الصراط المستقیم‘‘ (۱) سورۃ المائدہ: ۶۷۔ (۲) عبد الرحمٰن المبارکفوري تحفۃ الأحوذي، ’’کتاب العلم‘‘: ص: ۳۶۰۔(۱) سورۃ النحل: ۱۲۵۔ (۱) مشکوۃ المصابیح، ’’الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵رقم: ۲۶۵۹۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص307

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری، ہوسکتا ہے کسی بزرگ کا قول ہو اور انھوں نے کسی خاص پس منظر میں کہا ہو؛ البتہ کار ثواب ہے، دین کی فکر میں لگے رہنا محبوب عمل ہے ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ اس پر ثواب مرتب ہوگا۔(۱)

(۱) ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’لیس بحدیث إنما ہو کلام السری السقطی‘‘۔ (المصنوع في أحادیث الموضوع: ص: ۸۲)
رواہ أبو الشیخ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ مرفوعاً، وفي إسنادہ عثمان بن عبد اللّٰہ القرشي وإسحاق بن نجیع المطلي کذّابان والمتہم بہ أحدہما، وقد رواہ الدیلمي من حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ من وجہ آخر: (الفوائد المجموعۃ: ص: ۲۴۲، عمدۃ الأقاویل في تحقیق الأباطیل: ص: ۲۴۷؍ ۲۷۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص310