Frequently Asked Questions
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ان کا عقیدہ قادیانی کو نبی ماننے کا نہیں ہے، تو وہ لوگ فاسق اور گناہ گار مسلمان ہیں، کیوںکہ قادیانی مرتد اور کافر ہیں، انکی تعریف اور ان کی دعوت کرنے والا فاسق ہے، مرتد اور کافر نہیںہے۔ چوںکہ قادیانی بے دین ہیں اور بے دین کی تعظیم کرنے والا فاسق ہو جاتا ہے۔(۱)
(۱) قال اللّٰہ تعالیٰ: {ولا ترکنوا إلی الذین ظلموا} إلیہم أدني میل … فسر المیل بمیل القلب إلیہم بالمحبۃ وقد یفسر بما ہو أعم من ذلک … ویشمل النہي حینئذ مداہنتہم وترک التغییر علیہم مع القدرۃ والتزي بزیہم وتعظیم ذکرہم ومجالستہم من غیر داع شرعي … فتمسکم النار …۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: ’’سورۃ الہود‘‘ ج ۷، ص: ۲۳۱)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، إذا مدح الفاسق غضب الرب تعالیٰ واہتزلہ العرش، رواہ البیہقي في شعب الإیمان۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الأداب: باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۴، رقم: ۴۸۵۹)
عن حذیفۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لا تقولوا للمنافق سید فإنہ إن یک سیداً فقد أسخطتم ربکم، رواہ أبوداود۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الأداب: باب الأسامي‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۹، رقم: ۴۷۸۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص193
مذاہب اربعہ اور تقلید
Ref. No. 2319/44-3493
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شہوت کے ساتھ منی کے نکلنے، جماع کرنے، حیض ونفاس سے پاک ہوجانے، احتلام ہوجانے سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔اور پھر بغیر غسل نمازو تلاوت کرنا کسی بھی امام کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ ،امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کےراجح قول کے مطابق منی پاک ہے، البتہ ان کے نزدیک غسل کی فرضیت ایسی صورت میں امرتعبدی کے طور پر ہے۔
عن أبي ھریرة عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: إذا قعد بین شعبھا الأربع وألزق الختان بالختان فقد وجب الغسل? (أبوداوٴد) وفي بذل المجہود: ?قال الترمذي: وھو قول أکثر أہل العلم من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منہم أبوبکر وعثمان وعلي وعائشة رضي اللہ عنہم والفقہاء من التابعین ومن بعدہم مثل سفیان الثوري والشافعي وأحمد وإسحاق قلت وھو مذہب أبي حنیفة رحمہ اللہ وأصحابہ? (بذل المجہود: ۱۳۳)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مذاہب اربعہ اور تقلید
Ref. No. 39 / 897
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی بھی زمانے کے مستندعلماء کی ایک بڑی تعداد کو جمہورعلماء سے تعبیر کیا جا تا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مذاہب اربعہ اور تقلید
Ref. No. 1154/42-391
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حنفی شخص دوسرے مسلک کی اقتداء کرنے والوں کی امامت کرسکتا ہے، اور امام اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھائے۔ مسجد کے مصلیوں کے غیرمسلک ہونے کی وجہ سے اپنا مسلک تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔ تاہم اگر نماز پڑھادی تو نماز ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مذاہب اربعہ اور تقلید
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر مقلدین ائمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتے، بلکہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قرآن وحدیث سے خود مسائل کو سمجھتے ہیں، ظاہر ہے کہ ائمہ اربعہ نے قرآن کریم اور احادیث مقدسہ میں مہارت کے بعد انہیں سے مسائل کی تخریج فرمائی ہے، اور انہیں آج کے لوگوں کے مقابلہ زیادہ ہی علم تھا، تقلید کا انکار کرنے والے گویا خود ہی مجتہد ہیں، اور متعدد مسائل میں اختلاف کرتے ہیں، ان باتوں پر اعتماد درست نہیں، تفصیل وتحقیق کے لئے مطالعہ غیر مقلدیت مؤلفہ مولانا صفدر خاں صاحب کا مطالعہ مفید ہوگا۔(۱)
(۱) أہل الحق منہم أہل السنۃ والجماعۃ المنحصرون بإجماع من یعتد بہم في الحنفیۃ والشافعیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ، وأہل الہواء منہم غیر المقلدین یدعون اتباع الحدیث وأني لہم ذلک۔ (أشرف علي التھانوي، مأۃ دروس: ص: ۲۸)
فإن أہل السنۃ قد افترق بعد القرون الثلاثۃ أو الأربعۃ علی أربعۃ مذاہب ولم یبق مذہب في فروع المسائل سوی ہذہ الأربعۃ فقد انعقد الاجماع المرکب علی بطلان قول مخالف کلہم وقدقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یجتمع أمتي علی الضلالۃ، وقال اللّٰہ تعالیٰ: {وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَسَآئَ تْ مَصِیْرًاہع ۱۱۵} (محمد ثناء اللّٰہ پانی پتیؒ، تفسیر المظہري؛ ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘ ج ۱، ص: ۶۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص247
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اہل سنت والجماعت وہ لوگ ہیں جو توحید ورسالت اور ملائکہ وقرآن وحدیث پر اعتقاد رکھتے ہوں، قیامت وخیر وشر کے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہونے کے قائل ہوں، جماعت صحابہؓ کو برحق سمجھتے ہوں، قرآن وحدیث کی روشنی میں اجماع وقیاس سے مستنبط مسائل کو درست مانتے ہوں، قرآن وحدیث کی تشریحات وصحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین وسلف صالحین کی تشریحات کی موافقت کرتے ہوں؛ اور تشریحات میں عقلیات وظاہر کو ترجیح نہ دیتے ہوں وغیرہ وغیرہ۔ مذکورہ فی السوال لوگ اگر ایسے ہوں، تو اہل سنت والجماعت میں ہیں ورنہ نہیں۔(۱)
(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیأتین علی أمتي ما أتی علی بني إسرائیل حذو النعل بالنعل حتی إن کان منہم من أتی أمہ علانیۃ، لکان في أمتي من یصنع ذلک، وإن بني إسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ، وتفترق أمتي علی ثلاث وسبعین ملۃ، کلہم في النار إلا ملۃ واحدۃ، قالوا: ومن ہي یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ قال: ما أنا علیہ وأصحابي۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الإیمان، باب ما جاء في افتراق ہذہ الأمۃ‘‘: ج ۲،ص: ۹۲، رقم: ۲۶۴۱) …قال صاحب المرقاۃ: المراد ہم المہتدون المتمسکون بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین من بعدي، فلا شک ولا ریب أنہم ہم أہل السنۃ والجماعۃ، وقیل: التقدیر أہلہا من کان علی ما أنا علیہ وأصحابي من الاعتقاد والقول والفعل، فإن ذلک یعرف بالإجماع، فما أجمع علیہ علماء الإسلام فہو حق وماعداہ باطل۔ (ملا علي القاري، مرقاۃ المفاتیح، کتاب الإیمان‘‘: ج ۲، ص: ۵۹، رقم: ۱۷۱)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اتبعوا الأعظم: یعبر بہ عن الجماعۃ الکثیرۃ، والمراد ما علیہ أکثر المسلمین قیل: وہذا في أصول الاعتقاد کأرکان الإسلام، وأما الفروع کبطلان الوضوء بالمس مثلاً فلا حاجۃ فیہ إلی الإجماع، بل یجوز اتباع کل واحد من المجتہدین کالأئمۃ الأربعۃ، وما وقع من الخلاف بین الماتریدیۃ والأشعریۃ في مسائل فہي ترجع إلی الفروع في الحقیقیۃ فإنہا ظنیات۔ (ملا علي القاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’لزوم الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۱، رقم: ۱۷۴)
أقول الفرقۃ الناجیۃ ہم الآخذون في العقیدۃ والعمل جمیعاً بما ظہر من الکتاب والسنۃ، وجری علیہ جمہور الصحابۃ والتابعین وإن اختلفوا فیما بینہم فیما لم یشتہر فیہ نص، ولا ظہر من الصحابۃ اتفق علیہ استدلالا منہم ببعض ما ہنالک أو تفسیر المجملۃ۔ (الإمام أحمد المعروف بشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي؛ حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ’’أبواب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفرقۃ الناجیۃ وغیرہ الناجیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۶)
إن ہذہ المذاہب الأربعۃ المروجۃ المحررۃ قد أجمعت الأمۃ أو من یعقد بہ منہما علی جواز تقلید ہا إلی: یومنا ہذا۔ (’’أیضاً‘‘)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص248
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اہل السنۃ والجماعۃ اس جماعت کے لوگوں کو کہتے ہیں، جو پیغمبر اسلام، خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، خصوصاً خلفاء راشدین کے طریقے اور سنت کے مطیع اور فرماں بردار ہوں، جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: ’’وتفترق أمتي علی ثلاث وسبعین ملۃ کلہم في النار إلا ملۃ واحدۃ قالوا: من ہي یارسول اللّٰہ؟ قال: ما أنا علیہ وأصحابي‘‘ (۱) یعنی کتاب وسنت کی اتباع کرنے والا فرقہ نجات پانے والا ہے اور اہل السنۃ والجماعۃ میں داخل ہے اور ’’کلہم في النار‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ بد اعتقادی کی بنا پر جہنم میں جائیں گے، پھر جن کا عقیدہ حد کفر تک نہ پہونچا ہو وہ اپنی سزا بھگت کر دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کردئیے جائیں گے، امت سے مراد مطلق اہل السنۃ والجماعۃ ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کا طریقہ وہ ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے، اہل بدعت وضلالت مراد نہیں ہیں، اور آج کے دور میں علماء دیوبند خود بھی پورے طور پر متبع سنت ہیں اور اس سنت رسول میں جو بدعت کی آمیزش لوگوں نے کردی ہے، اس کو الگ کرکے ختم کرنے والے عموماً علماء دیوبند ہیں؛ اس لئے کہا جاتا ہے کہ دیوبندی علماء اہل السنۃ والجماعت ہیں۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الإیمان، باب ما جاء في افتراقِ ہذہ الأمۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص249
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ بالا صورت میں پہلی بات تو یہ ہے کہ زید کا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں ہیں یہ قول بالکل درست ہے، جس مبتدع نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہا ہے اس نے بصراحت آپ کی ذات اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں کوئی فرق نہیں کیا ہے؛ چوںکہ قرآن نے علی الاعلان کہا ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں ہے، من جملہ انہیں میں غیب کا علم بھی ہے۔(۱) انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے مقام پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جگہ پر رکھیں، مگر ان بدعتیوں کو کیا کہئے، کار بد تو خود کریں، تہمت دھریں شیطان پر؛ نیز کسی پر کفر کا فتویٰ لگانا کوئی سہل کام نہیں ہے، چوںکہ فقہاء نے صاف فرمادیا ہے کہ اگر کسی شخص میں ۹۹؍ احتمالات کفر کے اور ایک احتمال ایمان کا ہو، تو بھی اس کو کافر نہ کہا جائے۔(۲) پھر اس کی مثال تو غُلیل کے غلہ کی سی ہے کہ اگر غلہ کسی نرم زمین پر پڑے گا، تو اس میں پیوست ہوجائے گا اور اگر سخت زمین پر پڑے گا، تو پھینکنے والے پر لوٹ آئے گا۔(۳) خلاصہ کلام یہ کہ کسی کو کافر کہنے سے احتیاط ضرور برتنی چاہئے، زید کے یہاں کھانا پینا، اس کے پاس اٹھنا، بیٹھنا سب درست ہے اور اس کا ایک نہیں؛ بلکہ چار عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔
(۱) {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ ج وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ ج وَیَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًاط وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌم بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ ط إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌہع۳۴} (سورۃ لقمان: ۳۴)
{قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُط} (سورۃ النمل: ۶۵)
(۲) إن المسئلۃ المتعلقۃ بالکفر إذا کان لہا تسع وتسعون احتمالاً للکفر واحتمال واحد في نفیہ فالأولی للمفتي والقاضي أن یعمل بالاحتمال الثاني۔ (أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر: ص: ۱۹۹)
(۳) ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أیما إمرئ قال لأخیہ یا کافر فقد باء بہا أحد ہما إن کان کما قال وإلا رجعت علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب من قال لأخیہ المسلم یا کافر‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص250
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:علماء فرنگی محل علماء اہل سنت والجماعت ہیں، ملا قطب الدین سہالوی (۱۱۰۳ھ) ملا نظام الدین سہالوی فرنگی محلی (۱۱۶۱ھ) مولانا محمد عبد الحی فرنگی محلی (۱۲۰۴ھ) مولانا عبد الرزاق فرنگی محلی (۱۳۰۷ھ) اور مولانا عبد الباری فرنگی محلی (۱۳۴۴ھ) یہ سب علماء اہل سنت والجماعت اور علماء حق ہیں۔(۱) ان کے زمانہ میں دیوبندیت اور بریلویت کا وجود نہیں تھا، مولانا عبدالباری بھی علماء اہل سنت میں سے ہیں، ان کے زمانہ میں مولانا احمد رضا خان صاحب موجود تھے اور ان کے ساتھ تعلقات بھی تھے، ان کے بعض مسائل میں مولانا احمد رضا خان صاحب سے بھی اختلافات تھے، جیسا کہ بعض مسائل میں علماء دیوبند سے اختلاف تھا، مولانا عبدالباریؒ نے حضرت تھانوی ؒ کی کتاب حفظ الایمان پر اعتراض کیا تھا، صرف اتنی بات ملتی ہے، لیکن یہ بات کہ انھوں نے حضرت تھانوی رحمہ اللہ علیہ کی کتابیں فرنگی محل میں جلادی تھیں، اس کا تذکرہ مجھے کہیں نہیں ملا۔(۱)
(۱) وتفترق أمتي علی ثلاث وسبعین ملۃ کلہم في النار إلا ملۃ واحدۃ قالوا: من ہي یارسول اللّٰہ؟ قال: ما أنا علیہ وأصحابي۔ (أخرجہ الترمذي، فی سننہ، ’’أبواب الإیمان، باب ما جاء في افتراق ہذہ الأمۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص251