حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ روایت ضعیف ہے، تا ہم فضائل میں قابل عمل ہے۔(۱)

 (۱) قال عبد الرحمن المہدي إذا روینا عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الحلال والحرام والأحکام شددنا في الأسانید وانتقدنا في الرجال، وإذا روینا في الفضائل والثواب والعقاب سہلنا في الأسانید وتسامحنا في الرجال۔ (شبیر أحمد العثماني، مقدمہ فتح الملہم: ج۱، ص: ۸)
یجوز عند أہل الحدیث وغیرہم التساہل في الأسانید وروایۃ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ من غیر بیان ضعفہ من غیر صفات اللّٰہ تعالیٰ والأحکام کالحلال والحرام، ومما لا تعلق لہ بالعقائد والأحکام۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر السیوطي، تدریب الراوي في شرح تقریب النووي، ’’شروط العمل بالأحادیث الضعیفۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۰)
وأما الاحتجاج بالضعیف غیر الموضوع، فیجب أن یعلم أنہ لا یعمل بہ في الأحکام والعقائد علی القول الصحیح الذي علیہ جمہور أہل العلم والاحتجاج بہ في المواعظ والقصص وفضائل الأعمال وسائر فنون الترغیب والترہیب، فقد اختلف العلماء فیہ علی ثلاثۃ أقوال: القول الأول أنہ یعمل بہ مطلقاً وإلی ہذا ذہب جمہور العلماء۔ (الشیخ عبد الحق المحدث، کشف المغیث في شرح مقدمۃ الحدیث: ص: ۳۵۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص97

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور غریب کہا ہے، اسی طرح حاکم اور ذہبی نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ امام نووی نے اذکار میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔(۱)

(۱) أبو الحسن عبید اللّٰہ المبارکفوري، مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح: ج ۷، ص: ۳۴۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص98

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث میں چودہ ہزار سال کا تذکرہ ہے۔ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’نشرالطیب‘‘ میں بھی چودہ ہزار سال کا ہی تذکرہ ہے۔ حدیث احکام ابن القطان کے حوالے سے متعدد کتابوں میں مذکور ہے۔ عجلونی کی ’’کشف الخفا‘‘ میں اسی طرح ’’سیرت حلبیہ، شرح الزرقانی علی المواہب‘‘ اشرف المصطفیٰ وغیرہ کتب میں یہ حدیث مذکور ہے، تاہم حدیث کی اسنادی حیثیت پر کہیں کوئی کلام نہیں ملا۔
’’کنت نورا بین یدي ربي عزوجل قبل أن یخلق بأربعۃ عشر ألف عام نقلہ العجلوني في الخفاء عن العلقمي عن علي بن الحسین عن أبیہ عن جدہ مرفوعا في ھذا الإسناد علی وابنہ صحابیان وسبطہ علی بن الحسین الملقب بزین العابدین  تابعي و أوردہ القسطلاني في باب أول المخلوقات عن مرزوق عن علی بن الحسین عن أبیہ عن جدہ‘‘(۱)

(۱) عبد الرشید بن ابرہیم، فرحۃ اللبیب بتخریج أحادیث نشرالطیب، ص:۶۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص98

حدیث و سنت

Ref. No. 2201/44-2326

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس سلسلہ میں شمائل کبریٰ مؤلفہ مولانا مفتی محمد ارشاد صاحب بہت مفید کتاب ہے، اس میں زندگی کے ہر پہلو کی سنتوں کو مدلل انداز میں بیان کیاگیا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

Ref. No. 39 / 872

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری، ہوسکتا ہے کسی بزرگ کا قول ہو اور انھوں نے کسی خاص پس منظر میں کہا ہو؛  البتہ کار ثواب ہے ، دین کی فکر میں لگے رہنا محبوب عمل ہے ان شاء اللہ اس پر ثواب مرتب ہوگا۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قادیانیوں کے عقائد کفریہ کی بناء پر ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اگر پڑھ لی تو اعادہ لازم ہے۔(۱)

(۱) دعوی النبوۃ بعد نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کفر بالإجماع۔ (أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر، مطلب یجب معرفۃ المکفرات: ص: ۱۶۴)
ومن أدعی النبوۃ أو صدق من ادعاہا فقد ارتد۔ (المغني إبن قدامۃ: ج ۱۰، ص: ۱۰۳)
قال المرغیناني تجوز الصلوٰۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن … ومن أنکر المعراج ینظر أن أنکر الإسراء من مکۃ إلی بیت المقدس فہو کافر۔ (جماعۃ من علماء الہند: الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الخامس: في الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص294

حدیث و سنت

Ref. No. 1376/42-789

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  1۔عورتوں کے لئے لمبے بال رکھنا باعث زینت ہے، اور بلا ضرورت ان کو کاٹنا سخت منع ہے۔ تاہم اگر بال اس قدر لمبے ہوں کہ کمر سے نیچے  جارہے ہوں  اور بھدے معلوم ہوں ، تو کمر سے نیچے کے بالوں کو بقدر ضرورت  عورت کاٹ سکتی  ہے۔ 2۔  رات کو دھونا ضروری نہیں بلکہ صبح بھی دھوسکتے ہیں۔  3۔ ضرورت کس درجہ کی ہے، اس کی وضاحت ضروری ہے۔ اگر ضرورت زندگی کی بقاء سے متعلق ہے تو اس کی گنجائش ہوگی۔ 4۔ ایسی کوئی حدیث میری نظر سے نہیں گذری تاہم فتاوی کی کتابوں میں یہی مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ مسجد کے درختوں پر جو پھل آئیں  اس کو بیچ کر مسجد میں لگانا چاہئے۔

قال في الدر المختار نقلاً عن المجتي قطعت شعر رأسہا أثمت زاد في البزازیة وإن یأذن الزوج لأنہ لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق (الدر مع الرد: 5/288) غرس الاشجار في لا بأس بہ إذا کان فیہ نفع للمسجد، وإذا غرس شجراً في المسجد فالشجر للمسجد (الھندیۃ 2/477)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

Ref. No. 2070/44-2071

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نبی کریم ﷺ کی جانب کسی واقعہ کی نسبت کسی مستند کتاب کے حوالہ سے ہونی ضروری ہے، اور مذکورہ واقعہ کسی مستند کتاب میں موجود نہیں ہے اس لئے اس کو بیان کرنے سے احتراز کرنا ضروری ہے،۔ نبی کریم ﷺ کے اعلی اخلاق بیان کرنے کے لئے مستند واقعات کثیر تعداد میں ہیں ان کو ہی بیان کرنا چاہئے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

Ref. No. 2069/44-2072

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ واقعہ غلط ہے، محدثین نے اس کو موضوع اور باطل قرار دیا ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

Ref. No. 1974/44-1917

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  اس کے گھروالے، رشتہ دار، دوست واحباب اور متعلقین واپس آجاتے ہیں، اسی طرح اس کا مال یعنی اس کے غلام، خادم اور مملوک ، میت کی چارپائی، چادر ، کفن دفن وغسل کا خرچ  وغیرہ ساتھ جاتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں۔نیز زمانہ جاہلیت میں عربوں کی عادت تھی کہ وہ میت کے ساتھ جانوروں وغیرہ کو بھی ساتھ لے جاتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ پھر یہ سب واپس آجاتے تھے،  اورانسان اپنے عمل کے ساتھ قبر کے حوالہ ہوجاتاہے۔ اس طرح دو چیزیں واپس آگئیں اور  صرف اس کا عمل  اس کے ساتھ قبر میں  رہ گیا۔  اگر نیک عمل ہوا تو نیک عمل ساتھ رہتا ہے اور اگر برا عمل ہوا تو برا عمل ساتھ رہے گا۔

حدثنا الحميدى حدثنا سفيان حدثنا عبد الله بن أبى بكر بن عمرو بن حزم سمع أنس بن مالك يقول قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «يتبع الميت ثلاثة، فيرجع اثنان ويبقى معه واحد، يتبعه أهله وماله وعمله، فيرجع أهله وماله، ويبقى عمله». (فیض الباری، باب نفخ الصور 6/276)

قوله يتبعه أهله وماله وعمله هذا يقع في الأغلب ورب ميت لا يتبعه إلا عمله فقط والمراد من يتبع جنازته من أهله ورفقته ودوابه على ما جرت به عادة العرب وإذا انقضى أمر الحزن عليه رجعوا سواء أقاموا بعد الدفن أم لا.  (فتح الباری لابن حجر، باب سکرات الموت 11/365)

وهذا يقع في الأغلب، ورب ميت لا يتبعه إلا عمله فقط. قوله: (وماله) مثل رقيقه ودوابه على ما جرت به عادة العرب.  (عمدۃ القاری، باب سکرات الموت 23/97)

- (وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يتبع الميت) أي: إلى قبره (ثلاثة) أي: من أنواع الأشياء (فيرجع اثنان) أي: إلى مكانهما ويتركانه وحده (ويبقى معه واحد) أي: لا ينفك عنه (يتبعه أهله) أي: أولاده وأقاربه وأهل صحبته ومعرفته (وماله) : كالعبيد والإماء والدابة والخيمة ونحوها. قال المظهر: أراد بعض ماله وهو مماليكه. وقال الطيبي رحمه الله: اتباع الأهل على الحقيقة واتباع المال على الاتساع، فإن المال حينئذ له نوع تعلق بالميت من التجهيز والتكفين ومؤنة الغسل والحمل والدفن، فإذا دفن انقطع تعلقه بالكلية (وعمله) أي: من الصلاة وغيره. (فيرجع أهله وماله) أي: كما تشاهد حاله ومآله (ويبقى) أي: معه (عمله) أي: ما يترتب عليه من ثواب وعقاب، ولذا قيل: القبر صندوق العمل، وفي الحديث: " «القبر روضة من رياض الجنة أو حفرة من حفر النيران» " (متفق عليه) . (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الرقاق 8/3235)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند