طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نیچے اوپر جہاں جتنی ضرورت ہو یا موقع ہو، اتنی مرتبہ پھیر لیں، کوئی تحدید نہیں؛ البتہ مستحب یہ ہے کہ ایک مرتبہ مسواک کر کے کلی کی جائے، پھر دوسری مرتبہ دانتوں پر پھیرے اور کلی کرے، پھر تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی کرے۔(۲)

(۲)والمستحب فیہ أي السواک بثلاث میاہ، الخ۔ و یبدأ من الجانب الأیمن ثم الأیسر و في الأسافل کذلک (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفہوم،ج۱، ص:۲۳۴؛  و ابن ہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات،‘‘ ج۱، ص:۲۳، زکریا بک ڈپو دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص201

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کاغذ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک ٹیشو پیپر جو ایسی ہی ضروریات کے لئے بنائے جاتے ہیں، دوسرے عام کاغذ جو حصول علم کا ذریعہ ہے، اس دوسرے کاغذ کے استعمال میں مذکورہ رواج غلط ہے اس کا ترک ضروری ہے، کاغذ لکھا ہوا ہو یا کورا بہر صورت اس پر پیشاب وغیرہ ممنوع ہے۔ کہ کاغذ حصول علم کا ذریعہ ہے اس بناء پر قابل احترام ہے۔
’’وکذا ورق الکتابۃ لصقالتہ وتقومہ ولہ احترام أیضا لکونہ آلۃ کتابۃ العلم‘‘ (۱)
جو حال درخت کے پتوں کا ہے وہی حال کاغذ کا ہے۔یعنی کاغذ بھی پتوں کی طرح چکنا ہے۔ (نجاست دور نہ کرے گا بلکہ اور بھی پھیلا دے گا) اور قیمتی بھی ہے اور شریعت میں اس کی حرمت بھی ہے اس لئے کہ وہ علم کا آلہ ہے۔
’’(أو استنجی برجیع دابۃ أو عظم)، إذا کانت الدابۃ مما یؤکل لحمہ فہو ممنوع الاستنجاء برجیعہا؛ لأنہ جاء ما یدل علی أن الروث یکون علفاً لدواب الجن، والعظم یکون طعاماً للجن، وأما إذا کان من غیر مأکول اللحم فإنہ نجس والنجاسۃ لا تزال بالنجاسۃ، فما یؤکل لحمہ کالإبل والبقر والخیل وغیر ذلک من مأکول اللحم فہذا ہو الذی یکون رجیعہ علفاً لدواب الجن، وأما ما لا یؤکل لحمہ فأرواثہ نجسۃ، فلا تزال بہا النجاسۃ؛ لأنہا تزید النجاسۃ نجاسۃ، ویمکن أیضاً أنہا تنشر النجاسۃ فی أماکن أخری غیر المکان الذي علیہ النجاسۃ في الأصل۔ قولہ: (فإن محمداً -صلی اللّٰہ علیہ وسلم - بريء منہ)، ہذا یدل علی تحریم ذلک، وفیہ: أن ہذہ الأمور التي وصف من فعلہا بأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم برئ منہ من الکبائر، وأنہا حرام، وأنہا لا تسوغ ولا تجوز،(۱) فنہی في الحدیث عن الاستنجاء بالعظم لأنہ غذاء للجن فیستنبط من ذلک کراہیۃ الاستنجاء بالأوراق التي أعدت لکتابۃ العلم لما في ذلک اتلاف حق العلم کما کان إتلاف غذاء الجن بالاستنجاء بالعظم وہذاالحدیث وإن کان سندہ ضعیف ولکنہ قوی درایۃً‘‘.
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء: ج ۱، ص: ۵۱۳؛و فتا ویٰ رحیمیہ، ج ۴، ص: ۲۵۔
(۱) شرح سنن أبي داؤد لعبد المحسن العباد، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص100

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس نے وضو میں مسواک کی، پھر نماز پڑھی اس کی فضیلت اس نماز سے ستر گنا بڑھی ہوئی ہے، جو ایسے وضو سے پڑھی جائے، جس میں مسواک نہ کی گئی ہو، وضو کرتے وقت مسواک موجود نہ ہو، تو انگلی سے دانت مل لینا بھی کافی ہوگا، لیکن مسواک کرنا افضل ہے اور بھولنے کی صورت میں نماز میں کھڑے ہونے سے پہلے مسواک کرنا مستحب ہے۔(۱)

(۱)  صلوٰۃ بسواک أفضل من سبعین صلوٰۃ بغیر سواک۔ (علاء الدین السمرقندي، کنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال، ’’کتاب الطہارۃ، السواک،‘‘ ج۹، ص:۱۳۸، رقم: ۲۶۱۷۶، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)؛ و  عن أبي أمامۃ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: تستاکوا فإن السواک مطہرۃ للفم و مرضاۃ للرب (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، کتاب الطہارۃ و سننہا، باب السواک، ج۱، ص:۲۵، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)؛ فإن لم یجد فیعالج فمہ بالأصبح و السواک أفضل۔ (محمد بن أحمد أبوبکر علاء الدین السمرقندي، تحفۃ الفقہاء، ’’کتاب الطہارت،‘‘ ج۱، ص:۱۳)؛ و إلا إذا نسیہ فیندب للصلوٰۃ کما یندب لإصفرار سن و تغیر رائحۃ، الخ۔ ( ابن عابدین، رد المحتار،’’کتاب الطھارۃ، مطلب: في دلالۃ المفھوم،‘‘ ج۱، ص:۲۳۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص202

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بغیر کسی شرعی عذر کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔
’’وقالت عامۃ العلماء: البول قائماً مکروہ إلا لعذر وہي کراہیۃ تنزیہ لا تحریم الخ‘‘ (۱)
البتہ اگر آفس، ائیر پورٹ، پیٹرول پمپ، شوپنگ مالز وغیرہ میں بیٹھ کر پیشاب کرنے کی کوئی جگہ یا کوئی انتظام نہ ہو، تو کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی گنجائش ہے؛ لیکن پیشاب کی چھینٹوں سے بچنا بہر حال لازم اور ضروری ہے۔
’’ویکرہ أن یبول قائماً أو مضطجعا أو متجردا عن ثوبہ من غیر عذر‘‘ (۲)
’’قولہ: ’’وأن یبول قائما‘‘: لما ورد من النھي عنہ ولقول عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: من حدثکم أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یبول قائماً فلا تصدقوہ، ماکان یبول إلا قاعداً‘‘ رواہ أحمد، والترمذي، والنسائي وإسنادہ جید، قال النووي في شرح مسلم: وقد روي في النھي أحادیث لا تثبت ولکن حدیث عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا ثابت فلذا قال العلماء: یکرہ إلا لعذرٍ وہي کراہۃ تنزیہ لا تحریم الخ، وأما بولہ في السباطۃ التي بقرب الدور فقد ذکر عیاض أنہ لعلہ طال علیہ مجلس حتی حفزہ البول فلم یمکنہ التباعد، أو لما روي ’’أنہ بال قائماً لجرح بمأبضہ‘‘ بھمزۃ  ساکنۃ بعد المیم وباء موحدۃ وھو باطن الرکبۃ، أو لوجع کان بصلبہ والعرب کانت تستشفی بہ أو لکونہ لم یجد مکاناً للقعود أو فعلہ بیاناً للجواز‘‘ (۱)
(۱)  بدرالدین العیني،  عمدۃ القاري، ’’کتاب الوضوء: باب البول قائما وقاعداً‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۲، رقم: ۲۲۴۔ (مکتبۃ فیصل دیوبند)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع: في النجاسۃ وأحکامہا الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۶۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص102

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسواک کرنے کی تاکید کتب حدیث میں بکثرت آئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت پر شاق گذرنے کا خوف نہ ہوتا، تو انھیں ہر وضو کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیتا اور بعض میں ہر نماز کا لفظ ہے۔ قال أبوہریرۃ رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال : ولولا أن أشق علی أمتي أو علی الناس  لأمرتہم بالسواک،  دوسری روایت میں لفظ مع کل صلوٰۃ کے ساتھ آیا ہے۔(۱)
اس حدیث سے مسواک کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔
 احناف کے نزدیک مسواک وضو کے لیے سنت ہے اور امام شافعیؒ کے نزدیک نماز کے لیے سنت ہے۔ و ہو أي السواک للوضوء عندنا أي عند الأحناف أي سنۃ للوضوء و عند الشافعي السواک للصلوٰۃ (۲) مثلاً ایک شخص نے وضو کیا، اس میں مسواک بھی کی اورایک وضو سے کئی نمازیں پڑھیں تو احناف کے نزدیک کافی ہے، جب کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک دوسری نماز جو پڑھی اس میں مسواک کی سنت ادا نہیں ہوئی۔قال في البحر: فائدۃ الخلاف تظہر فیمن صلی بوضوء واحد صلوات یکفیہ عندنا (الأحناف) لا عندہ (الشافعي)(۳)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ،  کتاب التمني، باب ما یجوز من اللو، ج۲، ص:۱۰۷۵، رقم:۱۳۸۰(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفہوم، ج۱، ص:۲۳۳
(۳) أیضًا

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص202

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دوسرے پانی کے ہوتے ہوئے ایسا پانی استعمال نہیں کرنا چاہئے؛ لیکن اگر کوئی شخص اس بالٹی (جس میں وضو میں استعمال شدہ پانی بھرا ہوا ہے) سے پانی لے کر آب دست کرلے یا استنجا کرلے، تو اس پانی سے پاکی حاصل ہو جاتی ہے۔ مفتی بہ قول کے مطابق اس طرح کے ماء مستعمل سے نجاست حقیقیہ کو پاک کرنا درست ہے جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے:
’’قولہ: علی الراجح مرتبط بقولہ بل لخبث: أی نجاسۃ حقیقیۃ، فإنہ یجوز إزالتہا بغیر الماء المطلق من المائعات خلافا لمحمد‘‘
’’وحکمہ أنہ لیس بطہور لحدث بل لخبث علی الراجح المعتمد‘‘(۲)
’’ولا یجوز بماء استعمل لأجل قربۃ) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من ممیز أو حائض لعادۃ۔ وہو طاہر ولو من جنب وہو الظاہر‘‘(۱)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۳۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مبحث الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص103

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: علامہ ابن عابدین نے مسواک کوسنت مؤکدہ لکھا ہے؛ لیکن اصح قول یہ ہے کہ مستحب ہے، کلی کرتے وقت ہی مسواک کرنا سنت ہے، اس وقت صفائی زیادہ ہوتی  ہے اور پورے طور پر ہوتی ہے والسواک سنۃ مؤکدۃ کما في الجواہر عن المضمضۃ، وقیل: قبلہا وہو للوضوء۔(۱) وفي الہدایۃ الأصح أنہ أي السواک مستحب۔(۲) وکونہ لیناً مستویا بلا عقد في غلظ الخنضر وطول شبر(۳)
اس عبارت سے یہ بات واضح ہے کہ مسواک نرم اور برابر ہو اور اس میں گرہ نہ ہو چھوٹی انگلی کے برابر موٹی ہو اور بالشت بھر لمبی ہو۔

(۱)أبوبکر بن علي الحنفي، الجوہرۃ النیرۃ، ج۱، ص:۷، (دارالکتاب دیوبند)؛ و بدرالدین العیني، البنایہ شرح الہدایہ، ج۱، ص:۳۲(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ابن عابدین الدمشقی الحنفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفھوم،‘‘ ج۱، ص:۲۳۲؛ و ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج ۱، ص:۴۲
(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفھوم، کتاب الطہارۃ۔‘‘ ج۱، ص:۲۳۴ (مکتبۃ زکریا دیوبند )

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص203

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ذکر کردہ سوال میں استنجا کے صحیح طریقہ کے سلسلے فقہاء نے لکھا ہے کہ پیشاب سے فراغت کے بعد جب اطمینان حاصل ہو جائے، تو ڈھیلے جو پاک ہوں یا ٹیشو پیپر  وغیرہ سے اولا پیشاب کو خشک کرے پھر پانی سے مقامِ استنجا دھوئے، اسی طرح قضائے حاجت کے بعد تین ڈھیلوں یا ٹیشو پیپر سے پہلے مقعد کو صاف کرے پھر پانی سے دھونا افضل طریقہ ہے، نیز ڈھیلوں کے استعمال میں کسی خاص کیفیت اور طریقہ کو اختیار کرنا لازم نہیں ہے، اصل مقصود صفائی اور پاکی حاصل کرنا ہے اسی لئے اگر ڈھیلے یا ٹیشو وغیرہ دستیاب نہ ہوں، تو صرف پانی کا استعمال بھی کافی ہے۔
’’وعدد الثلاثۃ في الاستنجاء بالأحجار أو ما یقوم مقامہا لیس بأمر لازم، والمعتبر ہو الإنقاء، فإن أنقاہ الواحد کفاہ وإن لم ینقہ الثلاث زاد علیہ‘‘(۲)
’’(قولہ: ولایتقید الخ) أي بناء علی ما ذکر من أن المقصود ہو الإنقاء فلیس لہ کیفیۃ خاصۃ وہذا عند بعضہم‘‘(۱)
’’وأشار بقولہ: منق إلی أن المقصود ہو الإنقاء وإلی أنہ لا حاجۃ إلی التقیید بکیفیۃ من المذکورۃ في الکتب نحو إقبالہ بالحجر في الشتاء وإدبارہ بہ في الصیف لاسترخاء الخصیتین فیہ لا في الشتاء۔ وفي المجتبی: المقصود الإنقاء فیختار ما ہو الأبلغ والأسلم عن زیادۃ التلویث‘‘(۲)

(۲) برہان الدین، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارات: الفصل الأول في الوضوء فصل في الاستنجاء وکیفیتہ‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء: مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۸۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۲۔(دارالکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص104

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مسواک کے اوقات استحباب کے بارے میں علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے کہ سو کر اٹھنے کے بعد، منھ میں بدبو پیدا ہونے کے وقت، مجلس میں بیٹھنے سے قبل، گھر میں داخل ہونے کے وقت مسواک کرنا مستحب ہے ۔ اسی طرح نماز کے وقت اور وضو کے وقت بھی مسواک کرنا مستحب ہے۔فإنہ یستحب في حالات منہا:  تغیر الفم و القیام من النوم إلی الصلوٰۃ۔ ودخول البیت۔ والاجتماع بالناس۔ و قراء ۃ القرآن لقول أبي حنیفۃ(۴)
نیز قرآن کی تلاوت سے پہلے مسواک کرنا امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک مستحب ہے۔

(۴) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار،  ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفہوم،‘‘ج۱، ص:۲۳۳؛ و یتأکد طلبہ عند ارادۃ الصلاۃ، و عند الوضوء و قراء ۃ القرآن والاستیقاظ من النوم و عند تفسیر الفم (بدالدین العیني،البنایۃ شرح الہدایہ، ’’کیفیۃ الاستیاک،‘‘ ج۱، ص:۲۰۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص204

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:فقہاء نے لکھا ہے کہ بیت الخلا میں قدم رکھنے سے پہلے اور جنگل میں ستر کھولنے سے پہلے دعا پڑھی جائے، جیسا کہ الفتاویٰ الہندیہ میں مذکور ہے:
’’ویستحب لہ عند الدخول في الخلاء أن یقول: اللہم إني أعوذبک من الخبث والخبائث ویقدم رجلہ الیسری وعند الخروج یقدم الیمنیٰ‘‘(۱)
’’قبل الاستنجاء وبعدہ إلا حال انکشاف: قولہ: إلا حال انکشاف الظاہر أن المراد أنہ یسمی قبل رفع ثیابہ إن کان في غیر المکان المعد لقضاء الحاجۃ وإلا فقبل دخولہ فلو نسي فیہما سمی بقلبہ ولا یحرک لسانہ تعظیماً لإسم اللّٰہ تعالیٰ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع: في النجاسۃ وأحکامہا، الاستنجاء علی خمسۃ أوجہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۶۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: سنن الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص105