قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1436/42-857

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔'للہ'، 'عٰلمین '، 'ملک'، 'ایاک'، کے کھڑا زبر کو ایک الف کے برابر کھینچنا چاہئے جو مد اصلی کی مقدار ہے، اس سے زیادہ کھینچنا مکروہ ہے۔  اور 'یوم' کے اندر لین ہے جسکی مقدار بھی ایک الف کے برابر ہے ، اس سے زیادہ کھینچنا درست نہیں ہے۔ 2 السلام علیکم کو الف لام کے ساتھ کہنا سنت ہے اور بغیر الف لام کے سلام علیکم کہنا خلاف سنت ہے، البتہ نماز ان تمام صورتوں میں درست ہوجاتی ہے۔

قال في البحر: وهو على وجه الأكمل أن يقول: السلام عليكم ورحمة الله مرتين، فإن قال السلام عليكم أو السلام أو سلام عليكم أو عليكم السلام أجزأه وكان تاركا للسنة، (شامی1/526، فروع قرا بالفارسیۃ) فإن نقص فقال: السلام عليكم أو سلام عليكم أساء بتركه السنة وصح فرضه (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، فصل فی بیان سننھا 1/274)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن وحدیث میں بہت سی نصوص ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے لیے ’’ید، وجہ‘‘ وغیرہ کا اثبات کیا گیا ہے اس طرح کی آیات واحادیث کو متشابہات کہا جاتا ہے، اس سلسلے میں حضرات اہل علم کے دو نقطہ نظر ہیں۔ سلف اور متقدمین کا نقطہ نظر تفویض کا ہے یعنی نصوص میں جن صفات کا اثبات کیا گیا ہے وہ سب بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے لیے ان کی شایان شان ثابت ہیں؛ لیکن یہ صفات مخلوقات کی صفات کی طرح نہیں ہیں اور نہ ہمیں ان اوصاف کی کوئی کیفیت اور حقیقت معلوم ہے۔ دوسرا نقطہ نظر خلف اور متأخرین کا ہے۔ وہ حضرات ایسی تأویل کرتے ہیں جو ذات باری تعالیٰ کے شایان شان ہوں، مثلاً: ’’ید‘‘ کے معنی قدرت، ’’وجہ‘‘ کے معنی ذات کے ہیں اس کو تنزیہ مع التأویل کہتے ہیں پہلے نظریے کو تنزیہ مع التفویض کہتے ہیں، علماء دیوبند کا اصل مسلک تواول ہے؛ البتہ دوسرے نظریے کو بھی حق سمجھتے ہیں، چنانچہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: اس عقیدہ میں حضرات سلف کے مسلک پر ہوں کہ نصوص اپنی حقیقت پر ہیں مگر ’’کنہ‘‘ اس کی معلوم نہیں۔(۱)
’’وإنما لیسلک في ہذا المقام مذہب السلف من أئمۃ المسلمین قدیما وحدیثا وہو إمرارہا کما جاء ت من غیر تکییف ولا تشبیہ ولا تعطیل‘‘(۲)
’’وأما ما قال المتأخرون في أئمتنا في تلک الآیات یؤولونہا بتأویلات صحیحۃ في اللغۃ والشرع بأنہ یمکن أن یکون المراد من الاستواء الاستیلاء ومن الید القدرۃ إلی غیر ذلک تقریباً إلی أفہام القاصرین فحق أیضاً عندنا‘‘(۱)
(۱) أشرف علي التھانويؒ، إمداد الفتاویٰ: ج ۶، ص: ۲۵۔
(۲)ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأعراف: ۵۴۔
(۱) خلیل أحمد سہارنفوري، المہند علی المفند: ص: ۳۸۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان مذکورہ الفاظ میں ’’ص‘‘ کے اوپر ’’س‘‘ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ تلاوت کرنے والا اس کو ’’ص اور س‘‘ دونوں کے ساتھ پڑھ سکتا ہے؛ لیکن دونوں میں سے صرف ایک طریقہ اختیار کرے نہ کہ دونوں یعنی دو دفعہ نہ پڑھے۔(۲)
(۲) ویبسط بالبقرۃ وبصطۃ بالأعراف بالسین وصلاً ووقفاً وہم المصیطرون بالطور بالخف۔ (محمد ہارون، خلاصۃ البیان، مع ضیاء البرہان، ص: ۲۶۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص71

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور عربی زبان کے بہت سے الفاظ ایسے ہیں کہ ان کی مثال دوسری زبانوں میں نہیں ہے اور اگر ہے بھی، تو طرز ادا اور اس کی صحیح آواز اور اس کی ادائے گی میں بہت ہی زیادہ فرق ہے، مثلاً: ’’صَلِّ‘‘ کا لفظ جو اصل ہے اس کے معنی درود اور رحمت نازل فرمانے کے ہیں اور یہ لفظ اگر ’’سَلِّ‘‘ یعنی سین کی آواز کے ساتھ پڑھ دیا جائے، تو اس کے معنی ’’تلوار کھینچ تو‘‘ کے ہوجائیں گے، جیسا: کہ ہندی زبان میں ’’ص، س‘‘ میں کوئی فرق نہیں اور ایسے ہی ’’ط، ت، ۃ‘‘ میں ہندی زبان میں کوئی فرق نہیں وغیرہ۔
ایسے ہی دیگر زبانوں کا حال ہے؛ اس لیے قرآن پاک کے متن کو اصلی عربی رسم الخط اور عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں چھا پا جائے گا تو اس سے قرآن پاک کے معنی میں فرق آجائے گا اور اس کی ادائے گی بھی صحیح نہ ہوگی؛ اس لیے قرآن پاک کے متن کو دوسری زبان میں چھاپنا جائز نہیں ہے، البتہ قرآن پاک کے ترجمہ ومطلب میں اس قسم کا تغیر نہ ہوگا، اس تبدیلی میں مقصد کچھ بھی ہو اس کی آسان صورت یہ ہے کہ غیروں کی تعلیم کے لئے قرآن پاک کے اصل متن کو عربی ہی میں چھاپا جائے اور ان کو سمجھانے کے لئے ان کی زبان میں اس کا ترجمہ، مطلب وتفسیر لکھ دی جائے، تاکہ وہ سمجھ لیں اور مسلمانوں کو عربی متن والا قرآن پاک پڑھایا جائے، کیونکہ ان کو نماز میں اور غیر نماز میں قرآن پاک اصل عبارت میں پڑھنا ہے اور مسلمان اسی کے مکلف ہیں۔ (۱)
(۱) یحرم مخالفۃ خط مصحف عثمان في واو أو یاء أو ألف أو غیر ذلک۔ (جلال الدین السیوطي، الإتقان في علوم القرآن: ج ۲، ص: ۱۶۶)     سئل مالک ہل یکتب المصحف علی ما أحدثہ الناس من الہجاء۔فقال: لا إلا علی الکتبۃ الأولی۔(جلال الدین السیوطي، الإتقان في علوم القرآن: ج ۴، ص: ۱۴۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص72

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2011/44-1987

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور مضمون قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں بیان کیاگیاہے۔ تفسیر معارف القرآن میں سورۃ الانعام کی آیت نمبر 162  کی تفسیری عبارت ملاحظہ فرمائیں:

کسی کے گناہ کا بھار دوسرا نہیں اٹھا سکتا

چوتھی آیت میں مشرکین مکہ ولید بن مغیرہ وغیرہ کی اس بات کا جواب ہے جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عام مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے دین میں واپس آجاؤ ، تو تمہارے سارے گناہوں کا بھار ہم اٹھالیں گے، اس پر فرمایا (آیت) قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ، اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجئے کہ کیا تم مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ تمہاری طرح میں بھی اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کر لوں، حالانکہ وہی سارے جہان اور ساری کائنات کا رب ہے، اس گمراہی کی مجھ سے کوئی امید نہ رکھو، باقی تمہارا یہ کہنا کہ ہم تمہارے گناہوں کا بھار اٹھالیں گے یہ خود ایک حماقت ہے، گناہ تو جو شخص کرے گا اسی کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، اور وہی اس کی سزا کا مستحق ہوگا، تمہارے اس کہنے سے وہ گناہ تمہاری طرف کیسے منتقل ہوسکتا ہے، اور اگر خیال ہو کہ حساب اور نامہ اعمال میں تو انہی کے رہے گا لیکن میدان حشر میں اس پر جو سزا مرتب ہوگی وہ سزا ہم بھگت لیں گے، تو اس خیال کو بھی اس آیت کے اگلے جملہ نے رد کر دیا، وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي ، ”یعنی قیامت کے روز کوئی شخص دوسرے کا بھار گناہ نہیں اٹھائے گا“۔

اس آیت نے مشرکین کے بیہودہ قول کا جواب تو دیا ہی ہے، عام مسلمانوں کو یہ ضابط بھی بتلا دیا کہ قیامت کے معاملہ کو دنیا پر قیاس نہ کرو کہ یہاں کوئی شخص جرم کرکے کسی دوسرے کے سر ڈال سکتا ہے، خصوصاً جب کہ دوسرا خود رضا مند بھی ہو، مگر عدالت الٓہیہ میں اس کی گنجائش نہیں، وہاں ایک کے گناہ میں دوسرا ہرگز نہیں پکڑا جا سکتا، اسی آیت سے استدلال فرما کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ولد الزنا پر والدین کے جرم کا کوئی اثر نہیں ہوگا، یہ حدیث حاکم نے بسند صحیح حضرت عائشہ سے روایت کی ہے۔

اور ایک میّت کے جنازہ پر حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے کسی کو روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ زندوں کے رونے سے مردہ کو عذاب ہوتا ہے، ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ قول حضرت عائشہ (رض) کے سامنے نقل کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ایک ایسے شخص کا یہ قول نقل کر رہے ہو جو نہ کبھی جھوٹ بولتا ہے اور نہ ان کی ثقاہت میں کوئی شبہ کیا جاسکتا ہے، مگر کبھی سننے میں بھی غلطی ہو جاتی ہے، اس معاملہ میں تو قرآن کا ناطق فیصلہ تمھارے لئے کافی ہے : (آیت) وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي، ”یعنی ایک کا گناہ دوسرے پر نہیں پڑ سکتا، تو کسی زندہ آدمی کے رونے سے مردہ بےقصور کس طرح عذاب میں ہوسکتا ہے (درمنثور)

آخر آیت میں ارشاد فرمایا کہ ”پھر تم سب کو بالآخر اپنے رب ہی کے پاس جانا ہے، جہاں تمہارے سارے اختلاف کا فیصلہ سنا دیا جائے گا“۔ مطلب یہ ہے کہ زبان آوری اور کج بحثی سے باز آؤ ، اپنے انجام کی فکر کرو ۔  (تفسیر معارف القرآن از مفتی شفیع صاحب ، سورۃ الانعام آیت 162)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2218/44-2348

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ درسِ تفسیر سننے کے لئے  عشرہ یا چلہ لگانایا مدرسہ و مسجد کی کوئی شرط کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ لوگوں کی اس طرح کی  بے سند باتیں جہالت کی بناء پر ہوتی  ہیں، انکا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی مدرسہ یا مسجد یا کسی ہال میں جہاں یکسوئی کے ساتھ  تفسیر سن سکتے ہوں وہاں درس تفسیر کا انعقاد درست ہے اور جگہ جگہ تفسیری پروگرام منعقد ہونے چاہئیں۔ مردوں کی طرح عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ قرآن کے پیغام کو سنیں اور سمجھیں اور اپنی زندگی میں ایک قابل قدر تبدیلی لائیں اور آخرت کو سنواریں۔ اور آج کل جبکہ اکثر مرد حضرات دنیوی مشاغل میں الجھے ہیں اور دینی علوم سے بہت دور ہیں، اگر عورتوں کو بھی علم دین سے اس طرح دور کردیا گیا تو مفاسد میں اضافہ ہوگا، تاہم عورتوں کا کسی جگہ جمع ہونے کے لئے ضروری احتیاطی تدابیر بروئے کار لانا اہم ذمہ داری ہے، اس میں کوتاہی بالکل نہ برتی جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1181/42-448

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جائز ہے، البتہ  احتیاط کے خلاف ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 38 / 1140

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ایسی صورت میں قرآن شریف  اٹھاکر بوسہ دیدینا ہی کافی ہے ، کسی طرح کا صدقہ وغیرہ لازم نہیں ہے۔ اس کو ضروری نہ سمجھنا چاہئے۔ البتہ اگر اس غلطی کے بعد ثواب کی نیت سے کچھ صدقہ کردے تو بہتر ہے۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2232/44-2357

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ اردو جانتے ہیں تو معارف القرآن کا مطالعہ کریں، اور اگر ہندی ترجمہ پڑھنا چاہتے ہیں تو ہندی ترجمہ قرآن، از مولانا ارشد مادنی صاحب بازار میں موجود ہے، اس کا مطالعہ کریں، وہ عمدہ ترجمہ ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق حافظ نظر احمد صاحب غیرمقلد ہیں۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر
قرآن پاک کے بوسیدہ اوراق کو حفاظت کی نیت سے جلانا کیسا ہے؟ 2. اگر قرآن پاک گرجائے تو کیا صدقہ کرنا ضروری ہوتا ہے؟ 3. مقدس اوراق کو شہروں میں دفنانا مشکل ہوتا ہے مناسب جگہ نہیں ملتی ہے تو کیا کریں؟ اگر کہیں دفنایا تو ڈر ہے کہ لوگوں کے پیشاب کی تری وہاں تک پہونچے گی، تو ایسی صورت میں جلانا کیسا ہے؟