حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہ کی کتابوں میں ’’حي علی الصلوہ‘‘ پر کھڑے ہونے کو مستحب لکھا ہے، جس کا مطلب علامہ طحطاوی نے یہ لکھا ہے کہ ’’حي علی الصلوہ‘‘ پر ہر حال میں کھڑا ہو جانا چاہئے، اس سے تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے کھڑے ہونا درست نہیں ہے۔ امام صاحب کا ’’حي علی الصلوٰہ‘‘ پرکھڑے ہونے پر اصرار کرنا درست نہیں ہے۔ صفوں کو درست کرنا واجب ہے اور واجب پر عمل کرنا مستحب پر عمل کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ حضرات صحابہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں تشریف لاتے دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے، اور اسی وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ تکبیر شروع فرماتے تھے۔(۱) معلوم ہوا کہ ابتداء تکبیر میں کھڑا ہونا بھی درست ہے؛ بلکہ صفوں کی درستگی کے لئے یہی صورت بہتر ہے تاکہ اقامت کے ختم ہونے سے پہلے مکمل صف درست ہوجائے۔
’’عن أبي ھریرۃ  رضي اللّٰہ عنہ یقول أقیمت الصلوۃ قمنا فعدلنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللّٰہ‘‘(۲) اس حدیث کے ذیل میں علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہی ان کے نزدیک سنت ہے(۳) حضرت حافظ ابن حجر اپنی کتاب فتح الباری شرح بخاری میں ابن شہاب کی روایت نقل فرماتے ہیں، جس میں بالکل صریح ہے کہ وہ لوگ تکبیر کہتے ہی کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔
’’روي عبدالرزاق عن ابن جریج عن ابن شھاب أن الناس کانوا ساعۃ یقول المؤذن اللّٰہ أکبر یقومون إلی الصلاۃ فلا یأتي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقامہ حتی تعتدل الصفوف‘‘(۱)

(۱) أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب متی یقوم الناس للصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰)
(۲) فأتي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی إذا قام في مصلاہ قبل أن یکبر ذکر فانصرف وقال لنا مکانکم فلم نزل قیاماً ننظرہ حتی خرج إلینا وقد اغتسل ینطف رأسہ ماء فکبر فصلی بنا۔ (أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب متی یقوم الناس للصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰، رقم: ۱۵۷)
(۳) (قولہ فقمنا فعد لنا الصفوف) إشارۃ إلی أنہ ہذہ سنۃ معہودۃ عندہم۔ (النووي علی مسلم، ’’کتاب الصلاۃ: باب من أدرک رکعۃ من الصلاۃ فقد أدرک تلک الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۱)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن الصلوٰۃ کانت تقام لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیأخذ الناس مقامہم قبل أن یأخذ النبيصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب في الصلوٰۃ تقام ولم یأت الإمام ینظرونہ فعوداً‘‘: ج ۱، ص: ۸۰، رقم: ۵۴۱)  وعن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلوٰۃ: متفق علیہ إلا عن المسلم من تمام الصلوٰۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج ۱،ص: ۹۸، ۱۰۸۷)
(۱) ابن حجر العسقلاني،فتح الباري، ’’کتاب الصلاۃ: باب متی یقوم الناس إذا رأوا الإمام عند الإقامۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۲۰، رقم: ۶۳۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص103

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شرم وحیاء کے ذریعہ انسان کو خیر وبھلائی حاصل ہوتی ہے آدمی منکرات ولغویات سے بچا رہتا ہے؛ لیکن جب حیاء نہ رہے تو اس شخص سے خیر رخصت ہو جاتی ہے اور شر اپنا ٹھکانہ مضبوط کر لیتا ہے، حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ایک روایت نقل کی ہے: نبوت کے کلام سے لوگوں نے جو آخری بات پائی ہے وہ یہ ہے کہ ’’جب تجھے حیاء نہ رہے تو جو مرضی ہو کر‘‘۔
’’عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن مما أدرک الناس من کلام النبوۃ الأولیٰ إذا لم تستحي فاصنع ما شئت‘‘(۱)
الحاصل: مذکورہ عبارت جو عوام کے درمیان زبان زد ہے وہ کسی کا مقولہ نہیں؛ بلکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے؛اس لئے اس کو لوگوں کا مقولہ سمجھنا صحیح نہیں ہے۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب إذا لم تسحتي فاصنع ما شئت‘‘: ج ۲، ص: ۹۰۴، رقم: ۶۱۲۰۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص104

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد کانام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ تھا، دادا کا نام عبدالمطلب اور دادی کا نام فاطمہ بنت عمر تھا، نانا کا نام وہب اورنانی کا نام مبرہ بنت عبدالعُزیٰ تھا۔ (۱)

(۱) أبو البرکات، أصح السیر، ’’نسب رسول اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم‘‘: ص: ۷۷؍ یا ص: ۸۰)
سلسلۂ نسب یہ ہے محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب الخ۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، مصنفہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ؛ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ۔
وہب بن عبد مناف کی صاحبزادی جن کا آمنہ تھا۔ ج ۱، ص: ۱۰۸
۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص198

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ بات بلا تحقیق اور غلط ہے؛ بلکہ آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال مدینہ سے واپسی پر مقام ابواء میں ہوا، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ سال کی ہوئی تو مدینہ سے واپس آتے ہوئے مقام ابواء میں آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا۔(۱) اور وہیں مدفون ہوئیں ام ایمن رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں۔(۲) (۱) ابو البرکات عبد الرؤف، اصح السیر ،ص: ۲۸۔ (۲) سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ج ۱، ص: ۱۱۲؛ مصنفہ: علامہ سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ؛ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص198

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک میں فرمان الٰہی ہے {قل إنما أنا بشر مثلکم یوحی إلي}(۱) کہ اے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم! ان سے کہہ دیجئے کہ میں بھی تمہارے جیسا ایک انسان ہوں (فرق یہ ہے کہ) مجھ پر وحی آتی ہے۔ اس آیت سے نفی ہو رہی ہے اس کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا نور تھے، اگر سراپا نور تھے، تو پھر بول وبراز کے کیا معنی، حالانکہ عادت انسانی کے مطابق آپ کو بھی بول وبراز ہوتا تھا؛ البتہ بول وبراز کی پاکی ناپاکی کے بارے میں علماء متقدمین ومتاخرین نے بحث کی ہے یہ ان کا مقام ہے ہمیں اس پر توقف کرنا چاہیے، یہ مسئلہ مدار ایمان نہیں ہے۔ واعظوں کا مجامع میں اس مسئلہ کو بیان کرنا ہر گز مناسب نہیں ہے؛ اس لئے احتراز ضروری ہے، جس نے ایسا کیا غلطی کی اس کا اعادہ نہ ہونا چاہئے۔(۲)

(۱) سورۃ النساء: ۱۷۔
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: سئلت ما کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعمل في بیتہ قالت: کان بشراً من البشر یفلی ثوبہ ویحلب شاتہ ویخدم نفسہ۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ،  ’’حدیث عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا‘‘: ج ۷، ص: ۳۶۵؛ بحوالہ: کفایت المفتي: ج ۱، ص: ۳۷۶)
صح بعض أئمۃ الشافعیۃ طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسائر فضلاتہ وبہ قال أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: کما نقلہ في المواہب اللدنیۃ عن شرح البخاري للعیني وصرح بہ البیري في شرح الأشباہ وقال الحافظ ابن حجر تظافرت الأدلۃ علی ذلک وعد الأئمۃ ذلک من خصائصہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونقل بعضہم عن شرح المشکاۃ للملا علی القاري إنہ قال: اختارہ کثیر من أصحابنا واطال في تحقیقہ في شرحہ علی الشمائل في باب ما جاء في تعطرہ علیہ الصلوۃ والسلام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘‘‘ : ج ۱، ص: ۳۱۸)
روي إنہ قال حجمت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وشربت الدم من الحجمۃ وقلت یا رسول اللّٰہ شربتہ، فقال: ویحک یا سالم أما علمت أن الدم حرام لا تعد۔ (أبوالحسن علي بن محمد، أسد الغابۃ: ج ۲، ص: ۱۵۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص200

حدیث و سنت

Ref. No. 1884/43-1765

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مندرجہ ذیل کتابوں سے استفادہ کیاجاسکتاہے۔

دارالافتاء , دارالعلوم وقف دیوبند

 

مصنف کا نام

کتاب کا نام

شمار

علامہ شبلی

سیرۃ النبی 4جلدیں

1

امام محمد بن محمد غزالی

احیاء العلوم اردو 4 جلدیں

2

مولانا عبدالرؤوف

اصح السیر

3

حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب

خطبات حکیم الاسلام

4

مفتی تقی عثمانی

اصلاحی خطبات 23 جلدیں

5

حضرت تھانوی

تلبیس ابلیس

6

حضرت تھانوی

ائمہ تلبیس

7

پیرذوالفقار نقشبندی

سکون دل

8

پیرذوالفقار نقشبندی

دوائے دل

9

پیرذوالفقار نقشبندی

خطبات ذوالفقار42

10

اشہد رشیدی

معارف و حکم

11

حضرت تھانوی

اصلاح انقلاب امت

12

مولانا ادریس کاندھلوی

سیرۃ مصطفی  3جلدیں

13

حضرت تھانوی

اسلام اور عقلیت

14

حضرت تھانوی

احکام اسلام عقل کی نظر میں

15

اکبر نجیب آبادی

تاریخ اسلام 3 جلدیں

16

مفتی تقی عثمانی

نقوش رفتگاں

17

حضرت تھانوی

حکایات اولیاء

18

حضرت تھانوی

اغلاط العوام

19

مولانا علی احمد صاحب

شادی اور شریعت

20

حضرت تھانوی

اسلامی شادی

21

حضرت تھانوی

التبلیغ

22

 

 

 

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پانچ پھوپھیاں تھیں جن کے نام درج ذیل ہیں: (۱) حضرت صفیہ (۲) ام حکیم البیضاء (۳) عاتکہ (۴) امیمہ (۵) برہ۔ ان میں صرف حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا مسلمان ہوئیں۔ (۱) (۱) أبو البرکات عبد الرؤف، أصح السیر: ص: ۷۹ - ۸۰۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص201

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہجرت کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور نکیل پکڑ کر اونٹنی کو چلانے والے آپ ہی تھے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میزبانِ اول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے ان کو اول میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ (۱) (۱) أبو البرکات عبد الرؤف، أصح السیر: ۱۳۶۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص201

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان الفاظ کے ساتھ حدیث نہیں ملی۔ تاہم مضمون کے اعتبار سے یہ درست ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو نصف حسن دیاگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل حسن دیا گیا۔ مختلف روایتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل الحسن ہونا ذکر کیاگیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرنبی کو خوبصورت پیداکیا اور تمہارے نبی سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔(۲)
’’قال ابن القیم في بدائع الفوائد: قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن یوسف ’’أوتی شطر الحسن‘‘ قالت طائفۃ المراد منہ أن یوسف أوتی شطر الحسن الذي أوتیہ محمد فالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلغ الغایۃ في الحسن ویوسف بلغ شطر تلک الغایۃ قالوا: ویحقق ذلک ما رواہ الترمذي من حدیث قتادۃ عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: ’’ما بعث اللّٰہ نبیا إلا حسن الوجہ حسن الصوت وکان نبیکم أحسنہم وجہا وأحسنہم صوتا‘‘(۱) (قد أعطي شطر الحسن)، قال المظہر: أي: نصف الحسن۔ أقول: وہو محتمل أن یکون المعنی نصف جنس الحسن مطلقا، أو نصف حسن جمیع أہل زمانہ۔ وقیل بعضہ لأن الشطر کما یراد بہ نصف الشيء قد یراد بہ بعضہ مطلقا۔ أقول: لکنہ لا یلائمہ مقام المدح وإن اقتصر علیہ بعض الشراح، أللہم إلا أن یراد بہ بعض زائد علی حسن غیرہ، وہو إما مطلق فیحمل علی زیادۃ الحسن الصوري دون الملاحۃ المعنویۃ لئلا یشکل نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم وإما مقید بنسبۃ أہل زمانہ وہو الأظہر / وقد قال بعض الحفاظ من المتأخرین، وہو من مشایخنا المعتبرین: أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان أحسن من یوسف علیہ السلام إذ لم ینقل أن صورتہ کان یقع من ضوئہا علی جدران ما یصیر کالمرآۃ یحکی ما یقابلہ، وقد حکي عن صورۃ نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم؛ لکن اللّٰہ تعالی ستر عن أصحابہ کثیرا من ذلک الجمال الباہر، فإنہ لو برز لہم لم یطیقوا النظر إلیہ کما قالہ بعض المحققین: وأما جمال یوسف علیہ السلام فلم یستر منہ شيء اہـ‘‘(۲)

(۲)وفي حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ …… وقال في السماء الثالثۃ فإذا أنا بیوسف إذا ہو قد أعطي شطر الحسن فرحب بي ودعا لي بخیر الخ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب في المعراج‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۸، رقم: ۵۸۶۳)

(۱) ابن القیم، بدائع الفوائد: ج ۳، ص: ۲۰۶۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفتن: باب في المعراج‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۴۹، رقم: ۵۸۶۳۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص105



 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرات صحابہؓ کی تعداد کے سلسلہ میں قرآن وحدیث میں کوئی واضح صراحت نہیں ملی۔ حافظ ابن صلاح نے مقدمہ ابن صلاح میں امام ابوزرعہ رازی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرامؓ کی مجموعی تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار تھی۔ ’’قبض رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن مأۃ ألف وأربعۃ عشر ألفا من الصحابۃ ممن روي عنہ وسمع منہ وفي روایۃ ممن رآہ وسمع منہ‘‘(۱) البتہ حافظ عراقی نے لکھا ہے کہ حضرات صحابہؓ کو شمار کرنا اور ان کی تعداد متعین کرنا دشوار ہے، اس لیے کہ وہ حضرات ملکوں میں منتشر تھے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں کعب بن مالک کے تبوک میں پیچھے رہ جانے کے قصہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ ’’أصحاب رسول اللّٰہ کثیر لایجمعھم کتاب حافظ‘‘(۲)

(۱) إبراہیم بن موسیٰ الشافعي، مقدمہ ابن الصلاح۔ (النوع التاسع والثلاثون: ج ۲، ص: ۵۰۱)
(۲) أحمد بن علي بن محمد، الإصابۃ في تمییز الصحابۃ: ج ۱، ص: ۸۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص107