حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ تھے جو قافلہ سے پیچھے رہ گئے تھے تو شیر آگیا انہوں نے اس کو کہا: میں صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں مجھ کو قافلہ سے ملنا ہے تو اس نے ان کو اپنے ساتھ لیجا کر قافلہ سے ملادیا تھا۔(۱)

(۱) وعن ابن المنکدر أن سفینۃ مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخطأ الجیش بأرض الروم أو أسر فانطلق ہاربا یلتمس الجیش فإذا ہو بالأسد۔ فقال: یا أبا الحارث أنا مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان من أمري کیت وکیت فأقبل الأسد لہ بصبصۃ حتی قام إلی جنبہ کلما سمع صوتا أہوی إلیہ ثم أقبل یمشی إلی جنبہ حتی بلغ الجیش ثم رجع الأسد۔ رواہ في شرح السنۃ۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب الکرامات، الفصل الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۵، رقم: ۵۹۴۹)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص235

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت حلیمہ سعدیہ ایام رضاعت میں یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے کے زمانے میں مسلمان نہیں تھیں مگر موحد ہوسکتی ہیں، اگرچہ یہ بات کہیں نظر سے نہیں گزری اور غالباً وہ غزوۂ حنین کے بعد اسلام لائی ہیں۔(۱)

(۱) عن برۃ بنت أبي تجراۃ قالت: أول من أرضع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثویبۃ بلبن ابن لہا یقال لہ: مسروح أیاماً قبل أن تقدم حلیمۃ وکانت قد أرضعت قبلہ حمزۃ بن عبد المطلب وأرضعت بعدہ أبا سلمۃ بن عبد الأسد المخزومي۔
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کانت ثویبۃ مولاۃ أبي لہب قد أرضعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أیاماً قبل أن تقدم حلمیۃ وأرضعت أبا سلمۃ بن عبد الأسد معہ فکان آخاہ من الرضاعۃ۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن سعد، الطبقات الکبری: ج ۱، ص: ۱۰۸)
وصحح ابن حبان وغیرہ حدیث إسلام حلیمۃ وانتہا الشیماء۔ (أبو مدین: بن أحمد: ج ۱، ص: ۸۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص236

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا، اسلام سے قبل آپ آتش پرست تھے اور آپ کا پہلا نام مابہ ابن بوزخشاں تھا ۔(۱)

(۱) قال حدثني سلمان الفارسي: من فیہ قال: کنت رجلا فارسیاً من أہل قریۃ یقال لہا جی (اسم المدینۃ) وکان أبي دہقان قریتہ وکنت أحب خلق اللّٰہ إلیہ لم یزل حبہ إیاي حتی حبسني في بیتہ کما تحبس الجاریۃ واجتہدت في المجوسیۃ حتی کنت قطن النار التی یوقدہا لا یترکہا تخبو ساعۃ الخ۔ (أبو الفداء ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، إسلام سلمان الفارسي: ج ۳، ص: ۳۸۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص237

حدیث و سنت

Ref. No. 2240/44-2386

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کھانے کے بعد کی دعا میں زیادہ تر روایتوں میں من کا لفظ نہیں ہے جب کہ بعض روایت میں جیسے کنز العمال اور جمع الفوائد میں من کے ساتھ بھی ہے اکثر احادیث کی کتابوں میں بغیر من کے ہی موجود ہے۔ مصنف ابن ابی شیبۃ میں ہے ،۔ عن إسماعيل بن أبي سعيد، قال: كان أبو سعيد الخدري إذا وضع له الطعام قال: الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمين(مصنف  ابن ابی شیبۃ ،باب تسمیۃ فی الطعام ،5/139)سنن ابن ماجہ میں روایت ہے  عن أبي سعيد، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم: إذا أكل طعاما قال:الحمد لله الذي أطعمنا، وسقانا وجعلنا مسلمين(سنن ابن ماجہ، باب ما یقول اذا فرغ من الطعام ،2/1092،حدیث نمبر:3283)سنن ابوداؤد میں ہے :عن أبي سعيد الخدري، أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا فرغ من طعامه قال:الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمين(سنن ابوداؤد،باب ما یقول الرجل اذا طعم ،5/659)اس کے علاوہ مسند احمد، السنن الکبری ،شعب الایمان وغیرہ کتب حدیث میں یہ دعا موجود ہے لیکن من کا لفظ نہیں ہے جب کہ بعض کتب حدیث میں یہ لفظ موجود ہے جیسے کنز العمال میں ہے : كان إذا فرغ من طعامه قال: الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمين.(کنز العمال ،7/104)اس لیےدونوں طرح درست ہے ۔

جہاں تک قائل لفظ کا تعلق ہے یعنی زید کہتا ہے کہ میں اس کا قائل نہیں ہوں ا س کا مطلب ہے میں یہ لفظ ادا نہیں کرتا اس لیے کہ یہ روایت میں نہیں ہے، باقی قائل کا کوئی اصطلاحی مفہوم نہیں ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

Ref. No. 2306/44-3453

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خزیمہ مذکر اور کبشہ مونث کے لئے استعمال ہوتاہے۔ خزیمہ صحابی کا نام ہے، اور کبشہ تقریبا سترہ صحابیات کا نام ہے،اگرچہ کبشہ کے معنی کف گیرکےہیں۔صحابہ وصحابیات کے ناموںپر نام رکھناباعث برکت و فضیلت  ہے اور اس نیت سے نام رکھنے میں معانی کو نہیں دیکھاجاتا، اس لئے یہ نام رکھ سکتے ہیں۔

والکبشۃ المغرفۃ –معرب کفجہ و فی الصحابۃ سبع عشرۃامرئۃ اسمھن کبشۃ ۔ وکبشۃ بنت کعب بنمالکتابعیۃ وھی امراۃ  ابن قتادۃ۔ (تاج العروس من جواہر القاموس ج17 ص350 ، دارالھدایۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی تھی؟ یہ بات تاریخ میں کسی جگہ وضاحت کے ساتھ نہیں ملتی، صرف اتنا ملتا ہے کہ اس وقت بہتر افراد شہید ہوئے تھے، ان تمام کو شہادت کے ایک دن بعد قریب کے گاؤں والوں نے دفن کیا تھا۔ (۲)

(۲) فقتل من أصحاب الحسین رضي اللّٰہ عنہ إثنان وسبعون رجلاً ودفن الحسین وأصحابہ أہل الغاضریۃ من بني أسد بعد ما قتلوا بیوم۔ (أبو الفداء ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ: ج ۸، ص: ۱۸۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص237

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نو شادیاں کیں، ایک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے باقی آٹھ شادیاں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعد کیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے کتنے سال بعد کیں، یہ وضاحت نہیں مل سکی۔ حضرت علی کی بیویاں! حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ام البنین بنت حرام رضی اللہ عنہا لیلی بنت مسعود رضی اللہ عنہا اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ام حبیبہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا ام سعید بنت عروہ ابن مسعود رضی اللہ عنہا محیاۃ بنت امرأ القیس رضی اللہ عنہا امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہا خولہ بنت جعفر رضی اللہ عنہا (۱) (۱) أبو الفداء ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ: ج ۷، ص: ۳۳۲۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص238

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل کے تین سال بعد ۵۷۴ء میں ہوئی۔(۱)
(۲) جس سال ابرہہ بادشاہ نے بیت اللہ پر حملہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ابابیل پرندوں کے ذریعہ اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اس واقعہ کے تیرہ سال کے بعد ۵۸۴ عیسوی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی اور آپ نے بعمر ۲۷؍ سال اسلام قبول کیا۔(۲)
(۳) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یکم محرم الحرام ۲۴ھ کو خلیفہ منتخب ہوئے۔ اور آپ کو اسود تجیی نے ۳۵ھ بروز جمعہ کو شہید کیا، حضرت حکیم بن حزام نے نماز جنازہ پڑھائی، ہفتہ کی شب میں جنت البقیع میں دفن کئے گئے، آپ کی کل عمر ۸۲ سال ہوئی۔ (۳)

(۱) أبو الحسن علی بن أبي الکرم، الکامل في التاریخ: ج۲، ص: ۴۱۹۔
 (۲) جلال الدین السیوطي، تاریخ الخلفاء: ص: ۱۰۹۔
(۳) بدر الدین العیني، عمدۃ القاري: ج۳، ص: ۵۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص239

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’عن عبداللّٰہ بن بریدۃ عن أبیہ قال خطب أبوبکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما فاطمۃ رضي اللّٰہ عنہا، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنہا صغیرۃ ثم فخطبہا علي فزوجہا منہ‘‘(۱)
حدیث کے الفاظ اور عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام دیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح ان سے کرا دیا، اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ مجلس میں نہ ہوتے، تو قبول کون کرتا وہ مجلس میں موجود تھے اور قبول انہوں نے ہی کیا تھا، اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔(۲)

(۱) مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب مناقب علي رضي اللّٰہ عنہ، الفصل الثالث‘‘: ج۲، ص: ۵۶۵، رقم: ۶۱۰۴۔
(۲) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب النکاح: باب تزوج المرأۃ مثلہا‘‘: ج۲، ص: ۵۸، رقم: ۳۲۲۱۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص240

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تھا، یہ آپ سے کس نے کہہ دیا، یا آپ نے کہاں دیکھ لیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تھا، یہ غلط ہے۔(۱) (۱) حیاۃ الحیوان میں لکھا ہے کہ: جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے، تو لوگ …حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ ہمارے علم کے مطابق آپ سے زیادہ کوئی خلافت کا مستحق نہیں ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انکار کیا، لیکن جب لوگوں کا اصرار ہوا، تو انہوں نے کہا کہ میں گھر میں خفیہ بیعت نہیں کر سکتا؛ چنانچہ لوگ مسجد میں جمع ہو گئے اور تمام مہاجرین وانصار آپ کی بیعت پر متفق ہو گئے۔ (حیاۃ الحیوان اردو: ج ۱، ص: ۲۰۱؛ تاریخ الخلفاء اردو: ص: ۲۱۹) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص241