Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
Ref. No. 1515/42-985
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان خیالات کا آنا ایمان کی علامت ہے، مسلمان کا دل گناہوں پر اور شریعت کے مطابق زندگی نہ گرزارنے پر اس کو ملامت کررہا ہے، یہ اچھی بات ہے۔ نیز یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ آدمی اپنے دین کے تعلق سے فکرمند ہے اور اس کے مزاج میں سچائی ہے وہ اللہ تعالی سے کئے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی سے ڈرتاہے، اور اپنی دینی حالت درست کرنا چاہتاہے، البتہ بعض مرتبہ بشری تقاضوں سے مغلوب ہوکر وہ غلطی کربیٹھتاہے تاہم نادم و شرمندہ ہے۔ امید ہے اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمائیں گے ان شاء اللہ۔
جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: " وقد وجدتموه؟ " قالوا: نعم، قال: " ذاك صريح الإيمان " والمعنى: عن الذي يمنعكم من قبول ما يلقيه الشيطان إليكم حتى يصير ذلك وسوسة لا يتمكن من القلوب ولا تطمئن إليها النفوس صريح الإيمان، لا أن الوسوسة نفسها صريح الإيمان، لأنها من فعل الشيطان فكيف تكون إيمانا؟ (کشف المشکل من حدیث الصحیحین، کشف المشکل من مسند عبداللہ بن مسعود 1/327) (شرح النووی، باب بیان الوسوسۃ 2/153) (مرقاۃ المفاتیح، باب فی الوسوسۃ 1/136)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 40/986
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وطن سے محبت ایک فطری چیز ہے، اور احادیث حب وطن کے جواز پر دلالت کرتی ہیں تاہم مذکورہ جملہ حدیث کی کتابوں میں ہمیں نہیں ملا۔ ہوسکتا ہے کسی نے اپنی طرف سے بیان کیا ہو اور یہ مطلب لیا ہو کہ وطن سے محبت ایمان کے خلاف کوئی چیز نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ جماعت سے نہیں پڑھی گئی؛ بلکہ علیحدہ علیحدہ پڑھی گئی، چونکہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے آخری وقت میں معلوم کیا تھا کہ آپ کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب غسل وکفن سے فارغ ہوجاؤ، تو میرا جنازہ قبر کے قریب رکھ کر ہٹ جانا اور اول اہل بیت کے مرد نماز جنازہ پڑھیں گے، پھر ان کی عورتیں نماز جنازہ پڑھیں گی، پھر تم اور دیگر لوگ، ہم نے عرض کیا کہ قبر میں کون اتارے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اہل بیت اور ان کے ساتھ ملائکہ ہوں گے۔(۱)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما، قال: لما أرادوا أن یحفروا لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم بعثوا إلی أبي عبیدۃ بن الجراح وکان یضرح کضریح أہل مکۃ۔ وبعثوا إلی أبي طلحۃ۔ وکان ہو الذي یحفر لأہل المدینۃ۔ وکان یلحد۔ فبعثوا إلیہما رسولین۔ فقالوا: اللہم خر لرسولک۔ فوجدوا أبا طلحۃ۔ فجيء بہ۔ ولم یوجد أبو عبیدۃ۔ فلحد لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔
قال: فلما فرغوا من جہازہ یوم الثلاثاء وضع علی سریرہ في بیتہ۔ ثم دخل الناس علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم أرسالا۔ یصلون علیہ۔ حتی إذا فرغوا أدخلوا النساء۔ حتی إذا فرغوا أدخلوا الصبیان۔ ولم یؤم الناس علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم أحد۔
لقد اختلف المسلمون في المکان الذي یحفر لہ۔ فقال قائلون یدفن في مسجدہ۔ وقال قائلون یدفن مع أصحابہ۔ فقال أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ: إني سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم یقول: ما قبض نبي إلا دفن حیث یقبض۔ قال: فرفعوا فراش رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم الذي توفی علیہ۔ فحفروا لہ ثم دفن صلی اللّٰہ علیہ و سلم وسط اللیل من لیلۃ الأربعاء۔ ونزل في حفرتہ علي بن أبي طالب والفضل بن العباس وقثم أخوہ وشقران مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ وقال أوس بن خولی وہو أبو لیلی لعلي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ: أنشدک اللّٰہ وحظنا من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ قال لہ علي: أنزل۔ وکان شقران مولاہ أخذ قطیفۃ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم یلبسہا۔ فدفنہا في القبر وقال: واللّٰہ لا یلبسہا أحد بعدک أبدا۔ فدفنت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب ما جاء في الجنائز: باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰، رقم: ۱۶۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص193
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی اپنا خلیفہ نہیں بنایا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ منتخب فرمایا۔(۱)
(۱) وقد اتفق الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم علی بیعۃ الصدیق في ذلک الوقت حتی علي ابن أبي طالب والزبیر بن العوام رضي اللّٰہ عنہما۔ (أبو الفداء ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ’’خلافۃ أبي بکر صدیق‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۹) حدثني عبید اللّٰہ بن عمر القواریدي حدثنا عبد الأعلی بن عبد الأعلی حدثنا أبو داود بن أبي ہند عن أبي نصرۃ قال: لما اجتمع الناس علی أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ، فقال: مالي لا أری علیاً، فقال فذہب رجل من الأنصار فجاء وابہ، فقال لہ یا علي قلت: ابن عم رسول اللّٰہ وفتن رسول اللّٰہ، فقال علي رضي اللّٰہ عنہ: لا تثریب یا خلیفۃ رسول اللّٰہ أبسط یدک فبسط یدہ فبایعہ، قال أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ: مالي لا أری الزبیر، قال: فذہب رجال من الأنصار فجاء وا بہ، فقال: یا زبیر! قلت ابن عمۃ رسول اللّٰہ وحواري رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال الزبیر: لا تثریب یا خلیفۃ رسول اللّٰہ أبسط یدک فلبسط یدہ فبایعہ۔
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: لما مات رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أدخل الرجال فصلوا علیہ بغیر إمام أرسالاً حتی فرغوا، ثم دخل النساء فصلین علیہ ثم أدخل الصبیان فصلوا علیہ، ثم أدخل العبید فصلوا علیہ أرسالاً، لم یؤمہم علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحد۔ (أبو الفداء ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ’’فصل في کیفیۃ الصلاۃ علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۵، ص: ۳۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص194
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب غسل دینے کا ارادہ کیا تو حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اختلاف ہوا کہ کپڑے اتارے جائیں یا نہیں؟ تو اللہ تعالیٰ نے سب پر نیند طاری فرما دی اس میں کسی کہنے والے نے کہا کہ غسل مع کپڑوں کے دیا جائے، تو صحابہ نے مع کپڑوں کے غسل دیا اور پھر تین سوتی کپڑوں میںکفن دیا گیا۔ (۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، تقول: لما أراد واغسل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قالوا: واللّٰہ ما ندري أنجرد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ثیابہ کما نجرد موتانا أم نغسلہ وعلیہ ثیابہ، فلما اختلفوا ألقی اللّٰہ علیہم النوم حتی ما منہم رجل إلاوذقنہ في صدرہ، ثم کلمہم من ناحیۃ البیت لا یدرون من ہو أن اغسلوا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثیابہ، فقاموا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ فغسلوہ وعلیہ قمیصہ یصبون الماء فوق القمیص ویدلکونہ بالقمیص دون أیدیہم وکانت عائشۃ تقول: لو استقبلت من أمري ما استدبرت ما غسلہ إلا نسائہ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجنائز: باب ستر المیت‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸، رقم: ۳۱۴۱؛ أبو البرکات عبد الرؤف، أصح السیر: ص: ۶۰۳)
فتاوی دارالعلوم قف دیوبند ج2ص195
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت الحارث نے ایک بکری کے گوشت میں زہر ملاکر غزوہ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گوشت پیش کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے اٹھا کر کچھ گوشت منہ میں ڈالا، مگر معلوم ہوگیا، بعض روایات سے معلوم ہوا کہ گوشت نے کہہ دیا کہ میرے اندر زہر ملا ہوا ہے،(۱) تو آپ نے اس کو تھوک دیا، اس واقعہ کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا۔(۲)
(۱) کان جابر بن عبد اللّٰہ یحدث أن یہودیۃ من أہل خیبر سمت شاۃ مصلیۃ، ثم أہدتہا لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأخذ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الذراع فأکل منہا وأکل رہط من أصحابہ معہ، ثم قال لہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ارفعوا أیدیکم وأرسل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی الیہودیۃ فدعاہا، فقال لہا: أسممت ہذہ الشاۃ قالت الیہودیۃ: من أخبرک قال: أخبرتني ہذہ في یدي للذراع، قالت: نعم، قال: فما أردت إلی ذلک قالت: قلت: إن کان نبیا فلن یضرہ وإن لم یکن نبیا استرحنا منہ، فعفا عنہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولم یعاقبہا وتوفي بعض أصحابہ الذین أکلوا من الشاۃ، واحتجم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی کاہلہ من أجل الذي أکل من الشاۃ حجمہ أبو ہند بالقرن والشفرۃ وہو مولی لبني بیاضۃ من الأنصار۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’أول کتاب الدیات، باب في من سقی رجلاً سماء‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۰رقم: ۴۵۱۰)
(۲) أبوالبرکات عبد الرؤف، أصح السیر: ص: ۲۷۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص196
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:چند خصوصیات ذکر کی گئی ہیں:
(۱) بوقت پیدائش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر نجاست وگندگی سے بالکل پاک صاف تھا۔
(۲) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ کی حالت میں انگشت شہادت کا آسمان کی جانب اٹھائے ہوئے ہونا۔
(۳) ولادت کے وقت آپ کی والدہ محترمہ کا ایسے نور کو دیکھنا جس کی روشنی سے کسریٰ کے محلات نظر آگئے۔(۱)
(۴) گہوارے میں فرشتوں کا جھونکا دینا۔(۲)
(۵) گہوارے میں کلام کرنا(۳) جب کہ یہ دوسرے انبیاء کی بھی خصوصیت ہے، حضرت تھانوی قدس سرہ نے بیالیس خصوصیات تحریر فرمائی ہیں، تفصیل کے لئے دیکھئے۔ ’’نشرالطیب: ص: ۱۸۴‘‘۔
(۱) إن آمنۃ بنت وہب قالت: لما فصل مني تعني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج معہ نور أضاء لہ ما بین المشرق والمغرب، ثم وقع إلی الأرض معتمداً علی یدیہ، ثم أخذ قبضۃ من التراب فقبضہا ورفع رأسہ إلی السماء۔ (القسطلاني: ج ۱، ص: ۱۲۷؛ فرحۃ اللبیب: ص: ۱۰۹)
ورأیت حین حملت بہ أنہ خرج منہا نور رأت بہ قصور بصری من أرض الشام۔ (سیرۃ نبویہ لابن ہشام: ص: ۱۴۶؛ فرحۃ اللبیب: ص: ۱۱۲)
(۲) وذکر ابن سبع في الخصائص أن مہدہ کان یتحرک بتحریک الملائکۃ وإن کلاماً تعلم بہ أن قال: اللّٰہ أکبر کبیراً والحمد للّٰہ کثیرا۔ (السیوطي، خصائص الحبیب؛ وفرحۃ اللبیب: ص: ۱۲۳)
(۳) أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم تکلم أوائل ما ولد۔ فتح الباري لابن حجر۔ (فرحۃ اللبیب: ص: ۱۱۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص197
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی یہ حدیث بخاری وغیرہ متعدد کتب حدیث میں ہے ’’إن اللّٰہ خلق آدم علی صورتہ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے یہاں ’’ہ‘‘ ضمیر بعض لوگوں کے نزدیک خود حضرت آدم علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہے، یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو، ان کو اپنی صورت کا بنایا ہے؛ لیکن صحیح یہ ہے کہ ’’ہ‘‘ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ رہی ہے؛ اس لیے کہ ایک روایت میں صورۃ الرحمن بھی ہے۔(۲)
اور صورت سے مراد صفت ہے، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صفت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔(۱)
(۲) عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خلق اللّٰہ آدم علی صورتہ، طولہ ستون ذراعا، فلما خلقہ قال إذہب فسلم علی أولئک النفر من الملائکۃ جلوس، فاستمع ما یحیونک، فإنہا تحیتک وتحیۃ ذریتک۔ فقال: السلام علیکم۔ فقالوا: السلام علیک ورحمۃ اللّٰہ۔ فزادوہ ورحمۃ اللّٰہ، فکل من یدخل الجنۃ علی صورۃ آدم، فلم یزل الخلق ینقص بعد حتی الآن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإستیذان: باب بدء السلام‘‘: ج ۲، ص: ۹۱۹، رقم: ۱۳۲۸)
قولہ: (خلق اللّٰہ آدم علی صورتہ)، والصواب أن الضمیر راجع إلی اللّٰہ تعالی لما في بعض الطرق: (علی صورۃ الرحمن) وإذن أشکل شرحہ۔ فقال القاضي أبو بکر بن العربي: إن المراد من الصورۃ الصفۃ، والمعنی: أن اللّٰہ تعالی خلق آدم علی صفاتہ۔ وتفصیلہ أنہ وضع في بني آدم أنموذا من الصفات الإلہیۃ، ولیس من الکائنات أحد من یکون مظہرا کاملا لتلک الصفات، إلا ہو۔ ألا تری أن صفۃ العلم التی ہي من أخص الصفات لا توجد إلا في الإنسان؟ فإن سائر الحیوانات لیس فیہا إلا قوۃ مخیلۃ۔
وقیل: الغرض من إسناد الصورۃ إلی نفسہ، مجرد التشریف والتکریم، علی ما ینطق بہ النص: {لقد خلقنا الإنسان في أحسن تقویم} (سورۃ التین: ۴) ولیس المراد منہ: أن للّٰہ تعالی أیضا صورۃ۔ … (علامہ أنور شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’کتاب الاستیذان، باب بدء السلام‘‘: ج ۶، ص: ۱۸۷، رقم: ۶۲۲۷)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الاستیذان: باب بدء الإسلام ج۲، ص:۲۱۹، رقم: ۱۳۲۸
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص99
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مصنف عبد الرزاق کے حوالہ سے یہ حدیث لکھی ہے، مگر مصنف عبد الزاق میں موجود نہیں ہے، اس لیے علماء نے اس کو موضوع قرار دیا ہے۔(۱)
’’ومنہا ما ذکرہ العجلوني في کشف الخفا (ج ۱، ص: ۲۶۵)، قال: روي عبد الرزاق بسندہ عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: قلت: یا رسول اللّٰہ بأبي أنت وأمي أخبرني عن أول شيء خلقہ اللّٰہ قبل الأشیاء؟ قال: یا جابر إن اللّٰہ تعالیٰ خلق قبل الأشیاء نور نبیک من نورہ فجعل ذلک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء، ولم یکن في ذلک الوقت لوح ولا قلم ولا جنۃ ولا نار ولا ملک ... الحدیث بطولہ۔ وہذا لم نقف علیہ في المطبوع من المصنف للحافظ عبد الرزاق‘‘(۲)
(۱) وفي الدر أیضا عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ یقول إن أول شیء خلق اللّٰہ القلم ثم النون الخ …… أخرجہ الحکیم الترمذي ہذا وروي أن أول ما خلق اللّٰہ العقل وأن أول ما خلق اللّٰہ نوري وأن أول ما خلق اللّٰہ روحي وأن أول ما خلق اللّٰہ العرش والأولیۃ من الأمور الإضافیۃ، فیؤول أن کل واحد مما ذکر خلق قبل ما ہو من جنسہ، فالقلم خلق قبل جنس الأقلام، ونورہ قبل الأنوار وإلا فقد ثبت أن العرش قبل خلق السموات والأرض فتطلق الأولیۃ علی کل واحد بشرط التقیید، فیقال: أول المعاني کذا وأول الأنوار کذا، ومنہ قولہ: أول ما خلق اللّٰہ نوري وفي روایۃ روحي ومعناہما واحد فإن الأرواح نورانیۃ أي أول ما خلق اللّٰہ من الأرواح روحي، رواہ الترمذي وقال ہذا حدیث غریب إسنادا أي لا متنا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷، رقم: ۹۴)
(۲) أبوسعید عبدالملک، شرف المصطفی: ج ۱، ص: ۳۰۷؛ و نور الدین برھان الحلبي، السیرۃ الحلبیۃ:ج ۱، ص: ۲۱۴؛ و إسماعیل بن محمد، کشف الخفاء حرف الھمزہ مع الھاء: ج ۱، ص: ۳۰۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص101
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ روایت کو امام احمد (حدیث نمبر: ۲۲۳۴۲)، امام طبرانی (حدیث نمبر: ۷۸۷۱) نے نقل کیا ہے۔ علامہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کے رواۃ صحیح ہیں۔ اور امام حاکم نے علی شرط مسلم اس روایت کو صحیح قرار دیاہے۔(۱)
(۱) وفي روایۃ عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال أبوذر رضي اللّٰہ عنہ: قلت: یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کم وفاء عدۃ الأنبیاء قال مأۃ ألف أربعۃ وعشرون ألفاً الرسل من ذلک ثلثمایۃ وخمسۃ عشر جما غفیراً۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب بدء الخلق وذکر الأنبیاء علیہم السلام، الفصل الثالث‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۱، رقم: ۵۷۳۷)
العدد في ہذا الحدیث وإن کان مجزوما بہ، لکنہ لیس بمقطوع، فیجب الإیمان بالأنبیاء والرسل مجملا من غیر حصر في عدد، لئلا یخرج أحد منہم، ولا یدخل أحد من غیرہم فیہم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفتن: باب بدء الخلق وذکر الأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۱۱، ص: ۴۳ رقم: ۵۷۳۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص102