حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت الحارث نے ایک بکری کے گوشت میں زہر ملاکر غزوہ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گوشت پیش کیا  تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے اٹھا کر کچھ گوشت منہ میں ڈالا، مگر معلوم ہوگیا، بعض روایات سے معلوم ہوا کہ گوشت نے کہہ دیا کہ میرے اندر زہر ملا ہوا ہے،(۱) تو آپ نے اس کو تھوک دیا، اس واقعہ کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا۔(۲)

(۱) کان جابر بن عبد اللّٰہ یحدث أن یہودیۃ من أہل خیبر سمت شاۃ مصلیۃ، ثم أہدتہا لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الذراع فأکل منہا وأکل رہط من أصحابہ معہ، ثم قال لہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ارفعوا أیدیکم وأرسل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی الیہودیۃ فدعاہا، فقال لہا: أسممت ہذہ الشاۃ قالت الیہودیۃ: من أخبرک قال: أخبرتني ہذہ في یدي للذراع، قالت: نعم، قال: فما أردت إلی ذلک قالت: قلت: إن کان نبیا فلن یضرہ وإن لم یکن نبیا استرحنا منہ، فعفا عنہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولم یعاقبہا وتوفي بعض أصحابہ الذین أکلوا من الشاۃ، واحتجم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی کاہلہ من أجل الذي أکل من الشاۃ حجمہ أبو ہند بالقرن والشفرۃ وہو مولی لبني بیاضۃ من الأنصار۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’أول کتاب الدیات، باب في من سقی رجلاً سماء‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۰رقم: ۴۵۱۰)
(
۲) أبوالبرکات عبد الرؤف، أصح السیر: ص: ۲۷۴۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص196

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:چند خصوصیات ذکر کی گئی ہیں:
(۱) بوقت پیدائش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر نجاست وگندگی سے بالکل پاک صاف تھا۔
(۲) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ کی حالت میں انگشت شہادت کا آسمان کی جانب اٹھائے ہوئے ہونا۔
(۳) ولادت کے وقت آپ کی والدہ محترمہ کا ایسے نور کو دیکھنا جس کی روشنی سے کسریٰ کے محلات نظر آگئے۔(۱)
(۴) گہوارے میں فرشتوں کا جھونکا دینا۔(۲)
(۵) گہوارے میں کلام کرنا(۳) جب کہ یہ دوسرے انبیاء کی بھی خصوصیت ہے، حضرت تھانوی قدس سرہ نے بیالیس خصوصیات تحریر فرمائی ہیں، تفصیل کے لئے دیکھئے۔ ’’نشرالطیب: ص: ۱۸۴‘‘۔

(۱) إن آمنۃ بنت وہب قالت: لما فصل مني تعني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج معہ نور أضاء لہ ما بین المشرق والمغرب، ثم وقع إلی الأرض معتمداً علی یدیہ، ثم أخذ قبضۃ من التراب فقبضہا ورفع رأسہ إلی السماء۔ (القسطلاني: ج ۱، ص: ۱۲۷؛ فرحۃ اللبیب: ص: ۱۰۹)
ورأیت حین حملت بہ أنہ خرج منہا نور رأت بہ قصور بصری من أرض الشام۔ (سیرۃ نبویہ لابن ہشام: ص: ۱۴۶؛ فرحۃ اللبیب: ص: ۱۱۲)
(۲) وذکر ابن سبع في الخصائص أن مہدہ کان یتحرک بتحریک الملائکۃ وإن کلاماً تعلم بہ أن قال: اللّٰہ أکبر کبیراً والحمد للّٰہ کثیرا۔ (السیوطي،  خصائص الحبیب؛ وفرحۃ اللبیب: ص: ۱۲۳)
(۳) أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم تکلم أوائل ما ولد۔ فتح الباري لابن حجر۔ (فرحۃ اللبیب: ص: ۱۱۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص197

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی یہ حدیث بخاری وغیرہ متعدد کتب حدیث میں ہے ’’إن اللّٰہ خلق آدم علی صورتہ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے یہاں ’’ہ‘‘ ضمیر بعض لوگوں کے نزدیک خود حضرت آدم علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہے، یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو، ان کو اپنی صورت کا بنایا ہے؛ لیکن صحیح یہ ہے کہ ’’ہ‘‘ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ رہی ہے؛ اس لیے کہ ایک روایت میں صورۃ الرحمن بھی ہے۔(۲)
اور صورت سے مراد صفت ہے، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صفت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔(۱)

(۲) عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خلق اللّٰہ آدم علی صورتہ، طولہ ستون ذراعا، فلما خلقہ قال إذہب فسلم علی أولئک النفر من الملائکۃ جلوس، فاستمع ما یحیونک،  فإنہا تحیتک وتحیۃ ذریتک۔ فقال: السلام علیکم۔ فقالوا: السلام علیک ورحمۃ اللّٰہ۔ فزادوہ ورحمۃ اللّٰہ، فکل من یدخل الجنۃ علی صورۃ آدم، فلم یزل الخلق ینقص بعد حتی الآن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإستیذان: باب بدء السلام‘‘: ج ۲، ص: ۹۱۹، رقم: ۱۳۲۸)
 قولہ: (خلق اللّٰہ آدم علی صورتہ)، والصواب أن الضمیر راجع إلی اللّٰہ تعالی لما في بعض الطرق: (علی صورۃ الرحمن) وإذن أشکل شرحہ۔ فقال القاضي أبو بکر بن العربي: إن المراد من الصورۃ الصفۃ، والمعنی: أن اللّٰہ تعالی خلق آدم علی صفاتہ۔ وتفصیلہ أنہ وضع في بني آدم أنموذا من الصفات الإلہیۃ، ولیس من الکائنات أحد من یکون مظہرا کاملا لتلک الصفات، إلا ہو۔ ألا تری أن صفۃ العلم التی ہي من أخص الصفات لا توجد إلا في الإنسان؟ فإن سائر الحیوانات لیس فیہا إلا قوۃ مخیلۃ۔
وقیل: الغرض من إسناد الصورۃ إلی نفسہ، مجرد التشریف والتکریم، علی ما ینطق بہ النص: {لقد خلقنا الإنسان في أحسن تقویم} (سورۃ التین: ۴) ولیس المراد منہ: أن للّٰہ تعالی أیضا صورۃ۔ … (علامہ أنور شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’کتاب الاستیذان، باب بدء السلام‘‘: ج ۶، ص: ۱۸۷، رقم: ۶۲۲۷)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الاستیذان: باب بدء الإسلام ج۲، ص:۲۱۹، رقم: ۱۳۲۸

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص99

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مصنف عبد الرزاق کے حوالہ سے یہ حدیث لکھی ہے، مگر مصنف عبد الزاق میں موجود نہیں ہے، اس لیے علماء نے اس کو موضوع قرار دیا ہے۔(۱)
’’ومنہا ما ذکرہ العجلوني في کشف الخفا (ج ۱، ص: ۲۶۵)، قال: روي عبد الرزاق بسندہ عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: قلت: یا رسول اللّٰہ بأبي أنت وأمي أخبرني عن أول شيء خلقہ اللّٰہ قبل الأشیاء؟ قال: یا جابر إن اللّٰہ تعالیٰ خلق قبل الأشیاء نور نبیک من نورہ فجعل ذلک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء، ولم یکن في ذلک الوقت لوح ولا قلم ولا جنۃ ولا نار ولا ملک ... الحدیث بطولہ۔ وہذا لم نقف علیہ في المطبوع من المصنف للحافظ عبد الرزاق‘‘(۲)

(۱) وفي الدر أیضا عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ یقول إن أول شیء خلق اللّٰہ القلم ثم النون الخ …… أخرجہ الحکیم الترمذي ہذا وروي أن أول ما خلق اللّٰہ العقل وأن أول ما خلق اللّٰہ نوري وأن أول ما خلق اللّٰہ روحي وأن أول ما خلق اللّٰہ العرش والأولیۃ من الأمور الإضافیۃ، فیؤول أن کل واحد مما ذکر خلق قبل ما ہو من جنسہ، فالقلم خلق قبل جنس الأقلام، ونورہ قبل الأنوار وإلا فقد ثبت أن العرش قبل خلق السموات والأرض فتطلق الأولیۃ علی کل واحد بشرط التقیید، فیقال: أول المعاني کذا وأول الأنوار کذا، ومنہ قولہ: أول ما خلق اللّٰہ نوري وفي روایۃ روحي ومعناہما واحد فإن الأرواح نورانیۃ أي أول ما خلق اللّٰہ من الأرواح روحي، رواہ الترمذي وقال ہذا حدیث غریب إسنادا أي لا متنا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷، رقم: ۹۴)
(۲) أبوسعید عبدالملک، شرف المصطفی: ج ۱، ص: ۳۰۷؛ و نور الدین برھان الحلبي، السیرۃ الحلبیۃ:ج ۱، ص: ۲۱۴؛ و إسماعیل بن محمد، کشف الخفاء حرف الھمزہ مع الھاء: ج ۱، ص: ۳۰۲۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص101

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ روایت کو امام احمد (حدیث نمبر: ۲۲۳۴۲)، امام طبرانی (حدیث نمبر: ۷۸۷۱) نے نقل کیا ہے۔ علامہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کے رواۃ صحیح ہیں۔ اور امام حاکم نے علی شرط مسلم اس روایت کو صحیح قرار دیاہے۔(۱)

(۱) وفي روایۃ عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال أبوذر رضي اللّٰہ عنہ: قلت: یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کم وفاء عدۃ الأنبیاء قال مأۃ ألف أربعۃ وعشرون ألفاً الرسل من ذلک ثلثمایۃ وخمسۃ عشر جما غفیراً۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب بدء الخلق وذکر الأنبیاء علیہم السلام، الفصل الثالث‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۱، رقم: ۵۷۳۷)
العدد في ہذا الحدیث وإن کان مجزوما بہ، لکنہ لیس بمقطوع، فیجب الإیمان بالأنبیاء والرسل مجملا من غیر حصر في عدد، لئلا یخرج أحد منہم، ولا یدخل أحد من غیرہم فیہم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفتن: باب بدء الخلق وذکر الأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۱۱، ص: ۴۳ رقم: ۵۷۳۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص102

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہ کی کتابوں میں ’’حي علی الصلوہ‘‘ پر کھڑے ہونے کو مستحب لکھا ہے، جس کا مطلب علامہ طحطاوی نے یہ لکھا ہے کہ ’’حي علی الصلوہ‘‘ پر ہر حال میں کھڑا ہو جانا چاہئے، اس سے تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے کھڑے ہونا درست نہیں ہے۔ امام صاحب کا ’’حي علی الصلوٰہ‘‘ پرکھڑے ہونے پر اصرار کرنا درست نہیں ہے۔ صفوں کو درست کرنا واجب ہے اور واجب پر عمل کرنا مستحب پر عمل کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ حضرات صحابہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں تشریف لاتے دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے، اور اسی وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ تکبیر شروع فرماتے تھے۔(۱) معلوم ہوا کہ ابتداء تکبیر میں کھڑا ہونا بھی درست ہے؛ بلکہ صفوں کی درستگی کے لئے یہی صورت بہتر ہے تاکہ اقامت کے ختم ہونے سے پہلے مکمل صف درست ہوجائے۔
’’عن أبي ھریرۃ  رضي اللّٰہ عنہ یقول أقیمت الصلوۃ قمنا فعدلنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللّٰہ‘‘(۲) اس حدیث کے ذیل میں علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہی ان کے نزدیک سنت ہے(۳) حضرت حافظ ابن حجر اپنی کتاب فتح الباری شرح بخاری میں ابن شہاب کی روایت نقل فرماتے ہیں، جس میں بالکل صریح ہے کہ وہ لوگ تکبیر کہتے ہی کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔
’’روي عبدالرزاق عن ابن جریج عن ابن شھاب أن الناس کانوا ساعۃ یقول المؤذن اللّٰہ أکبر یقومون إلی الصلاۃ فلا یأتي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقامہ حتی تعتدل الصفوف‘‘(۱)

(۱) أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب متی یقوم الناس للصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰)
(۲) فأتي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی إذا قام في مصلاہ قبل أن یکبر ذکر فانصرف وقال لنا مکانکم فلم نزل قیاماً ننظرہ حتی خرج إلینا وقد اغتسل ینطف رأسہ ماء فکبر فصلی بنا۔ (أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب متی یقوم الناس للصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰، رقم: ۱۵۷)
(۳) (قولہ فقمنا فعد لنا الصفوف) إشارۃ إلی أنہ ہذہ سنۃ معہودۃ عندہم۔ (النووي علی مسلم، ’’کتاب الصلاۃ: باب من أدرک رکعۃ من الصلاۃ فقد أدرک تلک الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۱)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن الصلوٰۃ کانت تقام لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیأخذ الناس مقامہم قبل أن یأخذ النبيصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب في الصلوٰۃ تقام ولم یأت الإمام ینظرونہ فعوداً‘‘: ج ۱، ص: ۸۰، رقم: ۵۴۱)  وعن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلوٰۃ: متفق علیہ إلا عن المسلم من تمام الصلوٰۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج ۱،ص: ۹۸، ۱۰۸۷)
(۱) ابن حجر العسقلاني،فتح الباري، ’’کتاب الصلاۃ: باب متی یقوم الناس إذا رأوا الإمام عند الإقامۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۲۰، رقم: ۶۳۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص103

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شرم وحیاء کے ذریعہ انسان کو خیر وبھلائی حاصل ہوتی ہے آدمی منکرات ولغویات سے بچا رہتا ہے؛ لیکن جب حیاء نہ رہے تو اس شخص سے خیر رخصت ہو جاتی ہے اور شر اپنا ٹھکانہ مضبوط کر لیتا ہے، حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ایک روایت نقل کی ہے: نبوت کے کلام سے لوگوں نے جو آخری بات پائی ہے وہ یہ ہے کہ ’’جب تجھے حیاء نہ رہے تو جو مرضی ہو کر‘‘۔
’’عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن مما أدرک الناس من کلام النبوۃ الأولیٰ إذا لم تستحي فاصنع ما شئت‘‘(۱)
الحاصل: مذکورہ عبارت جو عوام کے درمیان زبان زد ہے وہ کسی کا مقولہ نہیں؛ بلکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے؛اس لئے اس کو لوگوں کا مقولہ سمجھنا صحیح نہیں ہے۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب إذا لم تسحتي فاصنع ما شئت‘‘: ج ۲، ص: ۹۰۴، رقم: ۶۱۲۰۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص104

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد کانام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ تھا، دادا کا نام عبدالمطلب اور دادی کا نام فاطمہ بنت عمر تھا، نانا کا نام وہب اورنانی کا نام مبرہ بنت عبدالعُزیٰ تھا۔ (۱)

(۱) أبو البرکات، أصح السیر، ’’نسب رسول اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم‘‘: ص: ۷۷؍ یا ص: ۸۰)
سلسلۂ نسب یہ ہے محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب الخ۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، مصنفہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ؛ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ۔
وہب بن عبد مناف کی صاحبزادی جن کا آمنہ تھا۔ ج ۱، ص: ۱۰۸
۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص198

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ بات بلا تحقیق اور غلط ہے؛ بلکہ آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال مدینہ سے واپسی پر مقام ابواء میں ہوا، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ سال کی ہوئی تو مدینہ سے واپس آتے ہوئے مقام ابواء میں آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا۔(۱) اور وہیں مدفون ہوئیں ام ایمن رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں۔(۲) (۱) ابو البرکات عبد الرؤف، اصح السیر ،ص: ۲۸۔ (۲) سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ج ۱، ص: ۱۱۲؛ مصنفہ: علامہ سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ؛ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص198

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک میں فرمان الٰہی ہے {قل إنما أنا بشر مثلکم یوحی إلي}(۱) کہ اے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم! ان سے کہہ دیجئے کہ میں بھی تمہارے جیسا ایک انسان ہوں (فرق یہ ہے کہ) مجھ پر وحی آتی ہے۔ اس آیت سے نفی ہو رہی ہے اس کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا نور تھے، اگر سراپا نور تھے، تو پھر بول وبراز کے کیا معنی، حالانکہ عادت انسانی کے مطابق آپ کو بھی بول وبراز ہوتا تھا؛ البتہ بول وبراز کی پاکی ناپاکی کے بارے میں علماء متقدمین ومتاخرین نے بحث کی ہے یہ ان کا مقام ہے ہمیں اس پر توقف کرنا چاہیے، یہ مسئلہ مدار ایمان نہیں ہے۔ واعظوں کا مجامع میں اس مسئلہ کو بیان کرنا ہر گز مناسب نہیں ہے؛ اس لئے احتراز ضروری ہے، جس نے ایسا کیا غلطی کی اس کا اعادہ نہ ہونا چاہئے۔(۲)

(۱) سورۃ النساء: ۱۷۔
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: سئلت ما کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعمل في بیتہ قالت: کان بشراً من البشر یفلی ثوبہ ویحلب شاتہ ویخدم نفسہ۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ،  ’’حدیث عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا‘‘: ج ۷، ص: ۳۶۵؛ بحوالہ: کفایت المفتي: ج ۱، ص: ۳۷۶)
صح بعض أئمۃ الشافعیۃ طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسائر فضلاتہ وبہ قال أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: کما نقلہ في المواہب اللدنیۃ عن شرح البخاري للعیني وصرح بہ البیري في شرح الأشباہ وقال الحافظ ابن حجر تظافرت الأدلۃ علی ذلک وعد الأئمۃ ذلک من خصائصہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونقل بعضہم عن شرح المشکاۃ للملا علی القاري إنہ قال: اختارہ کثیر من أصحابنا واطال في تحقیقہ في شرحہ علی الشمائل في باب ما جاء في تعطرہ علیہ الصلوۃ والسلام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘‘‘ : ج ۱، ص: ۳۱۸)
روي إنہ قال حجمت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وشربت الدم من الحجمۃ وقلت یا رسول اللّٰہ شربتہ، فقال: ویحک یا سالم أما علمت أن الدم حرام لا تعد۔ (أبوالحسن علي بن محمد، أسد الغابۃ: ج ۲، ص: ۱۵۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص200