Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ بالا صورت میں جب استنجا کے لیے جاتے ہوئے دعا یاد نہیں رہی، تو گندی جگہ پر پہونچنے سے پہلے اور ستر کھولنے سے پہلے دعا یاد آ جائے، تو دعا پڑھ لینی چاہئے؛ لیکن اگر بیت الخلا میں گندی جگہ ہے یا ستر کھول چکا ہے، تو اب زبان سے دعا نہ پڑھے، ہاں بہتر ہے کہ دل ہی دل میں دعاء پڑھ لے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دعاء پر بھی اجر عطا فرمائیں گے۔
’’قبل الاستنجاء وبعدہ إلا حال انکشاف وفي محل نجاسۃ فیسمی بقلبہ،قال ابن عابدین: فلو نسی فیہا سمی بقلبہ ولا یحرک لسانہ تعظیماً لإسم اللّٰہ تعالیٰ‘‘ (۲)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب سائر بمعنی باقي لا بعمنی جمیع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص98
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک ہی مسواک جب تک وہ کام دے سکے، اس کے استعمال میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اگر مسواک سستی ہو اور عام طور پر ملتی بھی ہو؛ لیکن اس کو ضائع کر دینا یا ترک کر دینا جب کہ اس سے کام لیا جا سکتا ہواوردوسری مسواک خرید کراستعمال کرنا، اس پر اسراف کا شبہ ہوتا ہے۔(۱)
(۱) فقہاء نے لکھا ہے کہ ایک بالشت کے بقدر ہونی چاہیے اس لیے اگر مسواک کرتے کرتے ایک بالشت سے چھوٹی ہوجائے، تو مسواک کو بدلا جاسکتا ہے و کونہ لینا مستویا بلا عقد في غلظ الخنضر و طول شبر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: في منافع السواک،‘‘ ج۱، ص:۲۳۴)؛ و ندب إمساکہ بیمناہ و کونہ لینا مستویا بلا عقد في غلظ الخنصر و طول شبر الظاھر أنہ في غلظ الخنصر و طول شبر الظاھر أنہ في ابتداء استعمالہ فلا یضر نقصہ بعد ذلک بالقطع منہ لتسویتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’قبیل مطلب في منافع السواک،‘‘ ج۱،ص:۲۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص200
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر کسی شخص کے دونوں ہاتھ شل ہو جائیں، یا کٹ جائیں اور اس کی بیوی نہ ہو جو پانی ڈال سکے، تو وہ شخص استنجا نہ کرے یعنی اس سے استنجا ساقط ہوگیا اور اگر بایاں ہاتھ نہ ہو اور دایاں ہاتھ موجود ہو، تو داہنے ہاتھ سے وہ شخص استنجا کرے گا۔ ’’لو شلت یدہ الیسری ولا یقدر أن یستنجی بہا إن لم یجد من یصب الماء لا یستنجی وإن قدر علی الماء الجاری یستنجی بیمینہ، کذا في الخلاصۃ‘‘(۱)
اور اگر کوئی شخص بیمار ہو اس کی بیوی بھی نہ ہو اور اس کا بیٹا یا بھائی موجود ہو اور وہ بیمار شخص خود وضو اوراستنجا کرنے پر قادر نہ ہو، تو اس کو اس کا بیٹا یا بھائی وضو کرا دے اور استنجا اس بیمار شخص سے ساقط ہوجائے گا ’’الرجل المریض إذا لم یکن لہ امرأۃ ولا أمۃ ولہ ابن أو أخ وہو لا یقدر علی الوضوء فإنہ یوضئہ ابنہ أو أخوہ غیر الاستنجاء فإنہ لا یمس فرجہ وسقط عنہ الاستنجاء، کذا في المحیط‘‘(۲) اسی طرح اگر بیمار عورت کا شوہر نہ ہو اور وہ وضو کرنے سے عاجز ہو اور اس بیمار عورت کی بیٹی یا بہن ہو، تو وہ اس کو وضو کرا دے اور استنجا اس بیمار عورت سے ساقط ہو جائے گا۔
’’المرأۃ المریضۃ إذا لم یکن لہا زوج وعجزت عن الوضوء ولہا ابنۃ أو أخت توضئہا ویسقط عنہا الاستنجاء، کذا في فتاوی قاضي خان‘‘ (۳)
تاہم اگر گندگی پھیلنے یا اس سے بیمار ہونے کا اندیشہ ہو تو مرد کے لئے کوئی مرد اور عورت کے لئے کوئی عورت نجاست کو ہٹائے اور صفائی کردے، پردہ کا حتی الامکان خیال رکھے، نجاست دور کرتے وقت کپڑا یا گلپس وغیرہ کو حائل بنا لے۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب التاسع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث: في الاستنجاء صفۃ الاستنجاء بالماء‘‘: ج ۱، ص: ۴۹، ۱۰۵۔
(۲) أیضًا: (۳) أیضًا:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص99
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نیچے اوپر جہاں جتنی ضرورت ہو یا موقع ہو، اتنی مرتبہ پھیر لیں، کوئی تحدید نہیں؛ البتہ مستحب یہ ہے کہ ایک مرتبہ مسواک کر کے کلی کی جائے، پھر دوسری مرتبہ دانتوں پر پھیرے اور کلی کرے، پھر تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی کرے۔(۲)
(۲)والمستحب فیہ أي السواک بثلاث میاہ، الخ۔ و یبدأ من الجانب الأیمن ثم الأیسر و في الأسافل کذلک (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفہوم،ج۱، ص:۲۳۴؛ و ابن ہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات،‘‘ ج۱، ص:۲۳، زکریا بک ڈپو دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص201
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کاغذ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک ٹیشو پیپر جو ایسی ہی ضروریات کے لئے بنائے جاتے ہیں، دوسرے عام کاغذ جو حصول علم کا ذریعہ ہے، اس دوسرے کاغذ کے استعمال میں مذکورہ رواج غلط ہے اس کا ترک ضروری ہے، کاغذ لکھا ہوا ہو یا کورا بہر صورت اس پر پیشاب وغیرہ ممنوع ہے۔ کہ کاغذ حصول علم کا ذریعہ ہے اس بناء پر قابل احترام ہے۔
’’وکذا ورق الکتابۃ لصقالتہ وتقومہ ولہ احترام أیضا لکونہ آلۃ کتابۃ العلم‘‘ (۱)
جو حال درخت کے پتوں کا ہے وہی حال کاغذ کا ہے۔یعنی کاغذ بھی پتوں کی طرح چکنا ہے۔ (نجاست دور نہ کرے گا بلکہ اور بھی پھیلا دے گا) اور قیمتی بھی ہے اور شریعت میں اس کی حرمت بھی ہے اس لئے کہ وہ علم کا آلہ ہے۔
’’(أو استنجی برجیع دابۃ أو عظم)، إذا کانت الدابۃ مما یؤکل لحمہ فہو ممنوع الاستنجاء برجیعہا؛ لأنہ جاء ما یدل علی أن الروث یکون علفاً لدواب الجن، والعظم یکون طعاماً للجن، وأما إذا کان من غیر مأکول اللحم فإنہ نجس والنجاسۃ لا تزال بالنجاسۃ، فما یؤکل لحمہ کالإبل والبقر والخیل وغیر ذلک من مأکول اللحم فہذا ہو الذی یکون رجیعہ علفاً لدواب الجن، وأما ما لا یؤکل لحمہ فأرواثہ نجسۃ، فلا تزال بہا النجاسۃ؛ لأنہا تزید النجاسۃ نجاسۃ، ویمکن أیضاً أنہا تنشر النجاسۃ فی أماکن أخری غیر المکان الذي علیہ النجاسۃ في الأصل۔ قولہ: (فإن محمداً -صلی اللّٰہ علیہ وسلم - بريء منہ)، ہذا یدل علی تحریم ذلک، وفیہ: أن ہذہ الأمور التي وصف من فعلہا بأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم برئ منہ من الکبائر، وأنہا حرام، وأنہا لا تسوغ ولا تجوز،(۱) فنہی في الحدیث عن الاستنجاء بالعظم لأنہ غذاء للجن فیستنبط من ذلک کراہیۃ الاستنجاء بالأوراق التي أعدت لکتابۃ العلم لما في ذلک اتلاف حق العلم کما کان إتلاف غذاء الجن بالاستنجاء بالعظم وہذاالحدیث وإن کان سندہ ضعیف ولکنہ قوی درایۃً‘‘.
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء: ج ۱، ص: ۵۱۳؛و فتا ویٰ رحیمیہ، ج ۴، ص: ۲۵۔
(۱) شرح سنن أبي داؤد لعبد المحسن العباد، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص100
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس نے وضو میں مسواک کی، پھر نماز پڑھی اس کی فضیلت اس نماز سے ستر گنا بڑھی ہوئی ہے، جو ایسے وضو سے پڑھی جائے، جس میں مسواک نہ کی گئی ہو، وضو کرتے وقت مسواک موجود نہ ہو، تو انگلی سے دانت مل لینا بھی کافی ہوگا، لیکن مسواک کرنا افضل ہے اور بھولنے کی صورت میں نماز میں کھڑے ہونے سے پہلے مسواک کرنا مستحب ہے۔(۱)
(۱) صلوٰۃ بسواک أفضل من سبعین صلوٰۃ بغیر سواک۔ (علاء الدین السمرقندي، کنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال، ’’کتاب الطہارۃ، السواک،‘‘ ج۹، ص:۱۳۸، رقم: ۲۶۱۷۶، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)؛ و عن أبي أمامۃ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: تستاکوا فإن السواک مطہرۃ للفم و مرضاۃ للرب (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، کتاب الطہارۃ و سننہا، باب السواک، ج۱، ص:۲۵، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)؛ فإن لم یجد فیعالج فمہ بالأصبح و السواک أفضل۔ (محمد بن أحمد أبوبکر علاء الدین السمرقندي، تحفۃ الفقہاء، ’’کتاب الطہارت،‘‘ ج۱، ص:۱۳)؛ و إلا إذا نسیہ فیندب للصلوٰۃ کما یندب لإصفرار سن و تغیر رائحۃ، الخ۔ ( ابن عابدین، رد المحتار،’’کتاب الطھارۃ، مطلب: في دلالۃ المفھوم،‘‘ ج۱، ص:۲۳۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص202
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بغیر کسی شرعی عذر کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔
’’وقالت عامۃ العلماء: البول قائماً مکروہ إلا لعذر وہي کراہیۃ تنزیہ لا تحریم الخ‘‘ (۱)
البتہ اگر آفس، ائیر پورٹ، پیٹرول پمپ، شوپنگ مالز وغیرہ میں بیٹھ کر پیشاب کرنے کی کوئی جگہ یا کوئی انتظام نہ ہو، تو کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی گنجائش ہے؛ لیکن پیشاب کی چھینٹوں سے بچنا بہر حال لازم اور ضروری ہے۔
’’ویکرہ أن یبول قائماً أو مضطجعا أو متجردا عن ثوبہ من غیر عذر‘‘ (۲)
’’قولہ: ’’وأن یبول قائما‘‘: لما ورد من النھي عنہ ولقول عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: من حدثکم أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یبول قائماً فلا تصدقوہ، ماکان یبول إلا قاعداً‘‘ رواہ أحمد، والترمذي، والنسائي وإسنادہ جید، قال النووي في شرح مسلم: وقد روي في النھي أحادیث لا تثبت ولکن حدیث عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا ثابت فلذا قال العلماء: یکرہ إلا لعذرٍ وہي کراہۃ تنزیہ لا تحریم الخ، وأما بولہ في السباطۃ التي بقرب الدور فقد ذکر عیاض أنہ لعلہ طال علیہ مجلس حتی حفزہ البول فلم یمکنہ التباعد، أو لما روي ’’أنہ بال قائماً لجرح بمأبضہ‘‘ بھمزۃ ساکنۃ بعد المیم وباء موحدۃ وھو باطن الرکبۃ، أو لوجع کان بصلبہ والعرب کانت تستشفی بہ أو لکونہ لم یجد مکاناً للقعود أو فعلہ بیاناً للجواز‘‘ (۱)
(۱) بدرالدین العیني، عمدۃ القاري، ’’کتاب الوضوء: باب البول قائما وقاعداً‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۲، رقم: ۲۲۴۔ (مکتبۃ فیصل دیوبند)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع: في النجاسۃ وأحکامہا الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۶۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص102
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسواک کرنے کی تاکید کتب حدیث میں بکثرت آئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت پر شاق گذرنے کا خوف نہ ہوتا، تو انھیں ہر وضو کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیتا اور بعض میں ہر نماز کا لفظ ہے۔ قال أبوہریرۃ رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال : ولولا أن أشق علی أمتي أو علی الناس لأمرتہم بالسواک، دوسری روایت میں لفظ مع کل صلوٰۃ کے ساتھ آیا ہے۔(۱)
اس حدیث سے مسواک کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔
احناف کے نزدیک مسواک وضو کے لیے سنت ہے اور امام شافعیؒ کے نزدیک نماز کے لیے سنت ہے۔ و ہو أي السواک للوضوء عندنا أي عند الأحناف أي سنۃ للوضوء و عند الشافعي السواک للصلوٰۃ (۲) مثلاً ایک شخص نے وضو کیا، اس میں مسواک بھی کی اورایک وضو سے کئی نمازیں پڑھیں تو احناف کے نزدیک کافی ہے، جب کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک دوسری نماز جو پڑھی اس میں مسواک کی سنت ادا نہیں ہوئی۔قال في البحر: فائدۃ الخلاف تظہر فیمن صلی بوضوء واحد صلوات یکفیہ عندنا (الأحناف) لا عندہ (الشافعي)(۳)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب التمني، باب ما یجوز من اللو، ج۲، ص:۱۰۷۵، رقم:۱۳۸۰(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفہوم، ج۱، ص:۲۳۳
(۳) أیضًا
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص202
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دوسرے پانی کے ہوتے ہوئے ایسا پانی استعمال نہیں کرنا چاہئے؛ لیکن اگر کوئی شخص اس بالٹی (جس میں وضو میں استعمال شدہ پانی بھرا ہوا ہے) سے پانی لے کر آب دست کرلے یا استنجا کرلے، تو اس پانی سے پاکی حاصل ہو جاتی ہے۔ مفتی بہ قول کے مطابق اس طرح کے ماء مستعمل سے نجاست حقیقیہ کو پاک کرنا درست ہے جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے:
’’قولہ: علی الراجح مرتبط بقولہ بل لخبث: أی نجاسۃ حقیقیۃ، فإنہ یجوز إزالتہا بغیر الماء المطلق من المائعات خلافا لمحمد‘‘
’’وحکمہ أنہ لیس بطہور لحدث بل لخبث علی الراجح المعتمد‘‘(۲)
’’ولا یجوز بماء استعمل لأجل قربۃ) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من ممیز أو حائض لعادۃ۔ وہو طاہر ولو من جنب وہو الظاہر‘‘(۱)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۳۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مبحث الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص103
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: علامہ ابن عابدین نے مسواک کوسنت مؤکدہ لکھا ہے؛ لیکن اصح قول یہ ہے کہ مستحب ہے، کلی کرتے وقت ہی مسواک کرنا سنت ہے، اس وقت صفائی زیادہ ہوتی ہے اور پورے طور پر ہوتی ہے والسواک سنۃ مؤکدۃ کما في الجواہر عن المضمضۃ، وقیل: قبلہا وہو للوضوء۔(۱) وفي الہدایۃ الأصح أنہ أي السواک مستحب۔(۲) وکونہ لیناً مستویا بلا عقد في غلظ الخنضر وطول شبر(۳)
اس عبارت سے یہ بات واضح ہے کہ مسواک نرم اور برابر ہو اور اس میں گرہ نہ ہو چھوٹی انگلی کے برابر موٹی ہو اور بالشت بھر لمبی ہو۔
(۱)أبوبکر بن علي الحنفي، الجوہرۃ النیرۃ، ج۱، ص:۷، (دارالکتاب دیوبند)؛ و بدرالدین العیني، البنایہ شرح الہدایہ، ج۱، ص:۳۲(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ابن عابدین الدمشقی الحنفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفھوم،‘‘ ج۱، ص:۲۳۲؛ و ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج ۱، ص:۴۲
(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفھوم، کتاب الطہارۃ۔‘‘ ج۱، ص:۲۳۴ (مکتبۃ زکریا دیوبند )
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص203