Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) احادیث مبارکہ میں ستر کا عدد میری نگاہ سے نہیں گزرا، ہاں حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کل رحمت کا ایک حصہ مخلوق میں تقسیم کیا اور ننانوے حصے اپنے پاس رکھے، مخلوق جو ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے، وہ اسی ایک حصے کی وجہ سے ہے، یہاں تک کہ گھوڑا جو اپنے بچے کو تکلیف پہنچنے کے ڈر سے اس کے اوپر سے اپنا کھر اٹھائے وہ بھی اسی ایک حصے سے ہے۔
’’جعل اللّٰہ الرّحمۃ مائۃ جزء، فأمسک عندہ تسعۃ وتسعین جزأً، وأنزل في الأرض جزئا واحدا، فمن ذلک الجزء یتراحم الخلق، حتی ترفع الفرس حافرہا عن ولدہا، خشیۃ أن تصیبہ‘‘(۱)
اسی طرح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جتنا ایک عورت اپنے بچے پر مہربان ہوتی ہے اس سے زیادہ اللہ اپنے بندے پرمہربان ہوتاہے؛ چنانچہ روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے، قیدیوں میں ایک عورت بھی تھی، جس کا پستان دودھ سے بھرا ہوا تھا اور وہ دوڑ رہی تھی، اتنے میں ایک بچہ ا سکو قیدیوں میں ملا، اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگایا اور اس کو دودھ پلانے لگی، ہم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ کیا تم خیال کرسکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میںڈال سکتی ہے؟ ہم نے عرض کیا: کہ نہیں، جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے، جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے۔
’’عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ: قدم علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم سبي، فإذا امرأۃ من السبي قد تحلب ثدیہا تسقي، إذا وجدت صبیا في السبي أخذتہ، فألصقتہ ببطنہا وأرضعتہ، فقال لنا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أترون ہذہ طارحۃ ولدہا في النار قلنا: لا، وہي تقدر علی أن لا تطرحہ، فقال: اللّٰہ أرحم بعبادہ من ہذہ بولدہا‘‘(۱)
(۲) ناخن کاٹنے کا کوئی طریقہ احادیث سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے بعض حضرات کی رائے ہے کہ جس طرح مناسب سمجھے ناخن کاٹ سکتا ہے؛ البتہ امام غزالی نے اسی طرح فتاوی عالمگیری میں اور ملا علی قاری نے مرقات شرح مشکوٰۃ میں ایک مستحب طریقہ لکھا ہے، وہ یہ کہ پہلے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کرے، پھر وسطی پھر بنصر اور خنصر کو کاٹے، اس کے بعد بائیں ہاتھ میں چھوٹی انگلی سے کاٹتا ہوا آئے اور موٹی انگلی پر ختم کرے، اس کے بعد داہنے ہاتھ کی موٹی انگلی کے ناخن کو کاٹے، اس طرح ابتداء اور انتہاء دونوں داہنے سے ہوجائے گی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے پہلے داہنے ہاتھ کے مکمل ناخون مکمل کاٹ لے، پھر بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے کاٹے، پاؤں میں بھی اسی دوسری ترتیب کو ملحوظ رکھے۔
’’وفي شرح الغزاویۃ روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بدأ بمسبحتہ الیمنی إلی الخنصر ثم بخنصر الیسری إلی الإبہام وختم بإبہام الیمنیٰ وذکر لہ الغزالي في الإحیاء وجہا وجیہا ولم یثبت في أصابع الرجل نقل، والأولی تقلیمہا کتخلیلہا۔ قلت: وفي المواہب اللدنیۃ قال الحافظ ابن حجر: إنہ یستحب کیفما احتاج إلیہ ولم یثبت في کیفیتہ شیء۔ وفي الشامي۔ وفي شرح الغزاویۃ روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بدأ بمسبحتہ الیمنی إلی الخنصر ثم بخنصر الیسری إلی الإبہام وختم بإبہام الیمنی وذکر لہ الغزالي في الإحیاء وجہا وجیہا ولم یثبت في أصابع الرجل نقل، والأولی تقلیمہا کتخلیلہا۔ قلت: وفي المواہب اللدنیۃ قال الحافظ ابن حجر: إنہ یستحب کیفما احتاج إلیہ ولم یثبت في کیفیتہ شيء‘‘ (۱)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب جعل اللّٰہ الرحمۃ مأۃ جزء‘‘: ج ۲، ص: ۸۸۹، رقم: ۶۰۰۰۔
(۱) ’’أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الأدب، ج ۲، ص:۸۸۹، رقم: ۵۹۹۹۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۳۰۶۔
(۲) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص93
حدیث و سنت
Ref. No. 1495/43-1048
الجواب وباللہ التوفیق
ذکر کردہ سوال میں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا واقعہ جو نبی پاک صلی اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا گیا ہے تتبع اور تلاش کے باوجود حدیث کی معتبر کتابوں میں حتی کہ موضوع احادیث پر لکھی ہوئی کسی کتاب میں بھی یہ مجھے نہیں مل سکا؛ اس لئے اس طرح کے من گھڑت واقعہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کرنے سے اجتناب کریں۔
بخاری شریف کی روایت ہے: ’’من تعمد علی کذباً، فلیتبوأ مقعدہ من النار، وأیضاً: من یقل علی مالم أقل فلیتبوأ مقعدہ من النار‘‘ (أخرجہ البخاری، فی صحیحہ: ج ۱، ص: ۳۳، رقم: ۱۰۸، و ۱۰۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے، دوسری روایت کا مفہوم ہے جو میری طرف ایسی بات کی نسبت کرے جو میں نے نہیں کہی اس کو چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔
ان دونوں روایتوں سے یہ صاف ہو جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بات منسوب کرنا یعنی جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہی ہے اس کے بارے میں کہنا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، سخت گناہ ہے، اس سے بچنا ضروری ہے؛ نیز ترغیب وترہیب کی نیت ہو یا کسی اور وجہ سے اس طرح کی بے سند باتوں کو بیان کرنا جس کی کوئی اصل نہ ہو، شریعت مطہرہ میں جائز نہیں ہے، آئندہ اس کا خاص خیال رکھا جائے۔فقط
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سنت کی دو قسمیں ہیں، موکدہ اور غیر موکدہ، اول کے اصرار کے ساتھ ترک پر گناہ ہے اور دوسرے پر نہیں(۲)۔ اگرچہ غیرموکدہ میں بھی اتباع سنت ہی میں خیر ہے اور اسی کو اپنانا چاہئے۔
(۲) السنۃ سنتان: سنۃ أخذہا ہدی وترکہا ضلالۃ: وسنۃ أخذہا حسن وترکہا لا بأس بہ۔ (السرخسي، أصول السرخسي: ج۱، ص: ۴۱۱)… وذکر في المبسوط قال مکحول: السنۃ سنتان: سنۃ أخذہا ہدی وترکہا ضلالۃ، وسنۃ أخذہا حسن وترکہا لا بأس بہ، السنن التی لم یواظب علیہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذہا ہدی وترکھا ضلالۃ کالأذان والإقامۃ وصلاۃ العید۔ (البزدوي، کشف الأسرار شرح أصول البزدوي، ’’أقسام العزیمۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۱۰)
فتاوی دارلعلوم وقف دیوبند ج2ص95
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ روایت سنن ابن ماجہ میں ہے اور سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔ البتہ اس سلسلے میں زیادہ صحیح روایت یہ ہے کہ مسجد نبوی میں نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’صلاۃ في مسجدي ہذا أفضل من ألف صلاۃ في غیرہ من المساجد إلا المسجد الحرام، وإسنادہ علی شرط الشیخین‘‘(۱)
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إمامۃ الصلاۃ: باب ماجاء في الصلوۃ في المسجد الجامع‘‘: ص: ۱۰۲، رقم: ۱۴۱۳)
ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۶، رقم: ۶۹۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص96
حدیث و سنت
Ref. No. 2381/44-3606
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حضرت عبداللہ ابن مسعود کبار صحابہ اور فقہاء صحابہ میں سے ہیں، اور ان کی فضیلت میں بہت سی باتیں احادیث میں منقول ہیں، نبی کریم ﷺ کے بہت قریبی اور پسندیدہ ساتھیوں میں ان کا شمار ہے ۔ سوال میں مذکور بات حدیث کی کتابوں میں موجود ہے :
وعن علي رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لو كنت مؤمرا من غير مشورة لأمرت عليهم ابن أم عبد رواه الترمذي وابن ماجه۔ (مشکوٰۃ المصابیح - 6220)
حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا ابي، عن سفيان الثوري، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو كنت مؤمرا احدا من غير مشورة لامرت ابن ام عبد ".(سنن الترمذی، باب مَنَاقِبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضى الله عنه، رقم الحدیث 3809)
عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لو كنت مستخلفا أحدا عن غير مشورة لاستخلفت ابن أم عبد (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 137)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ روایت ضعیف ہے، تا ہم فضائل میں قابل عمل ہے۔(۱)
(۱) قال عبد الرحمن المہدي إذا روینا عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الحلال والحرام والأحکام شددنا في الأسانید وانتقدنا في الرجال، وإذا روینا في الفضائل والثواب والعقاب سہلنا في الأسانید وتسامحنا في الرجال۔ (شبیر أحمد العثماني، مقدمہ فتح الملہم: ج۱، ص: ۸)
یجوز عند أہل الحدیث وغیرہم التساہل في الأسانید وروایۃ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ من غیر بیان ضعفہ من غیر صفات اللّٰہ تعالیٰ والأحکام کالحلال والحرام، ومما لا تعلق لہ بالعقائد والأحکام۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر السیوطي، تدریب الراوي في شرح تقریب النووي، ’’شروط العمل بالأحادیث الضعیفۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۰)
وأما الاحتجاج بالضعیف غیر الموضوع، فیجب أن یعلم أنہ لا یعمل بہ في الأحکام والعقائد علی القول الصحیح الذي علیہ جمہور أہل العلم والاحتجاج بہ في المواعظ والقصص وفضائل الأعمال وسائر فنون الترغیب والترہیب، فقد اختلف العلماء فیہ علی ثلاثۃ أقوال: القول الأول أنہ یعمل بہ مطلقاً وإلی ہذا ذہب جمہور العلماء۔ (الشیخ عبد الحق المحدث، کشف المغیث في شرح مقدمۃ الحدیث: ص: ۳۵۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص97
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور غریب کہا ہے، اسی طرح حاکم اور ذہبی نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ امام نووی نے اذکار میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔(۱)
(۱) أبو الحسن عبید اللّٰہ المبارکفوري، مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح: ج ۷، ص: ۳۴۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص98
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث میں چودہ ہزار سال کا تذکرہ ہے۔ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’نشرالطیب‘‘ میں بھی چودہ ہزار سال کا ہی تذکرہ ہے۔ حدیث احکام ابن القطان کے حوالے سے متعدد کتابوں میں مذکور ہے۔ عجلونی کی ’’کشف الخفا‘‘ میں اسی طرح ’’سیرت حلبیہ، شرح الزرقانی علی المواہب‘‘ اشرف المصطفیٰ وغیرہ کتب میں یہ حدیث مذکور ہے، تاہم حدیث کی اسنادی حیثیت پر کہیں کوئی کلام نہیں ملا۔
’’کنت نورا بین یدي ربي عزوجل قبل أن یخلق بأربعۃ عشر ألف عام نقلہ العجلوني في الخفاء عن العلقمي عن علي بن الحسین عن أبیہ عن جدہ مرفوعا في ھذا الإسناد علی وابنہ صحابیان وسبطہ علی بن الحسین الملقب بزین العابدین تابعي و أوردہ القسطلاني في باب أول المخلوقات عن مرزوق عن علی بن الحسین عن أبیہ عن جدہ‘‘(۱)
(۱) عبد الرشید بن ابرہیم، فرحۃ اللبیب بتخریج أحادیث نشرالطیب، ص:۶۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص98
حدیث و سنت
Ref. No. 2201/44-2326
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں شمائل کبریٰ مؤلفہ مولانا مفتی محمد ارشاد صاحب بہت مفید کتاب ہے، اس میں زندگی کے ہر پہلو کی سنتوں کو مدلل انداز میں بیان کیاگیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 39 / 872
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری، ہوسکتا ہے کسی بزرگ کا قول ہو اور انھوں نے کسی خاص پس منظر میں کہا ہو؛ البتہ کار ثواب ہے ، دین کی فکر میں لگے رہنا محبوب عمل ہے ان شاء اللہ اس پر ثواب مرتب ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند