بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ اللہ کے راستہ سے کیا مراد ہے؟ تاہم غزوہ خیبر میں ابتداًء حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا تھا؛ اس لئے عذر کرنے کو دین کی محنت کے مذاق سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: کان أبو لیلی یسمر مع علي فکان یلبس ثیاب الصیف في الشتاء وثیاب الشتاء في الصیف، فقلنا: لو سألتہ، فقال: إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعث إلي وأنا أرمد العین یوم خیبر، قلت یا رسول اللّٰہ إني أرمد العین فتفل في عیني، ثم قال: اللہم إذہب عنہ الحر والبرد، قال: فما وجدت حراً ولا برداً بعد یومئذ وقال: لأبعثن رجلاً یحب اللّٰہ ورسولہ، ویحبہ اللّٰہ ورسولہ لیسً بفرار) فتشرف لہ الناس فبعث إلي علي فأعطاہا إیاہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’المقدمۃ، باب في فضائل أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فضل علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۱۱۷)
عن زید بن ثابت رضي اللّٰہ عنہ، قال: کنت إلی جنب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فغشیتہ السکینۃ فوقعت فخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی فخذی، فما وجدت ثقل شيء أثقل من فخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثم سری عنہ، فقال: (اکتب) فکتبت في کتفٍ {لایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۃ النساء: ۹۵) {وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} (سورۃ النساء: ۹۵) إلی آخر الآیۃ، فقام ابن أم مکتوم، وکان رجلا أعمی لما سمع فضیلۃ المجاہدین، فقال یا رسول اللّٰہ، فکیف بمن لا یستطیع الجہاد من المؤمنین فلما قضی کلامہ غشیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم السکینۃ فوقعت فخذہ علی فخذی ووجدت من ثقلہا في المرۃ الثانیۃ، کما وجدت في المرۃ الأولی ثم سری عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: (اقرأ یا زید) فقرأت {لایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ} (سورۃ النساء: ۹۵)، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ} (سورۃ النساء: ۹۵)، الآیۃ کلہا، قال زیدٌ: فأنزلہا اللّٰہ وحدہا، فألحقتہا، والذي نفسي بیدہ کأني أنظر إلی ملحقہا عند صدع في کتف۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجہاد: باب في الرخصۃ في العقود من العذر‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۹، رقم: ۲۵۰۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص305

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر ایک مسلمان پر اتنا قرآن پڑھنا فرض ہے جس سے نمازیں درست ہوں اور مکمل قرآن پڑھنا بھی مطلوب ومسنون ہے، تعلیم کو بالکلیہ چھوڑ کر تبلیغ میں نکلنا یا بچوں کو نکالنا نادانی ہے اور تبلیغ بھی مطلوب ہے، لیکن تعلیم اہم ہے۔(۱)

(۱) {لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ أٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} (سورۃ آل عمران: ۱۶۴)
قال تعالیٰ: {یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ أٰیٰتِہٖ} یعني: القرآن {وَ یُزَکِّیْہِمْ} أي یأمرہم بالمعروف وینہاہم عن المنکر لتزکو نفوسہم وتطہر لمن الدنس والخبث الذي کانوا متلبسین بہ في حال شرکہم وجاہلیتہم {وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} یعني: القرآن والسنۃ۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر ’’سورۃ آل عمران: ۱۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۸)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین وفي الباب عن عمر رضي اللّٰہ عنہ، وأبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، ومعاویۃ رضي اللّٰہ عنہ، ہذا حدیثٌ حسنٌ صحیحٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم: باب إذا أراد اللّٰہ بعبد خیرا فقہہ في الدین‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۵)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من خرج في طلب العلم فہو في سبیل اللّٰہ حتی یرجع۔ ہذا حدیثٌ حسنٌ غریبٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب فضل طلب العلم‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، ص: ۲۶۴۷)
عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من قرأ القرآن وعمل بما فیہ ومات في الجماعۃ بعثہ اللّٰہ یوم القیامۃ مع السفرۃ والبررۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان: ج ۳، ص: ۳۷۶، رقم: ۱۸۳۷)عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب خیرکم من تعلم القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۷۵۲،رقم: ۵۰۲۷)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أفضلکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (’’أیضاً‘‘: رقم: ۵۰۲۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص306

بدعات و منکرات

Ref. No. 1122 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ تمام بریلوی مشرک نہیں ہیں، بلکہ جو لوگ قبروں پر سجدہ کرتے ہیں  اور صاحب قبر کو مشکل کشا وحاجت روا اور مختار سمجھتے ہیں وہ مشرک ہیں ؛ غیرمسلم اور مشرک دونوں کا درجہ ایک ہی ہے۔ غیر مسلم کو اسلام کے بنیادی عقائد کو سمجھادیا جائے کہ اسلام میں اصل شرک و بت پرستی سے روکنا اور تمام امور میں اللہ تعالی کو ہی مشکل کشا وحاجت روا ہونے کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔ اور جو اس کے خلاف کرے وہ اسلام سے خارج ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 39/1077

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   حج پر جانے سے قبل اپنے حج پر جانے کی اطلاع دینے اور دعاء کی درخواست کرنے میں حرج نہیں ہے تاہم اگر مقصود نام و نمود اور شہرت ہو تو یقینا بڑی خرابی کی بات ہے، اس سے احتراز لازم ہے ، اور اپنی نیت درست کرنا ضروری ہے، اللہ تعالی ہمیں اخلاص کی دولت نصیب کرے۔  آمین

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 2561/45-3924

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اکابر علماء دیوبند کے یہاں ذکر کے دو طریقہ رائج ہیں یا تو انفرادی ذکر کرنا یا شیخ کے ساتھ ان کے مریدین بھی ذکر کرنے بیٹھ جائیں جس سے ایک اجتماعی شکل بن جاتی ہے، لیکن ہر شخص علاحدہ علاحدہ ذکر کرتا ہے کوئی سرا اور کوئی جہر خفی کے ساتھ اس کے علاوہ آپ نے سوال کا جس ذکر بالجہر کا تذکرہ کیا ہے اس کی صورت کی وضاحت نہیں ہے، مطلقاً ذکر جہری بدعت نہیں ہے، بلکہ دونوں طرح ذکر کرنا محقق علماء کے نزدیک جائز ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد بلند آواز سے ’’لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیئ قدیر‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ (مسلم شریف: حدیث نمبر: ٥٩٤)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) تبلیغ کے لغوی معنی ہیں، ’’کسی چیز یا بات کو دوسرے تک پہونچانا‘‘ اور معنی شرعی ہیں، ’’دین کی بات کو دوسروں تک پہونچانا‘‘ یہ لفظ قرآن وحدیث میں اسی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے {ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط}(۱) ’’اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! دوسروں تک پہونچا دیجئے وہ سب کچھ جو اتارا گیا ہے آپ پر آپ کے رب کی طرف سے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’بلغوا عني ولو آیۃ‘‘(۲) میری بات دوسروں تک پہونچا دو اگرچہ وہ ایک ہی بات (حکم شرعی) ہو۔ مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث میں حکم عام ہے جس میں اصل ایمان اور احکام اسلام دونوں کی تبلیغ داخل ہے،حضرت مولانا الیاس صاحب معتبر ومعتمد تھے انہوں نے دین کی بات دوسروں تک پہونچانے کے لئے دعوت کے قرآنی اصول {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ} (۱) پر عمل کرتے ہوئے اس دور کے حالات کے پیش نظر چند اصول کی روشنی میں بعض احکام شرعیہ کی تبلیغ کو اہم اور ضروری سمجھا اور اس کے بعد جماعت کے ذمہ دار حضرات علماء اس کی اتباع کرتے ہوئے کام کر رہے ہیں اس لئے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس جماعت کو تبلیغی جماعت کہنا بلا شک وشبہ صحیح ہے اور جماعت کی موافقت روز اول سے آج تک مسلک دیوبند کے ترجمان تمام مستند علماء نے کی ہے؛ بلکہ بعض اکابر نے حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس کام کی غیر معمولی تحسین وتعریف بھی کی ہے۔ (۲) سوال اول کے جواب میں جو آیت کریمہ بیان کی گئی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرض منصبی اور کام تبلیغ کو قرار دیا گیا ہے اور آپ نے اس حکم کی مکمل تعمیل فرمائی حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے مفصل خطبہ دیا جس میں مختلف شعبہائے زندگی سے متعلق ضروری احکام بیان فرمائے اور آخر میں حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا ’’ألا ہل بلغت‘‘ بتاؤ کہ میں نے تبلیغ کردی یا نہیں یعنی جو میرا فرض منصبی اور کام تھا وہ میں نے پورا کر دیا یا نہیں؟ حاضرین نے جب تصدیق کردی ’’قالوا: نعم‘‘ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہم أشہد‘‘ اے اللہ آپ گواہ رہنا آپ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ کار نبوت ہے جس کو آپ نے بذات خود انجام دیا اور بعد میں آنے والے لوگوں کو یہ ذمہ داری سپرد کرنے کے لئے فرمایا: ’’فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘(۲) چونکہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ جماعت، تبلیغی جماعت ہے تو جماعت کا وہ کام جو مولانا مرحوم کے طے کردہ اصول کے مطابق ہوگا وہ بلا شک وشبہ کار نبوت کہلائے گا یعنی تبلیغ کا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے انجام دیا اور اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لئے اپنے ارشاد کے ذریعہ اپنے اس سلسلہ کو جاری رکھنے کی ہدایت فرمائی تبلیغی جماعت کا کام بھی اسی سلسلہ سے وابستہ ہے۔ (۳) حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دعوت کے قرآنی اصول کے پیش نظر اس دور کی ضرورت اور حالات کو پیش نظر رکھ کر تبلیغ کے لئے جو چند احکام شرعیہ کا انتخاب فرمایا اور تبلیغ کے لئے چند اصول وضع فرمائے، اور طریقہ کار تجویز فرمایا اس طریقہ وتبلیغ کے وہ بانی ہیں ان کو بانی کہنے میں کسی قسم کا شرعی یا عقلی اختلاف واشکال نہیں ہے، مسلک دیوبند کے ترجمان تمام مستند علماء اس جماعت کے کام کے مفید ونافع ہونے کے نہ صرف یہ کہ قائل ہیں بلکہ مدارس دینیہ کے ذمہ دارحضرات مرکز نظام الدین دہلی سے رابطہ کر کے مؤقر شخصیات کو طلبہ میں وعظ ونصیحت کرنے کے لئے مدعو کرتے ہیں؛ چنانچہ دار العلوم وقف بھی ہر سال اس کا اہتمام کرتا ہے جس کے نتیجہ میں دار العلوم وقف کے طلبہ اپنا معتد بہ وقت لگاتے ہیں شہر اور قرب وجوار میں جمعرات وجمعہ کو کام ہوتا ہے اور تعطیل کلاں میں زیادہ وقت لگاتے ہیں بلکہ چند سالوں سے یہ سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے کہ بعض طلبہ فراغت کے بعد پورا سال لگاتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرات علماء صرف قولاً ہی نہیں بلکہ عملاً جماعت کے موافق اور اس کام کو دین کی اہم ضرورت وخدمت اور عامۃ المسلمین کے لئے مفید ونافع سمجھتے ہیں اور مسلک دیوبند کے ترجمان تمام علماء اس پر متفق ہیں اور اگر کوئی شخص اس کے بر خلاف اس جماعت کو تبلیغی جماعت کہنے اور اس کے کام کو کار نبوت کہنے اور حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کو بانیٔ جماعت کہنے کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو غلط کہتا ہے تو ہمارے نزدیک وہ شخص غلط فہمی میں مبتلا ہے اور خطا کار ہے۔ فقط: ’’واللّٰہ أعلم بالصواب وہو یہدي إلی الصراط المستقیم‘‘ (۱) سورۃ المائدہ: ۶۷۔ (۲) عبد الرحمٰن المبارکفوري تحفۃ الأحوذي، ’’کتاب العلم‘‘: ص: ۳۶۰۔(۱) سورۃ النحل: ۱۲۵۔ (۱) مشکوۃ المصابیح، ’’الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵رقم: ۲۶۵۹۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص307

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری، ہوسکتا ہے کسی بزرگ کا قول ہو اور انھوں نے کسی خاص پس منظر میں کہا ہو؛ البتہ کار ثواب ہے، دین کی فکر میں لگے رہنا محبوب عمل ہے ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ اس پر ثواب مرتب ہوگا۔(۱)

(۱) ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’لیس بحدیث إنما ہو کلام السری السقطی‘‘۔ (المصنوع في أحادیث الموضوع: ص: ۸۲)
رواہ أبو الشیخ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ مرفوعاً، وفي إسنادہ عثمان بن عبد اللّٰہ القرشي وإسحاق بن نجیع المطلي کذّابان والمتہم بہ أحدہما، وقد رواہ الدیلمي من حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ من وجہ آخر: (الفوائد المجموعۃ: ص: ۲۴۲، عمدۃ الأقاویل في تحقیق الأباطیل: ص: ۲۴۷؍ ۲۷۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص310

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سب سے افضل ومقدس کتاب قرآنِ کریم ہے، اس کے  بعد حدیث کی معروف کتاب بخاری اور مسلم شریف ہے۔ (۱) فضائل اعمال ہو یا دیگر کوئی کتاب ہو کسی کے بارے میں غلو درست نہیں، اگر سائل کی مراد یہ ہے کہ ہندوستان وغیرہ بعض ممالک میں قرآن کریم کے بعد زیادہ پڑھی جانے والی کتاب فضائل اعمال ہے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

(۱) أول من صنف الصحیح البخاري أبو عبد اللّٰہ محمد بن إسمعیل، وتلا أبو الحسین مسلم بن الحجاج القشیري ومسلم مع أنہ أخذ عن البخاري واستفاد منہ یشارکہ في أکثر شیوخہ، وکتاباہما أصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ العزیز۔ (مقدمۃ ابن الصلاح ’’النوع الأول من أنواع علوم‘‘: ص: ۸۴)
وہما أصح الکتب بعد القرآن، والبخاري أصحہما واکثر ہما فوائد۔ (تدریب الراوي في شرح تقریب النووي تفضیل صحیح البخاري علی مسلم: ج ۱، ص: ۹۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص310

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کو توکل سے تعبیر کرنا بھی بڑی غلطی ہے، حقوق اللہ تو اللہ تعالیٰ معاف کردے گا اگر کوئی دین میں کوتاہی کرے گا، لیکن حقوق العباد جو ذمہ میں رہ جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو معاف نہیں کرے گا، اگر صاحب حق معاف نہ کرے، تو آخرت میں مواخذہ ہوگا، حقوق واجبہ کو ترک کرکے جانے کی شرعاً ہر گز اجازت نہیں ہوگی، حقوق واجبہ میں کوتاہی کرنے اور جان بوجھ کر نقصان برداشت کرنے والا گنہگار ہوتا ہے۔ (۱)

 (۱) عن معاذ رضي اللّٰہ عنہ، قال: أو صاني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعشر کلمات قال: لا تشرک باللّٰہ شیئاً وإن قتلت وحرقت، ولا تعقّنّ والدیک وإن أمراک أن تخرج من أہلک ومالک الخ: رواہ أحمد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۸)
وعن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الزہادۃ في الدنیا لیست بتحریم الحلال ولا إضاعۃ، ولکن الزہادۃ في الدنیا أن لا تکون بما في یدیک أو ثق بما في یدي اللّٰہ وأن یکون في ثواب المصیبۃ إذا أنت أصبت بہا أرغب فیہا لو أنہا أبقیت لک۔ رواہ الترمذي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الرقاق: باب التوکل والصبر‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص311

بدعات و منکرات

الجواب:بیعت اس لیے کی جاتی ہے کہ مرشد کی رہنمائی اوراس کی ہدایت پر عمل کرنے سے راہ سنت پر چلنا اور احکام خداوندی کے مطابق زندگی گزارنا آسان ہوجاتا ہے، بیعت ہونا سنت ہے، فرض یا واجب نہیں، اور اصلاح نفس کی جس طرح مرد کو ضرورت ہوتی ہے اسی طرح عورت کو بھی ضرورت ہے تاہم عورت کی بیعت کے لیے شوہر کا بیعت ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں بیعت کے لیے شوہر کی اجازت ضروری ہے۔
’’إعلم أن البیعۃ سنۃ لیست بواجبۃ و لم یدل دلیل علی تاثیم تارکہا و لم ینکر أحد علی تارکہا‘‘(۱) ’’قال الشیخ ظفر أحمد العثماني: وبالجملۃ فالتصوف عبارۃ عن عمارۃ الظاہر والباطن أما عمارۃ الظاہر فالأعمال الصالحۃ وأما عمارۃ الباطن فذکر اللّٰہ وترک الرکون إلی ماسواہ وکان یتیسر ذلک للسلف بمجرد الصحبۃ الخ،(۲) قال عروۃ: فأخبرتني عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یمتحنہن بہذہ الآیۃ:
{ٰٓیاَ یُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِذَا جَآئَکُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُھٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْھُنَّط اَللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِھِنَّج فَإِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِط لَا ھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّط وَأٰ تُوْھُمْ مَّآ أَنْفَقُوْاط وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ أَنْ تَنْکِحُوْ ھُنَّ إِذَآ أٰ تَیْتُمُوْھُنَّ أُجُوْرَھُنَّط وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَسْئَلُوْا مَآ أَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْئَلُوْا مَآ أَنْفَقُوْاط ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِط یَحْکُمُ بَیْنَکُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌہ۱۰ وَإِنْ فَاتَکُمْ شَیْئٌ مِّنْ أَزْوَاجِکُمْ إِلَی الْکُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَأٰ تُوا الَّذِیْنَ ذَھَبَتْ أَزْوَاجُھُمْ مِّثْلَ مَآ أَنْفَقُوْاط وَاتَّقُوا اللّٰہَ  الَّذِيْٓ أَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَہ۱۱ ٰٓیأَیُّھَا النَّبِيُّ إِذَا جَآئَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی أَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَأْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ أَیْدِیْھِنَّ وَأَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھُنَّ اللّٰہَط إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌہ۱۲} (۳)
 قال عروۃ: قالت عائشۃ: فمن أقر بہذا الشرط منہن، قال لہا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: قد بایعتک کلاما یکلمہا بہ، واللّٰہ ما مست یدہ ید امرأۃ قط في المبایعۃ، وما بایعہن إلا بقولہ‘‘۔ (۱)

 اسی طرح شادی سے پہلے جب کہ لڑکی اپنے والد کی تربیت میں ہوتی ہے بہتر ہے کہ والد کی اجازت سے کسی مصلح سے بیعت ہوجائے۔ اصلاح کے لیے بہتر ہے کہ عورت اپنے شوہر کو ہی واسطہ بنائے اور انہی کے ذریعہ اپنے مرشد سے رہنمائی حاصل کرے؛ لیکن اگر عورت کسی وجہ سے ایسا نہیں کرنا چاہتی ہے، تو شیخ کے گھر کی کسی خاتون سے مدد لے سکتی ہے۔(۲)
(۱) الشاہ ولي اللّٰہ الدھلويؒ، القول الجمیل، الفصل الثاني:ص: ۱۲۔
(۲) ظفر أحمد العثمانيؒ، إعلاء السنن، کتاب الأدب والتصوف والإحسان: ج ۱۸، ص: ۴۴۹۔
(۳) الممتحنۃ: ۱۰ تا ۱۲) (البقرۃ: ۱۷۳۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیہ، ’’کتاب الشروط: باب ما یجوز من الشروط في الإسلام والأحکام والمبایعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۶، رقم: ۲۷۱۱۔
(۲) قولہا واللّٰہ ما مست ید رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ید امرأۃ قط غیر أنہ یبایعہن بالکلام فیہ أن بیعۃ النساء بالکلام من غیر أخذ کف وفیہ أن بیعۃ الرجال بأخذ الکف مع الکلام الخ۔ (النووي، شرح مسلم، ’’کتاب الإمارۃ: باب کیف بیعۃ النساء‘‘: ج ۲،ص: ۱۳۱)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص404