طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی گنجائش ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ طہارت اس ہاتھ سے نہ کرے، جس میں انگوٹھی ہے؛ مناسب ہے کہ تعویز ہو یا انگوٹھی اس کو نکال کر ہی جائے۔(۱)

(۱) قلت لکن نقلوا عندنا أن للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب : إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ج۱، ص:۵۵۲)؛  و یکرہ أن یدخل في الخلاء و معہ خاتم علیہ اسم اللّٰہ تعالیٰ أو شيء من القرآن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء، الإستنجاء علی خمسۃ أوجہ،‘‘ ج۱، ص:۱۰۶)؛ و عن أنس رضی اللّٰہ عنہ: کان رسول اللّٰہ ﷺ إذا دخل الخلاء وضع خاتمہ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۷۴۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص89

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں پیشاب کا قطرہ کپڑے پر لگا ہوگا؛ مگر وہ اتنی مقدار میں نہیں ہوتا کہ نماز کے لئے مانع ہو؛ اس لیے نماز درست ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے مگر آئندہ ایسا نہ کریں، نماز جیسی اہم عبادت کو ذرا سی لاپرواہی (استنجا نہ کرنا) سے ناقص کردینا اچھا نہیں ہے، کیوںکہ اگر اس طرح پیشاب کے قطرات کی زیادہ مقدار ہو گئی، تو ظاہر ہے کہ نماز نہ ہوگی۔(۱)

(۱) و أما الفرض فھي ما إذا کانت النجاسۃ أکثر من قدر الدرھم، و أما السنۃ إذا کانت النجاسۃ أقل من قدر الدرھم فالاستنجاء حینئذ سنۃ۔ والدلیل أن المراد عدم الوجوب لأن قدر الدرھم معفو، فعلم أن الاستنجاء لیس بواجب۔ (بدرالدین العینی، البنایہ شرح الھدایۃ، ’’فصل فيالاستنجاء،‘‘ج۱، ص:۷۴۸)؛ والاستنجاء سنۃ۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۷۸)؛  والغسل سنۃ و یجب إن جاوز المخرج نجس۔ (’’ابن، عابدین، در المختار،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجی في ماء قلیل،‘‘ج۱، ص:۴۹-۵۵۰)؛  و في موضع آخر منہ، و عفا الشارع عن قدر درھم و إن کرہ تحریما فیجب غسلہ و ما دونہ تنزیھا فیسن و فوقہ مبطل فیفرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،‘‘ ج۱، ص:۵۲۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص89

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان کی امامت درست ہے۔ کتب فقہ میں ہے کہ صرف پانی یا صرف ڈھیلے سے استنجا کرنے سے سنت استنجا حاصل ہو جاتی ہے؛ لیکن افضل اور بہتر یہ ہے کہ دونوں سے استنجا کر ے ۔
فتاویٰ شامی میں ہے:ثم إعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل ویلیہ في الفضل الاقتصار علی الماء أو علی الحجر وتحصل السنۃ بالکل۔(۲)
و غسلہ بالماء أفضل لقولہ تعالیٰ فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْا نزلت في أقوام کانوا یتبعون الحجارۃ الماء ثم ھو أدب و قیل سنۃ في زماننا۔(۳)
الأفضل الجمع بینھما، فإذا اقتصر علی أحدھما فالماء أولی۔ و إن اقتصر علی الحجر جاز۔(۱)
(۲)ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۰
(۳)المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارات، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۷۹۔
(۱) بدرالدین العیني، البنایہ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۷۵۶

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص90

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2268/44-2427

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پاک پانی میں اگر کسی محدث نے( جس کا وضو نہیں تھایا غسل نہیں تھا) ہاتھ ڈال دیا اس حال میں کہ اس کے ہاتھ پر کوئی نجاست نہیں تھی تو وہ پانی ناپاک نہیں ہوگااور وہ  مستعمل پانی کےحکم میں نہیں ہوگا۔ ماء مستعمل اس  قلیل پانی کو کہتے ہیں جس کو حدث دور کرنے کے لئے یا قربت کی نیت سے استعمال کیاگیا ہو۔

الدر المختار مع رد المحتار: (197/1، ط: دار الفکر)
(
ولايجوز)۔۔۔۔بماء (استعمل ل) أجل (قربة) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من مميز أو حائض لعادة۔۔۔۔(وهو طاهر) ولو من جنب وهو الظاهر۔۔۔(و) حكمه أنه (ليس بطهور) لحدث بل لخبث على الراجح المعتمد.
(
قوله: على الراجح) مرتبط بقوله بل لخبث: أي نجاسة حقيقية، فإنه يجوز إزالتها بغير الماء المطلق من المائعات۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس ڈھیلے سے استنجا کر لیا گیا ہے، پھر دوبارہ اسی سے استنجا کرنا درست نہیں ہے؛ البتہ اگر اس کے دوسرے کنارے سے استنجا کرے، تو پاکی حاصل ہوجائے گی۔(۲)

(۲) وکرہ تحریما بعظم و طعام و روث یابس کعذرۃ یابسۃ و حجر استنجی بہ إلابطرف آخر أي لم تصبہ النجاسۃ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۱)؛  ولا یستنجی بالأشیاء النجسۃ، و کذا لا یستنجی بحجر استنجی بہ مرۃ ھو أو غیرہ إلا إذا کان حجراً لہ أحرف، لہ أن یستنجي کل مرۃ بطرف لم یستنج بہ فیجوز من غیر کراھۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثالث في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۱۰۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص91

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1662/43-1278

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔چھت پر موجود چوہے کی بیٹ اور پرندوں کی بیٹ سے گزر کر بارش کا  جو پانی گرتاہے وہ پاک ہے، اس سے  بدن یا کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔   ہاں اگر بیٹ اس قدر زیادہ  ہو کہ اس کا اثر پانی میں محسوس ہوتاہوتو پانی ناپاک ہوگا اور اس سے بدن و کپڑا ناپاک ہوجائے گا۔

بعرۃ الفأرۃ وقعت في وقر حنطۃ فطبخت والبقرۃ فیہا أو وقعت فی وقر دہن لم یفسد الدقیق والدہن ما لم یتغیر طعمہا۔ قال الفقیہ أبو اللیث: وبہ نأخذ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الطہارۃ / الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ 1/46)

 خبز وجد في خلالہ خرء فارۃٍ فإن کان الخرء صلباً رمی بہ وأکل الخبز، ولا یفسد خرء الفارۃِ الدہن والماء والحنطۃ للضرورۃ إلا إذا ظہر طعمہ أو لونہ في الدہن ونحوہٖ لفحشہٖ وإمکان التحرز منہ حینئذٍ۔ (الدرالمختار مع رد المحتار  6/732) 10/435 زکریا )

وطین الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورۃ، ولو مختلطاً بالعذرات وتجوز الصلوٰۃ معہ … بل الأشبہ المنع بالقدر الفاحش منہ إلا لمن ابتلي بہ بحیث یجيء ویذہب في أیام الأوحال في بلادنا الشامیۃ لعدم انفکاک طرقہا من النجاسۃ غالباً مع عسر الاحتراز، بخلاف من لا یمر بہا أصلاً في ہٰذہ الحالۃ فلا یعفی في حقہ، حتی أن ہٰذا لا یصلي في ثوب ذاک … والحاصل أن الذي ینبغي أنہ حیث کان العفو للضرورۃ وعدم إمکان الاحتراز، أن یقال بالعفو وإن غلبت النجاسۃ مالم یر عینہا، لو أصابہ بلا قصد، وکان ممن یذہب ویجیئ وإلا فلا ضرورۃ۔ (شامي،

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: بیت الخلا میں جاتے وقت دعا میں تین قسم کے الفاظ حدیث میں مذکور ہیں اور تینوں مصنف ابن ابی شیبہ میں ہیں:
 عن أنس بن مالک قال: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا دخل الخلاء، قال: أعوذ باللہ من الخبث، والخبائث (۱)
عن زید بن أرقم، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن ہذہ الحشوش محتضرۃ، فإذا دخل أحدکم فلیقل: أللہم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث(۲)
عن أنس: أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا دخل الخلاء، قال: بسم اللہ أللہم إنی أعوذ بک من الخبث والخبائث‘‘ (۳)

ان تینوں میں کوئی بھی دعا پڑھ سکتے ہیں؛ البتہ مناجات مقبول میں جو دعا ہے، وہ معنی کے اعتبار سے زیادہ جامع ہے، اس لیے اس کا پڑھنا بھی درست ہے۔

(۱) أخرجہ ابن أبی شیبۃ، في مصنفہ، حققہ محمد عوامہ، کتاب الطہارۃ، ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، ج۱، ص:۲۱۹،رقم: ۱(بیروت : دارارقم، لبنان)
(۲) ایضاً،ج۱، ص:۲۲۱، رقم: ۲۹۸۹۹        (۳)ایضاً،ج۱، ص:۲۲۳، رقم: ۲۹۹۰۲
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص92

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1240/42-561

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احادیث میں مسواک کرنے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، تاہم مسواک کرنے پر ثواب ہے اور نہ کرنے  پرکوئی ملامت اور کوئی گناہ نہیں ہے۔

واما ماورد من افضلیۃ الصلوۃ التی بسواک علی غیرھا فیدل علی الاستحباب  وھو الحق ( البحر الرائق 1/42 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1744/43-1467

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پیشاب کے قطروں کی بیماری میں جبکہ آپ معذور کے حکم میں ہوں آپ پر ہر نماز کے وقت وضو کرنا اور پیشاب لگے ہوئے ناپاک کپڑے بدلنا ضروری ہے۔ پیشاب کے قطروں کے لئے جو پلاسٹک استعمال کرتے ہیں  اگر قطرے اس میں آگئے تو اس کو اگلی نماز کے لئے بدلنا ضروری ہوگا۔ پیشاب کرنے کے بعد اچھی طرح سے پیشاب کی نالی میں موجود قطروں کو نکالنا لازم ہے،  جب مکمل پیشاب کے قطرے نکل گئے تو اب اس کو سکھانے کی ضرورت نہیں ہے دھولینا بھی کافی ہے۔ (2) اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھونا فرض ہے اور تین تین بار دھونا سنت ہے، اس سے زیادہ ان گنت مرتبہ دھونا مکروہ ہے اور اسراف میں داخل ہے، وضو درست ہوجائے گا مگر بلاوجہ ایسا کرنا مکروہ ہوگا۔ (3) ہونٹوں  کا وہ حصہ جو منھ بند کرنے پر چھپ جاتاہے، اس پر  ویسلین یا کوئی کریم استعمال  نہ کریں یہ نقصاندہ بھی ہے۔ البتہ اگر لگالیا اور منھ کے اندراس کا اثر  حلق میں محسوس کیا توچونکہ یہ مقدار بہت ہی قلیل ہےاور صرف اس کا اثر محسوس ہوا ہے اس لئے  اس سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی، نماز درست ہوجائے گی۔

’’(1) وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضةبأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته‘‘.(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 305)

’’شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... المستحاضة ومن به سلس البول … یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق … إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار‘‘.(الهندیة(1/40,41)

(2)"(والإسراف) ومنه الزيادة على الثلاث (فيه) تحريمًا ولو بماء النهر، والمملوك له. أما الموقوف على من يتطهر به، ومنه ماء المدارس، فحرام

(قوله: والإسراف) أي بأن يستعمل منه فوق الحاجة الشرعية، لما أخرج ابن ماجه وغيره عن عبد الله بن عمرو بن العاص «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بسعد وهو يتوضأ فقال: ما هذا السرف؟ فقال: أفي الوضوء إسراف؟ فقال: نعم، وإن كنت على نهر جار»، حلية (قوله: ومنه) أي من الإسراف الزيادة على الثلاث أي في الغسلات مع اعتقاد أن ذلك هو السنة لما قدمناه من الصحيح أن النهي محمول على ذلك، فإذا لم يعتقد ذلك وقصد الطمأنينة عند الشك، أو قصد الوضوء على الوضوء بعد الفراغ منه فلا كراهة كما مر تقريره (قوله: فيه) أي في الماء (قوله: تحريمًا إلخ) نقل ذلك في الحلية عن بعض المتأخرين من الشافعية وتبعه عليه في البحر وغيره، وهو مخالف لما قدمناه عن الفتح من عده ترك التقتير والإسراف من المندوبات، ومثله في البدائع وغيرها، لكن قال في الحلية: ذكر الحلواني أنه سنة؛ وعليه مشى قاضي خان، وهو وجيه اهـ واستوجبه في البحر أيضا وكذا في النهر. قال: والمراد بالسنة المؤكدة لإطلاق النهي عن الإسراف، وجعل في المنتقى الإسراف من المنهيات فتكون تحريمية لأن إطلاق الكراهة مصروف إلى التحريم، وبه يضعف جعله مندوبا.

أقول: قد تقدم أن النهي عنه في حديث «فمن زاد على هذا أو نقص فقد تعدى وظلم» محمول على الاعتقاد عندنا، كما صرح به في الهداية وغيرها. وقال في البدائع: إنه الصحيح، حتى لو زاد أو نقص واعتقد أن الثلاث سنة لا يلحقه الوعيد وقدمنا أنه صريح في عدم كراهة ذلك يعني كراهة تحريم، فلاينافي الكراهة التنزيهية، فما مشى عليه هنا في الفتح والبدائع وغيرهما من جعل تركه مندوبًا مبني على ذلك التصحيح، فيكره تنزيهًا، ولاينافيه عده من المنهيات كما عد منها لطم الوجه بالماء، فإن المكروه تنزيهًا منهي عنه حقيقةً اصطلاحًا، ومجازًا لغةً كما في التحرير. وأيضًا فقد عده في الخزانة السمرقندية من المنهيات، لكن قيده بعدم اعتقاد تمام السنة بالثلاث، كما نقله الشيخ إسماعيل، وعليه يحمل قول من جعل تركه سنةً، وليست الكراهة مصروفة إلى التحريم مطلقًا كما ذكرناه آنفًا، على أن الصارف للنهي عن التحريم ظاهر، فإن من أسرف في الوضوء بماء النهر مثلاً مع عدم اعتقاد سنية ذلك نظير من ملأ إناء من النهر ثم أفرغه فيه، وليس في ذلك محذور سوى أنه عبث لا فائدة فيه، وهو في الوضوء زائد على المأمور به؛ فلذا سمي في الحديث إسرافًا". (لدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 132)

(3) ثم القدر الذي يتعلق به الفساد ما يفسد الصوم عزي إلى غريب الرواية لأبي جعفر وهو قدر الحمصة من بين أسنانه، أما من خارج فلو أدخل سمسمة فابتلعها تفسد، وعن أبي حنيفة وأبي يوسف لا تفسد، ولو كانت بين أسنانه فابتلعها لا تفسد، ولو كان عين سكرة في فيه فذابت فدخل حلقه فسدت، ولو لم يكن عينها بل صلى على أثر ابتلاعها فوجد الحلاوة لا تفسد، ولو لاك هليلجة فسدت كمضغ العلك، ولو لم يلكها لكن دخل في جوفه منه شيء يسير لا تفسد.۔ وذكر شيخ الإسلام أكل بعض اللقمة وبقي في فيه بعضها فدخل في الصلاة فابتلعه لا تفسد ما لم تكن ملء الفم (فتح القدیر للکمال، فصل یکرہ للمصلی ان یعبث بثوبہ 1/412)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی ہاں دھونا چاہیے۔(۱)

(۱) والغسل بالماء إلی أنہ یقع في قلبہ لہ طھر مالم یکن موسوسا فیقدر بثلاث، (ابن عابدین الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۵۴۹)؛ والبداء ۃ (بغسل الیدین  الطاھرتین ثلاثا) قبل الإستنجاء و بعدہٗ ۔(ابن عابدین،رد المحتار علی الدر المختار، ’’سنن الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۲۶-۲۲۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص93